WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives November 2022

رضامسجد میروانی پوسما میں عظیم الشان پیمانہ پر منایاگیا غوث الوریٰ کانفرنس.. رپورٹ:(حافظ)محمدمنور علی قادری انواری خطیب وامام:عائشہ مسجد،اندرا کالونی،باڑمیر (راجستھان)


خصوصی خطاب علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری نے کیا


حسب سابق امسال بھی رضامسجد میروانی،پوسما، پھُوگیرا،باڑمیر میں خدمت دین وملت ایجوکیشن اینڈ فاؤنڈیشن و نوجوان کمیٹی میروانی پوسما کے زیرنگرانی وزیر اہتمام، حضرت سید اقبال شاہ مٹاری کی سرپرستی،مصلح قوم وملت حضرت مولانا محمدعمر صاحب اکبری و حضرت مولاناشیرمحمد عرف میانداد صاحب اکبری کی صدارت اور طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری کی نظامت میں انتہائی شان وشوکت اور عقیدت واحترام کے ساتھ “غوث الوریٰ کانفرنس” کا انعقاد کیا گیا-
اس کانفرنس کی شروعات حضرت مولانا قاری صلاح الدین صاحب رحمانی کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی-
بعدہ یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل علمائے کرام نے اصلاح معاشرہ،اصلاح عقائد واعمال،عظمت وشان اولیاء کرام وغیرہ جیسے عنوانات پر بہترین خطابات کیے-
☆حضرت مولانا کمال الدین صاحب سہروردی سوڑیار،حضرت مولانا بلال احمد صاحب رضوی،حضرت مولانا محمدیوسف صاحب قادری خلیفہ جیلانی جماعت،حضرت مولانا محمدحمزہ قادری انواری،مولوی محمدشبیر ومولوی دین محمد انواری…
جب کہ خصوصی تقریر مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی مرکزی دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف کے ناظم اعلیٰ وشیخ الحدیث نورالعلماء پیر طریقت رہبرراہ شریعت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی سجادہ نشین: خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤ شریف باڑمیر کی ہوئی-
آپ نے قرآن مقدس کی آیت کریمہ یاایھاالذین آمنوااتقو الله وکونوا مع الصدقین کو اپنی تقریر کا عنوان بناکر لوگوں کو اپنے دلوں میں خشیت ربانی پیدا کرنے اور سچوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید وتلقین کرنے کے ساتھ جہاں آپ نے پیری مریدی کے آداب اور اس کے تقاضے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو حسب معمول ارکان اسلام بالخصوص پابندی ومواظبت کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرنے کی تاکید کی وہیں سبھی شرکاء جلسہ کو اپنے بزرگوں کی تعظیم وتکریم چھوٹوں پر شفقت،جملہ اوامر پر عمل پیرا ہونے ومنہیات سے پرہیز کرنے کی بھی سخت تاکید کی-
اس جلسہ میں ان حضرات نے خصوصیت کے ساتھ نعت ومنقبت خوانی کا شرف حاصل کیا-
مداح رسول حضرت قاری محمد عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور،قاری عبدالسبحان صاحب اشفاقی جودھپور،قاری خادم حسین صاحب رضوی،حافظ و قاری نواز علی برکاتی،مولانا محمدلقمان قادری باڑمیر –
اس کانفرنس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
ادیب شہیر حضرت مولانامحمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاور حسین صاحب قادری، مولاناحاجی علی محمدصاحب نگر، مولانا مجیب،مولاناباقرحسین قادری انواری،مولاناعبدالسبحان صاحب مصباحی،☆مولاناصدام حسین خطیب وامام رضامسجد میروانی پوسما☆مولاناعبدالستار انواری، مولانامحمدعرس سکندری انواری، مولانا محمدہارون، مولاناعبدالمجید، مولانا مراد علی قادری،خلیفہ محمدانور،☆خلیفہ علی محمدقادری، خلیفہ عبدالشکور قادری،جناب محمد آدم خان،جناب ساجن خان،جناب حبیب اللہ،امیدعلی،محمدرمضان بھائی کے جی این ٹرانسپورٹ کمپنی،محمدرمضان خان،حیدرعلی وغیرہم-

صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام کو پہنچا-

واضح رہے کہ دوران جلسہ سلسلۂ قادریہ کے عظیم بزرگ شیخ طریقت سیّدی و مرشدی حضرت پیر سید تاج حسین شاہ جیلانی قادری پنجتنی مدظلہ النورانی سانگرا شریف نے بذریعۂ فون اپنے مریدین ومعتقدین کو وعظ ونصیحت کرنے کے ساتھ خوب خوب دعاؤں سے نوازا-

پھر خدمت دین وملت ایجوکیشن اینڈ فاؤنڈیشن و نوجوان کمیٹی میروانی پوسما کی طرف سے حضرت مولانا عبدالمبین صاحب قادری انواری و عالی جناب روشن بھائی اشفاقی نے سبھی شرکاء جلسہ کا شکریہ اداکیا-

رپورٹ:(حافظ)محمدمنور علی قادری انواری
خطیب وامام:عائشہ مسجد،اندرا کالونی،باڑمیر(راجستھان)


ساکن:میروانی،پوسما،پوسٹ:پھُوگیرا،ضلع:باڑمیر
(راجستھان)

