WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives October 2022

زائرین بغداد کے لئے استقبالیہ جلسہ ، رپورٹر (مولانا) جمال اختر صدف گونڈوی


جمعہ کی نماز کے بعد ایک جلسہ محمدیہ مسجد میں منعقد کیا گیا، جس میں لکھنؤ و دیگر اضلاع کے علمائے کرام نے شرکت کی،
قاری روشن القادری صاحب مینیجر مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ و مولانا اعظم حشمتی صاحب صدر پاسبان وطن فاؤنڈیشن آف انڈیا کو رخصت کرنے آئے علماء کرام نے اپنے اپنے تاثرات پیش کئے ،
مولانا عابد رضا صاحب مڑیاوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ غوثِ اعظم کی وہ بارگاہ ہے جہاں چوروں کو بھی ہدایت مل جاتی ہے انہوں نے غوث اعظم کی زندگی کے حالات پر گفتگو کرتے کئ اہم باتیں کیں اور سفر میں آسانی کے لئے دعائیں بھی مانگی،
گونڈہ سے آے مہمان خصوصی مولانا جمال اختر صدف نے نظامت کے فرائض انجام دئے ،وہیں ساتھ میں مہمان شاعر جمیل گونڈوی نے منقبت غوث اعظم پیش کیا ، قاری روشن القادری صاحب نے بتایا کہ اس بار انشاء اللہ تعالیٰ موے مبارک حضرتِ غوث اعظم کے لئے مکمل کوشش ہے کہ اہل عقیدت کی زیارت کے لئے اپنے ملک میں لایا جاے، قاری روشن القادری مدرسے کے مینیجر ہونے کے ساتھ ساتھ محمدیہ مسجد اکبر نگر کے امام بھی ہیں معاشرے کی اصلاح کے لیے آپکے کارنامے ہمیشہ سرخیوں میں رہے ہیں، مولانا اعظم صاحب حشمتی نے کہا بارگاہ غوث اعظم وہ بارگاہ ہے جہاں اولیائے کرام بھی حاضری کے لئے جاتے ہیں ، انہوں نے غوث اعظم کے قول کو کوڈ کرتے ہوے کہا کہ جو بندہ قادر کا نہیں وہ عبد القادر کا نہیں،
مزید یہ بھی کہا کہ غوثِ الاعظم کی تعلیمات کو عام کرنے اور اسے اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے میں دونوں جہان کی بھلائ ہے،
اس موقع پر مولانا سہیل صاحب استاذ مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ ،
مولانا آفتاب مصباحی صاحب،
مولانا ظہیر عباس صاحب دارالعلوم وارثیہ گومتی نگر
قاری شاہد عالم صاحب مینیجر جامعہ غریب نواز لکھنؤ ،
قاری عثمان عارف صاحب
قاری سرفراز عالم صاحب
قاری مرسلین صاحب
عالم خان صاحب اسماعیلی
قاری شاھد رضا صاحب استاذ مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ
کاتب،جناب عبد الرحمن صاحب لکھنؤ
حاجی مشتاق احمد صاحب،
حاجی وسیم صاحب
ڈاکٹر احسن امین صاحب و شہر کے دیگر معززین موجود تھے،
جلسے کے بعد جامعہ الزہراء للبنات میں مولانا اعظم حشمتی صاحب کی طرف سے لنگر غوث اعظم کا انتظام کیا تھا جہاں مہمانوں نے شرکت کی،

۞۞۞ درس حدیث ۞۞۞ حدیث نمبر:5 “ایمان باللہ والرسول”ازقلم: (مفتی)محمد شعیب رضا نظامی فیضیخادم: دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔رابطہ نمبر9792125987

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ ، قَالَ:‌‌‌‏ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ ، قَالَ:‌‌‌‏ حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ ، قَالَ:‌‌‌‏ قَالَ رَسُولُﷺ:‌‌‌‏ ” مَنْ قَالَ:‌‌‌‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‌‌‌‌‌‏وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‌‌‌‌‌‏وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ، ‌‌‌‌‌‏وَابْنُ أَمَتِهِ، ‌‌‌‌‌‏وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، ‌‌‌‌‌‏وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، ‌‌‌‌‌‏وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، ‌‌‌‌‌‏أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ “
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 143 حدیث متواتر،مرفوع، متفق علیہ)

It is narrated on the authority of Ubadahh bin Samit that the messenger of Allah (ﷺ) observed: He who said:” There is no god but Allah, He is One and there is no associate with Him, that Muhammad is his servant and His messenger, that Christ is servant and the son of His slave-girl and he (Christ) His word which He communicated to Mary and is His Spirit, that Paradise is a fact and Hell is a fact,” Allah would make him (he who affirms these truths enter Paradise through any one of its eight doors which he would like.

اردو ترجمہ: “حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو آدمی اس بات کی گواہی دے (یعنی زبان سے قرار کرے اور دل سے سچ جانے) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ محمدﷺ بلا شبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (اس بات کی بھی شہادت دے کہ) عیسیٰ (علیہ السلام) (بھی) اللہ کے بندے اور رسول اور اللہ کی لونڈی (مریم) کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی جانب ڈالا تھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت و دوزخ حق (اور واقعی چیزیں) ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں “

تخریج حدیث: اس حدیث پاک کی تخریج حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں 3 اور امام ترمذی نے ایک مقام پر کی ہے

فوائدومسائل: اس حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان و عقائد کی اصلاح پر ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں سکتی، ہاں اعمال کی کمزوریاں رحمت الٰہی سے معاف ہوسکتی ہیں۔ ایمان کی بنیاد چونکہ توحید کو ماننا اور اس کی شہادت دینا ہے اس لئے سب سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت و ربوبیت پر صدق دل سے اعتقاد اور یقین رکھا جائے پھر اس کے بعد رسالت کا درجہ ہے تو ضروری ہے کہ رسول کی رسالت پر ایمان لایا جائے اسی طرح تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھنا بھی نجات کے لئے ضروری ہے۔ یہاں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر علامت کے طور پر بھی ہے اور ایک خاص وجہ سے بھی دراصل ان کے بارے میں ایک گروہ (یعنی عیسائیوں) کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اس باطل عقیدہ کی تردید کے لئے ان کا ذکر کیا گیا اور وضاحت کردی گئی کہ عیسیٰ نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اللہ ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے بلکہ وہ اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں جسے اس نے اپنی ایک باندی مریم کے پیٹ سے پیدا کیا اسی لئے ان کو ” کلمۃ اللہ ” کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم ” کلمہ کن ” سے ہوئی۔ ” روح اللہ ” ان کو اس لئے نہیں کہا گیا کہ ان کے اندر اللہ کا کوئی جزو یا اللہ کی روح شامل ہے بلکہ ” روح اللہ ” آپ کا لقب اس لئے قرار دیا گیا کہ آپ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے اور مٹی کی چڑیاں بنا کر اور ان میں جان ڈال کر اڑا دیا کرتے تھے۔ عقیدہ توحید و رسالت کے بعد تصور آخرت کا عقیدہ بھی بنیادی ہے یعنی اس بات پر ایمان و یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا برحق ہے اور جنت دروزخ واقعی چیزیں ہیں، یہ وہ عقائد ہیں جن کا ماننا، صدق دل سے ان پر ایمان رکھنا اور خلوص نیت سے ان کو تسلیم کرنا ابدی نجات کا ضامن ہے۔ ان عقائد کو مانتے ہوئے اگر اعمال کی کو تاہیاں بھی ہوں تو اس صورت میں بھی اس حدیث نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ لیکن جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے یہ بات طے ہے کہ جو عملی کو تاہیاں اور بداعمالیاں رحمت الٰہی سے معاف نہیں ہوں گی ان پر سزا ضرور ملے گی مگر سزا پوری ہونے کے بعد اس کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث کو اس مفہوم میں لینا چاہیے کہ اگر ان عقائد کے ماننے کے بعد کسی نے اعمال بھی اچھے کئے، شریعت کی پیروی کرتے ہوئے تمام احکام بجالایا اور خلاف شرع کوئی کام نہیں کیا تو بغیر کسی عذاب و سزا کے اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اگر کسی نے ان عقائد کو ماننے کے بعد اعمال اچھے نہ کئے شریعت کی پابندی نہیں کی، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام کی فرماں برداری نہیں کی تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا مگر آخر کار اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती)मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کے‌ بن لاحل ہمارا مسءلہ ہونے کو تھا
بزم ایمان و یقیں سے خارجہ ہونے کو تھا

سمت احسن دے گئی ہے رہنمائی شاہ کی
زندگی میں پست میرا حوصلہ ہونے کو تھا

کعبہ والوں کو دیا تھا راستہ اک معتدل
مکے میں جب اختلاف و تفرقہ ہونے کو تھا

یا رسول اللہ کہا جب، کام اپنا بن گیا
ورنہ میری زندگی میں سانحہ ہونے کو تھا

دی ہے تعلیم مساوات آپ نے ، ورنہ یہاں
درمیان ابن آدم تفرقہ ہونے کو تھا

آپ نے زندہ کیا اسلام کے اوصاف کو
پاش پاش اللہ کا جب ضابطہ ہونے کو تھا

آبرو میری بچائی حشر میں سرکار نے
ہوتی رسوائی مری اور مضحکہ ہونے کو تھا

شاہ نے انسانیت کو دے دیا آب بقا
ورنہ دنیا میں بتا کس کا بھلا ہونے کو تھا

فلسفہ توحید کا دےکر بچایا دہر کو
ورنہ اک پتھر تھا بے جاں ، دیوتا ہونے کو تھا

بھیجا پیغمبر کو رب دوجہاں نے دہر میں
جب کبھی ماحول دنیا کا برا ہونے کو تھا

ہوگئے الطف مرے لمحات ان کے ذکر سے
زیست کا ہر لمحہ ورنہ بے مزہ ہونے کو تھا

نعت نے تقدیس احسن دی ہے میری زیست کو
فسق سے لبریز میرا مشغلہ ہونے کو تھا

عینی تکمیل دعا ان کے وسیلے سے ہوئی
ورنہ رد میری زباں کا مدعا ہونے کو تھا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞ قسط نمبر 5 ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ

اردو ترجمہ
ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔
हिंदी अनुवाद
हम तुझी को पूजें और तुझी से मदद चाहें।

English translation
You alone we worship and from You alone we seek help (and may we always).

تشریح و توضیح
اللہ رب العزت کی تعریف و توصیف کے بیان کے بعد اب اس کے حقوق کا بیان ہے کہ اے اللہ تعریفیں سب تیرے لیے ہیں کہ تو ہی سارے جہان کا پالنہار ہے تو خوب خوب رحم فرمانے والا ہے اور تو ہی روز جزا کا مالک ہے لہذا اے اللہ جب تیری یہ شان ہے تو ہماری عبادت کا حق دار بھی صرف اور صرف تو ہی ہے اور ہمارے لیے تجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے جس سے ہم مدد مانگیں پس صرف تجھی سے مدد مانگنا مناسب و ضروری ہے اس لیے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے۔
“نعبد” اور “نستعین” میں جمع کا صیغہ کیوں؟
اگر کوئی کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती)मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

سفر بغداد و نجف اشرف مبارک ہو


پاسبان وطن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر مولانا اعظم صاحب حشمتی بروز شنبہ بغداد شریف بارگاہ غوث اعظم و بارگاہ مولائے کائنات و امام حسین کی زیارت کے لئے ممبئ سے روانہ ہونگے،
اس موقع پر انہوں نے لکھنؤ اپنے گھر پہ جمعہ کے دن ایک جلسے کا انعقاد کیا ہے، جس میں لنگر غوث اعظم کا انتظام کیا گیا ہے،
مولانا ارشاد احمد ثقافی صاحب نے بتایا کہ مدرسہ نظامیہ میں پروگرام رکھا گیا ہے جہاں علمائے کرام و معززین شہر کے علاؤہ گونڈہ و بہرائچ و دیگر اضلاع سے آنے والے مہمانوں کے لئے قیام و طعام کا بند و بست کیا گیا ہے،
اس موقع پر مدارس عربیہ اتر پردیش کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا فیاض احمد مصباحی بلرامپور نے مبارک باد پیش کی اور کہا کہ بارگاہ غوث اعظم سے زمانے کو فیض ملتا ہے ہماری پہچان کا نام غوث اعظم ہے، پوری دنیا میں غوثِ اعظم کے چاہنے والوں کی اکثریت ہے ،
مولانا نے کہا ہمیں غوث اعظم کی تعلیمات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ سچ بولنا حلال کھانا یہ تعلیمات غوثِ اعظم میں سے ہے لہذا ہمیں غوث اعظم کے کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے،
اس موقع پر مفتی عبد الرحمن بہرائچ، مفتی سہیل اختربہرائچ، مولانا جمال اختر صدف گونڈوی،
، مولانا آفاق رانی پور،مولانا قمر انجم فیضی ،مولانا اسرار احمد فیضی ،مولانا شہاب الدین سمراوی، و شاعر اسلام جمیل حشمتی، قاری مختار احمد وارثی،قاری ذاکر حسین بلسر ،قاری سرتاج احمد ،قاری کمال احمد موہنا، سراج ڈرائیور، و دیگر احباب نے مبارک باد پیش کی،

۞۞۞ درس حدیث ۞۞۞حدیث نمبر:4 اسلام ہی مدار نجات ہے:-ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل: دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یوپیرابطہ نمبر 9792125987

حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ وَأَخْبَرَنِي عَمْرٌو أَنَّ أَبَا يُونُسَ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
(صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا محمدﷺ الی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ)

It is narrated on the authority of Abu Hurairahرضی اللہ عنہ that the Messenger of Allahﷺ observed: By Him in Whose hand is the life of Muhammad, he who amongst the community of Jews or Christians hears about me, but does not affirm his belief in that with which I have been sent and dies in this state (of disbelief), he shall be but one of the denizens of Hell-Fire.

اردوترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کی قبضہ میں محمد کی جان ہے ﷺ! اس امت میں سے جو آدمی بھی خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، میری نبوت کی خبر پائے اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مرجائے، وہ دوزخی ہے۔

تخریج حدیث: اس حدیث کی تخریج بروایت ابوہریرہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں اور امام احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں ایک ایک جگہ کی ہے جبکہ مسند احمد بن حنبل میں دو روایتیں مزید ہیں۔

فوائد و مسائل
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس کے دائرہ اطاعت میں آنا تمام کائنات کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجا ہوا ایک ایسا بین الاقوامی قانون ہے جس کی پیروی دنیا کے ہر آدمی پر لازم ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کی رسالت اور آپ کی نبوت بھی چونکہ عالمگیر اور بین الاقوامی ہے۔ ہر دور کے لئے، ہر قوم کے لئے اور ہر طبقہ کے لئے، اس میں کسی کا استثناء نہیں ہے اس لئے آپ کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنا سب پر ایک ہی طرح فرض ہے، خواہ کوئی کسی قوم کسی ملک اور کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس حدیث میں یہودی اور نصرانی یعنی عیسائی کا ذکر اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں خود اپنا ایک دین اور ایک شریعت رکھتی تھیں ان کی اپنی اپنی آسمانی کتابیں تھیں جن کو مدار عمل و نجات ماننے کا ان کو خدائی حکم تھا، اس لئے ان کا ذکر کر کے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خود اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی شریعت اور اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی کتابوں کی تابع ہیں اور جن کا دین بھی آسمانی دین ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کا اتارا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اسلام کے نفاذ اور خاتم النبیینﷺ کی ہمہ گیر بعثت کے بعد جب ان قوموں کے لئے رسول کریمﷺ کی رسالت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں اور شریعت اسلام کے دائرہ میں آئے بغیر ان کی نجات ممکن نہیں تو پھر وہی قومیں پیغمبر اسلام اور شریعت اسلام پر ایمان و عمل کے بغیر ابدی نجات کیسے پاسکتی ہیں جو کسی آسمانی دین کی پابند بھی نہیں ہیں جن کے پاس کسی پیغمبر کی لائی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں ہے اور جو اللہ کے بھیجے ہوئے کسی نبی و رسول کی پیرو بھی نہیں ہیں۔ ایک بات اور بھی ہے۔ یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر موسیٰ اور عیسیٰ کے پیروکار اور اللہ کی اتاری ہوئی کتاب شریعت تو رات و انجیل کے متبع ہونے کی وجہ سے ہم تو خود ” نجات یافتہ ” ہیں۔ جنت تو ہمارا پیدائشی حق ہے، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ محمد کو اپنا رسول مانیںﷺ اور اسلام کو اپنا دین، اس حدیث کے ذریعہ ان کے اس غلط عقیدہ و خیال کی بھی تردید کی گئی ہے اور ان پر واضح کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد تو نجات ان ہی لوگوں کی ہوگی جو دین اسلام کو مانیں گے اور اس پر عمل کریں گے کیونکہ نبی کریمﷺ کی بعثت کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ سابقہ شریعتیں منسوخ ہوجائیں، تمام مذاہب کالعدم ہوجائیں اور تمام کائنات کو صرف ایک مذہب ” دین اسلام ” کے دائرہ میں لایا جائے جو اللہ کا سب سے آخری اور سب سے جامع و مکمل دین ہے “ان الدین عند اللہ الاسلام” واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

حضور رحمت تمام صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری عمر شریف کی نسبت سے “تریسٹھ” اشعار پر مشتمل نعتیہ کلام ملاحظہ فرمائیں نیک دعاؤں میں یاد رکھیں ( از قلم.. محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875)

بڑی دل کو مسرت ہو رہی ہے
رقم جو ان کی مدحت ہو رہی ہے

ترے رخ کی زیارت ہو رہی ہے
عبادت پر عبادت ہو رہی ہے

ترے شیریں تکلم پر اے جاناں
فدا خود ہی فصاحت ہو رہی ہے

پیام وصل لے کر آۓ کوئی
بپا ہم پر قیامت ہو رہی ہے

تو ان کو کہہ رہا ہے اپنے جیسا!
ابے، یہ تیری ہمت ہو رہی ہے؟

خرد والوں نے پائی پھر نصیحت
جنوں کی آج عزت ہو رہی ہے

مجھے بھی عشق کا تمغہ ملا ہے
مری بھی اعلیٰ قیمت ہو رہی ہے

اغثنی یا رسول اللہ، اغثنی
گناہوں پر ندامت ہو رہی ہے

کرا دو اب مجھے دیدار اپنا
بڑی بےچین حالت ہو رہی ہے

ہیں قبضے میں خزانے دو جہاں کے
مگر وا! کیا قناعت ہو رہی ہے

اٹھانے والے ہیں وہ رُخ سے پردہ
نثار اس رُخ پہ زینت ہو رہی ہے

عطا کر کے دعائیں دے رہے ہیں
عجب شان سخاوت ہو رہی ہے

نبی ہیں مقتدی اقصٰی میں سارے
شہ دیں کی امامت ہو رہی ہے

رقم نعت نبی میں کر رہا ہوں
ادا حساں کی سنت ہو رہی ہے

جہانِ آب و گل میں ان کے دم سے
ازل سے خوب نکہت ہو رہی ہے

اے میری جاں کے مالک اب تو آ جا
مری دنیا سے رحلت ہو رہی ہے

دعا ہے پھر آذان عشق گونجے
قضا ان کی محبت ہو رہی ہے

چھڑا ہے ذکر نعل مصطفیٰ کا
مرے گھر میں بھی برکت ہو رہی ہے

ثناۓ شاہ بطحا میں مگن ہوں
بہت اعلیٰ عبادت ہو رہی ہے

علی کے گھر کا ہے یہ خاصہ جو
سرِ نیزہ تلاوت ہو رہی ہے

مجھے بھی دیں وہ بوصیری سا مژدہ
مرے دل میں یہ چاہت ہو رہی ہے

وہاں سے سن رہے ہیں دوجہاں کی
بڑی اچھی سماعت ہو رہی ہے

چراغِ عشق روشن ہے جہاں میں
کدورت کی فضیحت ہو رہی ہے

نبی کے حسن کا صدقہ ملا ہے
جو مہر و مہ کی طلعت ہو رہی ہے

قمر ٹکڑے ہوا سورج بھی پلٹا
نبی کی یوں اطاعت ہو رہی ہے

فرشتے بزم میں کیونکر نہ آۓ
بیاں شانِ رسالت ہو رہی ہے

صداۓ اذھبو دیں انبیاء بھی
مگر ان کی شفاعت ہو رہی ہے

معطر ہے فضا ذکرِ نبی سے
بڑی خوش دل طبیعت ہو رہی ہے

کہو آمد ہوئی گلشن میں کس کی
گلوں میں کیسی رنگت ہو رہی ہے

چلیں آؤ، درِ شمس الضحٰی پر
وہاں تقسیم نعمت ہو رہی ہے

خدا کا واسطہ اب ایک ہو جا
کہ ٹکڑے ٹکڑے ملت ہو رہی ہے

جو رکھتا ہے نبی سے بعض و کینہ
اسی پر رب کی لعنت ہو رہی ہے

کرم فرمائیے شاہ مدینہ
پریشاں حال امت ہو رہی ہے

الست جام کا ہوں پھر سے طالب
مجھے اس مے کی عادت ہو رہی ہے

یہ جاں ان کی محبت میں لٹائی
ادا رسم شہادت ہو رہی ہے

وہ مکہ کے در و دیوار روۓ
مرے آقا کی ہجرت ہو رہی ہے

گلِ باغ تفکر کھل رہا ہے
ثناگوئی سے بہجت ہو رہی ہے

نبی کے اسم سے مہکی ہے محفل
عطا مائل بہ قدرت ہو رہی ہے

کرم کے پھول گلشن میں کھلے ہیں
طبیعت خوب فرحت ہو رہی ہے

سنبھالو مجھ کو اب یارو سنبھالو
کہ پیش رو وہ صورت ہو رہی ہے

پلاؤ گھول کر خاک مدینہ
اگر بےحس طبیعت ہو رہی ہے

جبیں کو خم کروں میں ان کے در پر
تجھے نجدی کیوں دقت ہو رہی ہے

میں ان کا نام لیتا جا رہا ہوں
مری پوری ضرورت ہو رہی ہے

مٹا کر خود کو ان پر خلد لے لوں
بڑی اچھی تجارت ہو رہی ہے

فصاحت ان کے قدموں کی بھکارن
ہبا شہ پر بلاغت ہو رہی ہے

درودِ پاک میں بھی پڑھ رہا ہوں
مرے اوپر بھی رحمت ہو رہی ہے

ثنا کے پھول کھلتے جا رہے ہیں
عنایت پر عنایت ہو رہی ہے

تری شان کریمی پر میں قرباں
دلوں پر بھی حکومت ہو رہی ہے

فراقِ یار میں آنسو رواں ہیں
عجب یہ میری حالت ہو رہی ہے

نبی کی نعت لکھنے کا صلہ ہے
تری جو آج شہرت ہو رہی ہے

بہت برسیں گے اب یہ آب رحمت
بیاں آقا کی سیرت ہو رہی ہے

افق پر ایماں کا خورشید چمکا
اپاہج اب ضلالت ہو رہی ہے

لگی ہے آخرت کی فکر مجھ کو
“مجھے دنیا سے نفرت ہو رہی ہے”

میں پلکوں سے بہاروں خاک طیبہ
یہی اب دل کی چاہت ہو رہی ہے

نبی کی نعت پڑھتے جا رہا ہوں
سخن گوئی سے رغبت ہو رہی ہے

خدا کا گھر بتوں سے پاک ہوگا
مبارک، ان کی بعثت ہو رہی ہے

پڑھی جاتی ہے اب میلاد گھر گھر
بہت اچھی یہ بدعت ہو رہی ہے

ترا انجام کیا ہوگا اے نجدی
تری قسمت پہ حیرت ہو رہی ہے

کلام پاک پڑھتے جا رہے ہیں
بیاں آقا کی عظمت ہو رہی ہے

میں ان کی مدح گوئی میں لگا ہوں
مجھے ان کی اجازت ہو رہی ہے

جو ان کے نام پر گردن کٹا دے
فدا خود اس پہ جنت ہو رہی ہے

رقم کرنے ہیں اب اشعار تریسٹھ
دعا دیں، نیک نیت ہو رہی ہے

انہی کا فیض ہے لاریب، اختر
یہ جو گلشن میں نزہت ہو رہی ہے

۞۞۞ درس حدیث ۞۞۞ حدیث نمبر:3 حدیث جبرئیل:ازقلم: (مفتی)محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل: دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یوپی رابطہ نمبر 9792125987


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکِتَابِهِ وَلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوبَةَ وَتُؤَدِّيَ الزَّکَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَلَکِنْ سَأُحَدِّثُکَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتْ الْأَمَةُ رَبَّهَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا کَانَتْ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُئُوسَ النَّاسِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلَا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَ ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 100 حدیث متواترومرفوع،متفق علیہ)
Abu Hurairahرضی اللہ عنہ reported: One day the Messenger of Allahﷺ appeared before the public that a man came to him and said: Prophetﷺ of Allah, (tell me) what is Iman (Faith). Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, when would there be the Hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to her master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people – these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves and compete with others in the construction of higher buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allahﷺ) recited (the verse):” Verily Allah! with Him Alone is the knowledge of the Hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Hurairahرضی اللہ عنہ ) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allahﷺ said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Holy Prophetﷺ present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allahﷺ remarked: he was Gabriel (علیہ السلام), who came to teach the people their religion

اردو ترجمہ:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن لوگوں کے مجمع عام میں تشریف فرما تھے اتنے میں ایک آدمی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ ایمان کیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کی ملاقات پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت میں قبر سے اٹھنے پر ایمان لاؤ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ اسلام کیا ہے؟ فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز پابندی سے پڑھو، فرض کی گئی زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ احسان کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا قیامت کب ہوگی؟ ارشاد فرمایا: جس سے اسکے بارے میں سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا، ہاں میں تمہیں اس کی علامات بتاتا ہوں : جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی، تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں رہنے والے لوگوں کے سردار ہوجائیں گے، تو یہ قیامت کی علامت ہے جب اونٹوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر فخر کریں گے، تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے، قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہﷺ نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ ) 31 ۔ لقمان : 34) پھر وہ شخص واپس لوٹ گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس کو واپس لاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ جبرئیل تھے تاکہ لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج حدیث: اس حدیث کی تخریج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے امام بخاری نے2، امام مسلم نے3، امام ابن ماجہ نے2، امام ابوداؤد و امام نسائی نے1-1جگہ اور امام احمد نے3 جگہ کی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس حدیث کو الفاظ مختلفہ، کچھ کمی و زیادتی، قدرے تقدیم وتاخیر کے ساتھ حضرت عمر، حضرت انس، حضرت جریر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوعامر اشعری، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے صحاح ستہ ومسنداحمد وبزار وطبرانی وصحیح ابن حبان وغیرہ میں روایت موجود ہے۔

فوائد و مسائل
اس حدیث میں سوال کرنے والے حضرت جبریل امیں تھے اسلئے یہ “حدیث جبریل” سے مشہور ہے
حدیث مذکورہ اپنے مضامین کے لحاظ سے نہایت جامع حدیث ہے جس میں ایک طرف قلبی تصدیق (ایمان) کا بیان ہے تو دوسری جانب اعمال جوارح کا ساتھ ہی ساتھ دلوں کے اخلاص کا تذکرہ بھی موجود ہے اسی لئے امام قرطبی نے اس حدیث کو “ام السنة” قرار دیا ہے کہ یہ احادیث کے جملہ علوم کو متضمن ہے۔ قرآن کریم میں سورہ فاتحہ ام الکتاب ہے اور احادیث میں یہ ام السنة۔
امور ایمان:جن امور پر ایمان ضروری ہے انہیں امور ایمان کہا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں
۞اللہ تعالی کی ذات وصفات، وجود و وحدانیت پر اور تمام عیوب سے منزہ ہونے پر
۞تمام فرشتوں پر
۞تمام آسمانی کتابوں پر جو اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی
۞اللہ رب العزت سے آخرت میں ملاقات پر
۞اللہ رب العزت کے تمام نبیوں اور رسولوں پر
۞بعث بعد الموت، حشر ونشر پر
۞تمام ضروریات دین پر جو قرآن وحدیث یا دیگر ادلہ شرعیہ سے ثابت ہیں
۞حدیث پاک میں ایمان و اسلام کے بابت الگ الگ سوال کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الگ ہیں ایسا نہیں بلکہ دونوں ایک ہیں ہاں اعمال کی تعبیر اسلام سے ضرور کی گئی ہے
۞حدیث پاک میں سوال قیام قیامت کے جواب میں نبی کریمﷺ کا فرمان مبارک “ماالمسؤل عنھا باعلم من السائل” کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں کو اسکا علم ہی نہیں بلکہ دونوں کو اسکا علم تو ہے لیکن سائل(حضرت جبریل) اور مسؤل(نبی اکرمﷺ) دونوں اس علم میں برابر ہیں، صرف قیامت کے متعلق زیادتی علم کی نفی ہے کہ نفی اسم تفضیل پر داخل ہے اسی پر شارحین بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ بدرالدین عینی کا اتفاق ہے۔
حدیث پاک میں قیامت کی تین علامتوں کا بیان ہوا ہے “اذا ولدت المرأة ربتھا” جس کا مطلب ہے کہ روساء معززین بلکہ بادشاہان وقت بھی لونڈیوں کو بیویوں کی طرح رکھیں گے ان سے اولاد ہوگی یہ اولاد اپنی ماؤں کے ساتھ وہی برتاؤ کرے گی جو آقا لونڈی کے ساتھ کرتا ہے بلکہ بادشاہ وقت کی لونڈی کے بطن سے جواولاد ہوگی ان میں بادشاہ ہونگے اور یہ مائیں ان کی رعایا ۔یا مراد یہ ہے کہ لونڈیوں کی بہت زیادہ کثرت ہوگی خدانا ترس لوگ ام ولد کو بھی بیچ ڈالیں گے اور وہ پھر دست بدست بکتی ہوئی اپنی اولاد کی ملکیت ہوگی۔ یا یہ کنایہ ہوستکا ہے کہ لوگ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ نوکرانیوں جیسا سلوک کرینگے، انہیں تکلیف پہنچائیں گے۔۞دوسری نشانی یہ کہ ننگے بدن وننگے پاؤں رہنے والے کم درجہ کے لوگ سردار وحکمراں ہوجائیں گے ۞سوم کہ بھکاری اور کالے اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے اونچے اونچے مکانات بنواکر باہم فخر کرینگے۔
۞آج دنیا کی جو حالت ہے وہ چودہ سو سال قبل میرے آقاﷺ کے ذریعہ بیان کی گئی غیب کی ان تمام باتوں کو حرف بحرف مستلزم ہے۔
☜کل سے ایمانیات پر احادیث پیش کیئے جائیں گے ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

रोज़ाना दर्स-ए-कुरआन व हदीस पढ़ने के लिए हमारा ग्रुप ज्वाइन करें!
https://chat.whatsapp.com/BxYkxPBuFvQEQkRw5XgN4C

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞قسط نمبر 4ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ

اردو ترجمہ(کنزالایمان)
روز جزا کا مالک۔

हिंदी अनुवाद
इन्साफ के दिन का मालिक।

English translation
Owner of the Day of Recompense.

تشریح و توضیح
جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ ا س دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لیے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا، کیوں کہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی، اس دن کوئی ملکیت کا دعوے دار بھی نہ ہوگا۔ اس لیے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

دینی تعلیم کے بغیر انسانیت کا تصور غیر ممکن:مولانا زاہد رضا صاحب سربراہ اعلیٰ دارالعلوم امام اعظم ابو حنیفہ ،

گزشتہ شب دارالعلوم امام اعظم ابو حنیفہ حبیب نگر دھنیسر پور وزیر گنج گونڈہ، کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے موقع پر امام اعظم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ،جس میں خصوصی خطاب کے لیے ممبئ سے تشریف لائے مفتی ذوالفقار صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو دین کی تعلیم ضرور دلانا چاہئیے تاکہ وہ زندگی جینے کا شعور سمجھیں، انہیں نے پورے خطاب میں سب سے زیادہ تعلیم پر زور دیا
اس سے پہلے مفتی مسیح الدین حشمتی نے بہترین خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں میں جوش بھر دیا ، ان کے خطاب کے دوران جلسہ گاہ مکمل طور پر بھر چکا تھا اور لوگ باہر مدرسے کے گیٹ پر سیکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوکر بیان سماعت کر رہے تھے-
اسٹیج پر ایک طرف پیر طریقت رہبر شریعت حضرت جمال مینا شاہ بیٹھے ہوئے تھے تو دوسری جانب جماعت کے بزرگ عالم دین مولانا صوفی پیر عبد الوحید صاحب قبلہ حشمتی بھی تشریف فرما تھے،ان کے شانہ بشانہ الجامعہ الاسلامیہ روناہی کے ناظم اعلیٰ قاری جلال الدین صاحب بھی موجود تھے ،انہوں نے جلسے کو خطاب کرتے ہوئے حالات پر گفتگو کی اور کس طرح کی سازشوں میں مسلمان گھرا ہوا ہے اس پر روشنی ڈالی-
نقیب اجلاس حضرت مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے کہا اس وقت گونڈہ کے مسلمانوں کی صحیح نمائندگی خانقاہ مینائیہ کر رہی ہے،
حضرت محبوب مینا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کئ مسجدوں کا حوالہ دیا جسکو بابا جی نے تعمیر کروائی اور مذہبی ملی سماجی کاموں کے حوالے سے بابا جی کے کردار کو لوگوں کے سامنے بیان کیا،
اس کے بعد جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور کے سینیئر استاذ شاعر اسلام قاری شعبان رضا نوری صاحب نے بہترین لہجے میں عارفانہ کلام پڑھا جسے سن کر مجمع جھوم اٹھا، قاری صاحب کا اپنا الگ انداز ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان سے کئ کلام کی فرمائش بھی کی، اہل اسٹیج نے خوب داد دی مزید قاری صاحب کی سلامتی کی دعا بھی کی، قاری شعبان صاحب کا اپنا الگ معیار ہے وہ بزرگوں کا کلام بہت ہی عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں،
شاعر اسلام جناب جمیل گونڈوی نے بہت بہترین انداز میں کلام پیش کیا جنہیں سامعین نے خوب پسند کیا،
کانپور سے آئے ہوئے مہمان شاعر غلام نور مجسم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنا کلام پیش کیا ، قاری حامد رضا صاحب نے مدرسے کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ یہ مدرسے ہماری شناخت ہیں انہیں باقی رکھنا ہماری اولین زمہ داری ہے ،اگر یہ مدرسے نہ رہے تو دین ہمارے گھروں سے دھیرے دھیرے نکل جائے گا اور ہم کہیں کے نہ رہیں گے ،لہٰذا ہمیں مدارس اسلامیہ کی بقا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا ہوگا،
مولانا زاہد رضا نوری صاحب سربراہ اعلیٰ دارالعلوم امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا ایک بیج کو پودا بننے اور پھر اسے درخت کی شکل اختیار کرنے میں جو وقت لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ محنت ایک بچے کو عالم دین و حافظ قرآن بنانے میں لگتا ہے،
رات دن ایک کرکے اساتذہ بچوں کو سنوارتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے ، اس پر فتن دور میں دارالعلوم چلانا آسان نہیں
یہ تو اسلام کی برکت اور قرآن کا معجزہ ہے جو بچوں کے سینے میں اترتا نظر آتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ مدرسوں کی دین ہے جو اسلام لوگوں کے گھروں تک پہنچا ہے، ان مدرسوں کے لئے ہمیں اپنا دل کشادہ رکھنا چاہیے ان مدرسوں سے ہمیں دینی سپاہی میسر ہوتے ہیں،
مہمان خصوصی دارالعلوم اہلسنت حبیب الرضا بگی روڈ کے سینیئر استاذ حضرت مولانا قاری حمید اللہ خان صاحب نےبچوں کو خوب دعائیں دیں،
اس موقع پر باہر سے آئے ہوئے مہمان مولانا قاری امتیاز صاحب بستوی، قاری علی احمد صاحب، مولانا مقیم صاحب دارالعلوم مینائیہ ،قاری ذاکر حسین صاحب بلسر، قاری مختار صاحب پرسدا،قاری فخر عالم صاحب ، قاری ظہیر احمد صاحب ، قاری عبد الحمید صاحب،قاری سرتاج احمد پرسدا ،
ادارے کے پرنسپل علامہ قاری اشفاق احمد، قاری حیدر صاحب استاذ مدرسہ ہذا،شاعر اسلام مہتاب احمد،شاعر اسلام جناب عبد الوکیل صاحب،ثنا خوان رسول جناب احمد رضا منکا پوری و احمد رضا گونڈوی صاحبان بھی موجود تھے،
ان کے علاؤہ قاری رضوان صاحب و قاری ممتاز صاحب مینائی کے علاوہ
علاقے سے آئے کثیر تعداد میں علماء و حفاظ اسٹیج پر موجود تھے-
دو بجے دستاربندی کی رسم ادا کی گئی اس کے بعد سلام و دعا پر جلسے کا اختتام ہوا-