WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives July 2022

عید قرباں ،،از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


۔‌۔۔‌‌

منائیں نہ کیوں مل کے ہم عید قرباں
حدیثوں میں ھے جب رقم عید قرباں

براہیم کا ہے کرم عید قرباں
ہے اپنے لیے ذی حشم عید قرباں

پسندیدہ چشم شریعت میں تو ھے
ھے عظمت پہ سر اپنا خم عید قرباں

ہے سنت خلیل الہی کی اس میں
دلاتی ہے یاد حرم عید قرباں

ہمیں جذبہء بندگی اور ایثار
سکھاتی ھے ہر ہر قدم عید قرباں

خیال خلیل ‌خدا‌ میں ہیں گم ہم
مٹاتی ھے درد و الم عید قرباں

زمانے میں ھے یہ ہمارے لیے شاں
اٹھاتی ہے دیں کا علم عید قرباں

ہر اک بال کے بدلے ملتی ہے نیکی
ہمارے لیے ہے اہم عید قرباں

خدا‌ نے دیا جن کو انعام ، ان کا
دکھاتی ہے نقش قدم عید قرباں

ہمیں دیتی ہے پھول خوشیوں کا “عینی”
کہ ہے قاطع خار غم عید قرباں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

قربانی کا عمل رضا ٕالٰہی کا سبب ہے۔۔از۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی،استاذ دارالعلوم اہلسنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع مہراج گنج یوپی

۔

شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے

”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“

پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں

الکوثر،١٠٨۔٢

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔

یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟

”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“

یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا

”سنة ابیکم ابراھیم“

تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔

”بکل شعرة حسنة٠٠“

ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔

بکل شعرة من الصوف حسنة ۔

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“

ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)

بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

”قربانی کس پر واجب ہے“

قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔

”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”

اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)

حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔

قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔

   ”قربانی کا وقت“

قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “

جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)

اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”فاعد ذبحک باخر“

دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔

”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“

”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔

جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥

اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔

”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“

 سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩

نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“

بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.

جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:

اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)

قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے

قرآن مجید میں ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

(الحج، 22: 37)

یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

مسائل و احکام قربانی

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔

(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)

شب عید کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘

(الترغيب والترهيب)

نویں ذی الحج کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘

(صحيح مسلم)

یوم عید کی سنتیں

صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔

حج کی فضیلت،اجر وثواب اور حج نہ کرنے پروعید،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم ترین رکن ہے جو زندگی میں ایک بار ہر اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے جو کہ بیت اللہ تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو حج کی فرضیت کے بعد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جم غفیر کے ساتھ مدینہ طیبہ سے سفر کر کے اس اہم فریضے کو ادا فرمایا، اس مہتم بالشان عبادت کی ادائیگی پر شرع میں بے شمار اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اور بغیر کسی عذر کے اسے ترک کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔
قابلِ مبارک باد اور خوش نصیب ہیں وہ سعید روحیں جنہیں اللہ عز و جل نے اپنے پاک گھر کی زیارت کا شرف بخشا اور ابر رحمت کی برستی ہوئی رم جھم بارشوں سے سیاہ کا ریوں کی جمی ہوئی پرت در پرت اور تہ بہ تہ کائیوں کو دھل کر کسی نو مولود کی طرح اپنے مقدس گھر سے واپس لوٹایا،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ خانۂ کعبہ کا حج کرنا هے ہر اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ [البقرة: 196] اور تم حج اور عمرے کو مکمل کرو، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے لھذا تم حج کیا کرو(مسلم شریف کتاب الحج) ایک مرتبہ آپ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے، (نسائی شریف)۔
جمہورعلماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج کا منکر کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ چونکہ حیات مستعار کے لمحوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے جس آدمی پرحج فرض ہواورظاہری کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اسے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں بالکل تاخیرنہیں کرنا چاهئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے ( ابو داؤد شریف)۔
اسی طرح ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ کچھ نہیں معلوم کہ کیا امر پیش آجائے (کنزالعمال)