علماء کرام و ائمہ مساجد کی زبوں حالی کا زمہ دار کون؟تحریر، جمال اختر صدف گونڈوی

ایک وقت وہ بھی تھا جب اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کو بنایا گیا تھا ، انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ساتھ آزادی ہند کی مشعال ملک کے ہیرو مولانا حسرت موہانی نے سنبھالی تھی، انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیکر علامہ فضل حق خیرآبادی کالا پانی کی سزا کاٹ رہے تھے ، لیکن انکے فتویٰ کا اثر اتنا تھا کہ انگریزوں کی نیند حرام ہو گئ تھی، اٹھارہ ہزار حق گو علماء کو درختوں پر لٹکا دیا گیا تھا،
رہتی دنیا تک یہ سارا کچھ تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہیگا،
مگر افسوس کہ موجودہ دور میں علمائے کرام کی علمی بساط و حیثیت دونوں کی قدر نہیں ہے،
اسکے پیچھے کوئ باطل قوت کار فرما نہیں بلکہ بعض علمائے کرام خود ہیں،
انکی صاف دلی اور حد سے زیادہ نرمی نے نا اہلوں کو انکی(علماء) جگہ حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئ، مسجدوں میں صدر ،سکریٹری ،خزانچی، سب کے سب غاصب و فاسق ہی ہیں اور وہ لوگ اماموں کے سروں پہ غزاب بنے بیٹھے ہیں، ایسے ہی درگاہوں پر بھی غنڈوں کا قبضہ نظر آتا ہے جہاں چادر گاگر کے نام پر زائرین سے زبردستی پیسے وصول کئے جاتے ہیں، وہاں کسی میں ہمت نہیں کہ انکے خلاف آواز بلند کر سکے،
مسلمان یا تو مسجد یا پھر درگاہ ان دونوں جہگوں پر سب سے زیادہ جاتا ہے،
دین کا کام ان دونوں جہگوں سے بہت اچھا ہو سکتا تھا ، جہاں آمدنی بھی ہے اور وسائل بھی،
لیکن کروڑوں روپے درگاہوں پر ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں اور ان پیسوں سے سے کچھ خاندان پلتے ہیں ، انکے بچے لگژری گاڑیوں عالیشان بنگلوں اور ملک بیرونی ممالک میں سیر سپاٹا کرتے نظر آتے ہیں،
بڑے شہروں میں بھی مسجد کی آمدنی کم نہیں ہوتی ،
وہاں بھی ٹرسٹی اپنی غنڈہ گردیوں سے اللہ کے گھر کا نظام خراب کئے ہوئے ہیں،
مسجد میں نہ تو لائبریری نظر آئیگی نہ ہی مہمان خانہ بلکہ اگر بھولا بھٹکا مسافر مسجد میں چلا جاتا ہے تو اسکو ایسے بھاگاتے ہیں جیسے کچھوچھہ سے بھوت بھگایا جاتا ہے،
اب مدرسوں کی طرف رخ کرتے ہیں، چند مدارس کو چھوڑ کر بقیہ مدسے تجارت ہی کے لئے کھولے گئے ہیں ، نہ تو طلبہ کی تعلیم کا صحیح انتظام ہے اور نہ ہی دعوت و تبلیغ کے شعبے ،
کسی طرح دستار بندی کرکے فارغین کو ٹائٹل دے دیا جاتا ہے کہ تم آج سے مولانا ،مفتی،حافظ قاری ہو گئے،
یہی لوگ جب مدرسے سے باہر نکلتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی آگے جا چکی ہے، انکے لئے روزگار کا بڑا مسلہ در پیش ہوتا ہے،
مسجدیں پہلے سے پر ہیں مدرسوں میں جگہ نہیں اب کہاں جائیں کیا کریں،
نہ کوئ ہنر ہے اور نہ ہی کوئ ایسی ڈگری جس سے انہیں انکی حیثیت کے مطابق کام مل سکے،
ذریعہ معاش کے لئے چند مہینوں بھٹکنے کے بعد کوئ سعودی دبئ تو کوئ دیگر شہروں میں وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسکی اسے توقع نہیں تھی،
انہیں میں کچھ شاعر بن جاتے ہیں تو کچھ خطیب اور کچھ خانقاہوں کے جاروب کش،
ملک میں اب بھی اکثر مساجد خانقاہوں کے کنٹرول میں ہیں ، لیکن وہاں بھی اماموں کو قابل گزارا اجرت نہیں ملتی، خانقاہی مدرسوں کے اساتذہ کا بھی یہی حال ہے ،
جبکہ وہاں کی آمدنی دیگر مدارس سے گئ گنا زیادہ ہوتی ہے ،
لیکن افسوس کہ علمائے کرام کے بارے میں سوچنے والا کوئ نہیں، جبکہ مستری اپنی اجرت مانگنے میں نہیں ڈرتا، گاڑی والا کرایے میں کوئ کمی نہیں کرتا، ڈاکٹر دوا سے پہلے اپنی فیس لے لیتا ہے،
بے چارے ان علماء کو حق بھی نہیں کہ یہ قابل گزارا اجرت کی بات کر سکیں،
فوراً انہیں نکال کر اس سے کم تنخواہ میں امام رکھ لیا جاتا ہے،
اب ذرا ان سادہ دل بندوں کا بھی حال لے لیا جاے جنہیں علمائے کرام کہتے ہیں،
انہیں حضرات میں سے کچھ لوگوں نے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں قوم کو عقیدہ دیا کہ انکے بغیر جنت نہیں مل سکتی، انکے چہرے کو دیکھ لینے سے ہزاروں سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جسکا کوئ پیر نہیں اسکا پیر شیطان ہے، عرس سراپا قدس میں شرکت لازمی و باعث نجات ہے، جس نے اپنے شیخ کو خوش کر لیا گویا اس نے خدا کو خوش کر لیا، اس قسم کی غیر شرعی باتوں سے عوام کا ذہن بنایا گیا،
اب عوام نے سوچا کہ جب سب کچھ میاں ہی کرینگے تو علما کا کیا کام ؟
ان سے وہی کام لو جس میں یہ ماہر ہیں ، لہاذا انکو معمولی اجرت پہ مکتب میں ،مدرسوں میں، مسجدوں میں بطور ملازم رکھ لیا ، ساری عزت ساری نوازشات سب میاں کے لئے مختص ہو گئیں،
سال سال بھر محنت اساتذہ کریں لیکن سالانہ اجلاس میں صرف پگڑی باندھنے کے لئے خطیر رقم خرچ کرکے میاں کو بلایا جاتا ہے اور اسٹیج پر پہنچتے ہی سارا سسٹم چینج کر دیتے ہیں،
خطیب قرآن و حدیث کے لبریز مدلل خطاب کر رہا ہوتا ہے اچانک میاں کی انٹری ہوتے ہی آن واحد میں سارا موضوع تبدیل ہو جاتا ہے ،
اب یہاں سے وہ کام شروع ہوتا ہے جہاں سے انکی بربادی شروع ہوئ تھی،
وہی پرانا گھسا پٹا موضوع، انکا چہرہ دیکھو، انکا ہاتھ چومو، جنت انکی جاگیر ہے، یہ فلاں کی اولاد ہیں انکا شجرہ ہی بخشش کے لئے کافی ہے وغیرہ وغیرہ،
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی سے جلسے کو سمیٹ دیا جاتا ہے اور دستار بندی کی رسم شروع کر دی جاتی ہے،
طلبہ جنکو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہار پھول چمک دمک صرف ایک رات کے لئے ہیں ،مستقبل بہت ہی تاریک ہے، دستار بندی ختم ہو جاتی ہے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،
اب صاحبان دستار باہر نکل کر دین کا کام کریں یا گھر کا خرچ دیکھیں،
کیونکہ انکے پاس کوئ ذریعہ معاش تو ہوتا نہیں، اور نہ ہی وہ ڈگری سماج مانتا ہے، یہ دنیا کی پہلی ڈگری ہوگی جو صرف مسجد مدرسوں میں ہی کام آتی ہے باقی سماج میں اسکی کوئ قیمت نہیں اور نہ ہی اسکے لئے کوئ جگہ ہے،
علماء کی زبوں حالی کو دیکھکر آج پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں پڑھاتا، اور نہ ہی وہ خود جلسہ جلوس میں جانا پسند کرتا ہے،
ایک ننگے پاؤں پیدل آدمی سوار کو کیا نصیحت کر سکتا ہے، اور اسکی نصیحت کتنا اثر انداز ہوگی یہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں،
اب تو اکثر دولت مندوں نے ہمارے مدرسوں کو چندہ دینا بھی بند کر دیا ہے ، انکے سوسائٹی میں خود کوئ نہ کوئ چیریٹی تنظیم ہوتی ہے وہ وہیں تعاون کر دیتے ہیں،
اب تو شہروں میں جگہ جگہ عوام نے زکوٰۃ فاؤنڈیشن بنا لیا ہے اللہ جانے وہ لوگ اس رقم کا کہاں اور کیسے استعمال کرتے ہونگے،
ہمیں اپنے مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت نصاب میں ترمیم کرنی ہوگی، یونیورسٹیوں سے مدرسوں کا تعلق مظبوط ہونا چاہئے تاکہ گاہے بگاہے مدرسوں کے پروگرام میں وہاں کے اسکالرز بچوں کو گائیڈ کرتے رہیں اور بعد فراغت آسانی سے یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی ہو جایا کرے،
اسکے لئے بھی مدرسوں کو اضافی رقم کا انتظام کرنا ہوگا،
خانقاہوں سے علمائے کرام کا وفد مطالبہ کرے کہ وہ اس طرز پر مدرسوں کو چلائیں ،
افسوس کہ تعلیم میں وہ قوم ہے پیچھے،
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا،
ٹرسٹیان مساجد و عمائدین شہر کے ساتھ علمائے کرام میٹنگ کریں اور ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دباؤ بنائیں،
جلسوں میں لبرل و کمیونل خطیبوں پر پابندی لگائیں، پیشہ وارانہ گویوں کو بھی سختی سے روکا جاے،
سوشل میڈیا پر آپسی اختلاف کو شیئر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل کھڑے ہوتے جا رہے ہیں،
یہ سوشل میڈیا کی جنگ ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ سلسلوں میں بٹکر کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں،
اس پر علما کو بولنا چاہئے بلکہ میدانوں میں آکر اس کے لئے کام کرنا چاہئیے،
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں،
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،
مدرسوں کی کثرت اور تعلیم کی قلت پر بھی اگر بر وقت کچھ نہ کیا گیا تو اس کے بھی بہت خراب نتائج بھگتنے ہونگے،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ہائ رڈار پر مدرسوں کو رکھا گیا ہے،
بنام مدرسہ ہماری گنتی دیکھی جا رہی ہے نہ کہ بنام تعلیم،
اسلئے غیر ضروری مدرسوں پر بھی روک لگانا ضروری ہے،

منقبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


ہو آل جناب نبی غوث اعظم
ہو ہر اک ولی کے ولی غوث اعظم

ترے در پہ علم و ادب کی ہر اک شاخ
ادب سے ہے اب بھی کھڑی غوث اعظم

جو دیکھا تمھارے کرم کے فلک کو
مصیبت تھکی رہ گئی غوث اعظم

نبی و علی کے لعابوں کے صدقے
تمھیں مل گئی آگہی غوث اعظم

عبادت گزاری تمھاری تھی ایسی
کہ سکتے میں خود شب رہی غوث اعظم

ترے نام لیواوں پر حملہ آور
نہیں شیر ہوگا کبھی غوث اعظم

ہوئے طالبین اس کو آسودہ پڑھ کر
کتاب ایسی تم نے لکھی غوث اعظم

ہے قربان جنت کا بھی حسن جس پر
ہے ایسی تمھاری گلی غوث اعظم

جو قزاق تھے تجھ سے ملنے سے پہلے
بنے وہ ترے در ولی غوث اعظم

تمھاری عنایت کے دستے کے آگے
مصیبت کہاں ہے بڑی غوث اعظم

ولی جو ہیں دنیا میں ان کو ولایت
تمھارے ذریعہ ملی غوث اعظم

تمھیں دیکھ کر سارے باطل کی دنیا
تمھاری طرف جھک گئی غوث اعظم

یہ کہتا ہے اسلام ، تیری بدولت
اسے مل گئی زندگی غوث اعظم

صدی جو چھٹی گزری اس کے مجدد
ہو تم دین رب کے محی غوث اعظم

عشاء کے وضو سے پڑھی آپ نے فجر
ہیں یوں عابد و متقی غوث اعظم

تمھاری امامت میں پڑھ کر نمازیں
ہوئے مقتدی جنتی غوث اعظم

مجاہد نے ہم کو ملایا ہے تم سے
حبیبی ہیں سب قادری غوث اعظم

شفایابی اندھوں کو جب چاہو دے دو
کرامت تمھاری بڑی غوث اعظم

وہ وابستہ ہے سلسلے سے تمھارے
ہے قسمت کا “عینی” دھنی غوث اعظم
۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

اردو۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

آنکھ اردو کی کتنی پیاری ہے
شاعری اس پہ ہم نے واری ہے

اپنے اسلاف کی ہے یہ محنت
لہلہاتی جو اس کی کیاری ہے

اس کے باغات رکھتے ہو ویران
پھر بھی کہتے ہو یہ ہماری ہے ؟

جس کو دیکھو ، وہ اس کا گرویدہ
اک عجب اس میں سحر کاری ہے

وقت ہی اس پہ ہے نہیں قربان
ہم نے ہر چیز اس پہ واری ہے

یوم اردو ہے آج اے یارو
اک عجب جوش دل پہ طاری ہے

جو عطا کی ہے میر و غالب نے
آج بھی وہ مٹھاس جاری ہے

محفل غیر بھی فدا اس پر
اس کی دیوانی دنیا ساری ہے

کہہ رہی ہے زباں فصاحت کی
سب پہ اپنی زبان بھاری ہے

اعلیٰ حضرت کی ہے زباں اردو
اس لیے بھی یہ عینی پیاری ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

مرشد اعظم ہند حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا تصلب فی الدین.. از قلم :محمد ہاشم رضا برکاتی جماعت فضیلت! جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف،ایٹہ[یوپی]

مارہرہ مقدسہ میں آباد خاندان رسالت وہ مبارک ومسعود خاندان ہے جس کے تمام شیوخ واکابر کی پیشانیوں میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا،چنانچہ سلطان العاشقین حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی کی سب سے بڑی کرامت استقامت و تصلب فی الدین اور تقویٰ و طہارت بتائی جاتی ہے-
اسی صاحب تقویٰ و طہارت اور متصلب خانوادے کی ایک عظیم اور جلیل القدر شخصیت جنہیں دنیا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے پیکر میں جانتی اور پہچانتی ہے-
آپ 13/ فروری سنہ 1927ء کو جنت نشاں مارہرہ مقدسہ میں پیدا ہوئے-اور اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء سے نورعلم کشید کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی بافیض درسگاہوں سے حافظ قاری مولانا مفتی اور مرشد کی منزلیں طے کرتے ہوئے حسن سے احسن کے مرتبہ پر فائز ہوئے- یوں تو آپ کو خاندانی وراثت کے طور پر بے شمار اوصاف وکمالات حاصل ہوئے-مگر اس وقت میرے قلم کا محورومرکز حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا تصلب فی الدین ہے- آپ اپنے اکابر واعاظم کے اس وصف خاص کے مظہراتم تھے-آپ کے اقوال ہوں یا افعال، تحریر ہو یا تقریر، ظاہر وباطن، ہر چیز میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا-فقیہ اعظم، شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کے سوالات شرف ملت دام ظلہ العالی نے مرتب فرمائے تھے ۔اس انڑویو میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے کس پہلو نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ؟ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے اس زریں پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ آپ مذہب حق اہل سنت وجماعت ، خصوصاً مسلک اعلی حضرت کے اعلیٰ درجے کے پابند تھے اور اس میں اتنا تصلب تھا کہ کم بینوں کو تعصب کا دھوکہ ہوتا تھا ۔مسلک اعلیٰ حضرت میں نہ ادنیٰ سی مداہنت خود فرماتے تھے اور نہ اس کو برداشت فرماتے تھے-

آج کے دور میں متصلب فی الدین کی واضح پہچان مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے محبت و وابستگی ہے- اس زاویہ سے دیکھا جائے تو بھی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کو سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے غایت درجہ کا عشق تھا- اسلام وسنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت ان کا خصوصی مشن تھا- حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ احقاق حق اور ابطال باطل کے ذریعہ اپنے تصلب فی الدین کی صاف ونمایاں تصویر تھے-
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی تحریر فرماتے ہیں کہ جب مولوی خلیل احمد بجنوری ثم بدایونی نے اپنی چھپی ہوئی وہابیت کا اعلان کیا تو لوگوں نے حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ سے شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ میں مفتی شریف الحق سے بات کرتا ہوں ۔ چوں کہ یہ شخص تقیہ کرکے حضور تاج العلما علیہ الرحمہ سے مرید ہوا اور ان کا خلیفۂ مجاز تھا ۔ اور ابتداءً متصلب سنی بنتا تھا. اسی وجہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کو کچھ تردد تھا ۔
میں ایک بار حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحب! مولوی خلیل کے بارے میں کیا سنا اور دیکھا ہے ؟ میں نے بدایوں کے مناظرے کی پوری رپورٹ سنا دی اور عرض کیا : یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ دیوبندیوں کے وہ اکابر جن کی علمائے اہلسنت کی طرف سے تکفیر ہو چکی ہے وہ انکی تکفیر سے کف لسان ہی نہیں کرتا بلکہ انکو اپنا پیشوا مانتا ہے اور بلاشبہ من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفرہ کی رو سے کافر ومرتد ہو چکا ہے ، اور بلاشبہ اس کی بیعت واجازت فسخ ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے عرس قاسمی کے مبارک ومسعود موقع پر قل شریف کی محفل میں اس سے اعلان براءت فرمایا کہ یہ شخص اب سنی نہیں رہا ، اس کی اجازت و خلافت ختم ہو گئی ۔ میرے مریدین اور اہل سنت اس سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھیں-
حضور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ ہم بھائیوں سے کہتے تھے کہ میرا مرید مسلک اعلیٰ حضرت سے ذرا بھی ہٹ جائے تو میں اس کی بیعت سے بیزار ہوں ۔اور میرا کوئی ذمہ نہیں ہے ۔فرماتے تھے کہ یہ میری زندگی میں نصیحت ہے اور وصال کے بعد وصیت ہے-
ابا حضور ،حضور رفیق ملت ہم طالبان علوم نبویہ کو مسلک اعلیٰ حضرت پر پابند رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کئی مرتبہ یہ بیان فرما چکے ہیں کہ جب حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو ہم چاروں بھائیوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ” بیٹا! مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے مسلک کو مضبوطی سے تھامے رہنا“ ۔
علامہ ارشد القادری ایک تاثراتی تحریر میں فرماتے ہیں کہ حضور احسن العلماء نے دم رخصت ارشاد فرمایا: مسلک اعلی حضرت پر ڈٹے رھنا! آج سوچتا ہوں تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے کہ ان کے ایمان کی حس کتنی بیدار تھی کہ موت کا فرشتہ ان کے سرہانے کھڑا تھا اور اس عالم میں بھی انہیں اپنے خاندان کی نہیں صرف مسلک اعلیٰ حضرت کی فکر دامن گیر تھی ۔
یقینا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے کردار وعمل میں استقامت علی الحق اور تصلب فی الدین کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا تھا ، اسی طرح آپ کے اقوال و خطبات اور نصائح ووصایا کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ نے فروغ مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ آب ذر سے لکھے جانے کے قابل ہیں-
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق ورفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالمرسلین[ﷺ]

جہیز کی لعنت سے بچنا بہت ضروری ہے: از مولاناجمال اختر صدف گونڈوی

گزشتہ شب دھنوری گاؤں ضلع گونڈہ میں ایک روزہ اجلاس بنام “جشن غوث الورٰی کانفرنس” منعقد ہوئی جس میں سرپرستی فرمانے کے لئے شہزادۂ غوث اعظم اولاد علی پیر طریقت حضرت علامہ الحاج سید خلیق اشرف صاحب قبلہ رئیس دانشکدہ جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور سے تشریف لائے ،
اجلاس کی صدارت شاعر اہلسنت حضرت حافظ و قاری شعبان رضا نوری صاحب سینیئر استاذ جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور گونڈہ نے فرمائ،
جلسے کی نظامت ادیب شہیر حضرت مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے کی،
وہیں فیض آباد سے آئے ہوئے مہمان شاعر جناب احمد الفتاح نے بہترین انداز میں بارگاہ رسالت میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا جن کو سننے کے لئے دور دور گاؤں سے لوگ جلسے میں شریک ہوئے تھے،
انہوں نے نہ صرف نعتیہ شاعری کی بلکہ بزرگوں کے کلام کو بھی بحسن و خوبی پیش کیا، جس وقت انہوں نے کلام بیدم وارثی پڑھنا شروع کیا مجمع پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئ، گاؤں کے پردھان افسر علی و کوٹے دار سرور علی کی بار بار فرمائشیں ہوتی رہیں کہ کلام بیدم وارثی کو اور پڑھا جائے،لہذا ایک ایک مصرعے کو کئی کئی بار پڑھا گیا اور مجمع میں سبحان اللہ ماشااللہ کی صدائیں گونجتی رہیں،
شاعر اہلسنت حضرت قاری شعبان رضا نوری صاحب جس وقت مائک پر آئے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی ، ایک کے بعد ایک کلام وہ پڑھتے رہے لیکن لوگوں کی فرمائش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی،
انتظامیہ کمیٹی نے قاری شعبان رضا نوری کی گلپوشی کی اور نعروں کی چھاؤں میں کلام سنا،
خطیب اہلسنت حضرت مولانا قاری عتیق الرحمن رحمانی صاحب نے رات کے نصف حصے میں کرسی خطابت کو سنبھالی اور حالات حاضرہ پر ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے کہا ہماری بربادی کا سبب طریق مصطفی سے انحراف ہے ، مزید یہ بھی کہا کہ کامیابی صرف اور صرف اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پوشیدہ ہے،
مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے جہیز کے خلاف اپنے مشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک شادیوں میں سادگی نہیں اختیار کی جائے گی تب تک ہم خلاف سنت شادیوں کا ارتکاب کرکے گنہگار ہوتے رہیں گے،
انہوں نے جہیز کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ جہیز ایک بھیک ہے جو رسمی طور پر مانگی جاتی ہے ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہییے،
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ سید خلیق اشرف صاحب نے کہا کہ جب تک ہم صوفیوں کے طریق پر نہیں چلیں گے تب تک ہمارے لئے کوئ خیر میسر نہیں ہو سکتی، مزید انہوں نے کہا کہ بزرگوں نے ہمیں محبت سکھایا ہے جہاں محبت ہوگی وہاں وسعت قلبی ہوگی ،تنگ نظری کا خاتمہ ہوگا، معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنے گا،
آگے انہوں نے کہا کہ غوث اعظم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ہر شخص کو آگے آنا چاہییے،
کیونکہ جو قوم جاہل ہوتی ہے اسے غلام بنا دیا جاتا ہے ،
جاہل قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی،جہالت سب سے بڑی غربت ہے ہمیں اس غربت کے خاتمے کے لیے تعلیم کے میدان میں جنگی پیمانے پر آنا ہوگا،
غوث اعظم نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے بہت زور دیا ،خود ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصلح بھی تھے،
غوث اعظم کی تعلیمات میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ صدق مقال،رزق حلال یعنی ہمیشہ سچ بولنا اور حلال کھانا ،
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غوثِ اعظم کا فیضان سب پر جاری ہے ہاں ہمیں خود کو اس لائق بنانا ہوگا،
چونکہ سید صاحب خود ملی ۔سماجی، کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں ، ضرورت مندوں کی مدد ہو یا بیماروں کا علاج آپ ہمیشہ سب سے آگے رہتے ہیں اور علما کا خاص خیال رکھتے ہیں،
وہیں قاری رضوان احمد صاحب نے بھی ابتداء میں نظامت کے فرائض انجام دیا،
قاری صفدر علی حبیبی صاحب نے سیرت غوث اعظم پر بہترین خطاب کیا،
وہیں قاری شعیب صاحب نے احمد الفتاح کے بعد کلام پیش کیا اور بہترین کامیابی حاصل کی،
اس موقع پر مولانا انوار الرضا صاحب خطیب و امام دھنوری،قاری طیب علی صاحب پٹھانن پوروہ،مولوی منتظم صاحب ،وغیرہ زینت اجلاس تھے،
یہ پروگرام گرام پردھان محمد افسر علی و سرور علی کوٹے دار کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا-

گزشتہ شب دھنوری گاؤں ضلع گونڈہ میں ایک روزہ اجلاس بنام “جشن غوث الورٰی کانفرنس” منعقد ہوئی جس میں سرپرستی فرمانے کے لئے شہزادۂ غوث اعظم اولاد علی پیر طریقت حضرت علامہ الحاج سید خلیق اشرف صاحب قبلہ رئیس دانشکدہ جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور سے تشریف لائے ،
اجلاس کی صدارت شاعر اہلسنت حضرت حافظ و قاری شعبان رضا نوری صاحب سینیئر استاذ جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور گونڈہ نے فرمائ،
جلسے کی نظامت ادیب شہیر حضرت مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے کی،
وہیں فیض آباد سے آئے ہوئے مہمان شاعر جناب احمد الفتاح نے بہترین انداز میں بارگاہ رسالت میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا جن کو سننے کے لئے دور دور گاؤں سے لوگ جلسے میں شریک ہوئے تھے،
انہوں نے نہ صرف نعتیہ شاعری کی بلکہ بزرگوں کے کلام کو بھی بحسن و خوبی پیش کیا، جس وقت انہوں نے کلام بیدم وارثی پڑھنا شروع کیا مجمع پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئ، گاؤں کے پردھان افسر علی و کوٹے دار سرور علی کی بار بار فرمائشیں ہوتی رہیں کہ کلام بیدم وارثی کو اور پڑھا جائے،لہذا ایک ایک مصرعے کو کئی کئی بار پڑھا گیا اور مجمع میں سبحان اللہ ماشااللہ کی صدائیں گونجتی رہیں،
شاعر اہلسنت حضرت قاری شعبان رضا نوری صاحب جس وقت مائک پر آئے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی ، ایک کے بعد ایک کلام وہ پڑھتے رہے لیکن لوگوں کی فرمائش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی،
انتظامیہ کمیٹی نے قاری شعبان رضا نوری کی گلپوشی کی اور نعروں کی چھاؤں میں کلام سنا،
خطیب اہلسنت حضرت مولانا قاری عتیق الرحمن رحمانی صاحب نے رات کے نصف حصے میں کرسی خطابت کو سنبھالی اور حالات حاضرہ پر ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے کہا ہماری بربادی کا سبب طریق مصطفی سے انحراف ہے ، مزید یہ بھی کہا کہ کامیابی صرف اور صرف اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پوشیدہ ہے،
مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے جہیز کے خلاف اپنے مشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک شادیوں میں سادگی نہیں اختیار کی جائے گی تب تک ہم خلاف سنت شادیوں کا ارتکاب کرکے گنہگار ہوتے رہیں گے،
انہوں نے جہیز کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ جہیز ایک بھیک ہے جو رسمی طور پر مانگی جاتی ہے ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہییے،
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ سید خلیق اشرف صاحب نے کہا کہ جب تک ہم صوفیوں کے طریق پر نہیں چلیں گے تب تک ہمارے لئے کوئ خیر میسر نہیں ہو سکتی، مزید انہوں نے کہا کہ بزرگوں نے ہمیں محبت سکھایا ہے جہاں محبت ہوگی وہاں وسعت قلبی ہوگی ،تنگ نظری کا خاتمہ ہوگا، معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنے گا،
آگے انہوں نے کہا کہ غوث اعظم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ہر شخص کو آگے آنا چاہییے،
کیونکہ جو قوم جاہل ہوتی ہے اسے غلام بنا دیا جاتا ہے ،
جاہل قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی،جہالت سب سے بڑی غربت ہے ہمیں اس غربت کے خاتمے کے لیے تعلیم کے میدان میں جنگی پیمانے پر آنا ہوگا،
غوث اعظم نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے بہت زور دیا ،خود ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصلح بھی تھے،
غوث اعظم کی تعلیمات میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ صدق مقال،رزق حلال یعنی ہمیشہ سچ بولنا اور حلال کھانا ،
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غوثِ اعظم کا فیضان سب پر جاری ہے ہاں ہمیں خود کو اس لائق بنانا ہوگا،
چونکہ سید صاحب خود ملی ۔سماجی، کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں ، ضرورت مندوں کی مدد ہو یا بیماروں کا علاج آپ ہمیشہ سب سے آگے رہتے ہیں اور علما کا خاص خیال رکھتے ہیں،
وہیں قاری رضوان احمد صاحب نے بھی ابتداء میں نظامت کے فرائض انجام دیا،
قاری صفدر علی حبیبی صاحب نے سیرت غوث اعظم پر بہترین خطاب کیا،
وہیں قاری شعیب صاحب نے احمد الفتاح کے بعد کلام پیش کیا اور بہترین کامیابی حاصل کی،
اس موقع پر مولانا انوار الرضا صاحب خطیب و امام دھنوری،قاری طیب علی صاحب پٹھانن پوروہ،مولوی منتظم صاحب ،وغیرہ زینت اجلاس تھے،
یہ پروگرام گرام پردھان محمد افسر علی و سرور علی کوٹے دار کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا-

معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

حدیث شریف میں ہے کہ “لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے” اور “دین ہر مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے” لہٰذا ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی نفع رسانی و خیر خواہی کے لیے کمر بستہ اور تیار رہنا چاہییے، معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہییے- اس سلسلے میں ہمارے علمائے کرام، قائدین دین و ملت موثر رول اور کردار ادا کرسکتے ہیں-

ویسے اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے خود اوامر پر عمل پیرا اور منہیات سے پرہیز کرنے کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری باقاعدہ نبھائے تو معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ و مامون ہو جائے گا اور اگر ہمارے اور آپ کے اندر احساس ذمہ داری نہیں ہے تو اس بارے میں ہم سے مواخذہ ہوگا جیسا کہ حدیث رسول کا مفہوم ہے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: “تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا (ماتحت) کے بارے میں باز پرس (پوچھ تاچھ) ہوگی، آدمی اپنے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا (گھر والوں) کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے آقا(مالک) کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائےگا، پس تم میں سے ہر ایک نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا” (متفق علیہ)

اس حدیث پاک میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے امت کے ہر شخص کو اپنے اپنے فرائض کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت و لاپرواہی کرے گا وہ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں جوابدہ ہوگا… اور جو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حساس اور کوشاں ہوں گے انہیں دوسری حدیثوں میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دخولِ جنت اور ابدی سعادت کی بشارت وخوشخبری بھی دی ہے-

مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل دستور حیات عطا کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے والا مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کا حقدار ہوتا ہے- اسلامی نظام زندگی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر گوشے اور انسانوں کے ہر طبقے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں- کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے اور شادی بیاہ،تجارت و معیشت وغیرہ ہر طرح کے معاملات کے لیے دفعات و قوانین متعیّن ہیں- گویا انسانی ضرورتوں کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے جوڑے اور اپنی ہر خواہش رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کر دے-

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسلامی دستور حیات کا عملی نمونہ ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ اور آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، صحابۂ کرام،تابعین عظام اور سلف وخلف نے سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے آئیڈیل بنایا تو وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب و کامران رہے…آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمارا معاشرہ اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور نظر آتا ہے، اسلامی احکام و قوانین کا کوئی پاس ولحاظ نہیں، اور نہ ہی اپنے آقا و مولیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو زندگی کا نمونہ بنانے میں کوئی دلچسپی ہے، گویا شرمِ نبی اور خوفِ خدا دونوں ہم سے رخصت ہو چکا ہے… آج ہمارے معاشرے کی یہ بدلی ہوئی حالت کیوں ہے؟ ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے؟ ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف اور بیزاری ہے-اصلاح معاشرہ کے لئے ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور ان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل فرمایا ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں، آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، یہی وجہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پہلے اور بعد بہت سے فلاسفہ اور حکما ومصلحین ایسے بھی گزرے جو وعظ و نصیحت کرتے رہے اور انہوں نے فلسفہ اور عقل و دانائی کی بنیاد پر اپنا لوہا منوایا، لیکن معاشرے پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا، ایسا صرف اس لئے ہوا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دیکھاتے رہے لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے، وہ لوگوں کو رحم و محبت کا سبق پڑھاتے رہے لیکن خود غریبوں کو ستاتے رہے-
اصلاح معاشرہ میں آپ کا دوسرا بنیادی اصول جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے سچائی اور حق کے راستہ پر چلنا تھا، آپ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرماتے رہے اور خود بھی اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے صحابہ کو بھی اس رزیل ترین فعل سے پرہیز کرنے کی تاکید فرماتے رہے- حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ وصف اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ کو صادق اور امین مانتے تھے… جھوٹ معاشرے کے بگاڑ کی ایک اہم ترین برائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لعنت کے مستحقین میں جھوٹے کو بھی شامل کیا گیا ہے-
اب اصلاح معاشرہ کے تعلق سے ہم کچھ ایسے اہم امور اور اصول کو درج کریں گے کہ اگر ان پر عمل کر لیا گیا تو یقیناً ہمارے معاشرے کی سُدھار ہو جائے گی-

خود اپنی اصلاح کی فکر کرنا:-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص پر خود اپنی اصلاح و سدھار کی ذمہ داری ہے، اگر معاشرے کا ہر شخص اس ذمہ داری کو محسوس کر لے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرے تو معاشرے کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی، کسی دوسرے کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی، اصل خرابی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہوچکے ہیں اور محض دوسروں کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح بھی یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر اس سے پہلے خود کی اصلاح ضروری ہے، اس لیے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے خود کی ذات کے متعلق سوال ہوگا، کسی دوسرے کے متعلق سوال کا مرحلہ بعد میں آئے گا،… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا-

(1) اس کی عمر کے بارے میں کہ زندگی کے ماہ وسال اور اوقات کہاں گزارے؟…

(2) جوانی کے بارے میں کہ جوانی کس چیز میں کھوئی؟…

(3) مال کے سلسلے میں کہ مال کہاں سے کمایا؟…

(4) اور یہ کہ وہ مال کہاں خرچ کیا؟…

(5) اور یہ کہ جو باتیں وہ جانتا تھا ان پر کتنا عمل کیا؟… [ترمذی ج/2 ص/67]

جو لوگ دنیا میں اپنی اس انفرادی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گے ان کے لیے جنت کا وعدہ بھی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے صحابۂ کرام سےارشاد فرمایا: کہ اگر تم مجھ سے چھ باتوں کا وعدہ کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں…

(1) جب بات کرو تو سچ بولو…

(2) جو وعدہ کرو اسے پورا کرو…

(3) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو…

(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو…(5) اپنی نگاہ نیچی رکھو…

(6) اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو…

اسی طرح ایک روایت میں یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں-

اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی اصلاح کے بعد اب معاملہ اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کا آتا ہے- عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مصلحین قوم و ملت اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بد عملی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں حالانکہ قرآن مقدس میں واضح انداز میں فرمایا گیا ہے [یاایھاالذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا] ترجمہ: ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ- (سورۂ تحریم:6) اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی اصلاح کے بعد سب سے پہلے خود اپنے گھر والوں کے اصلاح کی ذمہ داری ہے، جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات و اطوار سے آراستہ کرتے ہیں احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہوئی ہیں-

اپنے ارد گرد،پاس پڑوس کے اصلاح کی فکر کرنا:-

اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے، سب سے پہلے اپنے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں؟ ان کے اعمال کس طرح کے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں- اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح رہنمائی کریں، دین کے اصولوں پر کاربند ہونے کے لیے ہم ان کی مدد کریں، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ اور کورے ہیں تو ہم انہیں تعلیم کی اہمیت بتا کر علم حاصل کرنے کی جانب رغبت دلائیں- اخلاق سے عاری ہوں تو ان کو اچھے اخلاق سکھائیں، ان کے معاملات زندگی خراب ہوں تو انہیں بتائیں کہ معاملات کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟- اور یہ ساری باتیں لعن طعن اور بےجا سختی کے انداز میں نہ کریں بلکہ یہ سارے کام الفت و محبّت اور نرمی و پیار کے میٹھے انداز میں کریں- صحابئ رسول حضرت ابزیٰ خزاعی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک دن سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے، نہ ان کو علم سیکھاتے ہیں، نہ ان کو نصیحت کرتے ہیں، نہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں، اور نہ ہی ان کو برائی سے روکتے ہیں- اور لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے، نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی بات سیکھتے ہیں، اللّٰہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سیکھائیں، عقل کی باتیں بتائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اور لوگوں کو بھی چاہییے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں، اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں عنقریب ہی تمہیں اس دنیا ہی میں سزا دوں گا”…(کنزالعمّال ج/3 ص/684)

سبھی مسلمانوں کی اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی ذات، اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے لوگوں کی اصلاح کے بعد عام مسلمانوں کے اصلاح کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے- اگر آپ مسلمانوں کو منکرات (برائیوں) میں مبتلا دیکھیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے(حتّی المقدور) روکیں، پھراس روکنے کے بھی مختلف درجے ہیں جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلافِ شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے، اگر ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے اور اسے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زبان سے کہنے کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، گویا اگر دل سے بھی برا نہ سمجھے تو مسلمان یا صاحبِ ایمان کہلانے کا صحیح معنوں میں مستحق ہی نہیں ہے-

اب آئییے حضور سرور کائنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اصلاح معاشرہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا اصول ملاحظہ کریں کہ اس جانب اگر ہمارے مصلحین خصوصی دھیان دے کراصلاح کی کوشش کریں تو ان شاء اللّٰہ العزیز ہمارے معاشرے میں بہت حد تک بہتری آجائےگی-

ایمانِ محکم،عملِ صالح،خوفِ الٰہی اور فکر آخرت:-

ہمارے پیارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور کن بنیادوں پر صحابۂ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتدا و پیشوا بن گئے- ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل و غارت گری کا رواج تھا، وہ لوگ راہِ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا- حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوف الٰہی اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا، وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا وہ قیصروکسریٰ جیسے عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح رہے-
آج ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم و نسق، یقین محکم کی قوت،کردار وعمل کی طاقت، خوفِ الٰہی کا زاد راہ اور آخرت کی فکر کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے… جب ہمارے پاس ایمان و یقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار و عمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگیے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا، اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاح معاشرہ کا باضابطہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا- اس لیے ہمارے مصلحین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے وقت ان باتوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں کہ سب سے پہلے ایمان کی مضبوطی پر دھیان دیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح (نیک عمل) کی جانب لوگوں کو راغب کریں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوف الٰہی و خشیّتِ ربّانی نیز فکرِ آخرت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں- اس لیے کہ اگر کسی بھی مسلمان کے اندر یہ چیزیں پیدا ہوجائیں تو وہ از خود (اپنے آپ) اوامرِ شرعیہ کا عامل اور منہیات سے پرہیز کرنے کا خوگر ہو جائے گا-
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے-آمین

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر.. از:مولاناجمال اختر صدف گونڈوی

اس وقت ملک و بیرون ملک مخالفین اسلام باضابطہ خطرناک منصوبہ بندیوں میں منہمک ہیں اور انکی کوششیں کہیں نہ کہیں ہماری تخریب کاریوں کے اسباب بنتی نظر آئ ہیں،
اندرون ملک سب سے بڑی سازش یہ رچی گئ اور یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ مسلمان ہندوؤں سے نفرت کرتا ہے، جبکہ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہا، چاہے وہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو بنام ہندوستانی سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حامی رہا،
لیکن افسوس کہ خاص طور پر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے غلط استعمال کرواکر ایک خاص طبقے میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا گیا، اور وہ زہر اتنا اثر پزیر ہوا کہ کبھی گاے کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مارا جانے لگا،
پچھلے دنوں حجاب پر خوب شور غوغا مچا کہ حجاب اسلام کا اشینشیل پریکٹس نہیں ہے تو پھر مسلم لڑکیوں کو حجاب کے لئے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ،
افسوس کہ ہم نے اسلام کی صحیح نمائندگی ہی نہیں کی،
ہم نے اسلام کو جسلہ جلوس چادر گاگر نیاز و فاتحہ تک محدود کر رکھا ،
اس سے پہلے بھی تین طلاق پر آواز اٹھی اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوے عدلیہ تک پہنچی ، جہاں طلاق پر باضابطہ قانون بنا دیا گیا، اب تین طلاق دینے والے مسلمان کو تین سال قید ہوگی،
جبکہ سات پھیرے لیکر شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو چھور دینے والوں کے خلاف کوئ قانون نہیں بنا،
اتر پردیش میں مدرسوں کا سروے کرایا گیا اور امداد یافتہ مدارس کو احکام جاری کئے گئے کہ ہماری طے کردہ شرائط پر عمل درآمدگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں،
سرکاری فرمان کے مطابق اب مدرسوں میں جن گن من کے ساتھ ساتھ وہ نصاب بھی شامل درس ہونگے جنکا ماضی میں دور دور تک تصور نہیں تھا،
حالانکہ میں شروع سے اس بات کی وکالت کرتا چلا آیا کہ مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت اپنے نصاب میں ضروری ترمیم ضرور کرنی چاہئے ،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ زبوں حالی کے شکار مدرسوں سے فارغ التحصیل وہ لوگ ہیں جنکو صرف ایک زبان کی تعلیم دی گئ اور وہ اس زبان کو سیکھ کر جب باہر نکلے تو اس زبان کے جانکار و قدردان کی عدم موجودگی و ناقدری سے پریشان در بدری پر مجبور ہوئے اور مناسب کام نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کے شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں،
صرف مسجد و مدرسہ کے لئے ہم نے تعلیم دی کی ہے ،
تو پھر مدارس و مساجد میں بھی اتنی جگہ نہیں کہ ہر سال پانچ ہزار سے زائد فارغین علماء و حفاظ کو ملازمت مل سکے ،
کیونکہ ہمارے یہاں دعوت و تبلیغ کا باضابطہ ادارہ نہیں جہاں سے قابل علماء کی ٹیم الگ الگ شہروں میں اس کام کو انجام دینے کے لئے نکلیں، اور اللہ و رسول کے فرامین پر لوگوں کی توجہ حاصل کریں،
جبکہ دعوت و تبلیغ کے ادارے نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم اسلام کو غیروں میں متعارف نہیں کروا سکے ، اور نہ ہی اسلام کی خواہش کے مطابق اللہ کے بندوں اسلام کی خوبصورتی سمجھا کر انہیں کلمے کی سے آراستہ کر سکے،
اس وقت سب سے زیادہ نو جوان جیلوں بند اپنی رہائی کے لئے پریشان ہیں ، انکا کیس لینے کے لئے ہمارے پاس کوئ ادارہ نہیں اور نہ ہی کوئ ایسی تنظیم ہے جہاں قانون کے جانکاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین کا عمل دخل ہو ،
سیاست میں ہماری موجودگی کوئ معنی نہیں رکھتی ،کیونکہ ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لی اسکا یہ نتیجہ ہوا کہ ہماری آواز جگہ جگہ دبائ جانے لگی ،
حکومت میں ہمارے نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے من چاہا قانون پاس کر لیا گیا،
ہم دو چار احتاج کرکے سرد پڑ گئے ،
جس دن یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا اس دن بھی ہم صرف تماشبین ہونگے اور کچھ نہیں ،
کیونکہ ہم نے ان چیزوں پر زور دیا جن کی اتنی ضرورت نہیں تھی کہ جتنی ضرورت سیاست میں ہمارے نمائندوں کی موجودگی کی،
علماء سیاست نہیں کر سکتے یہ مسلم عوام کی ذاتی رائے ہے،
جبکہ ماضی میں اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر علمائے کرام نے سیاست کی تقدیر بدل کر رکھ دی ،
ملک کی آزادی میں علمائے کرام نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے تاریخ کبھی بلا نہیں سکتی ،
جب غیر پڑھے لکھے مسلم لیڈران قوم کی نمائندگی کا دم بھرتے ہوے سیاسی ایوان میں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ تین طلاق کیا ہے، اسلام میں حجاب کی حیثیت کیا ہے ، ملک کی آزادی میں علمائے کرام کا کردار کیا رہا ، ملک سے محبت کا اسلام میں تصور کیا ہے،
مسلم دانشوروں کی خاموشی بھی شاید اسی وجہ سے ہے کہ جہاں بولنا غیر مفید ہو وہاں خاموش رہنا چاہیئے،
حجاب پر پابندی کی بات کرنے والوں کو جواب دینے کے لئے ہمارے پاس خود کی یونیورسٹی،اسکول ،کالج، ضرور ہونے چاہئیں،
خانقاہوں کے پاس اتنا پیسہ ہے، اور مسلسل آمدنی جاری بھی ہے ، کہ ملک کے ہر بڑے شہروں میں یونیورسٹی،کالج،اسکول بنا سکتے ہیں،
مگر افسوس کہ وہ ساری دولت پر چند خاندان عیش کر رہے ہیں ،
مسلمانوں کی حالات اس وقت تک نہیں درست ہو سکتے جب تک تعلیم میں دنیا کی کامیاب قوموں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں ،
سیاست میں بھی جب تک ہم اپنی نمائندگی درج نہیں کروائیں گے تب تک ہماری آواز اٹھانے والا کوئ نہیں ہوگا،
اب تک بیس سے زیادہ مرتبہ ناموس رسالت پر حملے ہو چکے ہیں ، بعض اوقات لوگوں نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا اور بعض اوقات خاموش تماشائی بنے رہے، ایک ڈری ہوئ قوم کی طرح یہ سب دیکھنا اور اس پر چپ رہنا بھی ایمان کی کمزور علامت ہے،
ملک میں جسکو بھی سستی شہرت چاہئے ہوتی ہے وہ براہ راست ناموس رسالت پر حملہ آور ہو جاتا ہے ، نتیجے میں ہم اپنے غم و غصّے کا اظہار کرکے بد دعائیں کرکے اپنے اپنے گھروں میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں،
ٹی وی پر ہفتوں بحث چلتی ہے ،
چند بجے ہوئے نام نہاد اسلامک اسکالرز شریک بحث ہوتے ہیں اور بچی کچی عزت بھی لٹا کر چلے آتے ہیں،
کہیں نہ کہیں ہم بھی مجرم ہیں کہ ہم اپنے پیغمبر کے کردار کو قوم میں پیش کرنے میں ناکام رہے،
دنیا کام کے ذریعے متاثر ہوتی ہے ہم نے پیغمبر کی زندگی پر کام نہیں کیا جس سے لوگ متاثر ہوں،
اصلاح معاشرہ کے لئے ہم نے صرف رسمی جلسے کئے،
تعلیم کے میدان میں ہم نے صرف مدرسے کھولے ، جو کہ چند نادار مسکین اور کچھ غریب گھروں کے بچوں کو فائیدہ پہنچانے کے لئے پوری قوم کا فطرہ زکوٰۃ مدرسوں میں لگا دیئے ،
مدرسوں میں اگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی تو شاید مدرسے ہماری ترقی میں حد درجہ معاون ثابت ہوتے ، مگر افسوس کہ ہم نے مدرسوں کو صرف مولوی خانہ بنایا ،
ہماری یہاں کسی بھی کام میں اتحاد و باضابطگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام مفید نتیجے تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں ،
مثلاً شادیوں میں جہیز کی لعنت سے بچنے کے لئے بعض خانقاہوں نے اعلان کیا ،لین اس پر اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ لعنت بہت بڑی لعنت بنکر غریب مسلمانوں کے لئے عزاب کی شکل اختیار کر چکی ہے،
ابھی حالیہ دنوں میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے شادی کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ مسلمان ذات برادری سے اوپر اٹھکر شادی کریں،
یہ بہت اچھا اعلان ہے اس سے بہت فائدے ہونگے ذات برادری کی قید سے لوگ باہر آکر من پسند رشتے تلاش کریں گے اور جہیز پر کنٹرول بھی ہوگا،
مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی دیگر خانقاہوں نے اسکا استقبال نہیں کیا ،
جبکہ صرف اسی اعلان پر تمام خانقاہیں متحد ہو جائیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے،
مسلم بچیوں کے گھر فراری و ارتداد کی ایک وجہ جہیز بھی ہے ، کیونکہ جب غریب باپ جہیز کے لالچیوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتےہیں، تو شادی ٹھکرا دی جاتی ہے اور وہ بچی جو کہ بالغ ہے کب تک گھروں میں بیٹھی رہے،
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اپنے اسکول کالج یونیورسٹی نہیں ہیں جہاں لڑکوں سے علاحدگی کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کا انتظام ہو ،
ہماری بچیاں غیروں کے بچوں کے ساتھ پڑھتی ہیں انکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ سب کہیں نہ کہیں واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے بکریوں کو بھیڑیوں کے جھنڈ میں خود ہی بھیجا ہوا ہے ،
انسان کتنی بھی کوشش کر لے فطرت نہیں بدل سکتا ،
فطرت ہمیشہ اپنے راستے کی مسافر رہی ہے،
ہر سال جلسہ جلوس کے نام پر کروڑوں روپے ہمارے معاشرے میں چندہ دے دیا جاتا ہے
اور اس پیسے سے چند گھنٹوں کے رسمی پروگرام جسکا تعلق نہ تو قرآن سے ہوتا ہے نہ حدیث سے ، برباد کر دیے جاتے ہے،
اغیار اس جلوس کے جواب میں اس سے بڑا جلوس نکال کر اسمیں نعرہ لگاتے ہیں اور بھی قابل اعتراض افعال انجام دیتے ہیں ،
جس سے جگہ جگہ فساد کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،
ہمارا سارا عمل سادگی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن ہم اپنے تمام کام بغیر ڈھول نگاڑا و ڈی جے کے کرتے ہی نہیں ،
اس پر ستم یہ کہ قوم کے نوجوان اس ڈی جے پر سر عام رقص کرتے ہوے مذہبی نعرہ بھی لگاتے ہے، لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ انکے مذہب میں ڈی جے ہے یا رقص و سرود یا پھر نعرے بازی،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ💎گیارہویں قِسط💎✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

💎 فقہاءِ عِراق اور گِرد و نَواح کے اہلِ علم کی جانب سے اور دُنیا کے گوشے گوشے سے آپ کے پاس اِستفتاء آتے.
آپ بغیر مراجعہ ، تفکّر اور غور و خوض کے فی البدیہ جواب باصواب دیتے۔ بلند پایہ علماء اور مُتبحّر فضلاء میں سے کسی کو بھی آپ کے فتوے کے خلاف کلام کرنے کی کبھی جُرأت نہیں ہوئی۔
(📖 اخبار الاخیار فارسی ص ١٧)

✍🏻 امام شعرانی نے لکھا :

“کانت فتواہ تعرض علی العلماء بالعراق فتعجبھم اشد الاعجاب فیقولون سبحان من انعم علیہ۔”
ترجمہ: فقہاءِ عراق کے پاس جب آپ کے فتاویٰ پہنچتے تو وہ اُسے حد درجہ پسند کرتے اور یُوں کہنے لگتے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے حضرت پر انعامات کی بارش کی ہے۔
(📖 الطبقات الکبری، جلد ١، ص ١٢٧)

ایک عجیب مسئلہ

🌅 بلادِ عَجم میں سے آپ کے پاس ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہوگا دنیا بھر کے لوگوں میں سے کوئی شخص وہ عبادت نہ کرتا ہوگا ، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی، اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہیے؟ :
’’علماءِ عِراقین در جواب ایں سوال متحیّر و بعجز از دریافت آں معترف گشتہ بُودند‘‘۔
یعنی اس سوال سے عراقِ عجم و عراقِ عرب کے فقہاء حیران اور ششدر رہ گئے اور اس کا جواب دینے سے معذرت کرنے لگے۔
اور انہوں نے اس مسئلہ کو حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مَکَّہ مُکرَّمَہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صِرف اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کرکے اپنی قسم پُوری کرے.
“فاعجب علماء العراق و کانوا قد عجزوا عن الجواب.”
پس اس تشفی بخش جواب سے علماءِ عراق کو نہایت ہی تعجّب ہوا کیونکہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے-
(📖 الطبقات الکبری، جلد ١، ص ١٢٧ ، اخبار الاخیار فارسی ص ١١ ، قلائد الجواہر ص ٣٨)

آپ کے فیضانِ علمی سے استفادہ کرنے والے علماء عظام جو آپ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوا کرتے: 👇🏻

🕯قاضی ابو یعلی محمد بن محمد فراء حنبلی.
🕯 شیخ فقیہ ابو الفتح نصر المنی.
🕯 شیخ ابو محمد محمود بن عثمان بقال.
🕯 امام ابو حفص عمر بن ابو نصر بن علی غزال.
🕯 شیخ ابو محمد الحسن فارسی.
🕯 شیخ عبداللہ بن احمد خشاب.
🕯 امام ابو عمرو عثمان الملقب بشافعی زمانہ.
🕯 شیخ محمد بن کیزان.
🕯 شیخ فقیہ رسلان بن عبداللہ بن شعبان.
🕯 شیخ محمد بن قائد اوانی.
🕯 شیخ عبد اللہ بن سنان ردینی.
🕯 شیخ حسن بن عبد اللہ بن رافع انصاری.
🕯 شیخ طلحہ بن مظفر بن غانم علثمی.
🕯 شیخ احمد بن سعد بن وھب بن علی ہروی.
🕯 شیخ محمد بن الازہر صیرفنی.
🕯 شیخ یحیی بن برکۃ محفوظ دیبقی.
🕯 شیخ علی بن احمد بن وھب ازجی.
🕯 قاضی القضاۃ عبدالملک بن عیسی بن ہرباس مارائی.
🕯 شیخ عثمان بن عیسیٰ.
🕯 شیخ عبدالرحمان بن عبد الملک.
🕯 شیخ عبداللہ بن نصر بن حمزہ بکری.
🕯 شیخ عبدالجبار بن ابوالفضل قفصی.
🕯 شیخ علی بن ابو ظاہر انصاری.
🕯 شیخ عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی الحافظ.
🕯 امام موفق الدین عبداللہ بن احمد بن محمد قدامہ مقدسی حنبلی.
🕯 شیخ ابراھیم بن عبدالواحد مقدسی حنبلی.
(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) آپ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے۔
(📖 قلائد الجواہر فی مناقب عبد القادر ، ص ٥/٦)

ولایت کا علم:

🌅 آپ رضی اللہ عنہ پیدائشی ولیُ اللہ تھے اور آپ کو اپنی ولایت کا علم کب ہوا اس کے بارے میں بہجۃ الاسرار شریف میں ہے کہ
حضور محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا:
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا ؟
ارشاد فرمایا کہ
میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لیے میرے ساتھ جاتے
اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ
اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ فراخ کر دو۔
(📖 بہجۃ الاسرار ص ٤۸) 

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ💎 دسویں قِسط 💎✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

غوثِ اعظم کے شیخِ طریقت :

🌅 سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ ٤۸۸ھ مطابق ۱۰۹۵ء تقریباً ۱۸ سال کی عمر میں علومِ ظاہری کی تحصیل کے لیے بغداد پہنچے اور نامورانِ فن سے بھرپور استفادہ کیا جن میں ابو الوفا علی بن عقیل حنبلی ، ابو الخطاب محفوظ کلوذانی حنبلی ، ابو غالب محمد بن الحسن باقلانی ، ابوسعید محمد بن عبدالکریم ، ابو زکریا یحییٰ بن علی تبریزی ، عارف بِاللہ حضرت حماد باس اور قاضی ابو سعید مبارک مخزومی قدس سرہم العزیز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
ان میں آخر الذکر شیخ یعنی قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ سے آپ کو غایت درجہ عقیدت تھی اور پھر یہی آپ کے شیخِ طریقت ٹھہرے۔
آپ کا اسمِ گرامی مُبارک ، کُنّیت ابو سعید اور ابو یوسف ہے ، آپ کے والدِ گرامی کا نام علی بن حسین مخزومی ہے۔
مخزوم بغداد کے ایک محلہ کا نام  ہے اسی وجہ سے آپ مخزومی مشہور ہوئے۔ اپنے زمانے کے سلطانُ الاولیاء اور بُرہانُ الاصفیا تھے۔
سرکار اعلیٰ حضرت رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.

بوالفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن و سعد
بوالحسن  اور  بو سعيد  سعد زا   کے واسطے

قادری  کر   قادری  رکھ   قادریوں  میں  اٹھا
قدر   عبد القادر    قدرت  نما    کے   واسطے

بیعت و خرقۂ خلافت :

🌅 حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ جب سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ سے بیعت لے چکے تو آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا جس سے آپ کو اتنا فیض ملا کہ خود فرماتے ہیں “میرے شیخِ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ ہر لقمہ میرے سینے کو نورِ معرفت سے بھر دیتا تھا۔”
پھر حضرت شیخ قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خرقۂ خلافت پہنایا اور فرمایا: “اے عبدالقادر یہ خرقہ حضور سرورِ کونین ﷺ نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا اُن سے حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ کو ملا اور پھر اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا اور اب میں تمہیں دے رہا ہوں۔”
یہ خرقہ پہننے کے بعد حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ پر برکات و تجلیات اور بے شمار انوارِ الہٰیہ کا نزول ہوا۔

💎 حضرت مبارک مخزومی فرماتے ہیں:
’’عبدالقادرجیلانی نے مجھ سے خرقۂ خلافت پہنا اور میں نے ان سے پہنا ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے برکت حاصل کرے گا۔‘‘
(📖 قلائد الجواہر ص ٤ / ۵)

آغازِ رشد و ہدایات :

🌅 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بغداد میں شریعت و طریقت کے علوم و معارف حاصل کر چکے تو مخلوقِ خدا کو فیضیاب کرنے کا وقت آگیا۔ ماہ شوال ۵۲۱ھ مطابق ۱۱۲۷ء کو محلہ حلبہ براینہ میں آپ نے وعظ کا آغاز فرمایا۔
(📖 بہجۃ الاسرار ص ۹۰)

💎 بغداد کے محلہ باب الزج میں حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کردیا۔ آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے طلبا کا اس قدر ازدحام ہوا کہ قدیم عمارت ناکافی ہوگئی تو بغداد کے علم دوست حضرات نے اسے وسعت دے کر شاندار نئی عمارت تیار کرائی۔ ۵۲۸ھ مطابق ۱۱۳۴ء میں یہ مدرسہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے مدرسۂ قادریہ مشہور ہوا۔
(📖 قلائد الجواہر ص ۵) 

فتاویٰ مبارکہ :

🌅 شیخ محقق شاہ عبد الحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں نقل کیا ہے: “حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ سیدی عبد الوہاب علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ نے ؁ ٥٢٨ھ تا ٥٦١ھ تینتیس ٣٣ سال درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی کے فرائض سر انجام دیئے۔”
(📖 اخبار الاخیار ص ١٥ ، قلائد الجواہر ص ١٨)

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے