WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives August 2022

⚠️یہود کی اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ⚠️✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

دوران مطالعہ ایک بڑا عجیب اور دل دہلا دینے والا واقعہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔۔اس کو میں مختصراً اور بلا تمہید ذکر کرتا ہوں

برطانیہ (britain) میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان نے برطانوی عیسائی دوست سے کہا۔۔ کہ مجھے کوئی انوکھی جگہ دکھاؤ ۔جہاں ہم پکنک کر سکیں۔انگریز دوست نے ایک جگہ جانے کا پروگرام بنایا اور اپنے مسلمان دوست کے لیے وہاں جانے کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس انگریز نے کہا کہ وہ بہت پر اسرار جگہ پر لے کر جائے گا، دونوں وقت پر اپنی گاڑی سے اس پر اسرار مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک جنگل پہنچے۔ مسلمان دوست کا بیان ہے کہ جنگل میں فوجی چھاؤنیاں تھیں، جگہ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اور اجازت نامہ دیکھا گیا۔۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ہمیں اپنی گاڑی بھی چھوڑنی پڑی ۔ عیسائی دوست نے بتایا کہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ جانا ہوگا۔ اور ایک چیز کا خیال رکھنا کہ وہاں کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔۔۔
انٹری گیٹ سے گزر کر ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا ۔ اندر بہت سی عمارتیں تھیں ۔پیدل چلتے ہوئے ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے ۔جہاں کلاس روم بنے ہوئے تھے۔ کلاسوں میں بچے قرآن مجید حفظ کر رہے تھے ۔ کس کلاس میں عربی ، فارسی، تفسیر و حدیث اور فقہی مسائل پڑھائے جا رہے تھے ۔ الغرض ، ان تمام کلاسوں میں اسلامی دینی تعلیم پڑھنے پڑھانے کا انتظام تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہم جنگل سے باہر آئے اور انگریز دوست سے میں نے کہا ۔ یہ کونسا عجوبہ تھا ، ایسے مدارس تو پاکستان میں بہت ہیں۔
تو اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں دیکھا ؟ کہ جگہ ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی ۔
یہ اس لیے کہ یہاں جو بچے قرآن وحدیث اور اسلامیات پڑھ رہے ہیں ۔ وہ تمام یہودی بچے ہیں ۔ انہیں عرب و عجم کے مسلم ممالک کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ (ماہنامہ پیغام شریعت دہلی ، ص 51)

ٹھہریے!!!
اور غور کیجیے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کس قدر سازشی انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں. ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جب دشمن ہمارے قرآن و حدیث اور فقہ کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس کے دفاع کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم بھی اپنی قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کا عالم بنائیں تاکہ جب ان مقدسات پہ وہ اعتراضات لے کر آئیں تو ہم جواب دے کر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرسکیں ۔
قارئین کرام! یاد رکھیں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سب سے اہم ہے، اور فریضے کی ادائیگی عالم بن کر ہی کی جاسکتی ہے اس لیے خود بھی علم دین حاصل کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی سکھائیے ۔ پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی حفاظت کے لیے” بنیان مرصوص “ کا پیکر بن جائیے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

مقالاتِ بدر،،مقالہ نگار : حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی(علیہ الرحمۃ والرضوان)

رسم اجرإ: شہزادہ صدرالشریعہ حضور محدث کبیر علامہ ضیإالمصطفٰے قادری امجدی کے ہاتھوں 28/ اگست کو ہوگا۔

جمع و ترتیب: محمد ذیشان رضا قادری امجدی صاحب

ناشر: اسلامک اکیڈمی گھوسی مئو یوپی

صفحات: 550


مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہتا ہے بلکہ اسے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔

اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔
مقالات مفتی اعظم ہند ،مقالات نعیمی، مقالاتِ شارح بخاری ، مقالاتِ سعیدی، مقالات مصباحی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ انہیں میں سے ایک حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی (علیہ الرحمۃ والرضوان)
(٢٥ اکتوبر ١٩٥٠ء-١٧اگست ٢٠٢١ء) بھی ہیں۔

ماہنامہ اشرفیہ کے پہلے ایڈیٹر ہونے کے علاوہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور المجمع اسلامی کے مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ٣٠ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں سیکڑوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں بزم اولیاء ، اسلام اور خمینی مزہب ، جادہ و منزل ، مسلمان اور ہندوستان ‘ پیکر عشق سیدنا ابوذر غفاری، اسلام اور امن عالم، اور حیات حافظ ملت ‘ زیادہ معروف ہیں

مقالاتِ بدر

ان ٨٥ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں ماہنامہ اشرفیہ اور ماہنامہ حجاز دہلی، ماہنامہ قادری میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ اسلامیات، تزکرہ، تاریخ، سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔

منقبت در شان حضرت بابا تاج الدین علیہ الرحمہ ۔۔از: سید خادم رسول عینی

سیدوں کے پیشوا ہیں شاہ تاج الاولیاء
چرخ عظمت کی ضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دنگ سارے ہوگئے انگریز ان کو دیکھ کر
باکرامت پرضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ حضرت عسکری کی منفرد اولاد ہیں
چہرہ دیکھو خوش نما ہیں شاہ تاج الاولیاء

دیکھنے سے جن کو یاد آئے خدائے دوجہاں
جذب کا وہ آئینہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

ایک ہی ہے وقت لیکن دو جگہ پر ہیں مقیم
سوچنا مت گمشدہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کی برکت ہے ایسی، نیم بھی میٹھا ہوا
سب نے دیکھا خوش ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ‌ کی موجودگی سے خوب تر ہے ناگپور
ایسے محبوب خدا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دے دیا جب حکم تو مردہ بھی زندہ ہوگیا
غوث اعظم کی ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کے در سے کوئی خالی نہیں لوٹا کبھی
صاحب جود و سخا ہیں شاہ تاج الاولیاء

وقف کردی خدمت دیں کے لئے عمر تمام
خوب “عینی “باوفا ہیں شاہ تاج الاولیاء
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غوث العالم سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا آخری نصیحت نامہ،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


جب حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا دن قریب آیا ماہ محرم الحرام کا تھا ایک محرم الحرام سے لیکر دس محرم الحرام تک حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب کےساتھ ملکر قرآن پاک کی تلاوت مع قرأت کے کرتے رہے اُنہی ایام میں اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ[میری قبر باغ کے درمیان بناو اور طول وعرض اتنا ہوکہ نماز پڑھی جاسکے]حکم کے مطابق مرقد مبارک تیار کیا گیا پھر حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ خود ہی مرقد کے معاٸنہ کیلٸے تشریف لے گٸے پھر اُنہی ایام میں اپنے جملہ اصحاب اور خصوصا اپنے سجادہ نشین حضرت مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور[رضی اللہ عنہما] المعروف حضرت نور العین رضی اللہ عنہ کو صبر و استقامت کی تلقین فرماتے رہے پھر ایک دن حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ چند ورق سادہ کاغذ کا لیکر اس مرقد مبارک پر تشریف لے گٸے جو کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق آپ ہی کے لیٸے بنایا گیا تھا چنانچہ مکمل ایک رات دن اس بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے وقت گذارے اور وہی بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر ان سادھے کاغذوں پر یہ نصیحت نامہ تحریر فرماکر تشریف لاٸے جس میں حمد ونعت کے بعد یہ تحریر تھا کہ[میرے برادان احباب اور اصحاب کو معلوم ہو کہ میں اللہ(عزوجل)اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتا ہوں اور اسلام کے احکام کا پابند ہوں میرا عقیدہ ہیکہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے سب اصحاب(رضی اللہ عنہم اجمعین)مسلمین و تابعین افضل تھے اور اصحاب (یعنی اصحاب مُحَمَّد ﷺ)میں افضل واعلی ابو بکر(رضی اللہ عنہ)ہیں اُن کے بعد عمر۔پھر۔عثمان۔پھر۔مولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)میرے فرزندوں اور معتقدوں کو معلوم ہوکہ میرا یہی عقیدہ تھا۔یہی ہے۔اور یہی ابد تک رہے گا۔جس شخص کا یہ اعتقاد نہ ہووہ گمراہ اور زندیق ہے میں(یعنی سید اشرف سمنانی) اس سے بیزار ہوں اور خدا اس سے راضی نہیں۔حق سبحانہ کی تجلی ستر ہزار بار اس فقیر پر ہوٸی۔اور اس قدر نوازش اور مرحمت ہوٸی کہ تحریر میں نہیں آسکتی۔عالم ملکوت سے ندا آٸی کہ اشرف ہمارامحبوب ہے۔اس کے سب مریدوں کے گناہ ہم نے معاف کٸے اور اُن کو اشرف کے طفیل میں بخشا۔یہ آخری بشارت میں(سید اشرف سمنانی) سب بھاٸیوں اور دوستوں کو پہنچاتا ہوں](ماخوذ از رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف)
بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت
ہر سال کی طرح اس سال بھی عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوگی ان شاءاللہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین کو بشارت عظمہ سنائی ہے سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہیکہ جو شخص میری قبر پر حاضری دیگا ان شاء اللہ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی(بشارت المریدین قلمی-بحوالہ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبر ص ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء)
ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ
اشرفی تو ناز کر اشرف پر
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﮐﺤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﺒﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺠﺎﺩﮦ ﻧﺸﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﻼﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺑﮍﯼ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﮔﺬﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺷﺒﮩﯿﮧ ﻏﻮﺙ ﺍﻻﻋﻈﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻗﻄﺐ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪﻃﺎﮨﺮ
ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻ ﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﺸﺎﺋﺦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺑﮭﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔

۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔
تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی
خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال
مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
7030786828

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار,, تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو،، از قلم ،محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار
تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو

آج میرے ساتھ ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا ۔کہ

جیسے ہی میں لائبریری میں داخل ہوا ۔اور استاذ محترم سے کچھ عرض کرنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا۔کہ یکایک ایک کبوتر اڑا اور پنکھےکی زد میں آ کر اس کا ایک بازو کٹ کر الگ ہو گیا۔ استاذ محترم نے فوراً اپنے روم سے مرہم منگایا،پٹی بھی کی گئی۔لیکن! وہ بچ نہ سکا۔افسوس…… اس دکھی منظر کو دیکھنے کے بعد انگریزی کا ایک بڑا پیارا جملہ یاد آگیا ۔ شاید اس نے بھی ایسا دکھی منظر دیکھا ہو؟ وہ جملہ کچھ اس طرح سے ہے ” A CHILD WITHOUT EDUCATION IS LIKE A BIRD WITHOUT WINGS” یعنی۔ جس طرح پر(wing) کے بغیر پرندہ، پرندہ نہیں بالکل اسی طرح علم کے بغیر انسان، انسان نہیں اور علم بغیر محنت کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتا ہے۔۔
“Study while others are sleeping ..
Work while others are loafing .
Prepare while others are playing.
Dream while others are wishing.”

یعنی “آپ اس وقت مطالعہ کریں جب سب مزے سے سو رہے ہوں،
آپ اس وقت محنت کریں جب دوسرے لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوں،
اس وقت آپ تیاری کریں جب دوسرے کھیل رہے ہوں
اور آپ خواب دیکھیں جب سب خواہش کر رہے ہوں، سیدھا سا مطلب یہ کہ- ان نصائح پر عمل کرنے کے بعد آپ تو اپنے خوابوں کو پورا کر چکے ہوں گے ، رہے دوسرے لوگ تو وہ صرف خواہشات میں گرفتار ہوں گے”۔۔۔
یہ وہ اصول ہیں، کہ جن پر ہمیشگی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ عربی شاعر کہتا ہے۔
“بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي”
۔ یعنی ۔کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

تکبر ایک مہلک مرض ہے،، :✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ اتردیناجپور مغربی بنگال

  اللہ تعالی نے انسان کو جن نعمتوں سے مالامال کیا ہے  ان کے بدلے میں اگر انسان اللہ تعالی کا شکر بجا لائے  اور تحدیث نعمت کے طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کرے تو اللہ تعالی مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے

اللہ کریم کا ارشاد ہے
“لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ”
اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا (ابراہیم آیت 7)
لیکن اگر اللہ عزوجل کی دی ہوئی نعمت کو محض اپنی کاوشوں سے حاصل شدہ خیال کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے ظاہر کرے اور اپنے آپ کو اعلی سمجھے اور دوسروں کو حقیر تو یہی تکبر کہلاتا ہے ،تکبر ایک ایسا باطنی مرض ہے جس کو لاحق ہو جائے وہ ہلاک و برباد ہو جاتا ہے جس طرح معلم الملکوت (فرشتوں کے استاد) کامرتبہ پانے والے ابلیس نے تکبر کیا تو اپنے اعلیٰ ترین مقام ومنصب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا،
حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا:کہ تکبر کا علم سیکھنا اہم فرائض میں سے ہے (فتاویٰ رضویہ ج 23 ص 624 )
ذیل میں تکبر کی مذمت کے حوالے سے چند فرامین مصطفی ﷺ تحریر کیے جاتے ہیں ان کو گہری نگاہ سے پڑھئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ کہیں یہ مہلک بیماری ہمارے اندر تو نہیں پائ جاتی ہےاگر احساس ہو تو فوری طور پر صدق دل سے توبہ کیجۓ
(1) حضور پاک ﷺنے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث نمبر91)
(2) آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں (احیاء العلوم ج 3 ص 991 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
یعنی عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ان دونوں میں اس کا کوئ شریک نہیں
جس طرح کوئ شخص اپنی چادر اور تہبند جو کہ اس کا لباس ہوتا ہے اپنے علاوہ کسی غیر کو شریک نہیں کر سکتا
(3)سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا کہ بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار ﷻ کو بھول جائے ،بدتر ہے وہ شخص جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول جائے،بدتر ہے وہ شخص جو غافل ہو اور کھیل کود میں پڑا رہے اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہونے کو بھول جائے (احیاء العلوم ج 3 ص992 العلمیہ المدینہ دعوت اسلامی )
(4)مدینے والے آقا ﷺنے فرمایا ہر سخت مزاج اترا کر چلنے والا، متکبر ،خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جب کہ اہل جنت کمزور اور کم مال والے ہیں (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
(5) جو شخص اس فانی دنیا میں اپنی دولت، شہرت، اور عزت پر تکبر کرے گا تو اسے قیامت کے دن ذلیل و خوار کرکے اٹھایا جائے گا چنانچہ ہمارے پیارے آقاﷺ نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکل والی چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی،انہیں جہنم کے بولَس، نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ،انہیں ،،طینة الخبّال یعنی جہنمیوں کی پیپ ،،پلائی جائے گی (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں اور حدیثیں تکبر کی مذمت پر موجود ہیں جوکہ یہاں لکھنا ممکن نہیں
،اللہ تعالی ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب.. از ۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


آج کل ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مزارات مقدسہ پر جس طرح کے ایمان سوز میلے ٹھیلے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں ہمہ قسم کی دھما چوکڑی مچائ جاتی ہے علماء اہل سنّت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے میلوں پر جانے سے سختی سے روکیں یہ میلے ٹھیلے جہاں مزارات کی سخت بے حرمتی کا سبب ہیں انہیں سے اہل سنت کی بھی شدید بدنامی ہو رہی ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اور خطباء و مقررین کے قلم اور زبانیں اس سلسلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنے سے کیوں عاجز آگیے ہیں اس میں کوی شق نہیں کہ عرس کی محفل. منعقد کرنا شرعی طور پر ایک جائز کام ہے جس سے بہت سے دینی مصالح اور شرعی فوائد وابستہ ہیں لیکن عرسوں کے آڑ میں فواحش و منکرات کا بازار گرم کرنا جوا کھیلنا شراب پینا سرکسیں منعقد کرنا نیم عریاں عورتوں کا رقص کرنا کان پھاڑ نے والی آوازوں کے ساتھ سارے شہر میں گانوں کا گونجنا بدکاری حرام کاری کی دعوتوں کا عام ہونا کیا یہ بھی کوئ عرس کا حصہ ہیں؟ یا پھر عرس کے دنوں میں یہ گندے اور غلیظ کام جائز ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مزارات کے زیر سایہ ان تمام بدکاریوں کو دینی جواز فراہم کر دیا گیا ہے اور جاہل لوگ ان خبیث کاموں کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یہ میلے ٹھیلے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں غنڈے لوفر بدمعاش چور اچکے زانی قاتل ڈاکو لوطی مراثی جواری شرابی غرضیکہ دنیا بھر کے ذلیل ترین اور ننگ انسانیت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ان مقامات مقدسہ پر ہر وہ بدترین کام ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے جس سے اِنسانیت منھ چھپائے پھر تی ہے اور اسلام کا سرعام جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے _
مزید برآں ان میلوں ٹھیلوں کا مسلک اہل سنت کے سر تھوپنا بھی ایک جاہلانہ اور شیطانی حرکت ہے کیونکہ علماء اہل سنّت انہیں کل بھی حرام قرار دیتے تھے اور آج بھی حرام قرار دیتے ہیں ہم میلوں کی ان تمام غیر شرعی رسوم و روایات سے کلیتا بے زاری کا اعلان کرتے ہیں _ لیکن ناجائز کاموں کو دیکھ کر جائز کاموں کو بھی ناجائز قرار دے دینا بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے میلے ٹھیلے منعقد کرنا اگر عملی جہالت ہے تو عرسوں کو ناجائز قرار دینا علمی جہالت ہے لہذا مہر بانی فرما کر ناجائز سے روکیں اور جائز کو جائز رہنے دیجئے
خیر! آمدم برسر مطلب ان میلوں ٹھیلوں کا نہ تو دینی و شرعی جواز ہے اور نہ ہی قانونی و اخلاقی یہ چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے ہزاروں میلے ظلم ہی ظلم اور جرم ہی جرم ہیں ان سے رکنا اور روکنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے خاص طور پر علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ان اسلام کش اور دین دشمن میلوں کا خلاف برسر پیکار ہوجائیں اور اپنی تمام تر علمی و عملی توانائیوں کے ساتھ انہیں رکوا کر ہی دم لیں..
اگر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر اپنا یہ فرض ادا نہ کیا تو پھر وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لیے تیار ہو جائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلط کام کو دیکھے اور اس سے نہ روکے تو وہ گونگا شیطان ہے ہمارے بہت سے خطباء و مقررین جو علم سے کورے ہوتے ہیں اور فقط سُر گُر کی بنا پر عوام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیتے ہیں میلوں ٹھیلوں کا اس جرم میں وہ بھی برابر شریک ہیں کیونکہ وہی ان میلوں پہ جاکر تقریریں کرتے ہیں اور عوام کی صحیح تربیت کر نے کہ بجائے انہیں لطیفے چٹکلے سناتے ہیں نیز انہیں یہ حق ہی کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو وعظ سنائیں جبکہ ان کا وعظ سنا ہی شریعت میں حرام ہے وعظ کرنے کے لیے آدمی کا مستند عالم ہونا ضروری ہے جو نہ صرف یہ کہ شہاۃ العالمیہ پاس ہو بلکہ اس کے ساتھ علم دین پر کامل عبور بھی رکھتا ہو

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

حسینیت کے طرف دار کم نہیں ہونگے
خدا کے دیں کے مددگار کم نہیں ہونگے

تمہارا وصف نرالا ہے ، خوب سیرت بھی
تمھارے واصف کردار کم نہیں ہونگے

تمھارا عشق ہے پیوست دہر کے دل میں
تمھارے عشق کے عمار کم نہیں ہونگے

تمھارے چاہنے والوں نے یوں سجائے چمن
تمھارے پیار کے اشجار کم نہیں ہونگے

مشن پہ آپ کے چلتے ہیں اہل دیں اب بھی
جہاں میں صاحب کردار کم نہیں ہونگے

پلایا عشق محمد کا جام آپ نے یوں
کبھی بھی عاشق سرکار کم نہیں ہونگے

کہا یہ ابن مظاہر نے ہم بہتر ٧٢ ہیں
کبھی بھی اس سے اے سرکار کم نہیں ہونگے

یزیدی شر کو جلا ڈالا نار ذلت نے
تمھارے خیر کے انوار کم نہیں ہونگے

اے سبط سرور کون و مکاں شہا تم سے
جڑے ہیں قلب کے جو تار کم نہیں ہونگے

ہے شکر “عینی” خداوند کا، عزیمت کے
چراغ ان سے ہیں ضو بار کم نہیں ہونگے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

सेहलाऊ शरीफ में हर्ष व उल्लास के साथ मनाया गया 76 वाँ स्वतंत्रा दिवस

रिपोर्टर:बाक़िर हुसैन क़ादरी बरकाती अनवारी।खादिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,तह:रामसर,ज़िला:बाड़मेरराजस्थान

हर वर्ष की तरह इस वर्ष भी इलाक़ा-ए-थार की मरकज़ी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा दरगाह हज़रत पीर सय्यद हाजी आ़ली शाह बुखारी पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ में जश्ने यौमे आज़ादी [स्वतंत्रा दिवस] जोश व जज़्बा के साथ मनाया गया।
सब से पहले “ध्वजारोहण” हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी के हाथों किया गया।
फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के बच्चों द्वारा क़ौमी व वतनी तराने पढ़े गए,उस के बाद मुख्य अतिथि नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी व हज़रत मौलाना मोहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने बच्चों के ज़रिया पेश किये जाने वाले प्रेड का निरीक्षण किया और दारुल उ़लूम के कई बच्चों ने हिंदी,उर्दू व अंग्रेज़ी भाषा में देश की आज़ादी के लिए अपनी जान की बाज़ी लगाने वाले जाँबाज़ों के बारे में लोगों को संबोधित किया।
प्रोग्राम का संचालन अनवारे मुस्तफा माध्यमिक विद्यालय सेहलाऊ शरीफ के प्रधानाचार्य मास्टर मोहम्मद यूनुस खान साहब व मास्टर अहमद रजा ने कीॆ-
आखिर में हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी ने लोगों को मुजाहिदीने आज़ादी और देश से मुहब्बत करने के बारे में खिताब करने के साथ सभी लोगों को 76 वें स्वतंत्रा दिवस की मुहारकबाद पेश की।
फिर अमृत महोत्सव कार्यक्रम के तहत तिरंगे के साथ शांदार रैली निकाली गई।
बच्चों के रंगारंग कार्यक्रम ने सब का मन मोह लिया।
इस जश्ने आज़ादा में शरीक सभी लोगों का शान्दार मिठाइयों से मुंह मीठा किया गया, और लोगों ने एक दोसरे को यौमे आज़ादा की मुबारकबाद पेश की-
दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्थान के प्रबंधक पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की तरफ से प्रोग्राम में हिस्सा लेने वाले सभी बच्चों को इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा गया।
इस प्रोग्राम में विशेष तौर पर यह हज़रात उपस्थित रहे।
हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम हाज़ा,पीर सय्यद ग़ुलाम मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी,मौलाना सय्यद जान मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी,हज़रत मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना खैर मोहम्मद क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना जमालुद्दीन क़ादरी अनवारी, हज़रत मौलाना अ़ब्दुर्रऊफ जामई, हज़रत मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही, मौलाना इल्मुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना इस्लामुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना अ़ब्दुल हलीम क़ादरी अनवारी,हाफिज़ व क़ारी बरकत अ़ली क़ादरी,मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी,हाफिज़ क़मरुद्दीन क़ादरी अनवारी,क़ारी अरबाब अ़ली अनवारी,मौलाना मोहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर शेर मोहम्मद खान,मास्टर मोहम्मद इस्हाक़ खान, मास्टर ताहिर साहब सेहता,मास्टर मक़बूल खान,मास्टर मोहम्मद सुलेमान,मास्टर मुरीद साहब वग़ैरहुम…

]