حج کی فضیلت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،عرض کیاگیاکہ اس کے بعدکیاہے؟ فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،عرض کیاگیا پھر کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حج مبرور”( یعنی وہ حج جس میں گناہ نہ کیے گیے ہوں اور ریاکاری نہ ہو)-[رواہ البخاری ومسلم]
نیز حضرت ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس نے اللہ کے لیے ٌحج کیا اور اس نے ایسی باتیں نہ کیں جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں اور گناہ نہ کیے تو یہ شخص اس طرح ہوگا جیسا اس دن بے گناہ تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا”
اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “الحج المبرور لیس له جزاء الاالجنة” کہ حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے-
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کو ادا کرو کیونکہ وہ دونوں تنگدستی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے”-[رواہ الترمزی]

حج کا اجر وثواب: اجر وثواب کے اعتبار سےحج کی عبادت اپنی ایک الگ ہی شان رکھتی ہے، چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ دو صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حج کے الگ الگ اعمال کا اجر وثواب پوچھنے کی غرض ونیت سے حاضر ہوئے -حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ان کے سوالات دہرا دییے- اور پھر ہر ایک کاترتیب وار جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
(1)جب کوئی حاجی اپنے گھر سے مسجدحرام کے ارادے سے چلتا ہے تو اس کی سواری کے ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک ایک غلطی معاف کی جاتی ہے-
(2)طواف کے بعد کی دورکعتوں کاثواب خاندان بنی اسماعیل کے کسی غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے-
(3)اور جب حجاج میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگاکر میرے پاس آئے ہیں لہٰذا ان کے گناہ اگرچہ ریت کے ذرات، بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں، پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا، پس ائے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس چلے جاؤ تم بھی بخش دییے گیے، اور جس کے لیے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی-
(4)اور شیطان کو کنکری مارنے کاثواب یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلہ میں کسی بڑے گناہ کی مغفرت ہوتی ہے-
(5)اور قربانی کرنے کاثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کردیا جاتا ہے-
(6)اور احرام کے بعد حلق کرایاجاتاہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے-اور ایک برائی مٹائی جاتی ہے-
(7)اور جب طواف زیارت کیا جاتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ حاجی گناہ سے بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے، اور ایک فرشتہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ” آئندہ کے لیے از سرنو اعمال کرو تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کردییے گیے ہیں”-[الترغیب والترہیب ۲/۱۱۰]
اور ایک روایت میں ہے کہ حج کے سفر میں ایک روپیہ خرچ کرنے کاثواب دس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے-[کنزالعمال ۵/۵]
حاصل کلام یہ ہے کہ سفر حج میں قدم قدم پر اجر وثواب کے اسباب موجود ہیں-تلبیہ پڑھنا خود ایک ایساعمل ہے کہ آدمی بے اختیار ذکر خداوندی کے روحانی ماحول کے جھرمٹ میں آجاتا ہے اور فرشتوں کی طرف سے اس کو مبارک بادیاں ملنے لگتی ہیں،اس کے بعد بیت اللہ میں حاضر ہوکر دعا مانگنا قبولیت کا اہم موقع ہے نیز حرم شریف کی نیکیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ گنا کردیا ہے،پھر حجراسود کے استلام کی بھی عجیب خوبی رکھی رکھی گیی ہے کہ یہ قدرتی طور پر استلام کرنے والے کے گناہوں کو جزب کرلیتا ہے،حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رکن یمانی اور حجراسود کو چھونا غلطیوں کو مٹادیتا ہے-[ترمذی شریف]
اور یہ دونوں پتھر قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کی دو زبانیں، دو آنکھیں اوردو ہونٹ ہون گے اور یہ اپنے استلام کرنے والوں کے حق میں گواہی دیں گے اور سفارش کریں گے-[الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
اسی طرح طواف کرنا بھی ایک انتہائی قابل اجر وثواب عمل ہے -ایک موقوف روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کے ہر ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں،اور ستر ہزار برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور ستر ہزار درجے بلند کیے جاتے ہیں- [الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
علاوہ ازیں ایک خاص بات یہ ہے کہ حج کے ایام میں نہ صرف یہ کہ شطواف کرنا اور دیگر عبادات انجام دینا موجب ثواب ہے،بلکہ یہاں اگر کوئی شخص حرم شریف میں بیٹھ کر نیک نیتی کے ساتھ بیت اللہ کی صرف زیارت سے شرفیاب ہو تو وہ بھی ثواب سے محروم نہیں ہوگا-
الغرض سفرحج کا ہر ہر لمحہ نیکیوں کو سمیٹنے کازمانہ ہے -جوشخص اپنے کو اللہ کی خاص رحمت کا مستحق بنانا چاہتاہے اسے چاہییے کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت جانے اور ایک ایک لمحہ کو کار آمد بنانے کی کوشش کرے، اور غفلت وکوتاہی کو پاس بھی نہ آنے دے،ایک ایسے موقعہ پر جبکہ رحمت خداوندی کی برسات ہورہی ہو، اس سے فیضیاب نہ ہونا اور سستی میں پڑ کر اوقات کو ضائع کردینا انتہائی محرومی کی بات ہوگی-
بالخصوص سفر حج کےدوران گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے،ایک روایت میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت وارد ہے کہ جو شخص حج کے دوران اپنے کانوں آنکھوں اور زبان کی گناہوں سےحفاظت کرے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے-

حجاج سے دعائیں کرائیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہوتے ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی گناہوں کو بخش دے گا-

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر وعید: حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کو ظاہری ضرورت (سفر خرچ اور سواری کاانتظام وغیرہ) یا ظالم بادشاہ (حکومت) یا مہلک مرض جیسی کوئی مجبوری نہ ہو اور وہ (حج کا نصاب ہونے کے باوجود) حج نہ کرے -تو اس کے لیے یہ بات برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے-[رواہ الدارمی]
اللہ کی پناہ! کس قدر سخت وعید ہے استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر حج فرض ہو اور انہوں نے بغیر عذرشرعی کے حج نہیں کیا تو ان کے سوء خاتمہ کااندیشہ ہے-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو زیارت حرمین طیبین کی توفیق عنایت فرمائے-(آمین]

نعت ساقیء کوثر صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

جو شخص در ساقیء کوثر میں رہیگا
پیاسا وہ کہاں کس گھڑی محشر میں رہےگا؟

مقصد ترا گر مدحت آقا ہو اے شاعر
خوشبو کا رسالہ ترے دفتر میں رہےگا

اس پر اثر انداز بھلا کیسے ہوں کانٹے
جو پھول گلستان پیمبر میں رہیگا

سانچے پہ ڈھلیں سیرت اصحاب نبی کے
ایمان کا جوش آپ کے تیور میں رہےگا

جس نام سے منظور ہوءی توبہء آدم
اس نام کا صدقہ ہی مقدر میں رہیگا

محبوب کی گر یاد نہ ہو زیست میں شامل
کیا کیف کا امکاں کسی منظر میں رہےگا؟

گر چھوڑ دیا ہاتھ سے سرکار کا دامن
بربادی کا عنصر ہی مقدر میں رہیگا

طیبہ کے کھجوروں سے تو رکھ گھر کو مزین
برکت کا اجالا ترے گھر گھر میں رہےگا

گر حیدر کرار سا ہو عزم مصمم
تب نور ظفر زیست کے خیبر میں رہےگا

جو نور عیاں دھرتی کے طیبہ میں ہے” عینی “
وہ نور کہاں چرخ کے اختر میں رہےگا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

عیدقرباں کا پیغام:امت مسلمہ کے نام، از:(علّامہ) سید نوراللّٰہ شاہ بخاری، مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ و سجادہ نشین:خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

قربانی کا لفظ “قرب” سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنیٰ ہے: ” قریب ہونا، نزدیک ہونا ” اور قربانی اللہ کاتقرب حاصل کی جانے والی چیزوں کو کہتے ہیں چونکہ قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں, اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہیں کہ خاص جانور کو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثواب اور تقرب کی نیت سے سے ذبح کرنا-
قربانی کے اس سارے عمل اور اس کے پس منظر وپیش منظر کے ذریعہ ہم سبھی مسلمانوں کو یہ سیکھایا گیا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے حکم کی بلا چوں وچرا اتباع کا نام ہی دین ہے-لہٰذا جب بھی کسی چیز کے بارے میں اللہ کا حکم سامنے آجائے تو اس میں نہ ہی عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع ہے اور نہ ہی اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہ جاتا ہے( گرچہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم وفرمان حکمت سے خالی نہیں ہے چاہے بندہ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے) بلکہ ایک بندۂ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ حکم پر اپنا سر جھکادے اور اس حکم کی دل وجان سے اتباع کرے-

قربانی کا مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنا ہے، لہذا قربانی سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا چاہییے تاکہ اپنے جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہم اس مقصد کے پانے والے بن جائیں جو اس ذبح عظیم کا مقصد ہے۔ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔
اب آئییے دیکھتے ہیں کہ اس قربانی کا اصل مقصد اور پیغام کیا ہے اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر ہم اور آپ قربانی کس کے لیے کرتے ہیں؟کیا ہمارا یہ عمل اللہ کی رضاجوئی کے لیے ہوتا ہے یا لوگوں کو دیکھانے کے لیے؟ ظاہر سی بات ہے کہ ہر بندۂ مومن کا یہی جواب ہوگا اور ہونا بھی چاہییے کہ “ہم قربانی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کرتے ہیں نہ کسی انسان کو دیکھانے کے لیے”…اگر ہم قربانی صرف رضائے مولیٰ کے لیے کرتے ہیں تو ہمیں چاہییے کہ ہم قربانی کے اصل پیغام پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کو سختی سے یہ بات سمجھا دیں کہ ائے نفس! ہم قربانی کا جانور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے ذبح کررہے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ اپنے نفس اور تمام برےخوہشات کو اسی جانور کی طرح ذبح کرکے تمام امور خواہ وہ معاشرتی ہو یا معاشی،ملازمت ہو یا تجارت غرض یہ کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی ہی مطمح نظر رکھیں گے،چاہے کوئی راضی ہو یا ناراض ہمیں تو اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا ہے،یہ عہد کرکے اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا بھی کرتے رہیں کہ یااللہ تو اپنی اور اپنے محبوب کی رضا کی خاطر تمام خواہشات کو قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرما-ائے اللہ! یہ ہماری قربانی تو تیرے محبوب بندوں بالخصوص حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہماالسلام کی ایک نقل ہے اس نقل کو تو اپنی رحمت سے اصل بنادے اور قربانی کی جو اصل حقیقت ہے وہ ہمیں محض اپنے فضل وکرم سے عطافرمادے-
قربانی کی حقیقت اور روح نیز پیغام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنے خواہشات کو قربان کردیا جائے،بظاہر قربانی جانور کی کی جاتی ہے مگرقربانی سے مقصود تعمیل حکم ہےاور اپنے خالق ومالک کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہے-

ہر سال اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی اس بات کی بھی یاد دلاتی ہے کہ جو بندہ اللہ کے جتنا قریب ہوتا ہے اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش کا معاملہ بھی اتنا ہی سخت ہوتا ہے، قربت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنی ہی بڑی قربانی کی طالب ہوتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مومن بندوں کو اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ اگر ہم اپنے عہد کے پابند ہیں تو حق کا یقیناًبول بالا ہوگا۔
جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں وہ ہر اس چیز پر انکار کی چھری چلانے میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ سچی محبت کے راستے میں روڑا بن کر آتی ہو۔اللہ سے محبت کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اطاعت گذار ہو، اللہ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتا ہو،خود کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے اور ہر اس چیز کو اختیار کرے جس میں اللہ کی رضا ہو اور ہر اس بات سے پرہیز کرے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو۔ہمارے اہل و عیال اور مال و منال، ہماری جائدادیں اور عیش و عشرت کے سامان سے لبریز ہماری سکونت گاہیں، ان میں سے اگر کوئی شئی اللہ کے راستہ میں جدو جہد اور اس کی حقیقی محبت کے راستے میں آڑے آرہی ہیں تو پھر ایک مسلمان اپنے ایمان کے دعوے میں سچا نہیں قرار دیا جا سکتا ، اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن مجید میں فرمان ہے کہ ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے شدید ترین محبت کرنے والے ہوتے ہیں‘‘ اور محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی اپنے محبوب کے لئے ہر چیز کو قربان کردے، مال و منال اور اہل و عیال کیا چیز ہیں خود اپنی جان کی بھی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جائے۔جن لوگوں کے دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی کے آگے اپنی مرضیات و مرغوبات کو بہت آسانی کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی صرف ایک غلام کی اپنے آقا کے سامنے خوشدلانہ اطاعت شعاری ہی نہیں تھی بلکہ آقا کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک غلام کی لافانی محبت کا اظہار تھی۔اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اللہ کے پاس نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نا ہی(قربانی کے جانوروں کا)خون بلکہ اس کے پاس تو صرف تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘
اس لیے ہمیں عید قرباں سمیت اپنے دیگر سبھی مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔لہٰذا سوچیں اور بار سوچیں کہ کہیں آپ کی قربانی جذبۂ ایثار اور خلوص سے خالی تو نہیں، اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ جومسلمان آج قربانی کررہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں۔ اور ان سبھی قربانی کرنے والوں کےلیے بہت ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت اپنے اندر پیداکریں، دین وایمان اورملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اوردریغ نہ کریں۔ چاہے اپناگھر بار چھوڑناپڑے۔ اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتی کہ اگراپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اورحوصلہ سے کام لیاجائے۔ خاردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سینہ چاک کرنا پڑے پھر بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے خود کومٹاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، حتیٰ کہ کامیابی ہمارے قدم چوم لے۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو اپنی رضا کاسبب بنا کر ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے-(آمین)

نعت پاکِ مصطفیٰ ﷺ غیر منقوط (صنعتِ مہملہ) رشحاتِ قلم، محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی


☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گھُٹ رہا ہے دم مسلسل گرمیِ آلام سے
دو سکوں اہلِ الم کو سردیِ اکرام سے

ہاں وہاں ہم کو عطا ہوگی مئے رحم و کرم
واسطہ ہم کو کہاں ہے وادیِ اوہام سے

ہم کو حاصل ہے حصارِ “سَلّمِ” مولاے کل
سو ارم کی راہ ہوگی ہم سے طے آرام سے

ہادیِ کل کی عطاؤں کا سراسر ہے کمال
ہے معطر سارا عالم وردۂ اسلام سے

لمحہ لمحہ مدح گوئیِ محمد کی مہک
آئے اے مولاے عالم! آہوے احرام سے

مہرِ گردوں کی دمک کو واسطہ کس طور ہو
مدحِ ممدوحِ امم کے مطلعِ الہام سے

در دلِ مداح ہے اک اہرمِ مہرِ رسول
حال اس کا اور ہی ہے مصر کے اہرام سے

کر گئے مردِ دلاور کارِ صمصامِ دو دم
مالکِ کل کے کرم سے، ڈال کی صمصام سے

اسمِ احمد کو مدارِ طائرِ ارواح کر
گھوم اسی کے گِرد آ کے سرحدِ اعلام سے

کر سحَر گاہِ ورَع اعمال کی ہر کوٹھڑی
ہو کے محکومِ الہی لولوے احکام سے

حصہ داری سے ہوئے سر معرکے امکاں سے دور
کام کوئی ہے ہوا ؟ ہٹ کے حدِ اِسہام سے


نوری اک امرِ مسلم، روحِ گل کی ہار، ہے
سرورِ ہر دو سرا کے کاکلِ کاللام سے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رشحاتِ قلم
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۷ / ذو القعدہ ۱۴۴۳ ہجری
۲۸ / جون ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

بچوں کی تعلیم وتربیت ایک اہم بنیادی فریضہ،، از:(مولانا)باقرحسین قادری انواری برکاتی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

بلا شبہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے، اولاد کی اگر قدر سمجھنی ہے تو اس سے سمجھیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نہیں نوازا یا اس سے پوچھیں جس کو اولاد سے نواز کر پھر محروم کر دیا- اولاد ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں انہیں پر گھرانہ،محلہ، شہر اور ملک و ملت کی بھلائی منحصر ہوتی ہے،اولادآنکھوں کے نور اور دل کے سرور ہوتے ہیں،اس لیے فطری طور پر ہر ماں باپ کی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی بہتر سے بہتر تعلیم وتربیت ہو، اور یہ خواہش ہونی بھی چاہیے، کیونکہ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت بہتر سے بہتر طریقے سے کریں، کیونکہ اگر آپ ایک درخت کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کریں گے تو وہ بڑا ہو کر عمدہ اور اچھے پھل دےگا، اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ شیشے کے گلاس کو احتیاط سے رکھیں گے تو اس کے ذریعہ ٹھنڈا اور مز ہ دار شربت پی کر لذت محسوس کریں گے اور اگر آپ نے گلاس کو احتیاط سے نہیں رکھا تو وہ آپ کے لئے زخمی ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے یہی حال بچوں کی صحیح اور غلط تعلیم وتربیت کا ہے-

 آج ہمارے معاشرے میں نیک اولاد کی خواہش رکھنے والے تو بہت ہیں بلکہ شاید ہر شخص ہی ہے لیکن اس کے لئے کوشش کرنے والے اور صحیح طریقے اور تربیت کے اصولوں پر عمل کر کے انہیں راہ راست پر لانے والے بہت کم ہیں، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہےجو ایسا رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جس سے اولاد کے سنورنے کے بجائے بگڑنے کی امید زیادہ ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اولاد سے لاڈ پیار کرتے ہیں اور اس لاڈ پیار میں ان کی اصلاح اور تربیت سے بلکل غافل ہو جاتے ہیں، بعض لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری بھول جاتے ہیں اور پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہاں ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، وہاں ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہے یا نہیں؟ ان کو اللہ وہ رسول کا فرماں بردار بننے اور رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اس پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے-

  یہ بات ہمارے دلوں پر نقش ہونی چاہیے کہ اولاد کو دین دار بنانے کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو دین دار بننا لازمی ہے، دور حاضر میں اکثر بے شعور ماں باپ کی اپنی اولاد کو دین دار دیکھنے خواہش تو ضرور ہوتی ہے لیکن وہ خود دین پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے، اور نیک اعمال و افعال سے بالکل ہی دور رہتے ہیں، ان کی اپنی زندگی میں نہ حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے نہ نماز کی پابندی اور نہ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے، نہ وہ سنتوں کی پابندی کرتے ہیں، پھر بھی ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک اور صالح بن جائے، اس کے لئے وہ اپنے بچوں کو اچھے مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجتے ہیں، با کمال اساتذہ کا انتظام کرتے ہیں، اور انہیں دینی محفلوں وغیرہ میں بھی بھیجتے ہیں،بلاشبہ یہ ساری چیزیں اچھی ہیں مگر بچے اساتذہ اور دینی محفلوں وغیرہ سے زیادہ اپنے ماں باپ اور گھریلو ماحول کو دیکھ کر اسی طرز پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں-

  اولاد کی تربیت بہت ہی نازک اور دیر طلب کام ہے، اس میں سب سے پہلے ماں باپ کو خود دین دار بننا ضروری ہے، خاص طور پر گناہ کبیرہ، بے نمازی پن، بے پردگی، حرام کمائی، گانے بجانے، فلمیں دیکھنے، گالی گلوج، شراب نوشی اور فضول خرچیاں وغیرہ کر نے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا، کیونکہ بچوں کی سب سے بڑی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے کہنے کی صورت میں اتنا نہیں سیکھ پاتے جتنا عملی طور پر کر کے بتانے یا کرتے ہوئے دیکھنے کی شکل میں سیکھ جاتے ہیں، چنانچہ ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، گالی گلوج، رشتے داروں کے ساتھ نا اتفاقی یا کسی قسم کے اخلاقی قدروں کو بچوں کے سامنے پامال کرنا بچوں کی تربیت کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے-

   گھروں میں عام طور پر ماں باپ اور گھر کے بڑے بزرگ کا جیسا مزاج اور رویہ ہوتا ہے اولاد بھی اسی مزاج اور نوعیت کی تربیت پاتی ہے،

ماں باپ ہی اولاد کے لیے سب سے پہلا، سب سے اہم، سب سے بڑا اور سب سے ضروری مدرسہ ہیں، اور بچے ماں باپ کی نصیحتوں سے اتنا کبھی نہیں سیکھ پاتے جتنا ان کے کردار اور باہمی سلوک سے سیکھتے ہیں، کیونکہ بچوں کی تربیت میں والدین کا ہی کردار سب سے اہم ہوتا ہے، بچہ کم عمری میں اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، ہر طرح کے نا پسندیدہ کاموں اور غیر اسلامی حرکتوں سے اجتناب اور پرییز کرتے ہوئے اسلامی اور اچھے اعمال و افعال کا مظاہرہ کرنا چاہیے-

اولاد کی تعلیم و تربیت سے بے توجہی: آج دنیا میں بہت سے لوگ ایسے پاۓ جاتے ہیں جنہیں خود اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی بالکل ہی فکر نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دےکر صرف اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے،ایسے لوگ عموماً اپنے بچوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ بعضوں کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہوتی ہے؟اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں ؟ اس بڑی غفلت کے وہ لوگ بھی شکار ہیں جو خود تو نمازی ہیں،اور کچھ اخلاقی آداب سے بھی واقف ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں ہے، حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لئے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق اور اس کے کردار کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟
بعض لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں، مصلح بھی ہیں، بلکہ مرشد بھی ہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ کی، کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی کتاب لکھی یا کوئی رسالہ ترتیب دیا، لیکن خود اپنی اولاد کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس سے بارہ سال ہو جاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو حقیقی علم سے بالکل ہی محروم رکھتے ہیں، یعنی اپنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے، بیس پچیس سال کی اولاد ہو جاتی ہے اور انہیں کلمہ تک یاد نہیں رہتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اس کے فرائض و واجبات، اور نہ ہی اسلام کے بنیادی عقائد کی انہیں خبر ہوتی ہے، گویا وہ مبادیات اسلام و ضروریات اسلام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اس بات کے جواب دہ ان کے ساتھ ان کے والدین بھی ہوں گے-
اور بعض والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا احساس تو رکھتے ہیں لیکن اسے معمولی بات سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بہت ہی عظیم اور اہمیت کی حامل بات ہے، اور اس جانب والدین کی کم توجہی نا قابل تلافی نقصان کا ذریعہ بن رہی ہے، اور یہ نقصان دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، اور اگر والدین چاہیں تو ایک ذرا سی توجہ سے انقلابی تبدیلی اور بدلاؤ ظاہر ہو جائے گی(ان شاءاللہ)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جنہیں دن رات اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے اور وہ اس کے لئے کئی طرح کی قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے علاوہ اکثر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے آخر ایسا کیوں ؟ کیونکہ کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کے خواہش مند تو ہوتے ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں و اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور مستقل مزاجی اور تسلسل سے یہ کام نہیں کرتے-

     آئیے ہم بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے بارے میں کچھ اصول درج کرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو اپنا کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی جانب دھیان دیا تو ان شاءاللہ ہمارے بچے دین دار اور قوم وملت کے لئے نفع بخش ثابت ہوں گے-

بچوں کی صحیح تربیت کے لیے کچھ اہم امور و رہنما اصول:-

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ اس کی اچھی تربیت ہے،جو بچوں کو اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے، اس تربیت کا سب سے اہم پہلو بچوں کے ساتھ والدین خاص طور پر ماں کے طرزِ عمل سے متعلق ہیں اس بارے میں کچھ اصولی باتیں درج کی جا رہی ہیں!

★بنیادی دینی تعلیم :- ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے، قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے، سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے، بچوں کو بالکل ابتدا(شروعاتی دور) سے اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا اور انہیں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے کام کو ملاحظہ فرما رہا ہے-

★اخلاقی تربیت :- بچوں کو ابتدائی عمر سے اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانتداری ، بہادری ، احسان شناسی ، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوج اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے، شروعاتی عمر سے ہی محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے-

★جسمانی تربیت:- والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما غزا اور آرام کا خیال رکھا جائے، اور انہیں ورزش کا عادی بنایا جائے، جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے-

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لئے پرہیز کرنا لازم ہے:-
(1) تحقیر آمیز سلوک:- بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے، بچوں کی توہین و تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے-
(2) سزا میں اعتدالی:- بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے-
(3) بےجا لاڈ پیار:- بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے اس میں بھی اعتدال نہایت ضروری ہے-
(4) بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا:- ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو کر انتہاء پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے-
ان اصولی باتوں کے علاوہ چند عملی اقدامات درج کر رہے ہیں، جن پر والدین آسانی سے عمل کر سکتے ہیں-
(1) اپنے خاندان میں بالخصوص بچوں کے ساتھ جہاں تک ہوسکے زیادہ وقت گزارا جائے، اپنی معاشی جدوجھد و دیگر مصروفیات کو اس طرح تربیت دیا جائے کی لازماً کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا جا سکے، بچوں کی تعلیم وتربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نا مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے، مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزآنہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں-
(2)بچوں کوسخت باشی، جد وجہد اور محنت کا عادی بنانے کے لئے انہیں ایک درمیانی معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے، تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پر مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں-
(3) اولا تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے، اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے، اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابند بنایا جائے، بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو، والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے مگر ابتداء سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا ان کے مستقبل کے ساتھ سنگیں مزاق ثابت ہو سکتا ہے، اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ وطالبات ہوتے ہیں، اس طرح ان میں غیر مطلوب مقابلہ آرائی کو روکا جا سکتا ہے-
(4)ابتداء ہی سے بچوں سے خود انحصاری یعنی “اپنی مدد آپ” کے اصول پر کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے، کمرے کو ترتیب دینے،اپناکپڑا خود دھونے اور بستر وغیرہ لگانے اوت کپڑے سمیٹنے وغیرہ کی عادت ڈالی جائے-
(5)والدین کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں-مثلاً اپنے دادا دادی ودوسرے بزرگوں کی برابر خدمت کرتے رہیں-
(6)بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں و ملنے جلنے والوں کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عموما غلط صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے-
(7) بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے،اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے، مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے، والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کرینگے-
(8)اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے، بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسبِ موقع تادیب انہیں اصلاح کا موقع فراہم کرےگی اور وہ عدل اور انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے-
(9)بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کی جائے تاکہ ملک و ملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو، موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے،مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے اس رویّے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا-
آخر میں اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ھیکہ اللہ وحدہ لا شریک ہمیں اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت دینے کی توفیق بخشے، تاکہ یہی ہمارے بچے کل بڑے ہو کر قوم وملت اور اپنے ملک کی خدمت کر سکیں اور نیک و صالح معاشرہ کو قائم کریں-آمین!

نعتِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ،،از قلم زاہد رضا فانی بدایونی

مکمل کلام براۓ بزم فن شاعری

اپنی رحمت سے خدا رکھے گا ہر آن الگ
ان کے دامن سے ہوۓ تم جو شریمان الگ

جاۓ گا جان جو آقا پہ نچھاور کرکے
خلد میں اس کا کیا جاۓ گا سمان الگ

یادِ سرکار سے ہر لمحہ رہے وابستہ
ایک لمحے کے لیے بھی نہ رہے دھیان الگ

اُن کے جیسا نہیں انسان زمانے میں کوئی
سارے انسانوں میں سرکار ہیں انسان الگ

ہے نگاہوں کو مدینے کی زیارت کی طلب
اور مرنے کا وہیں دل میں ہے ارمان الگ

شوقِ دیدِ نجف و کرب و بلا ہے دل میں
دیدِ بغدادِ معلی کا ہے ارمان الگ

کیجے احکامِ شریعت کی اطاعت دل سے
دائمی آپ سے ہو جاۓ گا شیطان الگ

جب کبھی نعت پڑھی آپ کی آقا میں نے
فضلِ رحمان ہوا آپ کا فیضان الگ

سامنے رب کے کھڑے ہوں گے صفِ محشر میں
دیو کے بندے الگ سنی مسلمان الگ

اے بریلی کے رضا خان تمہارا مسلک
“ہم غلامانِ محمدﷺ کی ہے پہچان الگ”

شیخ محمود کی بھی ہو گئی رحلت جگ سے
سنیت کا ہوا اک اور یہ نقصان الگ

واصفِ شاہِ ہدی لوگ تجھے کہتے ہیں
اور کیا چاہیے فانی تجھے پہچان الگ

نتیجۂ فکر ۔زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

نعت سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

جو ذکر سید کونین کی محفل سے آئے ہیں
وہ رافت کے سمندر کے لب ساحل سے آئے ہیں

حضور اپنا رخ زیبا دکھا دو ، کیف مل جائے
تمھاری بارگہ میں ہم بڑی مشکل سے آئے ہیں

ہمیں رستہ دکھا دو منزل حسان کا آقا
تمھاری نعت کی ہم پہلی ہی منزل سے آئے ہیں

عصائے نعرہ ء تکبیر سے ان کو کچل ڈالو
عجب ہیں سانپ زہریلے جو باطل بل سے آئے ہیں

نبی کے واقعے قرآن و سنّت سے ہیں وابسطہ
نہ سمجھیں آپ یہ قصے کسی ناول سے آئے ہیں

ہماری زیست میں جو راحت و آرام کے ہیں نور
وہ بحر رحمت شہ کے لب ساحل سے آئے ہیں

چھپالے گا انھیں دست شفاعت میرے آقا کا
اگرچہ بل گناہوں کے مری فائل سے آئے ہیں

حقیقی عشق اور تبلیغ سیرت کے حوالے سے
طریقے مجھ میں حضرت مرشد کامل سے آئے ہیں

طریق عشق محبوبی میں وہ کامل نظر آئے
جو بزم الفت احمد میں” عینی” دل سے آئے ہیں
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی