WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2022

ایک دیوانی لڑکی کی سچی کہانی، مدینہ کی لگن اور ماں کی دعا🥰

اس کے گھر والے اسے دیوانی
کہتے تھے۔
وہ واقعی دیوانی تھی۔۔۔۔مدینے کی دیوانی
اسے بچپن سے ہی مدینےﷺ والے کا شہر دیکھنے کی تمنا تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ مسجد نبویﷺ میں ایک بار صفائی کی سعادت حاصل کرتی۔
گھر میں وہ جب بھی جھاڑو دیتی اس کے تصور میں مدینے کی گلیاں آجاتی تھیں۔
کبھی وہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوتی تھی تو کبھی گنبد خضرٰی کے سامنے ۔۔۔
اس کو یہ لگن یہ تڑپ بچپن سے ہی عطاہوگئی تھی۔
یہ تڑپ بھی ایک سعادت ہے جس کو نصیب ہوجاۓ وہ خوش نصیبوں میں آجاتاہے۔
یہ ایسی تڑپ ہے ہے جس میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔۔
اسی لیے چھ سات سال کی عمر سے ہی اس نے اپنا جیب خرچ ایک ٹین میں جمع کرنا شروع کردیاتھا۔
گھر والوں کی طرف سے اسے جو پیسہ بھی ملتا۔۔۔۔وہ اسے ٹین میں ڈال دیتی۔
وہ ایک متوسط گھرانے سے تھی۔
اس لیے جیب خرچ کچھ خاص نہیں ملتاتھا۔
نور نام تھا اس کا۔۔۔۔
نور کے گھر والوں کو ایک چھ ماہ بعد پتہ چلا ۔۔۔کہہ
وہ عمرے کے لیے پیسے جمع کررہی ہے۔
اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔
ایک دن وہ اپنے جمع کیے پیسوں کو گن رہی تھی تو اس کی امی نے دیکھ لیا۔
بچی کے ہاتھ میں اتنے پیسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔

یہ پیسے کہاں سے لیے تم نے۔۔۔۔نور کی والدہ نے اس کے ہاتھ سے پیسے چھینتے ہوۓ سختی سے پوچھا۔
نور کو اپنی چھ ماہ کی محنت پہ پانی پھرتانظر آیا۔

امی ۔۔۔یہ مدینے کے ہیں ۔۔۔۔یہ نہ لیں آپ۔۔
نور نے اپنی والدہ سے التجاکی۔
مدینے کے ہیں۔۔۔؟؟؟ نور کی والدہ کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
یہ کس نے دیے تمہیں۔؟؟؟چوری تونہیں کی۔؟؟؟ اس کی والدہ نے نور کے قریب بیٹھتے ہوۓ اس بار زرا نرمی سے پوچھا۔

نہیں امی ۔۔۔۔۔یہ میں نے جمع کیے ہیں ۔۔۔
نور نے فخر سے کہا۔
اس کے لہجے میں اب خوشی جھلک رہی تھی۔
نور نے اپنی والدہ کو ساری بات سمجھادی۔
ساری بات جان کر اس کی والدہ حیران رہ گئی۔
اسے فخر ہوا ۔۔۔کہہ
اس نے نور جیسی بیٹی کوجنم دیاہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں اتنی تڑپ؟اتنی لگن کہ ملنے والے چند روپے بھی جمع کرنے شروع کردیے۔
بچوں کو کھانے پینے کالالچ ہوتاہے۔۔۔مگر
اس کو مدینہ دیکھنےکالالچ تھا۔
لالچ بری بلاہے۔۔۔مگر
ایسا لالچ سعادت ہوتاہے۔
نور کی والدہ نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور دل سے دعادی۔

بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔

وقت گزرتارہا نور کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی جمع پونجی بھی بڑھتی رہی۔
بہت کچھ بدل گیا۔مگر
نور کا شوق نہ بدلا۔اس کی تڑپ اور محبت نہ بدلی۔
اس کا آج بھی وہی معمول تھا۔
گھر سے جو بھی ملتا ٹین میں ڈال دیتی۔
اس کے گھر والے بھی کبھی کبھار اس ڈبے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے۔
نور کو منزل قریب آتی نظر آرہی تھی۔

یہ دوہزار پانچ کی بات ہے۔۔۔۔۔
ایک رات نور نے ٹین سے وہ سارے پیسے نکال کر گنے تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بےاختیار اس نے نوٹوں کوچوم لیا اور اللہ کا شکرادا کیا۔
وہ اتنے ہوگئے تھے کہ
نور آسانی سے عمرہ کرسکتی تھی۔
وہ خود کو مکہ مدینے کی گلیوں میں چلتاپھرتادیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے بیت اللہ اور سبز گنبد آنے لگے۔
اس نے اپنے ابو سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا۔کہہ
کسی بھی طرح کچھ پیسے بچاکروہ اس کے ساتھ عمرہ کرنے چلیں۔
اس کے والد نے نور سے وعدہ کیا کہ وہ دوچار ماہ تک بندوبست کرلینگے۔
نور کے لیے یہ دوچار ماہ دو چار صدیاں بن گئے۔
اس نے اپنا پاسپورٹ بنوالیا تھا۔
تین ماہ گزرگئے تھے۔
نور کے والد نے ساری تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔
عین ممکن تھا پندرہ بیس دنوں تک باپ بیٹی عمرہ کے لیے روانہ ہوجاتے۔۔۔مگر
قسمت کو شاید یہ منظور نہیں تھا۔
اللہﷻ نے غفلت میں سوۓ ہوۓ ہم خطاکار انسانوں کو جگانے کے لیے زمین کو ہلادیا۔
دوہزار پانچ میں آنے والے زلزلے نے ہرطرف تباہی مچادی ۔
جس میں کشمیر کے کئی گاؤں شہروں کاتو نام ونشان ہی مٹ گیا۔
لوگ بےیارومددگار ہوگئے۔
نہ رہنے کو چھت رہی نہ کھانے کو کوئی سامان۔۔۔
بےشمار لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے۔
امدادی کاروائیاں شروع ہوگئیں جس میں حکومت اور عوام نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
پورے پاکستان سے لوگ اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مدوا کرنے امڈ پڑے۔
کھانے پینے کے سامان سمیعت پہننے اوڑھنے کو جو بھی میسر ہوا لیکر پہنچے۔

نور کو بھی اس حادثے کا علم ہوا تو اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر وہ روپڑی۔
مدینے اور مدینے والے کی دیوانی ہو اور درد دل نہ ہو۔؟؟؟ یہ کیسے ہوسکتاتھا۔؟؟؟
نور نے اپنی تمام جمع پونجی زلزلہ زدگان کو عطیہ کردی۔
اس نے کہا تھا ۔۔۔۔کہہ
اس وقت ان پیسوں کی میرے لوگوں کوزیادہ ضرورت ہے عمرہ میں پھر کرلونگی۔
میرے ارد گرد لوگ بھوکے مررہے ہیں اور میں عمرہ کرنے چلی جاؤں تو بروز قیامت کہیں مجھ سے مدینے والےﷺ نے یہ کہ دیا۔۔۔کہہ
میری امت کھانے پانی کوترس رہی تھی توتم نے کیا کیا۔؟؟؟تو میرے پاس کیاجواب ہوگا۔؟؟؟
ٹھیک چھ ماہ بعد نور کا رشتہ آگیا۔
لڑکا سعودیہ میں اپنابزنس کرتاتھا ۔
چھان پھٹک کے بعد ہاں کردی گئی۔
لڑکے والے ایک ماہ بعد نکاح مانگ رہے تھے۔
نور کے گھر والوں کی اگرچہ کوئی خاص تیاری نہیں تھی مگر انہوں نے انکار نہیں کیا اور ایک ماہ بعد دن مقرر کردیا۔
شادی ہوگئی نور دلہن بن کر اپنے سسرال چلی گئی۔
شادی کے پندرہ دن بعد لڑکا واپس سعودیہ چلاگیا۔
اس نے نور سے کہاتھا۔کہہ
وہ اسے جلد اپنے پاس بلالےگا۔اور
دوماہ بعد نور سعودیہ جانے کے لیے جہاز میں بیٹھی تھی۔
یہ پاکستان سے ڈائریکٹ مدینے کی فلائٹ تھی۔
نور کا شوہر مستقل مدینے میں ہی رہتاتھا۔۔۔
وہیں اس کا کاروبار تھا ۔
ائیرپورٹ پہ نور کا شوہر اس کا انتظار کررہاتھا۔
نور نم آنکھوں سے مدینے کی پاک زمین پر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب تونہیں ۔؟؟؟
وہ جو مدینے کودیکھنے کی منتظر تھی۔
اسے مدینے کا مکین بنادیاگیاتھا۔
اپنی قسمت پررشک کرتی وہ گاڑی میں بیٹھی اور گھرجانے کی بجاۓ سیدھی مسجدنبویﷺ میں گئی۔
مسجد نبویﷺ پرنظرپڑتے ہی اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سمندر بہہ نکلا۔
اس نے اپنے جوتے گاڑی میں ہی چھوڑدیے اور گنبد خضرٰی کے سامنے جاپہنچی۔
نور کے اس وقت کیا جذبات تھے وہی سمجھ سکتی تھی بس ۔۔۔۔
نماز اور شکرانے کے نفل پڑھ کر وہ گھر چلی گئی۔
اگلے ہی دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ کی طرف رواں دواں تھی۔
پہاڑوں کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔کہہ
یہ چودہ سوسال سے یہاں کھڑے ہیں ۔اور
کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے میرے نبیﷺ کو دیکھا ہوگا۔
کعبہ پرنظر پڑتے ہی اس کے ایک بار پھر وہی جذبات تھے ۔
وہ آنسوؤں اور سجدے کے زریعے اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی۔
جس نے اس کی لگن تڑپ اور محبت کو منزل بخشی تھی۔
سچ ہے۔۔۔۔۔
لگن سچی ہو تو منزل خود چل کر آپ کے پاس آتی ہے۔
مدینے کو دیکھنے کی خواہش مند وہاں کی مکین بن گئی تھی۔
اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کتنے عمرے کیے ہیں۔
اس کا ہرخواب پورا ہوگیاتھا۔
وہ دیوانی تھی اور مدینے کی پاک گلیاں۔
اسے ماں نے دعا دی تھی۔۔۔
بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔اور
وہ مدینے کی ہوکررہ گئی تھی۔
عمرے کے لیے بچپن سے جوڑے گئے پیسے مشکل وقت میں خلق خداﷻ کو دینے والی کو اللہﷻ کیسے مایوس کرسکتاتھا بھلا۔؟؟؟
اللہﷻ پاک ہم سب کو ایسی لگن اور محبت نصیب فرماۓ بار بار اپنے اور اپنے پیارے حبیبﷺ کے در کی حاضری نصیب کرے ۔۔۔آمین🙏🤲🏻 کاپی پیسٹ

اپلوڈ بحکم استاذ الشعراء حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب قبلہ

و

ماہرِ فکر و فن نازشِ علم و ادب حضرت علامہ مولانا آصف جمیل امجدی صاحب انٹیاتھوک

جامعہ اشرفیہ میں بنا نوٹس دئیے کیے گیے تشدد کا ہم سخت مذمت کرتے ہیں – ۔آصف جمیل امجدی

برصغیر ہندو پاک کے اہل سنت کا مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ جو کہ مبارک پور کی سرزمین پر واقع ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے دین و سنیت کا بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء دنیا بھر میں دین و سنیت کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کئ ہزار کی تعداد میں بیرونی و غیر بیرونی ملکی طلبہ قیام و طعام کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن رمضان شریف کے چلتے سارے طلبہ اور مدرسین نیز دگر ذمہ داران چھٹی میں گھر پر ہیں۔ ایسی صورت حال میں یوگی حکومت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بنا کوئی نوٹس دئیے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ منہدم کرنے والا بلڈوزر بھیج دیا۔ حکومت کے اس روئیے سے ہم بے حد مخالف ہیں اور سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ ناپاک رویہ اس بار اسمبلی الیکشن جیتے ہی شروع ہوگیا ہے۔ مسلم دشمنی کا کھیل تو آزادئ ہند سے ہی کھیلا جارہا ہے لیکن مودی اور یوگی راج میں اس کی لپٹ مزید تیز دکھائی دے رہی ہے۔حکومت کا دوغلاپن دیکھو، کہنے کو تو ویسے ہم جمہوری ملک میں بسے ہیں جہاں بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ملک کے تعلیم یافتہ دانشوران نے بلا تفریق مذہب و ملت کے سر جوڑ کر جمہوری قانون بنایا گیا تھا جس میں سر فہرست اس قانون کا بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کان کھول کر سن لو یہاں پر ہر دھرم و مذہب کے لوگ جیسے پہلے سے رہتے چلے آۓ ہیں ویسے رہیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے مذہب کے قانون کو فالو کریں گے اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی تشدد نہیں کیا جاۓ گا اور نہ ہی کسی مذہبی عمارت جیسے مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوارہ اور کلیسا وغیرہ وغیرہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچایا جائے گا کیوں کہ اس ملک کی آزادی میں سب کا خون شامل ہے سبھی مذاہب کے لوگوں نے اس کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا ہے۔ لہذا اب جب ملک آزاد ہوگیا ہے تو سب لوگ اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوے بھائی چارہ بنا کر رہو کسی قسم کی آپسی بھید و بھاؤ نہیں رکھنا ہے۔ تاکہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں ایک نمایاں مقام بنا سکے نیزسیلوکر اور جمہوری ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ممتاز شان و شوکت کے ساتھ ابھرے۔ اب اگر تم لوگ آپس میں لڑوگے تو ملک تباہ و بربادی کی عمیق کھائی میں چلا جاۓ گا۔المختصر: پچھلے 70/سال قبل اس ملک کی تباہ و بربادی کے رموز بتاۓ گیےتھے کہ اگر تم آپس میں لڑے یا تم سب لوگ مل کر کسی ایک قوم و کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بناۓ تو ملک قطعی ترقی نہیں کرپاۓ گا۔ سواۓ تباہ و بربادی کے بدنما داغ لگنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آۓ گا۔ اور آج وہی ہو رہا ہے ایک خاص کمیونٹی کوتشدد کا نشانہ بنا جارہا ہے، مذہبی عمارتوں پر بنا کسی اصول و ضوابط کے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ غریب مسلمانوں کے گھر بار کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔تو ظاہر سی بات ہے ملک برباد ہونے کے سوا ترقی تھوڑی کرے گا۔

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید
تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

         ‏لیلۃ القدر وہ اعلی ترین اور مقدس رات ہے جس میں اللہ تعالی کے بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے جس کے گوناگوں فضائل و مراتب قرآن و احادیث میں وارد ہوئے ہیں اس رات میں اللہ تعالی اپنے بندوں کی طرف خاص نظر کرم فرماتا ہے،اس رات میں وہ لوگ جو بیٹھ کر اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ومصروف رہتے ہیں ان کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور رحمت بھیجتے اور بخشش کی دعا کرتے ہیں،اس مبارک رات کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کی عظمت و فضیلت پر اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں پوری سورت نازل فرمادی فرمایا،

ترجمہ کنزالعرفان:
بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور ﷺنے فرمایا جس نے لیلۃالقدر بیدار ہوکر گزاری اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کی تو اللہ تعالی نے اسے بخش دیا، اسے اپنی رحمت میں جگہ دیتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام نے اس پر اپنے پرپھیرے اور جس پر جبرئیل علیہ السلام نے اپنے پر پھیرے وہ جنت میں داخل ہوا (مکاشفۃ القلوب)
شب قدر نام رکھنے اور ہم کو کیوں عطا کی گئ،وجہ تسمیہ
شب قدر کو شب قدر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس رات کو سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ملائکہ کو سال بھر کے وظائف و خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رات کی شرافت و قدر کے باعث اس کو شب قدر کہتے ہیں، اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمال صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر اس کو شب قدر کہتے ہیں
(تفسیر خزائن العرفان)

       *کیوں عطاکی گئ*
    یہ مقدس رات امت محمدیہ ﷺکو خاص طور پر عطا کی گئی ہے باقی امتوں کو عطا نہیں کی گئی تھی 

اور اسلئے عطا کی گئ کہ نبی کریمﷺ نے امم گذشتہ کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو تمام رات عبادت کرتا اور پورا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو یہ مبارک رات عطا فرمائ (تفسیر خزائن العرفان)
بنی اسرائل کے لوگوں کی عمریں بہت ہی زیادہ طویل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ عبادت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو ایک ایسی رات عطا کی جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے تاکہ آپ کی امت بھی ان کے مقام و مرتبہ کو پہنچ سکے
اب اگر کوئ شخص اس مقدس ترین رات کو بھی بسترپر ،مبائل چلانے میں اور لہو لعب میں گزارے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں سے محروم رہے گا
نزول قرآن مجید
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا جس کی وجہ سے شب قدر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے بے (بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا)قرآن مجید کو تیس سال میں وقتا فوقتا نازل کیا گیا لیکن شب قدر میں قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یکبارگی اتارا گیا ،آج لوگ شب قدر کو پانے کے لیے انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن صد افسوس جس کی وجہ سےشب قدر کو بےشمارفضیلتیں ملی اس قرآن کو چھوڑ رہے ہیں آج لوگ قرآن کی جگہ ناول کی کتابوں کو پڑھنا اور موبائل چلانا زیادہ پسند کرتے ہیں آج مسلمان قرآن کے حقوق کو پامال کررہے ہیں قرآن مجید کے حقوق یہ ہیں، (1)قرآن مجید پر ایمان رکھنا (2)اس کو سمجھنا (3)اس پر عمل کرنا(4) اس کی تلاوت کرنا(5) اس کی تبلیغ کرنا


 اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی  اور شب قدر میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطافرماۓ 

آمین بجاہ النبی الامینﷺ

شب قدر ہے فضل خداوندی کے حصول کی رات از ۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہلسنت قادریہ سراج العلوم برگدھی ضلع مہراج گنج یوپی وسرپرست مرکزی اصلاح رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری ، کٹیہار ،بہار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے خیر امت،امت محمدیہ کو لیلة القدر جیسی عظيم نعمت سےنوازکر افضل الامم بنا یاروزے تو اللہ تعالی نےپہلی امتوں پر بھی فرض کۓ تھے ،لیکن روزوں میں امتیازی اہميت و فضيلت اور مقام و مرتبہ والی رات ”لیلة القدر“صرف اس امت کوعطا فرماٸ اور حضور کی دعانےایسی جلیل القدر نعمت سے سرفراز فرمایا جس کی اگلی امتوں میں کوٸ نظیر نہیں ملتی۔حضرت ابن عباس فرماتےہیں، ”فاعطاہ اللہ تعالی لیلةَالقَدرِ خیراًمِّن اَلفِ شَھرٍ ،مُدَّةَ حَملِ الاِسرَاٸِیلِی السَّلَاحَ فِی سَبِیلِ الّٰلہِ لَہ،وَلِامتِہ الیٰ یومِ القِیَامَةِ، فھِیَ مِن خَصَاٸِصِ ھٰذِہِ الاُمَّةِ اللہ تعالی نےآپ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینےکی عبادت ،اور اس جہاد سےافضل ہے جو اسراٸیلی مجاہد نے خدا کے راستے میں کیاتھاتو یہ عظیم رات اس امت کے خصاٸص سے ہے۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آنے والی رات کے” لیلةالقدر“کے نام سے موسوم ہونے کی متعدد وجہیں بیان کی جاتی ہیںاول۔۔یہ کہ بندہ ٕمسلم چوںکہ اس رات بکثرت عبادت اور نیک اعمال کرتاہے ،اس لۓوہ اللہ تعالی کے ہاں بڑی قدرو منزلت کا مستحق ٹہر تاہےدوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی نےبڑی ہی قدر و منزلت والی کتاب قرآن مجید کا اپنے بہت ہی محبوب و معزز نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نزول فرمایاسوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی آٸندہ سال تک کے لۓلوگوں کے بارے میں اہم تقدیریں اور فیصلے تحریر فرماتا ہے ،چنانچہ تقدیر کی مناسبت سے اسے لیلة القدر کہا گیاچہارم۔۔عربی زبان میں ”قدر “کا مطلب تنگی بھی ہوتا ہے،یعنی اس رات آسمان سےزمین کی طرف نازل ہونےوالے فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زمین ان کے لۓ تنگ پڑ جاتی ہے۔انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی عظمت و شان کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے ۔چنانچہ اس مبارک رات کو وہ شان عطا ہوٸ ہے کہ انسانی ذہن و دماغ اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے ۔اس ایک رات کی جانے والی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔۔اس رات حضرت جبرٸیل امین علیہ السلام کی قیادت میں اپنے رب کے خصوصی حکم سے فرشتے زمين پر اترتےہیں اور طلوع فجر تک ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہےاس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ سابقہ امتوں میں لوگوں کی عمریں لمبی ہوتی تھیں جب کہ اس امت میں اللہ تعالی نےبندوں کی عمریں کم کردیں تو بدلے میں انہيں یہ رات عطافرماٸ ،تاکہ یہ امت خیر و برکت اور نیکی کے کاموں میں کسی سےپیچھے نہ رہ جاۓ ۔یہ بھی اللہ تعالی کافضل ہےکہ نیکیوں کا یہ موسم بہار وقتی اور عارضی نہیں ، بلکہ داٸمی اور قیامت تک کے لۓ ہے۔شب قدر کی اہمیت و فضیلت واضح ہو جانے کےبعد اس کےفواٸد نورنظرہیں ۔آقاۓ کاٸنات کے فرمان کے مطابق شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔۔چنانچہ حدیث پاک کےالفاظ یہ ہیںعن ابی ھریرةرضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ،من قام لیلةالقدر ایماناًواحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ”بخاری“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ٕکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدرمیں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرےگا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاٸیں گے آقاۓ کریم کایہ بھی ارشاد ہے کہ میری امت میں جو یہ خواہش کرے کہ میری قبرروشنی سے منور رہے تو ایسے شخص کو چاہۓ کہ شب قدر میں زیادہ سے زیادہ رب کی عبادت کرے تاکہ پرور دگار عالم ان متبرک راتوں کی عبادت سےاس کےنامہ ٕاعمال سےبراٸیاں ختم کر کےنیکیوں سے پر فر ما دےشب قدر جب اس درجہ با برکت و با فواٸد ہے تو وہ کس تاریخ میں ہے ؟ کہ اس کی برکتوں اور فاٸدوں سے عبادت گزار نفع مند ہو سکیں؟نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتو ں میں سے کسی رات میں ہےعن ابی سلمة قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی اریت لیلة القدر ثم انسیتھااونُسیتھا فالتمسوھا فی العشر الأواخر فی الوتر۔۔صحیح بخاری۔۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھےوہ رات دکھاٸ گٸ تھی مگر پھر بھلا دی گٸ لھٰذا اب تم اسے رمضان کی آخری دس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اسی مفہوم کی ایک اور حدیث پاک ہےعن عاٸشة رضی اللہ عنہا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ۔تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشرالأواخر من رمضان۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت عاٸشہ سے اور ایک روایت اس طرح ہےعن عا ٸشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجاور فی العشرالاواخر من رمضان و یقول تحروالیلة القدر فی العشر الأواخر من رمضان ۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا روایت کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کےآخری عشرہ میں اعتکاف میں ہوتے تھےاور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔آج امت مسلمہ کا جس تاریخ پر باعتبار” لیلة“القدر سب سے زیادہ عمل ہے وہ ستاٸیسویں رمضان کی شب ہے اور ایک حدیث پاک میں اس کی صرا حت بھی موجود ہے چنانچہ روایت ہے۔عن ابی ذر قال ۔سمعت ابی ابن کعب یقول واللہ انی لاعلم ای لیلة ھی،ھی اللیلة التی امرنا بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیامھاھی لیلةصبیحة سبع وعشرین واماراتھا ان تطلع الشمس فی صبیحة یومھا بیضا ٕ لا شعا ع لھا۔۔صحیح مسلم۔۔حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےابی ابن کعب سے سنا وہ کہر ہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کو نسی رات ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنے کا حکم دیا ہے؟ یہ ستاٸیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہےاور اس میں شعاٸیں نہیں ہوتی ہیں ۔اور کچھ اہل علم نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ ”کلمہ ٕلیلةالقدر“کے اندر نو حروف ہیں اور کلمہ ٕلیلة القدر اس سورہ میں تین بار آیاہے ، جس کا مجموعہ ستاٸیس ہے اس سے شب قدر کے ستاٸیسویں شب میں ہونے کی طرف اشارہ ہے۔۔مگر آپ کا طرز عمل آخری عشرہٕ رمضان میں کثرت عبادت کی شکل میں نظر آتا ۔اس کے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے عن عاٸشة رضی اللہ عنھا انھاقالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل العشر شد مٸزرہ واحیا لیلہ وایقظ اھلہ۔۔۔بخاری۔۔۔ حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہو تےتو”عبادت “کے لۓ کمر کس لیتے خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والو ں کوبھی جگاتے تھےشب قدر کی دعا ٕ کے متعلق آقاۓکریم کا ارشاد ہےعن عاٸشة انھا قالت یا رسول اللہ أرأیت ان وافقت لیلة القدر ماادعو؟قال ”تقولین اللھم انک عفو فاعف عنی۔۔سنن ابن ماجہ۔۔عا ٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جاۓ تو میں کون سی دعا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو ”الّٰلھم انک عفو فاعف عنی اے اللہ تو معافی کو پسند کرتاہے لھٰذا تو ہمییں معاف کردے متذکرہ احادیث کا ما حصل یہ ہے کہ شب قدر کون سی رات ہے اس تعلق سے کوٸ حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٢١۔۔٢٣ ٢٥۔۔٢٧۔۔اور ٢٩ ویں رمضان کی تمام راتوں کے بارےمیں حدیثیں ملتی ہیں بایں وجہ محدثین کرام کا فرمان ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے ،ایسے میں کسی ایک رات کو یقینی طورپر اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کاسبب ہے ،کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جس رات کو شب قدر مان بیٹھے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو جب کہ آخری عشرہ کی سبھی راتوں میں تلا ش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ اور مخفی رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ز یادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کر سکے اللہ تعالی ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرما ۓ اٰمین

لیلةالقدر کی فضیلت سے بہرہ ور ہونے والا خوش قسمت ،اور اس کی فضیلت سے محروم ہو نے والا ہر قسم کی بھلا ٸ سے محروم ہےحدیث شریف میں ہے ”دخل رمضان فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ان ھٰذالشھر قد حضرکم و فیہ لیلة خیر من الف شھر منحرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم ۔۔۔صحیح ابن ماجہ۔۔۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ،جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلا ٸ سے محروم رہ گیا۔۔اب ہمیں غور کرنا ہے کہ اس محرومی سے نجات کیسے ہو گی؟ تو اس کا حل یہ ہےکہ اس رات عبادت الٰہی سے ہم یہ محرومی ٹالنے میں کامياب ہو سکیں گے، درود پاک کاپڑھنا بھی قبولیت دعا اور محرومی کو ٹالنے کا تیر بہدف سبب ہے ،حدیث شریف میں ہے،”الدعا ُٕ محجوب عن اللہ حتی یصلی علی محمد وَّاھل بیتہ“دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی جب تک کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ کے اھل بیت پر درود نہ بھیجا جا ۓ۔اس حدیث کو ابوالشیخ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔۔۔۔الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔۔

کثرت سے نفل نمازیں پڑھےاور ہر رکعت میں زیادہ سےزیادہ قرآن شریف پڑھے ،حدیث شریف میں ہےقرا ٕةُ القرآن فی غیر الصلوٰة افضل من التسبیح والتکبیر ۔۔مشکوٰة شریف۔۔۔۔نماز میں قرآن پاک کی تلاوت نماز سے باہر تلاوت سے افضل ہے چنانچہ اس باب میں جو نمازیں بزرگوں سے منقول ہیں اس میں بکثرت تلاوت قرآن کی تصریح موجود ہے آیۓ ہم بزگوں سے منقول شب قدر کی نماز کا طریقہ تحریر کریں تا کہ قارٸین اس رات کے فیضا ن سے دامن مرا د کو پُر کر سکیں اٰمینشب قدر کے نوافل کے طریقےایک طریقہ۔۔دورکعت بنیت نفل پڑھے۔ہر رکعت میں الحمد شریف ایک بار، انا انزلنا ایک بار سورہ ٕاخلاص تین بار پڑھے تو اس کو شب قدر کا ثواب حاصل ہو گا اور ثواب حضرت ادریس،حضرت شعیب، حضرت داٶد،اورحضرت نوح علیہھم الصلوٰة والسلام جیسا عطا ہوگا اور اس کوایک شہر جنت میں دیا جاۓگا جو مشرق سے مغرب تک لمبا ہوگا۔دوسرا طریقہ جو شخص ستاٸیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے ،ہر رکعت میں بعد الحمد شریف ،انا انزلناہ تین بار ،اور قل ھواللہ شریف پچاس مرتبہ پڑھے ،بعد ختم نماز سجدہ میں سر رکھ کر یہ کلمات مقدسہ پڑھے ”سبحان اللہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الَّااللہ واللہ اکبر “ان شا ٕاللہ جو دعامانگے قبول ہو گیاللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ اس شب قدر کو عبا دت و تلاوت میں گزا ریں اور موجودہ مہلک مرض کورونا سے نجات کی بالخصوص اور بالعموم تمام مرض سے حفا ظت وصیانت کی الحاح و زاری کے ساتھ دعا ما نگیں امید ہے کہ ہماری خستہ حالی پر رب کی رحمت متوجہ ہو گی اور ہم ایسی زندگی گزاریں گے جس میں رب کی رضا شامل ہو اللہ ہم سب کا بھلا کرے اٰمین

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

سلطان اورنگ زیب عالمگیر ، ایک انصاف ور حاکم۔از: سید خادم رسول عینی۔

جب میری پوسٹنگ خاندیش مہاراشٹر میں تھی تو کئی بار اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میں جب بھی اورنگ آباد گیا میں نے حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے مزار(جو خلد آباد میں واقع ہے) پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔میں نے جب پہلی بار مزار عالمگیر کی زیارت کی تو میری آنکھیں دنگ رہ گئیں۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس نے پچاس سال ہندوستان میں حکومت کی۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کی سلطنت کی باؤنڈری اکبر ، ہرش وردھن، چندر گپت، وکرما دتو کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی‌۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کے نام سے ہی مراٹھا و گولکنڈہ تھر تھر کانپتے تھے۔اسی لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ ایسے جلیل القدر بادشاہ کی قبر اس قدر سادگی کا پیکر لیے ہوئے کیوں ہے۔جب میں نے وہاں کے ذمہ داروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عالم گیر کی یہ وصیت تھی کہ ان کی قبر کو پکی نہ کی جاۓ، ایسے ہی کچی رہنے دی جائے، قبر کے اوپر کوئی گنبد بھی نہ بنایا جائے۔اس وصیت سے عالم گیر کی کمال درجے کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔ہم نے شاہ جہاں ، اکبر اور ہمایوں کے مقبرے دیکھے ہیں جن کی تعمیر اور سجاوٹ میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے گیے ہیں ۔لیکن اورنگ زیب کی سادگی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ان کے مقبرے پر بھی بے تحاشا اخراجات ہوں ۔ ایسی سادگی کے حامل شخص کے بارے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران رعایا پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔آئیے تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا انصاف ور حاکم ۔اورنگ زیب ایک حاکم تھے ۔ایک حاکم ہونے کے سبب ان کا مقصد استحکام سلطنت تھا ۔استحکام سلطنت کے لیے انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اقدامات کئے۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج غلط نکلے ہوں ۔صرف انھی نتائج کے سبب اورنگ زیب کو ظالم و جابر بادشاہ کہنا ناانصافی ہے۔ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں اس پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہہمیں لےدے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتناکہ عالم گیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھاآئیے تاریخ کے اوراق سے پتہ لگاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ در اصل اورنک زیب ایک صوفی منش اور درویش صفت بادشاہ تھے۔اورنک زیب نے اورنگ آباد میں اپنی زندگی کے تقریباً ٣٨ سال گزارے ہیں۔اورنگ زیب ایک جفاکش، عالی دماغ، بیدار مغز،متحمل مزاج ، علم دوست اور خدا ترس حکمران تھے۔اورنک زیب کے بچپن اور جوانی دونوں دکن کے مذہبی ماحول میں بسر ہویے تھے۔اورنگ آباد کے اسلامی ماحول ، اسلامی حکومتیں ، اسلامی رسم و رواج نے ان کے ذہن کی اچھی خاصی دینی تربیت کی تھی۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوے اورنگ زیب نے اکبر اور جہانگیر کی تمام غیر شرعی رسومات کو موقوف کردیا ، ہندو راجاؤں کے لباس اور وضع کو بھی ترک کرایا ، وضع قطع اسلامی بنائی اور سونے کے زیورات اور جواہرات جو بادشاہوں کی شان سمجھے جاتے تھے ان کو پہننا موقوف کردیا ۔آپ ہی کے دور میں اورنگ آباد میں بے شمار خانقاہیں بنیں ۔درگاہوں کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد میں ایسے بے شمار مندر بھی ہیں جن کی حفاظت ، مرمت اور توسیع اورنگ زیب کے عہد میں ہوئی۔اس درویش صفت بادشاہ پر یہ سراسر بہتان ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا۔اگر ایسا ہوتا تو آج اورنگ آباد میں نہ کوئی مندر ہوتا اور نہ اکناتھ مندر کی بلند عمارت ہوتی۔اورنک زیب نے اپنی صوبہ داری یا شہنشاہیت کے دور میں کسی غیر مسلم کا ناحق خون نہیں بہایا نہ کسی مندر یا مکان کو جبراً مسجد میں تبدیل کیا۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آج اورنگ آباد میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم نہ ہوتا ۔تاریخ شاہد ہے کہ پونا کے پیشوا ، مرہٹوں کے سردار اورنگ زیب کے بد ترین مخالف تھے۔لیکن ان کی کسی بھی تحریر/ڈائری میں اورنگ زیب کے تشدد یا ظلم کے واقعے کا اندراج نہیں ہے۔اورنک زیب حامل شریعت تھے اور کسی بھی قوم کے پلیس آف ورشپ کو مسمار کرنا وہ اسلامی رواداری کے خلاف سمجھتے تھے۔اورنگ زیب نے جبرا” کسی غیر مسلم کو مسلم نہیں بنایا ۔البتہ بہت سارے غیر مسلم ایمان سے سرفراز اس لیے ہوئے کہ انھیں اپنی ملازمت میں ترقی چاہیے تھی یا وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔گویا اسلام قبول کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور انھوں نے کسی کے دباؤ پر آکر اسلام قبول نہیں کیا۔اپنے دور شہنشاہی میں اورنگ زیب کے اہم کار ناموں میں کچھ کارنامے مندرجہ ذیل ہیں :١. اورنگ زیب نے معذور افراد کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ، غریب خانے اور مطب قائم کیے جہاں ان کی رہائش کا مفت انتظام تھا اور ان کا علاج مفت ہوتا تھا ۔٢. اورنگ زیب نے مندروں اور مسجدوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اراضی وقف کی۔٣. اورنگ زیب نے ستی کی رسم کی حوصلہ شکنی کی۔٤. اورنگ زیب نے رسم سالگرہ بند کیا کیونکہ اس میں اخراجات بے تحاشہ ہوتے تھے۔٤. اورنگ زیب نے سکہ پر کلمہ لکھنا بند کروایا کیونکہ اس سے کلمہ کی توہین ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سبھی رعایا کے لیے یکسانیت مقصود تھی۔٥. اورنگ زیب نے شراب بند کیا کیونکہ یہ انسان کی ذات اور سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔٦. اورنگ زیب نے طوائف پر پابندی لگادی تاکہ عورت کو سماج میں بہتر مقام ملے۔٧. اورنگ زیب نے ماتم پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ کام خلاف شرع ہے۔٨. اورنگ زیب نے قوالی پر پابندی عائد کی کیونکہ درباری علمائے شریعت نے قوالی کو حرام قرار دیا۔٩. اورنگ زیب نے جوا کھیلنے کو سنگین جرم قرار دیا۔١٠. اورنگ زیب نے ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی لگادی۔آج کل ہندوستان میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر جلوس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر ان جلوسوں پر آج بھی پابندی لگادی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں برائے ملازمت مقیم تھا ۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ شروعات میں ہندوستان کی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔لیکن آخری اوورز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی عمدہ گیند بازی کی وجہ سے ہندوستان ٹیم کی شکست ہو گئی۔جب پاکستان ٹیم کی جیت ہو گئی تو دبئی میں مقیم پاکستانیوں نے جیت کی ریلی نکالی۔اس سے پہلے کہ دبئی کے باشندہ بھارتیوں کا کوئی رد عمل ہو ، دبئی کی پولیس نے ان پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ دبئی میں کسی قسم کی ریلی یا کسی طرح کا جلوس نکالنا قانونی جرم ہے۔اس قسم کے قوانین اگر آج بھی ہندوستان میں نافذ کیے جائیں تو ملک کو ، ملک کے شہروں کو، ملک کی بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہےاس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دور عالم گیر میں ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی حق بجانب تھی کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی ہونے کا امکان رہتا ہے۔بہر حال ، اورنگ زیب نے غلط رسومات کو ہٹاکر حکومت اور رعایا کے اصل مقصد پر توجہ دی۔ ترقی کی راہ پر کام کیا اور رعایا کی بہبودی کو ترجیح دی۔عہد عالم گیری میں ایک سو دس سے زیادہ غیر مسلم راجہ مہاراجہ ایسے تھے جو دس ہزاری اور پنچ ہزاری منصب پر فایز تھے۔مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے۔اورنگ زیب پابند شریعت تھے اور اپنے دل میں رسول ، آل رسول اور صوفیا کی بے حد محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ وصیت کی تھی:١.مجھے حضرت زین الدین شیرازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں دفن کیا جائے تاکہ ان کا قرب باعث برکت ہو۔٢ سادات کا ادب و احترام لازم ہے۔اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔اس سے تمھیں دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر فائدے ہونگے۔عالم گیر نماز باجماعت کے بے حد پاند تھے۔جنگ کے دوران بھی وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔بلخ کی جنگ میں ان کے حریف عبد العزیز نے جب دیکھا کہ اورنگ زیب نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اپنی تلوار کو روک لو ، کیونکہ ہم اس شخص سے جنگ جیت نہیں سکتے جو شریعت خداوندی کا اس قدر پابند ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہے ۔عالم گیر علم اور عمل دونوں جہت سے یکتائے روزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں لوگ عالم گیر زندہ پیر کہتے تھے۔ایسے خوش دل و خوش عقیدہ شخص کے تئیں غلط نظریہ رکھنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریزی عہد کے مورخوں نے اپنایا۔خاص طور پر ایلیٹ اور ڈاوسن نے یہ رویہ اپنا کر تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے۔آشروادی لال ، شری رام شرما، آر سی مجمدار جیسے مورخوں نے بھی اورنگ زیب پر لکھتے وقت جانب دارانہ رویے کا اظہار کیا جس سے پڑھنے والے نے اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ سمجھ لیا۔لیکن ١٩٦٠ کے آس پاس چند غیر جانب دار اور صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جنھیں بڑھکر اورنگ زیب کے تئیں ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے اور اچھے نسان بھی تھے۔ان حقیقت پسند مورخوں کے چند نام یہ ہیں :عرفان حبیب،ہر بنس مکھیا، ستیش چندر، رومیلا تھاپر، ڈاکٹر بی این پانڈے وغیرہ ان مورخوں کی کتابوں کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ١.اورنگ زیب برہمنوں اور مندروں کو دان دیا کرتے تھے۔٢. اپنے دور حکومت میں اورنگ زیب نے اکبر سے بھی زیادہ ہندوؤں کو اعلی’ عہدوں پر تقرری سے نوازا۔٣.جزیہ اکبر سے پہلے بھی تھا اور اورنگ زیب نے اس کو دوبارا نافذ کیا مگر یہ غیر مسلموں کے صرف دس فیصد لوگوں پر نافذ تھا اور اس کی شرح صرف ٢.٢٥ فی صد تھی جب کہ مسلمانوں پر زکاۃ ٢.٥ فی صد فرض تھی اور جزیہ نافذ کرکے دیگر سارے ٹیکس معاف کر دیے گیے۔جزیہ کے سارے پیسے خزانہء جزیہ میں رکھے جاتے تھے جو غریبوں اور بے سہاروں کے کام آتے تھے۔٤.اورنگ زیب نے ہندو مندروں اور مٹھوں کے لیے وظیفے مقرر کیے ۔٥ ۔اورنک زیب نے شمار مندروں اور گرو دواروں کے لیے جاگیریں وقف کیں۔٦. اورنگ زیب نے راجپوتوں کو پنچ ہزاری کا منصب عطا کیا۔٧. اورنگ زیب نے یہ فرمان جاری کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔رومیلا تھاپر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت، بپن چندر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت ، ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب خدا بخش خطبات وغیرہ سے ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔جہاں تک بی این پانڈے کی بات ہے ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ میں بی این پانڈے کی تقریر سنی تھی اور اپنی طویل تقریر کے دوران ڈاکٹر بی این پانڈے نے تاریخ کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر انصاف ور حاکم تھے، متعصب نہیں تھے اور ان پر فرقہ واریت کا الزام جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب متعصب نہیں تھے ، بلکہ اپنی رعایا کا یکساں خیال رکھتے تھے اور ایک انصاف ور حاکم تھے۔اورنگ زیب ‌خود عربی، فارسی ، اردو اور ہندی کے عالم و فاضل تھے ۔وہ اپنی نثر و نظم میں محاورات کا استعمال بہت عمدہ انداز سے کرتے تھے۔ان کے مضامین ، نظم، خطوط اور شاہی فرامین سے بھی یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم تھے۔ان کے شاہی فرامین اور خطوط ملک کی مختلف لائبریریز میں محفوظ ہیں ، وہاں سے لےکر ان کے شاہی فرامین اور خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ، تاریخ کے حقائق کا مطالعہ کریں اور ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم کی شخصیت سے متعلق متعصبانہ رویہ اختیار نہ کر کے غیر جانبدارانہ فیصلہ لیں ۔

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

محمدتوصیف رضا برکاتی نے ۸ سال کی عمر میں روزہ رکھا

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شدید دھوپ اور گرمی کی تپش میں آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے،گرم ہواؤں کی تمازت،صبح اٹھتے ہی پیاس کا احساس،۱۴،ا۴ گھنٹہ بغیر دانہ پانی کے گذارنا یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ تو توفیق الٰہی کی بات ہے کہ جس طرح بالغ مسلمان مردو وخواتین عبادت کی لذت سے سرشار ذوق وشوق سے اس گرمی و دھوپ کو مات دے کر اپنے ایمانی جذبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں،وہیں کچھ ننھے اور کم عمر بچے وبچیاں بھی اپنے جذبۂ ایمانی کے اظہار میں بڑوں سے پیچھے نہیں ہیں اور روزہ فرض نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھ رہے ہیں،انہیں خوش نصیب اور باحوصلہ بچوں میں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (ساکن:بھوانی پور،اسکابازار،ضلع: سدھارتھ نگر) کے صاحبزادے ۸ سالہ محمدتوصیف رضا برکاتی بھی ہیں،جنہوں نے ۸ سال کی مختصر عمر میں روزہ رکھ کر ہمت وحوصلہ اور شوق عبادت کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے، جب کہ عزیزہ ترنم پروین [عمر:۹ سال] بنت حضرت مولانا سراج احمد صاحب قادری علیمی نے بھی بھوک وپیاس کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اس سال کئی روزے رکھ کر اپنے ایمان ویقین کو جلا بخشا-قابل صد رشک ہیں ایسے والدین اور ان کی اولادیں جن کو دین اور اس سے محبت کی ایسی تعلیم وتربیت مل رہی ہے کہ انشاء اللّٰہ وہ آگے چل کر دین کے مضبوط علمبردار بنیں گے- ان ننھے بچوں کے اس پرعزم عمل پر ان کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچوں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کر نے کے ساتھ ان بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی -بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کے سبھی بچوں کو روزہ رکھنے کے صدقے صحت وتندرستی عطا فرمائے،اور ان کے روزے کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں دارین میں کامیابی عطا فرمائے،اور نیکی کے جذبے میں اضافہ کرے اور ہرطرح سے ان کو اور ان کے والدین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے-آمین