WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives September 2022

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی…از قلم۔محمد توحید رضا اویسی احسنی متعلم: جامعہ احسن‌البرکات مارہرہ شریف

گزشتہ چند برسوں میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقّی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہونچا دیا ہے یہ تمام کتاب و مطالعہ کی مرہونِ منّت ہیں لیکن جس کتاب کی بدولت یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں،اسی کتاب سے بحیثیتِ مجموعی ہمارا رِشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
آج تمام نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اتنی بری طرح سے گرفتار ہیں کہ جو وقت کتاب بینی کا حق تھا وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذر ہو گیا۔ اور اب فیس بُک ،وہاٹس ایپ ،ٹویٹر موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کُتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آ گئی ہے۔انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند ہوتا جا رہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے جو ہمارے اسلاف کے دور میں تھا۔
اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اور طالب علم کا تعلق صرف نصابی کُتب تک محدود ہو کر ره گیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیرِ اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیر نصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کُتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیاجاتا ہے۔
اگر چہ آج کمپیوٹر و موبائل میں مطالعہ کرنے کے متعدّد مواقع موجود ہیں۔لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے۔اس کا مقابلہ دیگر ذرائع نہیں کر سکتے۔کتاب اور انسان کا رِشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تہذیبِ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو۔
یاد رکھیں کُتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتا ہے۔علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی مشعل راہ کا کام دیتا ہے،یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہوں وہ اس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے در نایاب چن سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے اسی لیے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی ان کے نام آسمان علم کی افق پر جگمگا رہے ہیں۔
امام غزالی،ابو نصر الفارابی، ابن رشد،جابر بن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدراشخاص کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں، ویسے تو ہمارے علاقے میں علمی دنیا کے وہ قدآور ستون موجود ہیں جن کے ناموں اور کاموں کا احصاء دشوار ہے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے مطالعہ اور کتب بینی کا ذوق ابھارنے کا درس دیا۔
اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تابانی سے عالم کو منور کرنے والے اور ہر سو اجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اقوالِ دانشوراں: ذوق مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں: کہ تیل کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا
تھا‌۔
امام زہری کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اِدھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔ بیوی ان کے اس عادت سے سخت ہیچ و تاب کھاتی۔ ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔
میں کالے کا قول ہے کی وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کومطالعہ کا شوق نہیں۔
“مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے” مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اور اس کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔”امریکا کا مشہور صدر ابراہم لنکن کہتا ہے” کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے.
“والٹیئر کا قول ہے”وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں.
اپنے ڈیسک کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے: کہ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کے بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی زندہ کردار موجود ہیں، جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اور دن دوگنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں، ان لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
کُتب بینی کے نقصانات: ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق تقریبا دم توڑ چکا ہے بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو ذوق کتب بینی کی حلاوت سے آشنا،کتاب دوستی پے نازاں اور کتابوں کی معیت میں فرحاں و شاداں ہیں ورنہ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہوئے ہیں وہ اپنی نظروں کے سامنے “کتاب” کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی برداشت کرسکتے ہیں۔
کتاب پڑھنا ان کے لئے ہاتھ میں انگارہ لینے کے مترادف ہے وہ دنیا کی رنگینیوں، فضول اور واہیات مجلسوں، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ وجوہ راضی و قانع ہیں۔
ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود، ناچنے تھرکنے، نت نئی فیشن اختیارکرنے، ملبوسات کے نئےاسٹائلز زیب تن کرنے، بالوں کی تراش و خراش درست کرنے اور خوب سے خوب تر بلکہ خوب رو ہونے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ان امور سے کئی گنا اہم کام ان کی نگاہ میں فضول، بے معنی،بےوقعت اور ہیچ ہیں۔
عدمِ رغبت کے اسباب اور انکا تدارک: لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب ان کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح و تربیت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ چکے ہیں وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا درس دے کر ان کی مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوس کر دیتے ہیں۔
اس لئے کہ یہی نونہالان قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھرمار کا پلندہ ہے۔
یہ کتب بینی سے دوری اور بُعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدردانی اور مرتبہ شناسی کا عنصرناپید ہے۔
اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدمِ واقفیت اپنے عروج پر ہے اس سے زیادہ پُرخطر، باعث تشویش، قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابل افسوس، قابل ماتم،اور قابل مذمت ہے۔
رغبت کے اسباب:کُتب بینی انسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہے اور دوسروں کے خیالات کو جاننے میں موقع فراہم کرتی ہے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں اسرار موتی بند
ہیں۔
کتابیں شخصیت سازی کا ایک کارساز ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہیں۔زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں جو قومیں کتابوں سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں جن کا تعلق کتب بینی سے مضبوط رہا ہو۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل رک جاتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرہ کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے ۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت، حلاوت، شیرینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور انہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں۔ اپنے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ سچے مسلمان ہونے کا درس دیں تو قوی امید اور مہذب ترین اقوام میں شمار ہونے لگے گا- [ان شاءاللہ]

      کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے
    یہ آخری صدی ہے ،کتابوں سے عشق کی ۔

شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ… از قلم :شیخ منتصر احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جنکے نشاں کبھی
یوں تو برِصغیر ہندو پاک میں بہت سے اجلہ علماء اور مشائخ کی ولادت ہوئی جنہوں نے اسلام و سنیت کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور لوگوں کے لیے اپنی تصنیفات و تالیفات اور باقیات صالحات کو مشعل راہ بنا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں 20 / ویں صدی کے نصف میں پیدا ہونے والا وہ مرد قلندر بھی ہے جس کی تصانیف ساری دنیا کے اردوداں حضرات کے قلوب و اذہان کو مسخر اور فتح کر چکی ہیں – جس کی تحریروں نے بدعقیدگی و گمراہی و ضلالت کے سیلاب اور طوفان کا رخ موڑ دیا، ملکی پیمانہ پر بدمذہبی اور لا دینی کے پھوٹنے والے چشموں کے سوتے جس کے نوکِ قلم کی سیاہی سے بند ہوتے نظر آئے – جس نے بروقت اور بلا تاخیر اپنی تحریروں، تقریروں، اور فتاووں کے ذریعہ اکناف و اطراف ہند سے اٹھنے والے ہر فتنہ کا سد باب کیا – اس ذات گرامی کو زمانہ فقیہ اعظم ہند، نور دیدۂ مشائخ مارہرہ، برکاتی مفتی ، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی برکاتی علیہ الرحمہ کے نام سے موسوم کرتا ہے –
فقیہ أعظم ہند جماعت اہل سنت کی آبرو اور ایک قیمتی امانت ہونے کے ساتھ، عظیم دینی و مذہبی رہنما بھی ہیں جماعت، اہل سنت کو اس عظیم شخصیت پر ہمیشہ ناز رہا – آپ آفاقی فکر و نظر کے حامل، پر عزم حرکت و عمل کی چلتی پھرتی تصویر اور جہد مسلسل، سعی پیہم، اخلاص و وفا کے پیکر جمیل، علم و حکمت کے بحرِ بے کراں، عمل و کردار کے سیلِ رواں اور گونا گوں فضائل و کمالات کے جامع تھے –
آپ کی ولادت ١٣٤۰ھ / 1921 ء میں ضلع مئو کے نہایت مشہور اور مردم خیز خطہ قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں ہوئ – آپ نے مقامی مکتب میں ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی رضوی اعظمی مصنف بہار شریعت کے منجھلے بھائی حکیم احمد علی علیہما الرحمہ سے گلستاں بوستاں پڑھی – اس کے بعد ١٠شوام المکرم ١٣٥٣ھ / ١٩٣٤ء کو دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے حضور حافظ ملت کے زیر اثر رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی سے لیکر حمداللہ، ہدایہ اور ترمزی شریف تک کتابیں بڑی محنت اور جاں سوزی کے ساتھ پڑھیں، اور حافظ ملت کے فیضان سے آپ کا سینہ موجزن ہونے لگا –
محرم الحرام ١٣٦١ھ / ١٩٤٢ء میں سات آٹھ ماہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ اندرکوٹ میرٹھ کے بھی آپ طالب علم رہے، یہاں آپ نے صدرالعلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے حاشیہ عبد الغفور اور شمس بازغہ وغیرہ اور خیر الازکیاء، حضرت مولانا غلام یزدانی اعظمی سے خیالی و قاضی مبارک وغیرہ اہم کتابوں کا درس لیا اور پھر شوال ١٣٦١ھ ١٩٤٢ء میں آپ نے مظہرِ اسلام بریلی شریف پہنچے جہاں آپ نے محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد صاحب سے اکتساب فیض کیا – اور ١٥/ شعبان ١٣٦٢ھ / ١٩٤٣ء کو آپ کی فراغت ہوئ- مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا قادری نوری برکاتی، صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،اور صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآباد، اور دیگر اجلہ علماء مشائخ اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار فضیلت اور جبہ سے نوازا –
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری علیہ الرحمہ وہ شخصیت ہیں جن کے اندر قدرت نے متعدد صلاحیتیں نہایت فیاضی سے کاشت کی ہیں – فقیہ اعظم ہند شہنشاہِ قلم و لسان بھی ہیں، اور صاحب طرز و بیان بھی، فقیہ اعظم ہند ادیب شہیر بھی ہیں اور مناظر اسلام بھی اور مقرر بے بدل بھی۔
اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے شارح بخاری عہد طالب علمی ہی سے اساتذہ اور مشائخ کے معتمد اور مرکز عنایت رہے – چاہے سرکار مفتی اعظم علامہ محمد مصطفیٰ رضا قادری ہوں یا صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ہوں یا حافظ ملت علامہ عبد العزيز محدث مبارکپوری ہوں یا محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری ہوں، غرض کہ سبھی کی نگاہ کرم سے سرشار، سرچشمہ عنایت سے فیض یاب اور پاکزہ دعاؤں سے سرفراز تھے، اسی سلسلہ میں فیض رضا اور مشائخ مارہرہ مطہرہ کے کرم کو منفرد خصوصیت حاصل ہے – بالخصوص مارہرہ مطہرہ کے مشائخ نے شارح بخاری پہ کو الطاف و عنایات کی برسات کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی ۔
تاج العلماء کی کرم نوازی :
شارح بخاری نے حالات کے آگے سپرانداز ہونے کا سبق نہیں پڑھا تھا آپ نے قلم سے مجاہد کی تلوار کا کام لیا۔ اگر آپ کے رشحات قلم میں غور و فکر کی نظر ڈالی جائے تو آپ کی داعیانہ و قائدانہ شخصیت تہہ بہ تہہ کھلتی جائے گی اور دنیا کو فقیہ اعظم علیہ الرحمہ کی سیاسی بصارت و بصیرت کے مقام و مراتب کا علم و ادراک ہو سکے گا.
آپ نے تقسیم وطن سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کے سیاسی پلیٹ فارم سے کچھ عجیب سی آوازیں اٹھ رہی تھیں، اس وقت مسلمانوں کے اسلامی اور سیاسی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت فقیہ اعظم ہند نے” اشک رواں “ کے نام کی ایک مدلل اور انقلاب انگیز کتاب تحریر فرمائی – یہ کتاب جب مارہرہ مطہرہ میں مسند غوثیہ کے تاجدار، تاج العلماء حضرت مولانا سید شاہ اولاد رسول محمد میاں مارہروی قدس سرۂ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے مصنف کو بے شمار دعائیں دیں – تحسین و آفریں س نوازا اور حوصلہ آفزائی کرتے ہوئے دعائیہ کلمات تحریر فرمائے –
مارہرہ کے نورانی فیضان کی یہ پہلی لہر تھی – جس نے شارح بخاری کو ایسا نوازا کہ خاندان برکات کا بچہ بچہ حضرت شارح بخاری کی قدردانی، والہانہ شیفتگی اور دینی محنت سے سرشار نظر آتا ہے – خاندان برکات کے سرچشمہ فیض سے قریب ہونے کے بعد حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ پر برکاتی فیضان خوب برسا –
سید العلماء کی قدر شناسی:
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اور مشائخ مارہرہ کے درمیان تعلقات کا جب ہم تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشائخ مارہرہ میں سب سے پہلے آپ کی ملاقات حضرت سید العلماء سے (گیا /بہار) میں ہوئ – [شارح بخاری ص 65]جب سید میاں بہار کے مظلومین کے لیے ریلیف لے کر تشریف لائے تھے – غائبانہ تعارف تو پہلے سے ہی تھا، اس لیے ملنے کے بعد شارح بخاری کو فوراً گلے سے لگا لیا۔
اس کے بعد سید العلماء نے خصوصی دعوت نامہ شارح بخاری کے نام سے بھیجا۔ مفتی صاحب جب مارہرہ شریف تشریف لائے اور مبارک عرس میں حاضر ہوئے تو سید العلماء نے آپ سے تقریر کرائی – جب سید العلماء نے خطاب سنا تو فرمایا: مفتی صاحب! قل سے پہلے ہمیشہ میری تقریر ہوتی تھی اب یہ وقت میں آپ کو پیش کرتا ہوں اب اس وقت میں ہمیشہ آپ کی تقریر ہوا کرے گی –
سید العلماء کا عطا کردہ یہ اعزاز شارح بخاری کی زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا اور ہمیشہ قل سے پہلے آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی –
مارہرہ کی مقدس سرزمین سے جاری ہونے والا وہ چشمہ روحانیت جو متحدہ ہندوستان کا مرکز قادریت ہے اور جس سے ہزاروں لاکھوں تشنہ قلوب و ارواح کو سیرابی حاصل ہوئی انہیں میں شارح بخاری کی بھی ذات گرامی ہے ۔
حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کو اس عظیم الشان خاندان میں دو بہت وجیہ اور اہم شخصیتوں کو دیر تک برتنے کا موقع ملا – ان میں سے ایک حضرت سید العلماء مولانا سید شاہ محمد آل مصطفےٰ قادری برکاتی کی ذات گرامی تھی – اور دوسری گرامی شخصیت حضرت احسن العلماء مولانا سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات تھی – دونوں حضرات ہندوستان کے ممتاز ترین عالم دین اور بہت عالیشان خانقاہ کے سجادہ نشین اور ہزارہا ہزار لوگوں کے مرکز عقیدت اور مرشد طریقت تھے-

           حضور احسن العلماء کی عنایتیں اور  برکاتی مفتی کا خطاب :
            امین ملت سید شاہ محمد امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ بیان فرماتے ہیں کہ: میرے والد ماجد حضور سیدی احسن العلماء علیہ الرحمہ نے فرمایا انسان کے لیے لازم ہے جس طرح چھان بین کے بعد اپنے معالج کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح غور و فکر اور تحقیق کے بعد کسی کو اپنا مفتی بنائے، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے بعد سوچ سمجھ کر ہم نے نائب مفتی اعظم مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو اپنا مفتی بنایا ہے - یہ برکاتی مفتی ہیں -[ معارف شارح بخاری ص 30]
             حضور احسن العلماء فقیہ اعظم کے فتویٰ پر بھر پور اعتماد فرماتے جب کہ وہ خود افتاء کے بے نظیر محرم راز تھے - حضور احسن العلماء سے جب کوئی فتویٰ پوچھتا تو فرماتے شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب سے استفتاء کرو ان کا جو فتویٰ ہوگا وہی ہمارے فتویٰ ہے -[شارح بخاری ص95] اور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد علیہ الرحمة و رضوان شارح بخاری سے بڑی انسیت رکھتے تھے - عرس قاسمی کی آمد میں تاخیر ہوتی تو والد ماجد فکر مند ہو جاتے اور احباب کی ڈاک اسٹیشن سے گھر تک دوڑ لگا دی جاتی اور جیسے مفتی صاحب آجاتے تو حضور احسن العلماء فرماتے کہ "عرس شریف مکمل ہو گیا" -

            حضرت نظمی میاں صاحب کی نوازشات :

سرکار نظمی حضرت سید ملت برکاتہم القدسیہ نے شارح بخاری کو سب سے عظیم نعمت یعنی جملہ سلاسل خاندانی کی اجازت و خلافت عطا فرمائ۔ اور آپ اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:” حضور فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ہمارے برکاتی مفتی ہیں۔ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی محبت ہم مارہرہ کے بچوں بچوں کی گھٹی میں پڑی ہے –

حضور امین ملت کی نظر میں :
حضور امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ ،بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ فرماتے ہیں: ہم نے فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو آنکھوں پر چڑھا کر رکھا اس لیے نہیں کہ مفتی صاحب کوئی لمبا چوڑا نذرانہ ہم لوگوں کو پیش کرتے ہیں یا یہ نہیں کہ جب مفتی صاحب کے گھر جاؤ تو بہت زبردست والی خاطر تواضع کرتے ہیں – باہر سے آتے ہیں تو ہمارے لیے کچھ میٹھائی لے کر آتے ہیں – بلکہ مفتی صاحب سے ہم اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہماری اور ان کی منزل ایک ہے وہ منزل اترپردیش کا وہ شہر ہے جسے ہم بریلی شریف کے نام سے جانے ہیں- جس کا نام سنتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں – [ماہنامہ اشرفیہ مارچ 2000 جشن شارح بخاری نمبر 27]
اور آگے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ انسان کی پہچان تین وقتوں میں ہوتی ہے (1)سفر۔ (2)معاملات اور (3)پڑوس میں ۔ مجھے عمرہ کے واسطے سے اور افریقہ کے دورے میں ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا – معاملات کے بھی کئ معاملے سامنے آئے اور دوران سفر ان کا پڑوس بھی ملا – بفضلہ تعالیٰ میں نے انہیں ہر مقام پر مفتی پایا، پر جگہ شریف دیکھا اور ہر موقع پر حق پایا –
حضور امین ملت کے یہ جملے بڑے معنیٰ خیز اور نکتہ آفرین ہیں، آپ نے شارح بخاری کے نام (مفتی شریف الحق) کو اپنے لفظوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال فرمایا ہے کہ نام بھی ادا ہوگیا اور معنویت میں کمی کیا آتی، معنویت میں تو چار چاندلگ گئے ۔

حضور رفیق ملت کی نظر میں:
اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب حضور احسن العلماء قدس سرہ کی وصال پر ملال کی اطلاع ملتے ہی فقیہ اعظم گھوسی سے دو بجے رات ہی میں روانہ ہو کر بھاگم بھاگ مارہرہ شریف پہنچے – اس غمزدہ ماحول میں جب کہ پوری فضا، خانقاہ کے درو بام اس عارف اسرار الٰہی کی رحلت پر ماتم کناں تھے – خاندان برکات کے شہزادے فقیہ اعظم کے اعزاز میں مصروف نظر آئے – حضور احسن العلماء کے عرس چہلم میں دیکھا گیا کہ فقیہ اعظم کے اعزاز کا وہی انداز برتا گیا جو حضور احسن العلماء کی حیات مبارکہ میں تھا – چلتے وقت نذر بھی پیش کی گئی تو فقیہ اعظم آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: مخدوم زادے! اس وقت تو آپ حضرات خود ہر صورت سے دلداری اور غمگسار کے مستحق ہیں از راہ کرم یہ تکلیف نہ فرمائیں – یہ سن کر حضور رفیق ملت (ابا حضور) رو پڑے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا! اگر آپ کی خدمت میں ہم سے ذرا بھی کوتاہی ہو گئ تو والد ماجد علیہ الرحمہ کی روح ہم سے ناراض ہوگی –

شرف ملت کی نظر میں:
شرف ملت سید محمداشرف میاں صاحب فرماتے ہیں کہ : فقیہ اعظم ہندکئی اعتبار سے اعظم ہیں تمام اعظموں پر نظر رکھ کر اس فقیر برکاتی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجئے –
(1) مذہب اعظم، مشرب اعظم اور مسکن بھی اعظم ہے اور ان کا قلم بھی طاقتور ہے اور ان کا فن بھی اعظم ہے
(2) مفتی شریف الحق صاحب کے سارے حوالے ارفع ہیں چاہنے والا سواد اہل سنن بھی اعظم ہے

(3 ) صدر شریعت، حافظ ملت، احسن العلماء مفتی اعظم ۔ سارے بڑوں کو ہم نے ان پر خوب ہی مائل دیکھا ہے
(4) فیض شریعت فیض  طریقت کیوں نہ ان سے جاری ہو
حب نبی میں ہم نے ان کو گھائل دیکھا ہے - 

( بحوالہ خطاب ۳۰ جنوری ۲۰۰۰ مستان تالاب ممبئی )

 مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوراً وہ کتاب لکھتے اور بصیرت انہیں چار واسطوں سے ملی تھی، حافظ ملت نے میدان تدریس میں، صدرالشریعہ نے فقہی، علامہ سید احسن العلماء اور مفتی اعظم نے خانقاہی؟ بصیرتیں عطا کیں تھیں اب وہ عالم بقا کو چلے گئے ان کا کوئی نعم البدل  نظر نہیں آتا ہے - 
  سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے
   تب جا کے اس انداز کا میخانہ بنا ہے

مشائخ مارہرہ کی طرف سے جو قددانی اور جو اعزاز اخیر لمحات حیات میں انہیں نصیب ہوا معاصرین میں کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا – ان آقاؤں کے ساتھ فقیہ اعظم کی والہانہ عقیدت اور خاندان برکات کی فقیہ اعظم کے ساتھ بے پناہ محبت و اعزاز کے دو آتشہ ہی کی سرمستی تھی کہ فقیہ اعظم کے وصال کی اطلاع ملتے ہی علالتوں کے باوجود برکاتی شہزادے بمبئی اور علی گڑھ سے فوراََ تشریف لے آئے اور فقیہ اعظم کا آخری سفر بھی انہیں مخدوم زادگان عالی وقار کے دست ہائے گرامی کے سہارے اختتام پزیر ہوا – عقیدتوں کی اس سے بڑھ کر سرفرازی اور کیا ہو سکتی ہے – وصال ایک عظیم حقیقت ہے مگر بڑے مبارک ہیں وہ نفوس قدسیہ جو مشیت کی طرف سے تفویض کردہ اپنے حصے کا کام مکمل کر جاتے ہیں اور حضور فقیہ اعظم اسی جماعت کے نمائندہ تھے وہ اپنے حصے کا کام ہر کام بحسن و خوبی مکمل کر کے دار الجزاء کی طرف روانہ ہو گئے فجزاہ اللہ عنا و عن جمیع المسلمين –

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     اسلام نے معلّم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے، چنانچہ اللّٰہ ربّ العزت نے قرآن مقدّس میں نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شان بحیثیت معلّم بیان کی ہے ،اور خود خاتم النبیین صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا "انما بعثت معلماً” [یعنی مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے] حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” یقیناً اس بات کی بیّن اور واضح دلیل ہے کہ استاذ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے-

     اسلام کی نظر میں انسانیت کا سب سے مقدّس ومعظّم طبقہ پیغمبرانِ اسلام و انبیائے کرام کا ہے- اور پیغمبر ونبی کی حیثیت اپنے امتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدّد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے ارشاد ربانی ہے” یتلو علیھم آیاته و یزکّیھم ویعلّمھم الکتٰب والحکمة” { آل عمران:۱۶۴}… جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے، یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذکہتے ہیں … اساتذہ کے تعلق سے حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ایک فرمان بہت ہی مشہور ہے” من علّمنی حرفاً فقد صیّرنی عبداً ان شاء باع وان شاء عتق” [یعنی جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے] {تعلیم المتعلم ص/۲۱}
  بلاشبہ ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے اور ویسے بھی انسان جس سے بھی کچھ سیکھے یا علم حاصل کرے اس کا ادب و احترام اس کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر سیکھنے والا سِکھانے والے کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ بد نصیب ہے، علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال قابل عزت ہے، اور خاص طور پر علم دین کا سکھانے والا تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لئے قابل احترام ہوتا ہے-
   یقیناً یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو اساتذہ کے بلند مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا ہے، اسلام میں اساتذہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے، اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے "انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم”[یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں]

اساتذہ کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگر “صلبی وجسمانی باپ” ہے تواساتذہ “روحانی باپ”-

          اب آئیے ہم اساتذہ کے ادب و احترام کے تعلق سے اپنے اکابرین و اسلاف کے معمولات وفرمودات پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کی بارگاہوں میں کیسےپیش آنا چاہیے؟ اورکس نوعیت سے ادب و احترام کرنی چاہیے؟

حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ “ہم اپنےاستاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنااحترام کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں” اور حضرت یحییٰ بن معین جو بہت بڑے محدّث تھے ،حضرت امام بخاری ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ “محدّثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا” اور حضرت امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ “میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جواستاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا” {ایضاً ص/۲۲}
امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنےاستاذ کا اتنا ادب و احترام کیا کرتے تھے کہ کبھی استاذ کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے- حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ”میں حضرت امام مالک کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے”- حضرت امام ربیع فرماتے ہیں کہ “حضرت امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی”… بعض بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایاکہ” ہمیں اپنے اساتذہ کی اولاداوران کے متعلّقین کی بھی تعظیم وتکریم کرنی چاہیئے” صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ”بخارا کے ایک بہت بڑے امامِ وقت اپنے حلقۂ درس میں مصروفِ درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے، جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آ جا رہا ہے، تو میں اس کے لیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں”…… اس طرح کے بہت سارے واقعات تاریخ و سوانح کی کتابوں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ تلامذہ کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کس حد تک کرنا چاہیے؟…… لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے!

ادب تعلیم کاجوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگردہیں جوخدمتِ استاد کرتےہیں

بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق سعید بخشے-
آمین!

منقبت در شان: عارف باللہ تارک السلطنت حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کچھوچھہ شریف◇◇مدحت نگارمحمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

بزم حسان


ہے منظر آستاں کا کیف آور شاہ سمنانی
بجا ہوگا کہوں رشکِ جناں گر شاہ سمنانی

خوشا دوہری نجابت کا شرف تم کو میسر ہے
“گلستانِ سیادت کے گلِ تر شاہ سمنانی!”

جو دیکھی شانِ استغنا لبِ اظہار پر آیا
ہو بے شک پرتوِ فقرِ ابو ذر شاہ سمنانی

زمامِ اسپِ رفتارِ جہاں ہے تیری مٹھی میں
تو اقلیمِ تصرف کا سکندر، شاہ سمنانی

ترے سروِ تصوف کے علو و حسن کے آگے
نظر آتا ہے شرمندہ صنوبر شاہ سمنانی

بہارِ زندگانی مل گئی معشوقہ مورت کو
لگی جب آپ کے لفظوں کی ٹھوکر شاہ سمنانی

عجب کیا ہے ولی بن کر اٹھے انسان چوکھٹ سے
ولیہ بن گئی جب گربۂ در شاہ سمنانی

کرم فرمائیے جلدی منارِ حاضری پائے
دلِ نوری کا سرگرداں کبوتر شاہ سمنانی
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مدحت نگار
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

۱/ صفر المظفر ۱۴۴۴ ہجری
۳۰/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

نعت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

تیرا مقصد ہے اگر زیست کو ذیشاں کرنا
خود کو سرکار کی ناموس پہ قرباں کرنا

صرف دنیا پہ نہیں جان کو قرباں کرنا
عاقبت کا بھی تمھیں چاہیے ساماں کرنا

بو ہریرہ ہو مبارک کرم دست حضور
شاہ کونین کا دور آپ کا نسیاں کرنا

ڈال دو آب دہن، دل کا کنواں ہو شفاف
صاحب معجزہ سرکار یہ احساں کرنا

عشق سرکار دوعالم کی ضیاپاشی سے
صاف و شفاف سدا قلب کا میداں کرنا

جسم کا سارا محل نور سے تابندہ رہے
دل کی دیوار پہ نام ان کا تو چسپاں کرنا

ان کی رنگت سے ہیں رنگین گل ‌باغ سبھی
اس نزاکت کو بھی لازم ہے نمایاں کرنا

ورفعنا لک ذکرک سے ہے ثابت، ان کا
ذکر اونچا ہے بہت یاد تو قرآں کر ، نا

بعد عسر کا تصدق ہو عطا مجھ کو بھی
میری دشواری کو اللہ تو آساں کرنا

شاید آمد ہوئی ہے اس میں شہ خوباں کی
دل کے خانو ، ذرا مل جل کے چراغاں کرنا

ہاتھ وہ پھیر دیں تو چہرہ منور ہوجائے
واہ اس دست مقدس کا چراغاں کرنا

آزو ‌بازو میں کوئی ہے تو رکھو اس کا خیال
سنت سرور کونین ہے احساں کرنا

سنت حضرت حسان و رضا ہے تاباں
اپنے اشعار میں سرکار کو عنواں کرنا

زیست کے چرخ میں ہر رات ہی کیا دن میں بھی
عشق سرکار کے تاروں کو نمایاں کرنا

مسلک حق پہ رضا کے ہوں میں قائم ہر دم
جسم باطل کو مرا کام ہے عریاں کرنا

محور عشق رہے ذات پیمبر ہی فقط
میرے اللہ مجھے ایسا مسلماں کرنا

ہم ہیں اسلام کے داعی کہ جہاں بھی جائیں
کام اپنا ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

دونوں عالم میں اگر چاہتے ہو بہبودی
چاہئے تم کو خیال مہ جاناں کرنا

وہم کے خانوں میں لگ جائے تیقن کی آگ
قلب کو آپ سدا خانہء ایقاں کرنا

اس وسیلے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں
کرب کی آنکھ کو اک لمحے میں حیراں کرنا

سیرت سرور کونین پہ کہنا اشعار
اس طرح اپنے لیے خلد کا ساماں کرنا

آیت نصر کے صدقے اے مرے رب کریم
زندگی کو تو مری فتح کا ساماں کرنا

دست اقدس وہ لگادیں تو شجر پھل دے دے
ہم پہ لازم ہے یہ برکت کو نمایاں کرنا

نور کے گچھے نکلتے تھے اثر سے جس کے
وہ کشادہ مرے سرکار کا دنداں کرنا

اپنی دھرتی پہ شہ دین جو مبعوث ہوئے
ہم‌ پہ اللہ کا ہے خاص یہ احساں کرنا

فتح خیبر کی خبر وقت سے پہلے دے دی
واہ سرکار کا اصحاب کو شاداں کرنا

فتح مکہ کی معافی یہ سکھاتی ہے سبق
در گزر کرنا ، ادا سنت ذیشاں کرنا

طائر قلب کی تسکین کی خاطر اے نفس
ذکر سرکار دوعالم تو ہر اک آں کرنا

خلد کی نہر شراب آپ ہی مجھ پر کرے رشک
میرے ساقی مجھے مست مءے عرفاں کرنا

عظمت حضرت عثمان ہے اس سے ظاہر
از طرف ان کے شہ دین کا پیماں کرنا

اپنے آقا ہیں کریم اور جواد اے “عینی “
کرنا ہے گر تو ربیعہ سا تم ارماں کرنا
۔۔۔۔
از قلم: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے… (ہدیۂ تبریک بخدمت: رفیق محترم محمد ہاشم احسنی)از قلم :محمد سلطان رضا احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ مطہرہ

شعر و شاعری اور مضمون نگاری کی طرح اظہار خیال و رائے کا ایک اہم اسلوب اور موثر ذریعہ خطابت ہے، جس کے ذریعےاحساسات وتخیلات کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کو مبلغین اسلام نے بھی اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لئے اپنا ہتھیار بنایا ہے-
اگر خطاب اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق ہو تو موثر اور قابل تعریف ہے،بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کار کو انجام دیا ہے ۔ جب حضورﷺ خطاب فرماتے تو مجلس انسانی سروں سے بھر جاتی تھی اور لوگوں کا ایک جم غفیر ہوجاتاتھا ، تاریخ اسلام میں آپ کے خطبات کو ایک خاص مقام و اہمیت حاصل ہے جو آج بھی مبلغین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہ خطابت صرف عہد رسالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر دور میں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت سے برتا گیا ہے، خلفا اور سلاطین اسلام کے خطبے تاریخ کے صفحات پہ منقش ہوکر اس دعوے کی دلیل فراہم کر رہے ہیں ۔
اس لیے قوم و ملل کے زعماء کےلئے فصیح اللسان ہونا لازمی امر ہے، تاکہ وہ قیادت و امامت کا حق ادا کرسکیں اور قوم کو صحیح سمت گامزن کریں۔
اس پس منظر میں اگر ہم غور کریں تو بطور تجزیہ یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے طلبہ کو خطابت کا ذوق رہا ہے، میدان خطابت میں جامعات و مدارس کے لائق وفائق فارغین کا کردار اظہرمن الشمس ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہمارے جامعہ کے طلبہ بھی ہیں، چند دن پہلے دارالعلوم مینائیہ گونڈہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسابقہ خطاب میں مادر علمی جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف میں ہمارے ہم سبق ساتھی محمد ہاشم نے شرکت کی اور اپنی کدو کاوش سے دوسری پوزیشن حاصل کی،
جب یہ خوشخبری میرے کانوں سے ٹکرائی کہ عزیزم محمد ہاشم نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے تو دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو گیا۔ اور میں اسی وقت سے مبارک بادی پیش کرنے کا مشتاق تھا ۔ پھر جب وہ جامعہ تشریف لائے اور ابھی کمرے میں داخل نہ ہوئے تھے کہ مبارکبادیوں کی برسات ہونے لگی، جب وہ اپنی محنتوں اورکوششوں کا ثمرہ ہاتھوں میں لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو سارے احباب دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھےاور سبھی لوگوں نے مصافحہ و معانقہ کرنے کے بعد ہدیۂ تبریک پیش کی اور اخیر میں میں نے سکون واطمنان کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کیا اور صمیم قلب کے ساتھ مبارک بادی پیش کیا۔ پھر مغرب کے بعد عزیزم اپنے پورے انعامات کے ساتھ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے کمرے میں گئے پھر یکے بعد دیگرے سب اساتذۂ کرام کے پاس جا کر ملاقات کی اور سبھی معزز ومکرم اساتذہ نے مبارک بادی کے ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا۔
جناب محترم نے سب کا اور جامعہ کا شکریہ ادا کیا.
اور میں پھر سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ،اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اور تمام طلبہ کیے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی طلبہ کو خوب خوب عروج و ارتقاء عطاء فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
(فہیم جوگاپوری)

مزارات اولیا اور تعلیمات اعلی حضرت، از: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال


اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی ہمہ گیر،نابغئہ روزگار اور عبقری شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی 65 سالہ مختصر سی زندگی میں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے تقریبا 65 علوم و فون پر مشتمل ایک ہزار کتب و رسائل تصنیف فرمائی ،جس وقت چند ایمان فروش مولوی اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی شان و عظمت میں گستاخیاں کر کے طرح طرح کے فتنے برپا کرنے لگے اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دلائل و براہین کی روشنی میں درست عقائد و نظریات کی رہنمائی بھی فرمائی اور عشق رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی کہ جس کی لو قیامت تک نہیں بجھے گی،
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کنزالایمان اور فتاویٰ رضویہ جیسی عظیم الشان نعمت سے نواز کر امت پر احسان عظیم فرمایا، علاوہ ازیں آپ نے امت کو ایسے ایسے نایاب تحفے عطا کیے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جاۓ گا
جب لوگ سنتوں کی روشنی سے دور اور بدعتوں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام بدعتوں کو جڑ سے ختم کیا اور ترک شدہ سنتوں کو زندہ کیا یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمة کو ماحئ بدعت (بدعت کو مٹانے والا ) حامئ سنت (سنت کی حمایت کرنے والا )کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے
جب لوگ اپنی جہالت کی بنا پر مزارات اولیا پرخرافات و منکرات کا بازار گرم کرنے لگے تو اعلی حضرت علیہ الرحمة نے ایسے لوگوں کی انتہائی تردید فرمائی اور تمام تر خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا
مزارات اولیا اور اعراس کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی چند گراں قدر تحقیقات ہم قارئین کی نظر نواز کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں
مزارات کے آگے سجدہ کرنا
بعض نادان قسم کے لوگ مزارات اولیا کو چومنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ سجدے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ایسے لوگ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمة کی تعلیمات سے آشنا ہوتے تو ہرگز یہ قبیح عمل انجام نہ دیتے ، اعلی حضرت علیہ الرحمة نے اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی

اس میں فرماتے ہیں:
” مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفویﷺ کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزّ جلالہ کے سوا کسی کے لئے نہیں- اس کے غیر کو سجدۀ عبادت یقیناً اجماعاً شرک مبین اور کفر مبین اور سجدہ تحیت (ادب کے لئے سجدہ کرنا )حرام و گناہ کبیرہ بالیقین”
(الزبدة الزکیہ لتحریم سجود التحیة ص 5 مجلس آئ ٹی ،دعوت اسلامی)
مزارات پر عورتوں کا جانا
آج کل مزاروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دگنی رہتی ہے، بعض عورتیں تو بےپردہ ہو کر چلی جاتی ہیں،مرد و عور ت کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر وہاں کے خدام عورتوں کے سر اور بدن پر ہاتھ اور جھاڑو پھیر تے ہیں ،اور بھی طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں ،
جب اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے فرمایا: “عنیہ میں ہے” کہ یہ نہ پوچھ کہ عورتوں کا مزار میں جانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ عزو جل کی طرف سے اور صاحب قبر کی جانب سے -جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک وہ واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ” سواۓ روضہ انورﷺکے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں “(ملفوظات اعلیٰ حضرت2 /315 مکتبة المدینہ)
مزارات میں چراغ وغیرہ جلانا کیسا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” کہ خاص قبر پر چراغ رکھنا تو مطلقاً ممنوع ہے اور اولیاۓ کرام کے مزارات میں اور زیادہ ناجائز ہے اس میں بے ادبی اور گستاخی اور حق میت میں تصرف و دست اندازی ہے “(احکام شریعت ۶۸/۱ جسیم بکڈپو جامع مسجد دھلی) اور اگر اس ارادے سے چراغ جلاتے ہیں کہ اس سے میت کو روشنی پہونچے گی ورنہ اندھیرے میں رہے گا تو فرماتے ہیں کہ “اب اسراف کے ساتھ اعتقاد بھی فاسد ہوا” (ایضاً ۶۹)
ایک جائز ہونے کی صورت یوں بیان کرتے ہیں کہ:” تالیان قرآن یا ذاکران رحمٰن کے لئے روشن کریں ،قبر سر راہ ہو اور نیت یہ کی جاۓ کہ گزرنے والے دیکھیں اور سلام و ایصال ثواب سے خود بھی نفع پائیں اور میت کو بھی فائیدہ پہونچائیں -یا وہ مزار ولی یا عالم دین کا ہے روشنی سے نگاہ عوام میں اس کا ادب و اجلال پیدا کرنا مقصود ہے تو ہرگز ممنوع نہیں
نوٹ:چونکہ آج کل مزارات میں روشنی اور لائٹ وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہے تو اب چراغ وغیرہ جلانا بے سود ،اسراف اور فضول خرچی ہے
فرضی مزار کے بارے میں حکم
کچھ لوگ محض ایک خواب کی بنیاد پر فرضی اور مصنوعی مزار بنا لیتے ہیں اور دھوم دھام کے ساتھ اس میں عرس،فاتحہ، نیاز اور چادروغیرہ چڑھانے لگتے ہیں،اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ ایسے مزار کے بارے میں حکم ارشاد فرماتے ہیں:”قبر بلا مقبور(فرضی قبر)کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال( چادریں چڑھانا، نیاز فاتحہ اور عرس وغیرہ )کرنا گناہ ہے، فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع (سننے کے لائق )نہیں ہو سکتی، (امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات ص 23)
طواف اور بوسئہ قبر
اس بارے میں جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا تو جواب میں ارشاد فرمایا :” بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور بوسئہ قبر میں علما کا اختلاف ہے اور احوط (زیادہ احتیاط)منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیائے کرام کے ہمارے علماءنے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو یہی ادب ہے”(احکام شریعت ۳/ ۲۳۴)
عرس وغیرہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی گانا
آج بہت سے مزاروں میں سالانہ عرس وغیرہ کے موقع پر تلاوت قرآن،نعت خوانی اور علمائے کرام کے بیانات کے بجائے ڈھول اور سارنگی کے ساتھ قوالی کا اہتمام کرتے ہیں جس میں حمد، نعت و منقبت براہ نام،گانے کے طرز پر قوالی گاۓ جاتے ہیں بعض جگہوں پر تو لڑکیوں کو بھی قوالی گانے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر دونوں فریقین کے درمیان گناہوں بھرا مقابلہ ہوتا ہے،
جب اعلی حضرت علیہ الرحمة سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کی مذمت کرتے یوۓ فرماتے ہیں کہ:”کہ ایسی قوالی حرام ہے -حاضرین سب گنہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے -اور قوالوں کا بھی گناہ عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے، یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو-نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ ،اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ،اور سب حاضرین کے برابر جدا ،اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا ،اور سب حاضرین کے برابرعلٰحیدہ،وجہ یہ ہی کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا،ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا،اگر وہ سامان نہ کرتا ،یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑھتے-اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا -پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا- وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیوں کرآتے بجاتے- لہذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا :”(احکام شریعت ۱ / ۲۳۴)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
فی زمانہ لوگ تو مزرات میں ڈھیر ساری امیدیں لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان کو حاضری کا طریقہ اور آداب معلوم نہیں ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ صاحب مزار کا روحانی فیضان سے محروم رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مسنون طریقہ اور آداب یوں فرماتے ہیں کہ :”مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چارہاتھ کے فاصلہ پر مُواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسّط آواز بادب سلام عرض کرے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیّدِی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ پھر درودِ غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار ، آیۃُ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار ، پھر درودِ غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرے کہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اس قراءت پر مجھے اتناثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اُتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اُسے میری طرف سے اس بندۂ خدامقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دعاکرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔‘‘ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت۱۰۶تا۱۰۸ مکتبة المدینہ)
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئ کہ اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ مزارات اولیا میں ہونے والے خرافات کے سخت مخالف تھے،اس کے باوجود بھی اگر نادان عوام مزارات میں جاکر ایسے خرافات انجام دیں تو ان کا اعلی حضرت علیہ الرحمةاور ہمارے اکابرین سے کوئی تعلق نہیں ، افسوس صد افسوس !کہ آج کچھ دریدہ دہن اعلی حضرت کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر ان کے خلاف بلا کسی تحقیق کے اپنی کتابوں اور جلسوں میں یہ جملہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ نے بدعات اور خرافات و منکرات کو فروغ دیا ،،حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی ان خرافات کو ختم کرنے میں صرف کردی ،یا تو یہ لوگ اعلی حضرت کے فتاویٰ کا علم نہ ہونے یا معاذ اللہ جھوٹ یا بغض و حسد کی وجہ سے یہ جملہ بول کر اعلی حضرت پر الزام عائد کرتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں،
مذکورہ تعلیمات ان لوگوں کے لئے بھی درس عبرت ہے جو کہ اعلی حضرت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کا نعرہ زور و شور سے لگاتے ہیں اور میدان عمل میں بہت پیچھے ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمات اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت ،از :روشن القادری انواری فاضل :دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)


اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اے مومنو! تم لوگ اللہ کی رسی کو اکٹھا ہوکر مضبوطی سے پکڑ لو “(مفہوم قرآن)اللہ تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو یہ حکم دیا کہ اے میرے بندو ! جب تم لوگ کوئی نیک کام کرنا چاہو تو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کرو،اس فرمان خداوندی سے اتفاق و اتحاد کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺکی بہت سی حدیثیں بھی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن سے آپسی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جائے گی ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ سارے مومنین ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی ایک آنکھ بیمار ہوئی تو وہ تمام بیمار ہیں (مسلم شریف )
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے اس کا بعض بعض کو طاقت پہنچاتا ہے پھر حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائی یعنی یہ جس طرح ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہیئے (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (ایضاً)
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چار گی کی کیا اہمیت ہے؟۔
بڑا مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ مسلمانوں میں وحدت اسلامیہ اور اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کا سچا جذبہ موجود تھا اور وہ آپس میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مدد گار تھے، ان کی تعداد اگر چہ کم تھی لیکن بڑی بڑی طاقتیں ان کے خوف سے لرزتی تھیں اور کسی کی مجال نہ تھی جو ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ،تاریخ کے اوراق میں اس مقدس عہد ِمحبت کا ذکر موجود ہے جو مدینہ کی پاک زمین پر ہجرت کے پہلے سال میں مسلمانوں میں قائم ہوا ۔رسول ﷺنے جب اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بہت سے فرزندان ِاسلام نےحضور ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اور اپنے گھر بار ،دوست واحباب اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے مال وزر کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ کا رُخ کیا ،جب یہ بے سرو سامان جماعت مدینہ پہنچی تو ان میں سے اکثر کی حالت صحیح نہ تھی، نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندو بست تھا ،نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی انتظام تھا ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عہد محبت کو قائم کیا ،جب اس عہد کی تکمیل ہو گئی تو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے انتہائی ایثار و محبت سے کام لیا ،جس انصاری کےپاس دو مکان تھے اس نے اپنا ایک مکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اور جس کے پاس پانچ سو دینار تھے اس نے ڈھائی سو دینار اپنے مہاجر بھائی کو دے دیئے ،اور جس کے پاس دو باغ تھے اس نے ایک باغ دے دیا ،جس کے پاس دو بیویاں تھی اس نے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے بھائی مہاجر سے کہا کہ تم اس سے نکاح کرلو ۔
ایک انصاری کا نام حضرت عبد الرحمٰن بن عاصم تھا وہ نہایت غریب تھے اور ان کے پاس سوائے ایک چادر کے کچھ نہ تھا لیکن ایمان و ایقان کی دولت ان کے پاس کسی سے کچھ کم نہ تھی انہوں نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اس قسم کے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جن سے پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی سچی محبت اور سچی ہمدردی، مخلصانہ دوستی اور آپسی اتفاق و اتحاد ظاہر ہوتا ہے ،اور یہ وہ چیز ہے جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی اور کامیابی کی اعلیٰ اور بلند منزل پر پہنچا دیا تھا اور اقوام ِعالم کے دلوں میں ان کا ایک خاص وقار اور رعب قائم کر دیا تھا ،لیکن آہ !آج یہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی مسلمانوں میں نہیں ہے ،آج ان کی تعداد دنیا میں کروڑوں ہے لیکن اقوام عالم کے دلوں میں ان کا وقار اور کو ئی احترام نہیں، ہر قوم اور ہر جماعت ان کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے اور ان کی کمزوریوں کو محسوس کرکے ان کی ہستی کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
اسلام کادعویٰ کرنے والو! تمہیں معلوم ہے ؟کہ آج یہ ذلت و رسوائی کیوں تمہارے لئے مخصوص ہے ؟اس لئےاور صرف اس لئے کہ تم میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی نہیں ہے ،تم نے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کو نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا اور تم نے ان تعلقات کو جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث تھے اپنی نفس پرستیوں کے حوالے کردیا ہے، آج تمہارے اختلاف و انتسار کی کوئی انتہا نہیں ہے، تم اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی امداد و اعانت کو ضروری نہیں سمجھتے ہو ،تم اپنے بھائیوں کو آپس میں دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہو، تم ذرا ذرا سی باتوں پر مشتعل اور جھگڑ جاتے ہو، تم اپنے نفس پرستیوں میں مصروف ہو اور تمہیں خبر نہیں ہے کہ دوسری قومیں تمہاری ہستی کو مٹانے کے لئے کس قدر خوف ناک اور جدو جہد سے کوشش کر رہے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی غفلتوں و کوتاہیوں کو دور کردو !اسلامی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی اپنے اندر پیدا کر لو! تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تجارت و صنعت کا ایک بڑا حصہ تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے، مسلمان ان شعبوں میں بہت کمزور ہیں ،ضرورت ہے کہ تم اپنے مسلم بھائیوں کی امداد و اعانت کرو اور ان کو تجارت و صنعت کے شعبوں میں کامیاب بناؤ ،اگر تمہارے دل میں ملت ِاسلامیہ کا کچھ بھی درد ہے اور تم مسلمانوں کی کچھ بھی تباہی نہیں چاہتے ہو تو خدا کے لئے آج ہی سے اپنے دل میں عہد کر لو کہ تم ہر اعتبار اور ہر حیثیت و نوعیت سے مسلمانوں کی مدد کرو گے ،اتفاق و اتحاد اور آپسی بھائی چارگی اور امدادو اعانت کا معاملہ کروگے ،مساوات و انصاف کا آپس میں برتاؤ کرو گے اگر تم نے ایسا کیا تو تم کامیاب و فائزالمرام ہو جاؤگے ۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے سبھی مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا فرمائے ! آمین