WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives June 2022

ناموس رسالت پر انگریزی نظم‌Honour of our Prophet،By : Sayed khadime Rasul Aini


……………………………….
11*2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

We will protect the honour of our prophet,
This is essence of our creed and our target.

In every heart is preserved love of prophet,
Holy drink of love is tastier than posset.

The holy ascension is it’s obvious proof,
Speed of prophet is faster than light , rocket.

All dignitaries are His appreciators,
Be it Jesus , Moses or Noah or Jephet.

All are illuminated by prophet’s light,
The galaxy, stars ,sun , moon and the comet.

Do not think the prophet like a common man ,
He is next to the Almighty the greatest.

We sacrifice our life for His dignity,
Prophet’s love is” Aini” the biggest asset.
…………….
By : Sayed khadime Rasul Aini
از: سید خادم رسول عینی

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

حب شہ عالم سے ہی جیون ہے ہمارا
دشمن جو نبی کا ہے ، وہ دشمن ہے ہمارا

سرکار کی یادوں کے گل تر سے مزین
کس طرح مقدس یہ نشیمن ہے ہمارا

اس میں شہ کونین کی رحمت کی ہے خوشبو
افضل سبھی باغات میں گلشن ہے ہمارا

ہے واتبعواالنور کی آیت سے یہ واضح
قرآن مبیں سے دلِ روشن ہے ہمارا

لمحات کو پر نور کریں آؤ لکھیں نعت
تقدیس کا حامل یہی اک فن ہے ہمارا

کہتی ہے یہی روح مری ، جسم سے ہر دم
آقا کا وطن ہے جو ، وہ مسکن ہے ہمارا

مرشد کے طفیل اس پہ ہے سرکار کا سایہ
یوں حامل تقدیس یہ دامن ہے ہمارا

تاریخ ہے شاہد یہی گستاخ! سمجھ لے
قربان نبی کے لیے تن من ہے ہمارا

کس ماہ مبیں کا ہے یہاں عکس اے “عینی”
شفاف بہت قلب کا آنگن ہے ہمارا
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

حضور تاج الشریعہ کی حیات مبارکہ کا ایک مختصر خاکہ، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور مغربی بنگال ،متعلم جامعة المدینہ فیضان کنزالایمان کھڑک ،ممبئ

شمع بزم اہلسنت حضرت اختر رضا
ناز بزم قادریت حضرت اختر رضا


اس ارض گیتی پر کچھ ایسے معزز و پاکیزہ نفوس اور نابغہ روزگار ہستیاں معارج وجود میں آئیں جنہوں نے مال و دولت جمع کرکے عیش عشرت کی زندگی بسر کرنے کے بجاۓ فقیری زندگی اختیار کی،لوگوں کے درمیان شہرت حاصل کرنے کے بجاۓ گوشہ نشینی کو پسند کیا ،خالص رضاۓ الٰہی کیلئے دین کی تبلیغ کی خاطر اپنے وطن اور اہل و عیال کو چھوڑ دیا ،ان کی زبانیں ہمہ وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھی ، ان کا ہر فعل شریعت کے مطابق ہوتا تھا،ہہاں تک کہ انہوں نے اپنی زندگی کی ہر ساعت کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے دین کی خدمت کر نے میں صرف کردی ،تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں اپنے فرمان فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ،ترجمہ:کنز الایمان،تو میری یاد کرو میں تمہاراچرچہ کرونگا(البقرہ 152) کے مطابق ان کی ذات کو اپنی مخلوق میں اس قدر متعارف کردیا کہ جونہی ان کا نام لوگوں کے سامنے ذکر کیا جائے سورج کی روشنی کی طرح ان کی شخصیت عیاں ہوجاتی ہے
انہیں نادرالوجود نابغہ روزگار، متعدد اوصاف اور کمالات کے حامل ہستیوں میں سے عارف باللہ حضور تاج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات مبارکہ ہیں جو کہ 26 محرم الحرام 1362ھ مطابق یکم فروری 1943ء بروز منگل شہر بریلی کے محلہ سوداگران میں مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مولانا ابراہیم رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تشریف لاۓ
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ایک ایسی عبقری شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں برصغیر پاک و ہند کے علاوہ بیشتر ملکوں میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور امت محمدیہ کے عقائد و اعمال کی حفاظت کی اور امت کو ایسے نایاب تحفے عطا کیے کہ رہتی دنیا تک آپ کے احسانات زندہ اور جاوید رہیں گے کیونکہ آج بھی پورا عالم اسلام آپ رحمۃ اللہ علیہ کے علمی اور روحانی فیضان سے سیراب ہو رہا ہے اور قیامت تک ان شاءاللہ ہوتا رہے گا
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات مسعودہ کے بارے میں مجھ جیسے بے بساط کا کچھ لکھنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے بس آپ کے بحرالعلوم سے چند قطرے اور فیض حاصل کرنے کی غرض سے آپ کی حیات پر کچھ خامہ فرسائی کی جسارت کرتا ہوں گر قبول افتد زہے عزو شرف
اسم گرامی اور القابات
آپ رحمت اللہ علیہ کا اسم گرامی محمد اسماعیل رضا جبکہ عرفیت اختر رضا ہے ،آپ کے سینکڑوں القابات ہیں اور ساتھ ہی ان سب کے اوصاف کے ترجمان بھی ہیں ان میں سے وارث سے علوم اعلیٰ حضرت، تاج الشریعہ، جان نشین حضور مفتی اعظم ہند، شیخ الاسلام والمسلمین وغیرہ زیادہ مشہور و معروف ہے
تعلیمی سفر
آپ علیہ الرحمہ ناظرہ قرآن کریم اور ابتدائی اردو کتب اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھیں اس کے بعد والد بزرگوار نے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کر دیا وہیں پر آپ نے درس نظامی کی تکمیل کی اس کے بعد 1963ء میں حضور تاج الشریعہ جامعہ ازہر قاہرہ تشریف لے گئے وہاں آپ نے ،کلیہ اصول الدین، میں داخلہ لیا اور مسلسل تین سال تک مصر کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے فیضیاب ہوئے 1966ءمیں جامعہ ازہر سے نمایاں اور ممتاز حیثیت سے اول پوزیشن حاصل کی،اس وقت کے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے جامعہ ازہر ایوارڈ پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے نواز کر فخر ازہر کا لقب بھی دیا،
رفیقان درس اپنی انگلیوں کو دانتوں تلے دباۓ سوچ رہے تھے کہ ایک عجمی نے ہمارے عربوں کے ملک میں آکر اپنی شان و شوکت کا پھریرا کیسے لہرا دیا؟ جامعہ ازہر سے تعلیم حاصل کرنے والوں کا ایک علٰحیدہ مقام و مرتبہ ہوتا ہے لیکن حضور تاج الشریعہ ایک واحد طالب علم تھے جس کی وجہ سے جامعہ ازہر کو نمایا مقام ومرتبہ مل گیا
درس و تدریس
حضور تاج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ درس و تدریس کی ابتدا دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف 1967ءمیں کی اور 1978ء میں آپ دارالعلوم کے صدر المدرسین اور رضویہ دار الافتاء کے صدر مفتی کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال تک جاری رہا کثیر مصروفیات کے باعث مثلاً آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اکثر دین اسلام کی تبلیغ کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کرنا ،آپ کے ہزاروں اور لاکھوں مریدین اور معتقدین کے روز بروز مختلف اور جدید مسائل کا حل کرنا،امت کے عقائد و اعمال کی حفاظت کے لیے کتابوں کی تصنیف کرنا اور دیگر مصروفیات کے سبب درس و تدریس کا سلسلہ مستقل جاری نہ رہ سکا جبکہ مخصوص کتابوں کا درس جاری رکھے تھے ، آپ علیہ الرحمہ اپنے شاگردوں کو علم و فضل کا وہ گوہر عطا کئے جس کے باعث آپ علیہ الرحمہ کے شاگردگان کو اس زمانے میں نمایا ہستی کی حثیت سے جانی اور مانی جاتی ہے
حضور تاج الشریعہ بحیثیت مفتی
ایک مفتی کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کی شرعی رہنمائی کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف بے جھجک فتویٰ جاری کریں ،اگر یہ صفت حضور تاج الشریعہ کے آباؤ اجداد میں تلاش کیا جائے تو بدرجہ اتم ملے گی جیسا کہ 77-1976ء میں کانگریس پارٹی کی لیڈر اندراگاندھی نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے نسل کشی کا قانون نافذ کردیا بڑے بڑے علما کے قلم خاموشی کا جامہ زیب تن کر لیا تھا کسی کو حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرت نہ ہوئی حتیٰ کہ حکومت کی حمایت کرتے ہوئے بعض علما نے تو نسبندی کے جواز میں فتویٰ دےدیا
وہ دور جس وقت حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا اس عالم میں ایک سچا قائد بن کر حضور مفتی اعظم ہنداسلامی قانون کی حمایت کرتے ہوئے فتویٰ صادر فرمایا کہ نسبندی سخت حرام ہے (تجلیات تاج الشریعہ ص 342)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ بھی اپنے نانا جان کی طرح شریعت کے سچے پاسبان اور مفتی تھے چنانچہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ 7 ستمبر 1976ء میں نسبندی کے تعلق سے ایک تفصیلی فتویٰ آپ علیہ الرحمہ کو جاری کرنے کا حکم دیا اس کے بعد آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نسبندی کے عدم جواز پر ایک تفصیلی اور تحقیقی فتویٰ دیا جس سے حضور تاج الشریعہ کی فقہی بصیرت کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے( مکمل فتویٰ پڑھنے کے لیے کتاب تجلیات تاج الشریعہ ص 343پر دیکھیں)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اپنی مادری زبان اردو کے علاوہ انگلش اور عربی میں بھی فتویٰ دیتے تھے اور آپ کے تمام فتاوے تحقیقی اور اعلی معیار کے ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی علمائے اہل سنت آپ علیہ الرحمہ کے فتاویٰ کو درجہ سندکا مقام دیتے ہیں
آخرش آپ علیہ الرحمہ کے فتاویٰ کس قدر بلند مقام و مرتبہ کے حامل ہیں حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی کے اس فرمان سے معلوم کیا جاسکتا ہے علامہ ازہری کے کے قلم سے نکلے ہوۓ فتایٰ کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت کے فتایٰ پڑھ رہے ہیں آپ کی تحریریں دلائل اور حوالاجات کی بھر مار بعینہ ویسی ہی ہوتی ہے (تجلیات تاج الشریعہ ص 112)
اللہ تعالی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا فیضان تادیر ہمارے سروں پر قائم دائم رکھے ان کے مزار اقدس پر ہمہ وقت رحمت و نور کی بارش عطا فرمائے اور ان کے صدقے طفیل ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے

ابر رحمت تیری مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی
السّلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
مزاج وہاج ؟
آپ کے برادرِ بزرگوار عظیم عاشق رسول (ﷺ) شہزادہ حضور مُفتی اعظم اُڑیسہ محبوبُ العلمآء والمشآٸخ فضیلةُ الشیخ حضرت الشّاہ پیر سیّد محمّد عطا مُحی الدین حبیبی قُدوسی الحُسینی ارشدی مدظلہ العالی کے اظہارِ محبت اور جذبات خیر اور آپ کی دینی مسلکی خدمات اور بے لوث محبّت اور آپ کے حکم کے پیش نظر فقیر آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ بغدادیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ قدیمہ و جدیدہ ، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مُجددیہ دوستیہ عثمانیہ سراجیہ حسنیہ غفوریہ سُبحانیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ ارشدیہ و چشتیہ صابریہ سراجیہ حسنیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ سُہروردیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ اُویسیہ ارشدیہ مع جمیع سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت دیتا ہے –
شراٸط اجازت و خلافت
صحتِ عقیدہ مذہب حق اہلسنّت مسلک اعلی حضرت پر ہمیشہ قاٸم رہیں , تمام بدمذہبوں ، بدعقیدہ لوگوں سے ہمیشہ دُور رہیں ، اتباع شریعت و سنّت ، پنجگانہ نماز باجماعت کی اداٸیگی ، اور جُملہ خلافِ شرع اُمور سے ہمیشہ اجتناب از حد لازم شراٸط ہیں –
(نوٹ)
فقیر کی اجازت وخلافت عقاٸدِ حقّہ اَہلسنّت مسلک اعلی حضرت سواداعظم پرقاٸم رہنے ، شریعت وسنّت مُبارکہ کی اتباع کرنے ، کروانے اور تمام بدمذہبوں سے ہمیشہ بچنے بچانے کی بنیاد پر ہے ، بصورت دیگر فقیر کی دی ہُوٸی اجازت و خلافت منسوخ سمجھی جاٸے گی –
فقط والسّلام خیرختام
مدینے پاک کا بھکاری
خلیفہ ٕمجاز فیض یافتگان خلفاۓ اعلی حضرت
فقیر عبدُالمصطفٰی ابُوالبرکات محمّد ارشد سُبحانی غفرلہ النُّورانی
(بانی و سرپرستِ اعلٰی ماہنامہ ارشدیہ)
خادم تلوکرانوالہ شریف فاضل ضلع بھکر
خاک نشین خانقاہ سراجیہ کُندیاں شریف ضلع میانوالی پنجاب پاکستان
27شوال المکرم /1443 ھ / بمطابق 29 مٸی /2022 ء/ یوم الاحد (اتوار)

سچائی کواپنائیں اور جھوٹ سے پرہیز کریں، از:(مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)mdshamimahmadnoori@gmail.com

اللہ وحدہٗ لاشریک کا کا بےپناہ کرم و احسان ہے کہ اس نے دنیا میں صدق یعنی سچائی جیسی عظیم صفت بھی پیدا کی ہے اور انسانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ سچائی کو اپنائیں، اس کو اپنی زندگی میں داخل کریں اوراس کواپناشیوہ اور وطیرہ بنائیں، اسی طرح اللہ ربّ العزّت نے جھوٹ کو بھی پیدا کیا مگر اس سے بیحد ڈرایا،اس سے دوررہنے کی تلقین کی،اس کی مذمت کی اوراس کے برے نتائج سے بھی آگاہ فرمایا-
اگر اللّہ ربّ العزّت کی جانب سے سچائی کو اپنانے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے کا حکم نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،ہر انسان ایک دوسرے سے جھوٹ بولتا، اس لیے کہ جھوٹ بولنا بے حد آسان ہوتا ہے، دل تھوڑا سا جھوٹ کی طرف مائل ہوا اور ہونٹوں میں حرکت ہوئی جھوٹ نکل گیا، جب کہ سچ بولنا بہت مشکل ہے، بہت زیادہ جاں گسل اور کٹھن ہے،عموماًسچ کی طرف دل کو مائل ہونے میں بھی دیر لگتی ہے، اور سچ کے لیے ہونٹ بھی لرزتے ہوئے کھلتے ہیں،… ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ سچ یا جھوٹ کی نوبت ہی اس وقت آتی ہے جب معاملہ پھنستا ہوا نظر آتا ہے، اور عموما اس کے پیچھے کوئی ڈر اور کوئی خوف پوشیدہ ہوتا ہے، کہیں مال کے ضائع ہونے کا ڈر ،کہیں جان جانے کا ڈر ، کہیں لوگوں کی نظروں سے گر جانے کا ڈر، تو کہیں نوکری چلی جانے کا ڈر،اسی طرح کہیں استاذکاڈر، تو کہیں طلبہ کاڈر، کہیں بیوی کا ڈر ،تو کہیں شوہرکاڈر، کہیں ذمہ داروں کاڈر توکہیں کسی اورکا ڈر، اور یہ ڈر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سے جانے انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہو جاتا ہے جس کا اظہار معیوب ہو، یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی کا اندیشہ لاحق ہو،اوروہ اس پریشانی سے بچنے کے لیے کوئی بہانہ تلاشتا ہو، کوئی خوبصورت سا بہانہ بنا کر اپنا دامن بچا لینا چاہتا ہو،ایسا کرنے پر وقتی طور پر تو وہ خود کو کامیاب تصور کرتا ہے، مگرجھوٹ تو جھوٹ ہے، اس کا پردہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرورفاش ہو جاتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ “جھوٹ کا انجام برا ہوتا ہے”-جھوٹ انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ صفت ہے،جھوٹ سے اعتماد کاخاتمہ ہوجاتاہے،جھوٹ جہاں بہت ساری برائیوں کاسبب ہے وہیں جھوٹ سےانسان اخلاقی معیارسے بھی گرجاتاہے اورجھوٹ سے آپسی تعلقات بھی کمزور پڑجاتے ہیں،جب کہ سچ سے آپسی اعتماد بحال ہوتاہے اور سچ سے انسان کوبلندی ملتی ہے،سچ ایک اعلیٰ ترین خصلت ہے،جب انسان سچ کو اپناتاہے توفطری طور پر اس کے دل سے اللّٰہ کے سوا تمام لوگوں کا ڈر نکل جاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللّٰہ تو مجھے دیکھ رہا ہے، مجھےاس کے سامنےیقیناً جوابدہ ہوناہوگا،ممکن ہے اس دنیا میں جھوٹ بول کر نکل جاؤں مگر کل قیامت کے میدان میں جب اللّٰہ کے سامنے میری پیشی ہوگی تو کیا جواب دوں گا؟ نتیجةً ایسا انسان برائیوں سے بچ جاتا ہے، یا کوئی ایسی حرکت کرنے سے گریز کرتا ہے جس کے کرنے کے بعد ندامت ہو- اللّٰہ ربّ العزّت نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: “یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین”[سورۂ توبہ:۱۱۸] یعنی اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
خود محسن انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا-سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی اسی لیے شریعت اسکامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے* نبی اکرم صلّی اللّہ علیہ وسلّم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم بھی دی اور جھوٹ بولنے سے منع بھی فرمایا، آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نبی و رسول نہ ماننے والوں نے بھی آپ کی سچائی اور امانتداری سے متاثر ہوکر آپ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا، تمام انبیائے کرام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی –
اسلام میں سچائی کی اتنی اہمیت ہے کہ ہر مسلمان کو سچ بولنے کے علاوہ اس کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے کہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ رہے اور سچوں کی صحبت میں رہے -حدیث پاک میں ہے کہ نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ایک موقع پر صحابہ سے فرمایا کہ “جو یہ چاہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے اس کو محبت ہو، یا اللّٰہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اس کے لئے لازم ہے کہ جب بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے” اسی طرح ایک حدیث میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا: سچائی اختیار کرو اگرچہ تمہیں اس میں بربادی اور موت نظر آئے، دراصل نجات اور زندگی سچائی میں ہے، اور جھوٹ سے پرہیز کرو اگرچہ اس میں بظاہر کامیابی اور نجات نظر آئے کیونکہ جھوٹ کا انجام بربادی اور نامراد ہے-
سچ نجات کی کنجی ہے اور جنت تک پہنچانے والا ایک ایسا عمل ہے جس کی فضیلت فرمان الٰہی اور ارشادات رسالت میں ایک وسیع ذخیرہ ہمارے لئے مہیا ہے، اسلام کی نظر میں قول کی سچائی اسی وقت قابل قبول ہے جب کہ عمل میں بھی اسی کی مطابقت ہو –
ایک روایت میں رسول اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پوچھا گیا: اہل جنت کی علامت کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا سچ بولنا، اسی کے بالمقابل ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ہے،بلاشبہ سچائی ایک مسلّمہ اخلاقی قدر ہے، دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کی ہو، اور دنیا کا کوئی معلّم ایسا نہیں جس نے سچ پرکاربندرہنے کادرس نہ دیاہو، اسلام نے تو خاص طور پر سچائی کو اہمیت دی ہے،سچائی میں بہت سے روحانی اور معاشرتی فوائد بھی مضمر ہیں، سچ بولنے سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے، اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اور اسے کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں رہتا ،اس کے برعکس جھوٹ بولنے والا ہمیشہ پریشان رہتا ہے اوراسے خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے اور اسے ذلّت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے-
سچ بولنے سے چہرے پر رونق و تازگی رہتی ہے اور جھوٹے آدمی کا چہرہ اس نور سے محروم ہوتا ہے،اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ واقعی سچے کے چہرے پر رونق دکھائی دیتی ہے اور جھوٹے کے چہرے پر لعنت برستی نظر آتی ہے، اور خود قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے “لعنة الله علی الکاذبین” کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے-
یوں تو حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی ذات طیّبہ میں بے شمار صفات موجود تھیں جن کو شمار کرنا تقریباً ناممکن ہے، لیکن حضور کی دو صفتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ سے اہل مکہ آپ کو یادکیا کرتے تھے،اور وہ “صادق”اور”امین” ہیں-لہٰذاجس شخص کے اندریہ دوصفتیں پائی جائیں تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہے، کیونکہ جب انسان سچ بولتا ہے تو سچ کا راستہ اس کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی کا راستہ جنت کی طرف لے جاتا ہے اور بندہ سچ بولتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ کے نزدیک سچّا لکھ دیا جاتا ہے، یہی حدیث شریف کا مفہوم بھی ہے، اس لیے ہمیں سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اپنے ہر قول و فعل میں سچ کواپناناچاہیئے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سچّاشخص صدق کے درجہ سے صدیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے،حدیث شریف میں ہے”التّاجرالصدوق الامین مع النّبیّین والصدّیقین والشھداء”یعنی سچااور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا- اب اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے اس کی نیکی ہی لکھی جائے تواس کوچاہیئے کہ وہ بازار یا دفتر یا کسی جگہ پر بھی بیٹھتا ہو، وہ سچائی اور امانتداری کی نیت کے ساتھ بیٹھے ، تو اللّٰہ کی رحمت سے یہ امّیدہے کہ جواجر مسجدمیں ملتاہے وہی اجر دکان اور دفتر میں بھی ملےگا-
انسان کے تمام اخلاقِ رزیلہ میں سب سے زیادہ بری اور مزموم صفت”جھوٹ”کی ہے، جھوٹ چاہے زبان سے بولاجائےیاعمل سے ظاہر ہوجائے بہرحال یہ تمام قولی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے-اور جھوٹے شخص سے محض جھوٹ بولنے کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں لازمی طورپر صادر ہوجاتی ہیں-اسی وجہ سے قرآن مقدّس میں اللّٰہ تعالیٰ نے “جھوٹ” کے ساتھ دوسری بھی کئی برائیوں کاذکر فرمایاہے……چنانچہ ایک جگہ ارشادہے”ترجمہ:وہ[شیاطین] ہر ایسے شخص پر اترتے ہیں جو پرلے درجے کا جھوٹا گنہگار ہو”……ایک دوسری مقام پر ارشاد ہے”ترجمہ:بے شک اللّٰہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حدسے گذرنے والا[اور]جھوٹ بولنے کاعادی ہو”…اور حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے”جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں لے جاتاہے، اورآدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتاہے”…… حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جھوٹ بولنا ، جب آدمی جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا، اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر [کفر کے کاموں میں سے کوئی کام] کرےگا،اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی برائی کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ کفربھی اس میں آجاتا ہے، جس سے زیادہ بری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا ہر دروازہ بند ہے،……ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ “منافق کی تین نشانیاں ہیں، {۱} جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا {۲} جب وعدہ کرے گا تو اس کی خلاف ورزی کرے گا {۳}اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے گی تو وہ اس میں خیانت کرے گا”-
بظاہرتو یہ تین مختلف باتیں ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی کی تین مختلف صورتیں ہیں،جھوٹی باتیں کرناتو جھوٹ ہے ہے ہی، مگر وعدہ کرکے اس کو پورا نہ کرنا ،اور امین بن کر امانت میں خیانت کرنا یہ بھی توایک قسم کے عملی جھوٹ ہی ہیں-
جھوٹ بولنااتنی بری چیز ہے کہ اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے،اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا:”اذاکذب العبدتباعدعنه الملک میلاًمن نتن ماجاءبه” یعنی جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو فرشتے اس سےاس کے جھوٹ کی بو کی وجہ سے ایک میل دور چلےجاتے ہیں”……لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ جھوٹ بولنےاور جھوٹی باتوں کے بیان کرنے سے بچیں،کیونکہ جھوٹ بولنامنافق کی نشانیوں میں سے ہے، اورجھوٹ بولنے والا جہنّم کے سب سے نیچے طبقہ میں رہےگا-
ایک حدیث پاک کامفہوم ہے کہ “حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے کسی نے دریافت کیاکہ یارسول اللّٰہ!کیا مومن بخیل ہوسکتاہے؟توحضورنے فرمایا:ہاں!ہوسکتاہے، پھرسوال کیاگیا:کیامومن بزدل ہوسکتاہے؟تو آپ نے فرمایا:ہاں ہوسکتاہے،پھر سوال کیا گیا کہ کیا جھوٹا ہوسکتاہے؟ توحضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:نہیں ہوسکتا،یعنی جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی”……اسی طرح سنی سنائی باتوں کوبغیرتحقیق کےبیان نہیں کرناچاہیئے،کیونکہ اس طرح انسان بعض مرتبہ جھوٹ میں مبتلا ہوجاتاہے،اور حضور سرکار مدینہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:”کفیٰ بالمرءکذباً یحدث بکل ماسمع”کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی باتوں کو بیان کرتا پھرے-
بہت سےلوگ دنیا میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جوبظاہرسچے معلوم ہوتےہیں مگرحقیقت میں وہ سچے نہیں ہوتے،بات کوگھماپھراکر سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مگر سچ کے پردے میں جھوٹ کوچھپانا سخت ترین گناہ ہے-اس کے علاوہ جس بات کے کہنے سے کوئی فتنہ پیداہو،چاہے وہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو،اسے کہنابالکل ہی غیرمناسب ہے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور جھوٹ کبھی نہ بولیِں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے اندرتقویٰ اور خشیّتِ الٰہی پیدا کریں،اس لئے کہ جس انسان کے بھی دل میں خوفِ خداوندی جاں گزیں ہوجائے،اوروہ صحیح معنوں میں اللّٰہ سے ڈرنے لگے تو وہ جھوٹ ہی کیا کسی بھی برائی کے قریب نہیں جائے گا،اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کوچاہیئے کہ ہم خداسے ڈرتے رہیں اورسچائی اور سچے کاموں کی جانب راغب ہوں،جھوٹ،غیبت،چغلی،تکبر وحسد اور اس طرح کی جملہ برائیوں سے اپنے آپ کو بچائیں!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی لوگوں کواوامرپر عمل پیرا ہونے اور منہیات سے بچنے کی توفیق سعیدبخشے!
آمین!

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔‌۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم
۔‌۔۔۔

بجز یاد نبی کے ، جس کی تنہائی نہیں جاتی
کبھی بھی زندگی سے اس کی رعنائی نہیں جاتی

طلب کرتا رہا سائل، نبی دیتے رہے اس کو
سخاوت کی مثال ایسی کہیں پائی نہیں جاتی

نبی کی یاد کی شمعیں ہیں روشن یوں بحمد اللہ
مرے دل سے کبھی بھی بزم آرائی نہیں جاتی

رفعنا کہہ کے ان کے ذکر کو خالق نے رفعت دی
جو اونچے ہیں کبھی بھی ان کی اونچائی نہیں جاتی

نمازیں رہ گئی ہیں پانچ گھٹ گھٹ کر بفضل رب
گزارش سید عالم کی ٹھکرائ نہیں جاتی

نبی کی یاد سے دل ہوگیا گلشن، تروتازہ
ہے جس میں یاد عنقا، اس کی صحرائی نہیں جاتی

جو عشاق نبی ہیں ان کی بینائی سے تم پوچھو
جھلک آقا کے جلوے کی کہاں پائی نہیں جاتی؟

نہیں ملتا ہمیں حسن عمل کا اجر دنیا میں
اگر شاخ درخت عشق لہرائی نہیں جاتی

اگر ماحول منفی ہو تو پھر بھی وہ رہیں حق پر
جو اچھے ہیں کبھی بھی ان کی اچھائی نہیں جاتی

امین و صادق ملک عرب نے دے دیا یوں درس
ہمارے قلب سے اے “عینی” سچّائی نہیں جاتی
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

منقبت در شان حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

قرار شریعت ہیں صدر الشریعہ
بہار طریقت ہیں صدر الشریعہ

رضا نے دیا ان کو نور خلافت
مہ اعلیٰ حضرت ہیں صدر الشریعہ

بہار شریعت کے ہیں وہ مصنف
بہت بیش قیمت ہیں صدر الشریعہ

سدا آبیاری کی دیں کے شجر کی
یوں حامیء ملت ہیں صدر الشریعہ

یہ کہتی ہے تعداد شاگرد ہم سے
حفیظ شریعت ہیں صدر الشریعہ

ملا قاضیء شرع کا ان کو منصب
قضا کی امانت ہیں صدر الشریعہ

سبب وہ بنے کنز ایماں کا عینی
یوں فیض ہدایت ہیں صدر الشریعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

لعنت ہے خداوند کی گستاخ‌ نبی پر۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

لعنت ہے خداوند کی گستاخ‌ نبی پر
واضح رہے یہ مشرک و کفار سبھی پر

جاہل ہے جو ، وہ مرتبہ کیا شاہ کا جانے
گیانی کو نہیں شک کبھی معراج نبی پر

گستاخ ! ذرا غار تعصب سے نکل ! دیکھ
غیروں نے بھی اشعار لکھے مدح نبی پر

قرآن میں ہے، ان کو کبھی مردہ نہ کہنا
پھبتی نہ اڑائے کوئی خالق کے ولی پر

کیوں آیت تبت تجھے آئی نہ سمجھ میں
گستاخ ! تجھے ناز ہے کیوں بو لہبی پر

ناموس رسالت کے لیے جان ہے حاضر
قربان ہے ہر لمحہ پیمبر کی خوشی پر

تاریخ اٹھا ! دیکھ شہ دین کی عظمت
کیوں شک ہے زمانے کے جواد اور سخی پر

جس میں ہوئے مبعوث پیمبر ، ہے وہ اعلیٰ
ہے ناز ہمیں” عینی” بہت ایسی صدی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

دوسری اور آخری قسط، سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔

{عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر}

[امجدی ڈائری]
آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]

ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت ہوئی اور کانگریسیوں نے پورے ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو جگہ جگہ فجر میں قنوت نازلہ پڑھی جانے لگی۔اس پر 1347؁ھ میں حضرت صدرالشریعہ نے حضرت شارح بخاری سے یہ رسالہ(التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل) املا کرایا۔
پوری حیات تدریس و تصنیف اور خدمت دین میں صرف کرنے کے باوجود آپ سے بیعت و ارادت کا سلسلہ بھی جاری رہا، ہندو بیرونی ہند آپ کے کثیر تعداد میں خلفاء و مریدین ہوئے۔ آپ کے مریدین میں کثیر تعداد میں علمائے دین اور عمائد ملت تھے۔ حضرت کی یہ خصوصیت تھی کہ کسی غیر عالم کو خلافت نہیں دی، آپ کے خلفا کے اسماء یہ ہیں۔ حضرت حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی، محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی پاکستانی، خیر الاذکیاء مولانا غلام یردانی اعظمی، شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی اعظمی، مولانا سید شاہ عبدالحق گجہڑوی، مبارک پوری، مولانا قاری مصلح الدین پاکستانی، شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، مفتی ظفر علی نعمانی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان وغیرھم ہیں۔
صدر الشریعہ نے پہلی بار1337؁ھ/1919؁ء میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کا سفر فرمایا اور دوسری بار 1367؁ھ/1948؁ءمیں حرمین طیبین کی زیارت اور حج کے ارادے سے گھر سے بریلی شریف اور وہاں سے مفتی اعظم مولانا محمد مصطفی رضا قادری کے ہمراہ بمبئی تشریف فرما ہوئے۔ طبیعت پہلے ہی سے سخت خراب تھی۔ بحری جہاز کے چھوڑنے کا وقت آیا، تو آپ دوسرے عالم سے لو لگا رہے تھے۔ حضور مفتی اعظم تشریف لائے اور پھر روتے ہوئے تنہا جہاز پر قدم رکھا اور ادھر ان کے رفیق سفر نے رفیق اعلیٰ سے ملاقات فرمائی۔
دوشنبہ ٢/ذیقعدہ 1367؁ھ مطابق 6/ستمبر1948؁ء تاریخ وصال ہے۔ آیت کریمہ ” ان المتقین فی جنت و عیون” سے تاریخ وصال برآمد ہوتی ہے۔ آپ کی مزار مبارک قصبہ گھوسی ضلع مئو میں ہے جو مرجع خلائق ہے۔

صدرالشریعہ کی نثر نگاری

صدرالشریعہ کثیر التصانیف تو نہیں تھے مگر ان کی ایک عظیم کتاب “بہار شریعت” اتنی عظیم ہے کہ جس کی نظیر نہیں۔ یوں تو انہوں نے امام ابو جعفر طحاوی (م321؁ھ) کی معرکۃ الآرا تصنیف “شرح معانی الآثار” پر حاشیہ لکھنے کا کام شروع کیا تھا مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک جلد کے نصف تک ہی محدود رہ گیا آگے نہ بڑھ سکا۔

مختصر نگاری
حضرت صدر الشریعہ کی تحریر میں مختصر نگاری کا وصف بدرجہ اتم پایا جاتا ہے آپ کی مختصر عبارت مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہے اوریوں لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کا وقت بھی بچ جاتا ہے اور مسئلہ تلاش کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی ہے۔ ذیل میں ایک مختصر مگر جامع فتویٰ کی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ بعد نمازِ پنجگانہ جمعہ وعیدین عموما مسلمان مصافحہ کرتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن بعض لوگ اسے ناجائز اور مذموم بدعت بتاتے ہیں۔ صدرالشریعہ سے بعد نماز جمعہ و عید نصافحہ کے متعلق پوچھا گیا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز تو آپ نے ایک جامع اور مختصر جواب یوں ارشاد فرمایا:
“مصافحہ جائز اور حدیث سے اس کاجواز مطلقاً ثابت ہے۔ نماز کے بعد عید کے دن مصافحہ کرنا اسی مطلق میں داخل ہے، اپنی طرف سے مطلق کی تقیید باطل۔”
توجہ فرمائیے اور اس اختصار و جامعیت کی داد دیجیے۔ اس فتویٰ میں اصل حکم بھی مذکور ہیں دلیل بھی، ضابطہ بھی اور مانعین جواز کا رد بھی۔

مفتی غلام یاسین امجدی رقمطراز ہیں کہ:
” حضرت نے اردو زبان پر احسان فرمایا لطف تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر 17/ حصص تک (بہارشریعت) دیکھ جائیے کہیں طرز تحریر میں تبدیلی نہ ملے گی۔ مشکل سے مشکل مسائل آسان اور ایسی محیط عبارت میں تحریر فرمائے ہیں کہ اگر عبارت سے کوئی لفظ تبدیل کر دیا جائے تو بسا اوقات مفہوم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

سادہ نگاری

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی تحریر میں ہمیں ایسی نثر ملتی ہے۔ جس میں سادگی کا حسن، بے ساختگی کی جاذبیت اور تسلسل کی لطافت جگہ جگہ ملتی ہے۔ جو سپاٹ پن، بےکیفی اور تھکا دینے والی گنجلک، بے ترتیبی سے شکن آلود نہیں ہوتی۔ ایک مقام پر مصیبتوں اور آفتوں پر صبر کی خوبصورت تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کی بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمار ہیں اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقتاً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے۔ حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیے۔

منظر نگاری

منظر نگاری بھی تاثراتی نثر کا خاص جز ہیں جس کی قوت تاثیر سے مخاطب خود کو فراموش کرکے اسی ماحول میں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جس کی تصویر کھینچ دی گئی ہو۔ حضرت نے بھی ہمیں ایسے یادگار جملے عطا کیے ہیں جسے پڑھنے کے بعد یقینی طور پر خود فراموشی کا عالم طاری ہوجاتا ہے جو یقینا آپ ک قوت تحریر کا نادر نمونہ ہے۔ وقوف عرفات کے وقت انسان کی دلی کیفیت کیا ہونی چاہیے اس کی منظر نگاری حضرت کے قلم سے ملاحظہ کریں:
“سب ہمہ تن صدق دل سے اپنے کریم مہربان رب کی طرف متوجہ ہوجائیں اور میدان قیامت میں حساب اعمال کے لیے اس کے حضور حاضری کا تصور کریں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ لرزتے، کانپتے، ڈرتے، امید کرتے، آنکھیں بند کیے گردن جھکائے دست دعا آسمان کی طرف سر سے اونچا پھیلائے، تکبیر و تہلیل و تسبیح و لبیک و حمد وذکر و توبہ و استغفار میں ڈوب جانے کی کوشش کرے کہ ایک قطرہ آنسوؤں کا ٹپکنے کی دلیل اجابت و سعادت ہے۔ورنہ رونے کا سا منہ بنائے کہ اچھوں کی صورت بھی اچھی۔ اثناۓ دعا و ذکر میں لبیک کی بار بار تکرار کرے۔ آج کے دن دعائیں بہت مقبول ہیں۔”
منظر نگاری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ بہارشریعت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی عبارت سلیس ہے جس کو ہر طبقہ کا اردو داں سمجھ سکتا ہے۔ یہ اس کی فصاحت کی دلیل ہے اور عبارت کے اندر جو معانی و مطالب پوشیدہ ہیں اس کی اعلی بلاغت پر دلیل ہے۔ اس کی عبارت خشو و زوائد سے پاک ہے۔ اور قاری اسے پڑھتے وقت نہ مزید توضیح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی الجھن۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اس کی تصنیف ہوئی ہے آج تک ہر طبقہ میں مقبول رہی ہے۔ اس سے استفادہ عوام بھی کرتے ہیں اور علماء و طلبہ بھی۔ اگر اردو میں کوئی دوسری فقہی تصنیف نہ ہوتی تو ہم دوسرے ادب کے مقابلے میں بہار شریعت کو پیش کر سکتے تھے اور ہمارا مذہبی ادب کسی سے کم درجہ نہ رکھتا ہے۔ (بحوالہ بیسویں صدی میں امام احمد رضا)

(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)

پہلی قسط سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔آصف جمیل امجدی[انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

پہلی قسط
سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔

{عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر }

   [امجدی ڈائری] 

آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]
6306397662/9161943293

مولانا امجد علی مشرقی یوپی کے ایک مردم خیز قصبہ گھوسی ضلع مئو میں 1300؁ھ مطابق 1882؁ء کو ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مولانا حکیم جمال الدین کا شمار علاقے کے بڑے حکیموں میں ہوتا تھا۔ طبی مہارت اور ریاست عظمت گڑھ کے راجہ کے طبیب خاص ہونے کی وجہ سے ہر طرف آپ کا شہرہ تھا۔ اس عہد کے اجلہ علماء مولانا امجد علی اعظمی کو “صدر الشریعہ” جیسے گراں قدر لقب سے نوازا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے وطن گھوسی ہی کے مدرسہ ناصرالعلوم میں ہوئی۔ اعلی تعلیم کے لئے اپنے شیراہ ہند جونپور کا رخ کیا اور 1314؁ء میں مدرسہ حنفیہ جونپور میں داخلہ لیا۔ یہاں علوم شرقیہ وفنون دینیہ کے متلاشی دور دراز سے تشریف لاتے تھے۔ استاذالاساتذہ کی فیض رساں درس گاہ سے اس دور کے ماہرین علوم فارغ ہوئے۔
اس کی بعد صدرالشریعہ حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی کی خدمت میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوکر درس حدیث لیا۔ حضرت محدث سورتی نے بھی اپنی فراست ایمانی سے ان کی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اس گوہر شب تاب کو قدرتی نگاہ سے دیکھا۔ علوم دینیہ کے چشمۂ فیاض سے خوب سیراب کیا اور 6/ذی الحجہ 1324؁ھ کو حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ رامپوری قدس سرہٗ نے آپ کا امتحان لیا جس میں آپ کو نمایاں اور امتیازی کامیابی حاصل ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے استاذ محترم محدث سورتی کے مدرسۃ الحدیث میں 1327؁ھ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں مطب کرتے رہے۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کو دارالعلوم منظر اسلام بریلوی کے لیے ایک ذی استعداد استاد کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت محدث سورتی نے آپ کا نام پیش کیا اعلی حضرت کے طلب فرمانے پر پٹنہ سے مطب چھوڑ کر دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جلد ہی اپنی استعداد، قابلیت، خدا داد حسن سلیقہ اور سعادت مندی سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی نظر میں مقبول اور مورد الطاف خاص بن گئے۔
بریلی شریف میں آپ کا قیام 1329؁ھ مطابق 1911؁ء سے 1343؁ھ مطابق 1925؁ء تک رہا۔ 1343؁ھ مطابق 1925؁ء میں مولانا سید سلیمان اشرف صدر شعبۂ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین کے عہدے کا دعوت نامہ لے کر بریلی آۓ۔ یہاں آپ نے 1351؁ھ مطابق 1933؁ء تک فرائض تدریس انجام دئیے پھر 1363؁ھ میں مدرسہ مظہرالعلوم بنارس میں صدرالمدرسین ہوئے۔ لیکن وہاں کی فضا عقائد کے لحاظ سے سازگار نہ تھی اس لیے چند ہی ماہ رہ کر مستعفیٰ ہوگئے۔
آپ کا طرز تدریس نہایت دلنشین، دل آویز اور دل پذیر تھا۔ دوران تدریس مضامین کتاب کی ایسی واضح، شستہ اور جامع تقریر فرماتے کہ مضمون کتاب طلبہ کے ذہن میں اترتا چلا جاتا تھا۔ آپ کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ پورا درس نظامی آپ کو مستحضر تھا۔
امام احمد رضا محدث بریلوی کی عشق رسالت میں ڈوبی ہوئی اور ورع وتقوی سے شاداب و درخشندہ زندگی کی مسلسل دید کے بعد آپ نے روحانی رہنمائی کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں انھیں کے دست حق پرست پر بیعت کی اور جلد ہی تمام سلاسل میں اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔ صدرالشریعہ یوں تو سارے علوم و فنون کے ماہر تھے۔ لیکن سب سے خاص لگاؤ آپ کو فقہ سے تھا۔ اللہ زوجل آپ کی ذات گرامی میں تفقہ فی الدین ودیعت فرمایا تھا۔ صدرالشریعہ کو دیگر علوم و فنون کے علاوہ فقہ میں ایسا کمال حاصل تھا کہ فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزئیات مع ان کے تفصیلی دلائل کے مستحضر تھیں۔ انہیں خصوصیات کی بنا پر امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک موقع پر فرمایا:
“آپ کے یہاں موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائیے گا۔ وجہ یہی کی وہ استفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں طبیعت اخاذ ہے طرز سے واقفیت ہو چلی ہے۔”
امام احمد رضا بریلوی نے حالات اور ضرورت دینی کے پیش نظر بریلی شریف میں پورے ملک ہندوستان کے لیے جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھا شرعی دارالقضا قائم فرمایا تھا۔ اس کے لیے تمام مشاہیر ہندو مفتی عصرمیں سے صدرالشریعہ کو احکام شرعی کے نفاذ اور مقدمات کے فیصلے کے واسطے قاضی شرع مقرر فرمایا تھا۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں آپ کو نہایت بلند مقام حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا محدث بریلوی نے سوائے آپ کے کسی کو بھی حتیٰ کہ اپنے شہزادگان والا کو بھی اپنی بیعت لینے کا وکیل نہیں بنایا تھا۔ (بحوالہ بیسوی صدی میں امام احمد رضا)

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]