اس کے گھر والے اسے دیوانی
کہتے تھے۔
وہ واقعی دیوانی تھی۔۔۔۔مدینے کی دیوانی
اسے بچپن سے ہی مدینےﷺ والے کا شہر دیکھنے کی تمنا تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ مسجد نبویﷺ میں ایک بار صفائی کی سعادت حاصل کرتی۔
گھر میں وہ جب بھی جھاڑو دیتی اس کے تصور میں مدینے کی گلیاں آجاتی تھیں۔
کبھی وہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوتی تھی تو کبھی گنبد خضرٰی کے سامنے ۔۔۔
اس کو یہ لگن یہ تڑپ بچپن سے ہی عطاہوگئی تھی۔
یہ تڑپ بھی ایک سعادت ہے جس کو نصیب ہوجاۓ وہ خوش نصیبوں میں آجاتاہے۔
یہ ایسی تڑپ ہے ہے جس میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔۔
اسی لیے چھ سات سال کی عمر سے ہی اس نے اپنا جیب خرچ ایک ٹین میں جمع کرنا شروع کردیاتھا۔
گھر والوں کی طرف سے اسے جو پیسہ بھی ملتا۔۔۔۔وہ اسے ٹین میں ڈال دیتی۔
وہ ایک متوسط گھرانے سے تھی۔
اس لیے جیب خرچ کچھ خاص نہیں ملتاتھا۔
نور نام تھا اس کا۔۔۔۔
نور کے گھر والوں کو ایک چھ ماہ بعد پتہ چلا ۔۔۔کہہ
وہ عمرے کے لیے پیسے جمع کررہی ہے۔
اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔
ایک دن وہ اپنے جمع کیے پیسوں کو گن رہی تھی تو اس کی امی نے دیکھ لیا۔
بچی کے ہاتھ میں اتنے پیسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
یہ پیسے کہاں سے لیے تم نے۔۔۔۔نور کی والدہ نے اس کے ہاتھ سے پیسے چھینتے ہوۓ سختی سے پوچھا۔
نور کو اپنی چھ ماہ کی محنت پہ پانی پھرتانظر آیا۔
امی ۔۔۔یہ مدینے کے ہیں ۔۔۔۔یہ نہ لیں آپ۔۔
نور نے اپنی والدہ سے التجاکی۔
مدینے کے ہیں۔۔۔؟؟؟ نور کی والدہ کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
یہ کس نے دیے تمہیں۔؟؟؟چوری تونہیں کی۔؟؟؟ اس کی والدہ نے نور کے قریب بیٹھتے ہوۓ اس بار زرا نرمی سے پوچھا۔
نہیں امی ۔۔۔۔۔یہ میں نے جمع کیے ہیں ۔۔۔
نور نے فخر سے کہا۔
اس کے لہجے میں اب خوشی جھلک رہی تھی۔
نور نے اپنی والدہ کو ساری بات سمجھادی۔
ساری بات جان کر اس کی والدہ حیران رہ گئی۔
اسے فخر ہوا ۔۔۔کہہ
اس نے نور جیسی بیٹی کوجنم دیاہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں اتنی تڑپ؟اتنی لگن کہ ملنے والے چند روپے بھی جمع کرنے شروع کردیے۔
بچوں کو کھانے پینے کالالچ ہوتاہے۔۔۔مگر
اس کو مدینہ دیکھنےکالالچ تھا۔
لالچ بری بلاہے۔۔۔مگر
ایسا لالچ سعادت ہوتاہے۔
نور کی والدہ نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور دل سے دعادی۔
بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔
وقت گزرتارہا نور کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی جمع پونجی بھی بڑھتی رہی۔
بہت کچھ بدل گیا۔مگر
نور کا شوق نہ بدلا۔اس کی تڑپ اور محبت نہ بدلی۔
اس کا آج بھی وہی معمول تھا۔
گھر سے جو بھی ملتا ٹین میں ڈال دیتی۔
اس کے گھر والے بھی کبھی کبھار اس ڈبے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے۔
نور کو منزل قریب آتی نظر آرہی تھی۔
یہ دوہزار پانچ کی بات ہے۔۔۔۔۔
ایک رات نور نے ٹین سے وہ سارے پیسے نکال کر گنے تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بےاختیار اس نے نوٹوں کوچوم لیا اور اللہ کا شکرادا کیا۔
وہ اتنے ہوگئے تھے کہ
نور آسانی سے عمرہ کرسکتی تھی۔
وہ خود کو مکہ مدینے کی گلیوں میں چلتاپھرتادیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے بیت اللہ اور سبز گنبد آنے لگے۔
اس نے اپنے ابو سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا۔کہہ
کسی بھی طرح کچھ پیسے بچاکروہ اس کے ساتھ عمرہ کرنے چلیں۔
اس کے والد نے نور سے وعدہ کیا کہ وہ دوچار ماہ تک بندوبست کرلینگے۔
نور کے لیے یہ دوچار ماہ دو چار صدیاں بن گئے۔
اس نے اپنا پاسپورٹ بنوالیا تھا۔
تین ماہ گزرگئے تھے۔
نور کے والد نے ساری تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔
عین ممکن تھا پندرہ بیس دنوں تک باپ بیٹی عمرہ کے لیے روانہ ہوجاتے۔۔۔مگر
قسمت کو شاید یہ منظور نہیں تھا۔
اللہﷻ نے غفلت میں سوۓ ہوۓ ہم خطاکار انسانوں کو جگانے کے لیے زمین کو ہلادیا۔
دوہزار پانچ میں آنے والے زلزلے نے ہرطرف تباہی مچادی ۔
جس میں کشمیر کے کئی گاؤں شہروں کاتو نام ونشان ہی مٹ گیا۔
لوگ بےیارومددگار ہوگئے۔
نہ رہنے کو چھت رہی نہ کھانے کو کوئی سامان۔۔۔
بےشمار لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے۔
امدادی کاروائیاں شروع ہوگئیں جس میں حکومت اور عوام نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
پورے پاکستان سے لوگ اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مدوا کرنے امڈ پڑے۔
کھانے پینے کے سامان سمیعت پہننے اوڑھنے کو جو بھی میسر ہوا لیکر پہنچے۔
نور کو بھی اس حادثے کا علم ہوا تو اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر وہ روپڑی۔
مدینے اور مدینے والے کی دیوانی ہو اور درد دل نہ ہو۔؟؟؟ یہ کیسے ہوسکتاتھا۔؟؟؟
نور نے اپنی تمام جمع پونجی زلزلہ زدگان کو عطیہ کردی۔
اس نے کہا تھا ۔۔۔۔کہہ
اس وقت ان پیسوں کی میرے لوگوں کوزیادہ ضرورت ہے عمرہ میں پھر کرلونگی۔
میرے ارد گرد لوگ بھوکے مررہے ہیں اور میں عمرہ کرنے چلی جاؤں تو بروز قیامت کہیں مجھ سے مدینے والےﷺ نے یہ کہ دیا۔۔۔کہہ
میری امت کھانے پانی کوترس رہی تھی توتم نے کیا کیا۔؟؟؟تو میرے پاس کیاجواب ہوگا۔؟؟؟
ٹھیک چھ ماہ بعد نور کا رشتہ آگیا۔
لڑکا سعودیہ میں اپنابزنس کرتاتھا ۔
چھان پھٹک کے بعد ہاں کردی گئی۔
لڑکے والے ایک ماہ بعد نکاح مانگ رہے تھے۔
نور کے گھر والوں کی اگرچہ کوئی خاص تیاری نہیں تھی مگر انہوں نے انکار نہیں کیا اور ایک ماہ بعد دن مقرر کردیا۔
شادی ہوگئی نور دلہن بن کر اپنے سسرال چلی گئی۔
شادی کے پندرہ دن بعد لڑکا واپس سعودیہ چلاگیا۔
اس نے نور سے کہاتھا۔کہہ
وہ اسے جلد اپنے پاس بلالےگا۔اور
دوماہ بعد نور سعودیہ جانے کے لیے جہاز میں بیٹھی تھی۔
یہ پاکستان سے ڈائریکٹ مدینے کی فلائٹ تھی۔
نور کا شوہر مستقل مدینے میں ہی رہتاتھا۔۔۔
وہیں اس کا کاروبار تھا ۔
ائیرپورٹ پہ نور کا شوہر اس کا انتظار کررہاتھا۔
نور نم آنکھوں سے مدینے کی پاک زمین پر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب تونہیں ۔؟؟؟
وہ جو مدینے کودیکھنے کی منتظر تھی۔
اسے مدینے کا مکین بنادیاگیاتھا۔
اپنی قسمت پررشک کرتی وہ گاڑی میں بیٹھی اور گھرجانے کی بجاۓ سیدھی مسجدنبویﷺ میں گئی۔
مسجد نبویﷺ پرنظرپڑتے ہی اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سمندر بہہ نکلا۔
اس نے اپنے جوتے گاڑی میں ہی چھوڑدیے اور گنبد خضرٰی کے سامنے جاپہنچی۔
نور کے اس وقت کیا جذبات تھے وہی سمجھ سکتی تھی بس ۔۔۔۔
نماز اور شکرانے کے نفل پڑھ کر وہ گھر چلی گئی۔
اگلے ہی دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ کی طرف رواں دواں تھی۔
پہاڑوں کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔کہہ
یہ چودہ سوسال سے یہاں کھڑے ہیں ۔اور
کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے میرے نبیﷺ کو دیکھا ہوگا۔
کعبہ پرنظر پڑتے ہی اس کے ایک بار پھر وہی جذبات تھے ۔
وہ آنسوؤں اور سجدے کے زریعے اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی۔
جس نے اس کی لگن تڑپ اور محبت کو منزل بخشی تھی۔
سچ ہے۔۔۔۔۔
لگن سچی ہو تو منزل خود چل کر آپ کے پاس آتی ہے۔
مدینے کو دیکھنے کی خواہش مند وہاں کی مکین بن گئی تھی۔
اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کتنے عمرے کیے ہیں۔
اس کا ہرخواب پورا ہوگیاتھا۔
وہ دیوانی تھی اور مدینے کی پاک گلیاں۔
اسے ماں نے دعا دی تھی۔۔۔
بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔اور
وہ مدینے کی ہوکررہ گئی تھی۔
عمرے کے لیے بچپن سے جوڑے گئے پیسے مشکل وقت میں خلق خداﷻ کو دینے والی کو اللہﷻ کیسے مایوس کرسکتاتھا بھلا۔؟؟؟
اللہﷻ پاک ہم سب کو ایسی لگن اور محبت نصیب فرماۓ بار بار اپنے اور اپنے پیارے حبیبﷺ کے در کی حاضری نصیب کرے ۔۔۔آمین🙏🤲🏻 کاپی پیسٹ
اپلوڈ بحکم استاذ الشعراء حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب قبلہ
و
ماہرِ فکر و فن نازشِ علم و ادب حضرت علامہ مولانا آصف جمیل امجدی صاحب انٹیاتھوک