WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives November 2022

خواب میں اپنا چہرہ دکھا دو، عبدالقادر جیلانی،،از قلم.. محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

بگڑی ہوئی تقدیر بنا دو، عبد القادر جیلانی
خواب میں اپنا چہرہ دکھا دو، عبدالقادر جیلانی

تیرے خدا نے تجھ کو یقیناً ایسی قوت بخشی ہے!
مردوں کو ٹھوکر سے جلا دو، عبدالقادر جیلانی

موجِ بلا میں کشتی پھنسی ہے کوئی بھی کھیونہار نہیں ہے
اس کو للہ پار لگا دو، عبدالقادر جیلانی

کرتے ہیں جو شانِ نبی میں گستاخی اور بےباکی
تم ان کی ہستی کو مٹا دو، عبدالقادر جیلانی

عشقِ نبی میں غرق رہیں ہم، ہر لمحہ بس نعت پڑھیں ہم
جام ہمیں تم ایسا پلا دو، عبدالقادر جیلانی

چور تو چوری کرنے جائے، اللہ اللہ پھر اُس کو
وقت کا تم ابدال بنا دو، عبد القادر جیلانی

کب سے تمنا دل میں لے کر اپنے بیٹھا ہے اختر
اپنا اسے بھی روضۂ دکھا دو، عبدالقادر جیلانی

از قلم.. محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

جہیز کے بھکاریوں اور بارات کے جوکروں پر لگام لگانا ضروری ہے،از قلم جمال اختر صدف گونڈوی ،


ہندوستان میں سب سے زیادہ پھیلنے والی لعنت جہیز ہے جو کہ غریب باپ کے لئے سب سے زیادہ مشکلیں کھڑی کر رہی ہے،
شمالی ہند میں یہ چلن کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے، چھوٹی سی چھوٹی شادیوں میں بھی موٹر سائیکل،فرج،واشنگ مشین،کولر،ڈبل بیڈ،سلائ مشین،سونے کی انگھوٹھی، کچھ نقد روپے، یہ امر لازم کی طرح مسلم کمیونٹی میں رائج ہے، اس پر ستم یہ کہ لڑکے والے اپنے تمام رشتے داروں کو باراتی بناکر چار پانچ سو افراد پر مشتمل لڑکی والوں کے سروں پہ عذاب کی طرح مسلط ہو جاتے ہیں،
اور وہاں پہنچ کر مغلیہ سلطنت کے وارثین کی طرح فرمائشیں کرتے ہیں، مرغے کی صحت مند ٹانگیں کہاں ہیں؟ مجھلی فرائ تو نظر نہیں آ رہی ہے، نل کا پانی کون پئے گا گلا خراب ہو جاے گا منرل واٹر کا بوٹل لائیے ، کولڈرنکس نظر نہیں آ رہی ہے کدھر ہے، بکرے کا سالن فرائ و بھنا ایک ساتھ لائیے ، کباب والا نظر نہیں آ رہا ہے، سلاد میں چکندر کم کیوں ہے؟
یا اللہ ان مفت خوروں پہ عذاب کیوں نہیں بھیج دیتا جو غریب بیٹی کے دروازے پر اپنے سارے شوق پورے کر رہے ہیں،
اب ذرا اس غریب بیچارے باپ کے بارے میں بھی غور کر لیں جو سالوں محنت کرکے ایک ایک پیسہ جمع کیا اور کسی طرح اپنی بیٹی کی شادی کا انتظام کیا اس کے دل سے پوچھئے کیا اس نے کبھی سوچا ہوگا کہ یہ سماج بیٹی کرنے کی اتنی بڑی سزا دیگا،غریب باپ رات رات صرف اس لئے نہیں سو پاتا کہ اسکی بیٹی جوان ہو چکی ہے، لوگ طعنے دے رہے ہیں، کتنی جلدی اسکی رخصتی کر دی جاے ، لڑکی کو دیکھنے کے لئے لڑکے والے آٹھ دس لوگ جاتے ہیں اس میں اسکی بہن،بھابھی، اسکی بوا، اور چند رشتوں کے اسپیشلسٹ ہوتے ہیں جو صرف وہاں کھانے اور لڑکی میں عیب تلاشے جاتے ہیں،
کھانا لگا دیا جاتا ہے ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں اسکے بعد ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں لڑکی ایسی ہے لڑکی ویسی ہے رنگ گاڑھا ہے، پاؤں تیڑھے ہیں، ناک لمبی ہے، انگلی پتلی ہے، آنکھ کتھئ نہیں ہے، صحت ٹھیک نہیں ہے،
ہزار عیب نکال کر آپس میں فیصلہ کرتے ہیں کہ انکو گھر جاکر جواب دیا جائے ، لڑکی کے باپ سے یہ کہتے ہوے وہاں سے نکل جاتے ہیں کہ گھر پر مشورہ کرکے فون کروں گا،
جب کہ سارا خاندان ساتھ میں لیکر آتے ہیں گھر میں کوئ بچا بھی نہیں ہوتا ہے،
اسکے بعد پھر کہیں جاکر دس بیس جگہوں پر ایسے ہی ٹھونس ٹھونس کر کھائنگے تب جاکر کہیں ایک جگہ رشتہ سمجھ میں آئے گا،
پھر یہاں سے پورے خاندان کی اصلیت سامنے آنا شروع ہو جاے گی،
لڑکے کو سونے کی انگوٹھی،بلٹ موٹر سائیکل،سونے کا چین، بوا کو ایک جوڑی کپڑا، لڑے کے بھائیوں کے لئے کوٹ پینٹ، لڑکے کے ماں اور باپ کے لئے انکی پسند کا کپڑا، دو تین شہ بالا کے لئے بھی کپڑے، لڑکی کی پھوپھی،بہن،پھوپھا،خالو، سب کے عمدہ جامہ اسکے کے علاؤہ ہمارے پانچ سو باراتیوں کے لئے عمدہ لذیز کھانے انکے چاے ناشتہ کا انتظام ہونا چاہیے،
منگنی میں ہمارے 100 رشتے دار آئینگے انکے لئے بہترین بند و بست ہونا چاہئے کیونکہ رشتے داروں میں ہماری ناک کٹ گئ تو ہم منھ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے،
زمانے کے اعتبار سے ٹی،وی،فرج،کولر،واشنگ مشین،سلائ مشین، دو درجن بڑے اور دو درجن چھوٹے برتن، تو دینا ہی پڑے گا،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،
ذرا سوچیں وہ قوم جس کے لئے بیٹاں رحمت ہیں کس قدر ان بیٹوں کی شادی میں سودے بازیاں ہو رہی ہیں، اس پر ملی تنظیموں،خانقاہوں، کی خاموشیاں کہیں نہ کہیں بھیانک مستقبل کا اندیشہ پیدا کر رہی ہیں،
اگر تمام خانقاہیں اس بات کر متحد ہو جائیں کہ ہمارا کوئ بھی مرید جہیز نہیں لیگا تو انشاء اللہ اسکے بہت بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں،
ایسے ہی تمام مرکز اپنے اپنے کارکنان کو سخت تنبیہ کر دیں کہ کوئ بھی جہیز والی شادی میں شرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی نکاح پڑھانے جاے گا ، یقین کیجئے بہت حد تک اس لعنت سے غریبوں کو چھٹکارا مل جاے گا،
ناموس رسالت کے نام پر مرنے مٹنے کا کھوکھلا دعوی کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کب عمل کرینگے کہ جسکی بیٹی ہو وہ اسے اچھی پرورش کرکے رخصت کر دے اسکے لئے جنت ہے،
غریب چاہے جتنی اچھی پرورش کر دے لیکن اس بیٹی کی رخصتی آخر انہیں بھیڑیوں کے یہاں ہونی ہے جو اس غریب بیٹی کے باپ کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے کے لئے اپنے بیٹوں کو پیدا کئے ہیں،
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،
افسوس تو تب ہوتا ہے جہاں یہ سارے خرافات ہوتے ہیں انہیں میں کوئ نہ کوئ شیخ، پیر، قاید اعظم کی بھی شرکت ہوتی ہے،
اور وہ تماشبین بنے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں،
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے اور درویشی بھی عیاری ہے،

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞سورہ فاتحہ(قسط نمبر: 6)ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
اِھدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

اردو ترجمہ
ہم کو سیدھا راستہ چلا !

हिंदी अनुवाद
हमको सीधा रास्ता चला!

English translation
Guide us on the Straight Path!

تشریح و توضیح
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیا اب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ!
ہدایت کا معنیٰ
ہدایت کا لغوی معنی ہوتا ہے لطف و عنایت سے کسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ “الھدایة دلالة بلطف”۔
صراطِ مستقیم کا معنی:
صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلتے رہیں، یا اِس سے مراد ’’اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ ہے جس پرصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، بزرگانِ اور اولیاے عِظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ چلتے آرہے ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور بحمدہٖ تعالیٰ یہی راستہ اہل سنّت والجماعت کا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

بحمد اللہ ہوں میں بھی دیوانہ غوث اعظم کا،، از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا سنت کبیر نگر یوپی 7565094875

بحمد اللہ ہوں میں بھی دیوانہ غوث اعظم کا
طفیل مصطفیٰ کھاتا ہوں صدقہ غوث اعظم کا

جسے سن کر وہ خود انعام دینے خواب میں آئیں
چلو لکھیں کوئی ایسا قصیدہ غوث اعظم کا

کہو! شیر ببر سے سر جھکا لے باادب فوراً
ہے اس کے روبرو جو، وہ ہے کتا غوث اعظم کا

بڑے ہی ناز سے سب اولیاء اللہ ملتے ہیں
جسے، ہے اس قدر پر نور تلوہ غوث اعظم کا

دعائیں کر رہا ہے روز و شب تجھ سے دل بسمل
دکھا دے یاالٰہی مجھ کو روضہ غوث اعظم کا

کبھی اس درکبھی اس دریوں ہی پھرتاہےوہ دردر
نہیں پاتا سکوں اک پل بھی مارا غوث اعظم کا

جنابِ دل، ذرا تم سانس کی رفتار کم کر لو!
تمہارے سامنے ہے خیر خانہ غوث اعظم کا

خیال و فکر کی کھیتی کبھی بنجر نہیں ہوگی
اسے سیراب جو کرتا ہے، چشمہ غوث اعظم کا

سلاطین زمانہ دیکھ کر آداب کرتے ہیں
انہیں معلوم ہے میں بھی ہوں منگتا غوث اعظم کا

“الٰہی خیر گردانی بحق شاہ جیلانی”
مصیبت ٹالتا ہے یہ قصیدہ غوث اعظم کا

تو اپنے نام میں لکھتا ہے اختر قادری ہر دم
ملے گا حشر میں تجھ کو سہارا غوث اعظم کا

از قلم

محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا سنت کبیر نگر یوپی 7565094875

پانچ قطعات در شانِ غوث پاک رضی اللہ عنہ،، از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

ہجر کی رات ہے اور عشق کا مارا تیرا
وصل کی چاہ لئے پھرتا ہے شیدا تیرا
میکدے میں اسے آنے کی اجازت دے دے
مر ہی جاۓ نہ یہ میکش کہیں پیاسا تیرا

وقت کے شاہوں کو وہ بھیک دیا کرتا ہے
جس کو سب لوگ کہا کرتے ہیں منگتا تیرا
چاہے جو ہو وہ، نہیں لاتا ہے خاطر میں کبھی
شیر کو پھاڑ کے رکھ دیتا ہے کتا تیرا

جب جہاں جس نے پکارا ہے اسے پہنچی مدد
مشکلوں میں کبھی منگتا نہیں پھنستا تیرا
حکم سن کر ترا ہو جاتے ہیں مردے زندے
رب کو منظور ہوا کرتا ہے چاہا تیرا

دینے آتے ہیں فرشتے بھی سلامی تجھ کو
مرتبہ ولیوں میں ہے غوث انوکھا تیرا
قسمیں رب دے کے کھلاۓ بھی پلاۓ بھی تجھے
ان کی سرکار میں رتبہ ہے نرالا تیرا

تو نہ چاہے تو نہ دن نکلے نہ ہو رات کبھی
مہر و مہ پر بھی چلے حکم اے آقا تیرا
قادری لکھتا ہے اختر تو اسی نسبت سے
کام آۓ گا سر حشر یہ لکھنا تیرا

از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

غَوثِ اَعْظَم، پِیْرَانِ پِیْر، دَسْتِگِیْرْ، رُوْشَنْ ضَمِیْر، شَیْخُ الْمَشَائِخْ، سُلْطَانُ الْاَوْلِیَاءْ، سَرْدَارُ الْاَوْلِیَاءْ، اِمَامُ الْاَوْلِیَاءْ، قُطْبِ اَوْحَد، بَازِ اشہب، زَعِیْمُ الْعُلَمَاء، قُطْبِ بَغْدَاد، شَیْخُ الْاِسْلَام، مَحْبُوبِ رَبَّانِی، غَوْثِ صَمْدَانِی، شِہْبَازِ لَامَکَانِی، قِنْدِیْلِ نُؤرَانِی، اَلْسَّیِّدْ اَلْسَّنَدْ شَیْخْ عَبْدُ الْقَادِر جِیْلَانِی رَحْمَۃُ اللَّہِ عَلَیْہِ کی بارگاہ میں خِراجِ عَقِیْدَتْ.. از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا سنت کبیر نگر یوپی 7565094875

بختِ خوابیدہ مرا ایسے جگائیں غوث پاک
خواب میں جلوہ مجھے اپنا دکھائیں غوث پاک

پھنس گیا ہے قلزم آلام میں میرا وجود
بے سرو سامان ہوں آ کر بچائیں غوث پاک

رشک سے دیکھے گا میرا گھر فراز آسماں
گر خوشا قسمت کبھی تشریف لائیں غوث پاک

عزت و توقیر بڑھ جاتی ہے اس کی دہر میں
اپنے درکا جس کو بھی نوکر بنائیں غوث پاک

اس سے اندازہ لگاؤ کیسا ہے ان کا مقام
قم باذن اللہ سے مردے جلائیں غوث پاک

یہ سعادت اور یہ اعجاز ہم کو بھی ملے
آپ کے نعلین سر پر ہم اٹھائیں غوث پاک

حدت محشر انھیں بالکل جلا سکتی نہیں
اپنے دامن میں وہاں جن کو چھپائیں غوث پاک

قادری ہوں قادری ہاں ہاں فقیر قادری
کیابگاڑے کوئی جب مجھ کو نبھائیں غوث پاک

تیرے ٹکڑے سے میں پلتا ہوں بڑا خودار ہوں
کیا جہاں والے مری قیمت لگائیں غوث پاک

کیا عجب ہوجب فرشتے پوچھیں اخترکون ہے؟
قبر میں آکر مجھے اپنا بتائیں غوث پاک

از قلم

محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا سنت کبیر نگر یوپی 7565094875

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ 💎 چھٹی قِسط 💎 ✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

💡 آپ مُستَجَابُ الدَّعوَات تھے :

 شیخ اَبُو مُحَمَّدالدَّاربَانی عَلَيهِ الرَّحمَه فرماتے ہیں:
”سیّدنا عَبدُالقادِر جیلانی رَحمَةُاللّٰهِ تَعَالىٰ عَلَيه مُستَجَابُ الدَّعوَات تھے (یعنی آپ کی دُعائیں قبول ہوتی تھیں)
اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللّٰه عِزّوجَل اُس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللّٰه عزوجل اُس کو اِنعام و اِکرَام سے نوازتا.
ضَعِیفُ الجِسم اور نَحِیفُ البَدَن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر واذکار میں مَصرُوف رہتے تھے۔
آپ اکثر اُمُور کے واقع ہونے سے پہلے اُن کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رُونُما ہونے کی اِطلاع دیتے تھے اُسی طرح ہی واقعات رُوپذیر ہوتے تھے۔”
(📖 بہجۃالاسرار، ص۱۷۲)
 

💡 آپ کی نیک سِیرَت بیویاں :
 
حضرت شیخ شہابُ الدِّین سُہَروَردِی رَحمَةُاللّٰهِ تَعَالىٰ عَلَيه اپنی شُہرہ آفاق تَصنِیف “عَوَارفُ المعَارف” میں تحریر فرماتے ہیں:
    ”ایک شخص نے حضور سیّدنا غَوثُ الاَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ سے پُوچھا: ”یاسَیّدِی ! آپ نے نکاح کیوں کیا ؟
آپ نے فرمایا:
بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دُوسرے کاموں میں خَلل پَیدا ہو جائے گا ، مگر رسول اللہ ﷺ نے مجھے حُکم فرمایا کہ
”عَبدُالقادِر ! تم نکاح کر لو ، اللّٰه عزّوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مُقرَّر ہے۔”
پھرجب یہ وقت آیا تو اللّٰه عزّوجل نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں ، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامِل مُحبَّت رکھتی ہے۔”
(📖 عَوَارِفُ المَعَارِف، ص۱۰۱)
 
🌅 حضورسَیّدی غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی بیویاں بھی آپ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کے  رُوحانی کمالات سے فیضیَاب تھیں ، آپ کے صَاحبزادے حضرت شیخ عَبدُالجَبَّار اپنی وَالدَۂ مَاجدَہ کے مُتعَلّق بیان کرتے ہیں کہ:
”جب بھی وَالدۂ مُحترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھى۔
ایک موقع پر میرے وَالدِ مُحترم غَوثِ پَاک رَحمَةُاللّٰهِ عَلَيه بھی وہاں تشریف لے آئے ، جیسے ہی آپ رَحمَةُاللّٰهِ عَلَيه کی نظر اس روشنی پر پڑی تو وہ روشنی فَوراً غَائِب ہوگئی ، تو آپ رَحمَةُاللّٰهِ عَلَيه نے اِرشاد فرمایا کہ:
”یہ شیطان تھا جو تیری خِدمَت کرتا تھا اسی لیے میں نے اسے خَتم کر دیا ، اب میں اس روشنی کو رَحمَانی نُور میں تبدیل کِیے دیتا ہوں۔”
”اس کے بعد وَالدۂ مُحترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نُور ہوتا جو چَاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔”
(📖 بَہجَةُالاَسرَار وَ مَعدنِ الاَنوَار، ص۱۹۶)

💎 سَیّدنا غَوثِ اَعظم قُدّسَ سِرّہ کی لاتعداد و بےشُمار کرامات ہیں۔
چُنانچہ شیخ عَلی بِن اَبِی نَصرالہَیتِی نے ســـنه ۵٦٢ ھ میں فرمایا:
میں نے اپنے اَہلِ زمانہ میں سے کِسی کو حضور غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ سے بڑھ کر صَاحبِ کرَامت نہیں دیکھا۔
جس وقت کوئی شخص آپ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی کرَامت دیکھنے کی خَواہِش کرتا تو دیکھ لیتا۔

💎 شیخ اَبُو عُمَر عُثمَان صریفینی کا قول ہے کہ:
سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی کرَامَات سلکِ مروارید کی مِثل تھیں جس میں یکے بعد دیگرے لگاتار موتی ہوں۔
اگر ہم میں سے ہر یَوم کوئی شخص کئی کرامات دیکھنی چاہتا تو دیکھ لیتا۔

💎 شیخ عَزیزُالدّین بِن عَبدالاسلام اور اِمَام نَووی فرماتے ہیں:
کرَامَاتِ سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ بہت کثرَت سے ہیں۔

💡 مُندَرجَہ بَالا اَولیَاءاللّٰه کے اَقوَال سے ظاہر ہے کہ سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ سے لا تعداد و بیشُمار کرامات كا ظہُور هُوا.

💡 تَفویضِ سَجَّادگِی :

شیخ اَبُو مُحَمَّد عَلَيهِ الرَّحمَه فرماتے ہیں کہ:
حَضرَت اِمَام حَسَن عَسکری رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے بَوَقتِ شَہَادَت اپنى سَجَّادگی ایک مُعتَمد بُزرگ کے حَوَالے کر کے وَصِیَّت فرمائی تھی کہ پَانچویں صَدِی کے آخری میں اَولادِ اِمَام حَسَنِ مُجتَبىٰ رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ سے ایک بُزُرگ سَیّد عَبدُالقادِر بِن سَيّد مُوسیٰ تَوَلُّد ہوں گے ، یہ سَجَّادگی اُن کے لیے ہے ، لِہٰذا اُن کے ظہُور تک ایک دُوسرے سے مُنتَقِل ہوتی ہُوئی ان کے پاس پہنچنی چاہیئے۔
چُنانچہ وہ سَجَّادگی حضور غَوثیت مَآب کے ظہُور تک اَمَانتاً مُنتَقِل ہوتی رہی۔
آخِر مِاہِ شَوَّالُ المُكرَّم ســـنه ۴۹۷ ھ میں ایک عَارِف نے حضور غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی خِدمَت میں پیش کیا۔

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے

غزل۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

کتنا ماحول خوش گوار رہا
میرے ہونٹوں پہ ذکر یار رہا

جس میں اخلاق بر قرار رہا
واسطے اس کے ہی قرار رہا

اس کی یادوں کے پھول ہیں دل میں
عمر بھر موسم بہار رہا

واسطے حق کے لکھ رہا تھا شعر
میں سدا ایسا خوش شعار رہا

انس ہے مجھ کو اس سے کچھ ایسا
دل مرا اس پہ ہی نثار رہا

پھر بھی وہ بے وفا نہیں بدلا
میں ہمیشہ وفا شعار رہا

باغ کے گل ہیں کیوں نظر انداز
ذہن میں تیرے صرف خار رہا؟

کس قدر خوش نصیب ہوں” عینی “
ناعتوں میں مرا شمار رہا
‌۔۔
از: سید خادم رسول عینی

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ 💎 پانچویں قِسط 💎✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

🌅 سیّدنا غَوثِ اَعظم کے سَوَانِح و حَالات رَقَم کرنے والے تمام مُصَنّفِین و تَذکرہ نِگاروں کا اِس پر اِتّفاق ہے کہ:
شَیخ عَبدُالقادر جیلانی قدّس سِرّہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مَجلِس میں
(جس میں اپنے دَور کے اَقطاب و اَبدَال اور بہت بڑی تعداد میں اَولیاء و صُلحَاء بھی مَوجُود تھے، جبکہ عَام لوگ بھی ہزاروں كى تَعداد ميں مَوجُود تھے.)
دَورانِ وَعظ اپنی غَوثیَتِ کُبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایا کہ:
“قَدَمِی ھٰذِہِ عَلیٰ رَقبَة کُلِّ وَلِیِ اللّٰهِ” “ترجمہ:- میرا یہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے”
تو مَجلِس میں موجود تمام اَولیاء نے اپنی گردنوں کو جُھکا دیا اور دُنیا کے دُوسرے عِلاقوں کے اَولیاء نے کشف کے ذریعے آپ کے اِعلان کو سُنا اور اپنے اپنے مَقام پر اپنی اپنی گردَنیں خَم کر دیں.
سُلطان الہند حضرت خَواجَہ غَريب نَواز سَيّدنا شیخ مُعِینُ الدِّین چِشتِى اَجمیری رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ اُس وقت خُرَاسَان كى پَہاڑی ميں حَالتِ مُراقبَہ ميں تھے آپ نے وہیں اپنی گردَن خَم کرتے ہوئے فرمايا:
“آقا ! آپ کا قَدَم میری گردَن پر ہى نہيں بلکہ میرے سَر اور آنكھوں پر بھی ہے.”
(📖 اخبار الاخیار/ شمائم امدادیہ/ سفینہ اولیأ/ قلائدالجواہر/ نزہةالخاطرالفاطر/ فتاویٰ افریقہ)

💡 مُجَاہِدَات و رِیَاضَات :

🌅 شیخ اَحمَد بِن اَبُوبَكر حَریمِی عَلَيهِمَاالرَّحمَہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے فرمایا:
“میں پچیس سَال تک تَنِ تَنہا عِرَاق کے بیابانوں اور ویرانوں میں چلتا رہا۔
نہ ہی لوگ مجھے جانتے تھے اور نہ میں کسی کو جانتا تھا۔
اَلبَتَّہ جِنَّات رِجَالُ الغَیب عِلمِ طریقت کی تعلیم حاصل کرتے۔”

🌅 شیخ اَبُوالقَاسِم عُمَر بِن مَسعُود عَلَيهِمَاالرَّحمَہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے فرمایا:
“اِبتدائے سِیَاحَت میں مجھ پر بہت اَحوَال طاری ہوتے تھے ، میں اپنے وَجُود سے غَائِب ہو جاتا اور اکثر اوقات بیہوشی میں دوڑا کرتا تھا ، جب وہ حالت مجھ سے اُٹھ جاتی تو میں اپنے آپ کو ایک دُور دَرَاز مَقام میں پاتا تھا۔”

🌅 شیخ اَبُو العَبَّاس اَحمَد بِن یَحییٰ بَغدَادِی عَلَيهِمَاالرَّحمَہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا غوثِ اعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے فرمایا کہ:
“میں چالیس سَال عِشَاء کے وَضُو سے فَجر کی نماز پڑھتا رہا اور پندرہ سال ساری ساری رات ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر صُبح تک پُورا قرآنِ مَجید فِی شَب ختم کرتا رہا۔”

🌅 شیخ اَبُو العَبَّاس عَلَيهِ الرَّحمَہ فرماتے ہیں کہ سَیّدنا غوث اعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے فرمایا کہ:
“میں بُرجِ عَجمِی (اُس بُرج کا نام جو آپ کے طویل قیام کی وَجہ سے بُرجِ عَجمِی ہو گیا تھا) گیارہ سال رہا، میں نے اُس میں اللّٰه تَعَالیٰ سے عَہد کیا کہ جب تک تو نہ کھلائے گا میں نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا۔
اس عَہد کے چالیس اَیَّام بعد شیخ اَبُو سَعِید مَخزُومِی عَلَيهِ الرَّحمَہ تشريف لائے اور فرمایا کہ مُجھے اللّٰه تعالیٰ کا حُکم ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے آپ کو کھانا کھلاؤں۔”

💡 مُحِیُ الدِّین کی وَجہِ تَسمِیَہ:

🌅 حضرت غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ اِرشاد فرماتے ہیں کہ:
“ایک دِن میں بَغَرضِ سَیر و سِیَاحَت شہرِ بَغداد سے باہر گیا۔
واپسی پر راستہ میں ایک آدمی بیمار ، زندگی سے لاچار ، خَستَہ حَال میرے سَامنے آ مَوجُود ہوا ، ضُعف و نَاتَوَانی کی حَالت میں زمین پر گِر پڑا اور اُس نے اِلتِجَا کی۔
یَاسَیّدِی ! میری دَستگیری کرو اور میرے اِس بُرے حَال پر رَحم فرما کر نَفسِ مَسِیحَا سے پُھونک مَارو تاکہ میری حَالت دُرُست ہو جائے۔
میں نے اُس پر دَم کیا۔
دَم کرنا تھا کہ وہ پُھول کی مَانِند تَر و تَازَہ ہو گیا ، اُس کی لاغری کافور ہو گئی اور جِسم میں توانائی آ گئی۔
بعد ازاں اُس نے مجھ سے کہا:
اے عَبدُالقَادِر ! مجھ کو پہچانتے ہو ؟
میں نے کہا:
ہاں ! تو میرے نانا حضرت مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ تَعَالىٰ عَلَيهِ وَسَلَّم کا دِین اِسلام ہے۔
اس نے کہا:
آپ نے دُرُست فرمایا۔
اَب مُجھے اللّٰه تَعَالىٰ نے آپ کے ہاتھ سے زِندَہ کیا ہے۔
آپ مُحِیُ الدِّین ہیں۔
دِین کے مُجَدِّدِ اَعظم اور اِسلام کے مُصلِحِ اَکبَر ہیں۔
بعد ازاں میں شہرِ بَغداد کی جَامع مَسجِد میں گیا۔
جَامع مَسجِد کے راستہ میں ایک شخص نے بَآوازِ بُلند کہا۔
یَاسَیّدِی مُحِی الدِّین۔
میں نے مسجد میں پہنچ کر دوگانہ نفل شُکرانہ اَدَا کی اور مسجد میں اپنے وَظائِف میں مَصرُوف ہو گیا۔
بَعدِ فراغتِ وَظائِف مسجد سے نِکلا تو ایک بڑا ہُجُوم دو قطار میں کھڑا ہو گیا۔
اور ہر ایک نے بَآوازِ بُلند مُحِیُ الدِّین پُکارنا شروع کیا۔
اس سے قَبل مجھے کِسی نے اس لقَب سے نہیں پُکارا تھا۔
(📖 سَوَانِحِ غَوثِ اَعظَم)

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ 💎 چوتھی قِسط 💎 ✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

💡 سَركار غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے اپنے وَطن جیلان ہی میں باضابطہ طورپر قرآنِ عَظِیم ختم کیا اور چَند دُوسری دِینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں.
آپ نے حضرت شیخ حَمَّاد بِن مُسلِم ہی سے قرآنِ مجید حِفظ کیا اور برسوں خِدمَتِ حَمَّادیَہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے.

🌼 آمَدِ بَغدَاد :

بَچپَن میں ہى وَالدِ گِرامی حضرت سَيّد اَبُوصَالِح مُوسىٰ جَنگی دوست رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کا سَایَہ آپ کے سَر سے اُٹھ چکا تھا.
لہٰذا جب آپکی عُمر شریف ســـنه ۴۸۸ ھ میں کم و بیش اَٹھارَہ سال کی ہوئی تو آپ نے حُصُولِ عِلم کے لیے بَغدَاد جَانے کی خَواہِش اپنی وَالدَۂ مُحتَرمَہ اُمُّ الخَیر اَمَةُالجَبَّار سَیّدَہ فَاطِمَہ کے گوش گزار کی۔
بَغدَاد جِیلان سے کم و بیش چَار سَو مِیل کی دُوری پر وَاقِع ہے۔
اِس طویل سَفر میں ہَزارہا صَعُوبَتِیں اور خَطرَات پِنہَاں تھے۔
لیکن جِس عَزم کا اِظہار سَیّدنا سَیّد عَبدُالقَادِر نے کیا، آپ کی وَالدَۂ مُحتَرمَہ جو پَاک بَاطِن کی مَالِکہ تھیں۔ اپنے فَرزَندِ اَرجمَند کو اِس نيک اِرادے سے کیسے روک سکتی تھیں۔
چُنانچہ سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ اپنی وَالدَۂ مُحتَرمَہ سے رُخصَت ہو کر بَغدَاد جانے والے قافلے کے ہمراہ ہو لیے۔
قافلہ ہَمدَان تک تو بَخَيریَت پہنچ گیا لیکن جب ہَمدَان سے آگے ترتنک کے سُنسَان کوہستَانِی عِلاقہ میں پہنچا تو سَاٹھ قَزَّاقوں بَاِختلافِ رِوَايَت چَاليس قَزَّاقوں کے ایک جَتّھے نے قافلے پر حَملہ کر دیا.
اس جَتّھے کے سَردَار کا نام اَحمَد بَدوی تھا۔
قافلہ کے لوگوں میں ان خُونخَوار قَزَّاقوں کے مُقابلہ کی سَکت نہ تھی۔
قزَّاقوں نے قافلہ کا تَمَام مَال و اَسبَاب لُوٹ لیا۔
اِتّفَاقاً ڈاکوؤں کی نظر سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ پر پڑی۔
اُنہوں نے آپ سے پُوچھا:
کیوں لڑکے !  تیرے پاس کچھ ہے؟
آپ نے بِلا خَوف و ہرَاس جَوَاب دیا:
میرے پاس چَالیس دِینَار ہیں۔
ڈاکو آپ کو پکڑ کر اپنے سَردار کے پاس لے گئے۔
آپ نے وہی جواب ڈاکوؤں کے سردار کو بھی دیا۔ ا ور اپنی گڈری پھاڑ کر چالیس دینار ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ:
میری مَاں کا حُکم تھا کہ جُھوٹ نہ بولنا، سَچ کا دَامَن کبھی نہ چھوڑنا۔
چُنانچہ تمام قزّاق تھوڑی دیر تک تو حَيرَت سے آپ کا مُنھ تکتے رهے پھر یہ کہتے ہوئے آپ کے قَدموں میں گِر پڑے کہ ہم اِنتے سَالوں تک اپنے رَبّ سے كیے عَہد و پَيمَان كى پَامَالى كرتے رهے اور آپ نے صِرف اپنی مَاں سے کیے وعدے پر جَان و مال كو دَاؤ پر لگا دیا.
قزّاقوں نے قافلے کا لُوٹا ہوا سَامَان وَاپس کیا اور آپ کے دَستِ مُبَارَک پر ڈاکہ زنی سے تَوبَہ کی.

❇ سرکارغوث اعطم نے ســـنه 528 ھ میں دَرسگاہ کی تعليم سے فراغت پائی اور مُختلف اَطراف وجَوَانِب کے لوگ آپ سے شَرفِ تَلمُّذ حاصل کرکے عُلومِ دِینیَہ سے مالامال ہونے لگے.
آپ کی ولايَت و بُزرگی اِسقدر مشہور اور مُسَلّمُ الثّبُوت ہے کہ آپ کے “غَوثِ اَعظم” ہونے پر تمام اُمَّت کا اِتّفاق ہے.

💡 حضرت کے سَوَانِح نِگار فرماتے ہیں کہ:
“کِسی وَلی کی کرامتیں اِسقدار تَوَاتُر اور تفاصِیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غُوثُ الثّقلین کی کرامَتیں ثقاہت سے مَنقول ہیں.”
(📖 نُزهَةُالخَاطِرالفَاطِر)

🌅 خَلقِ خُدا میں آپ کی مَقبولیَت ایسی رہی ہے کہ اَکابِر و اَصَاغِر سب ہی عَالَمِ اِستِعجَاب میں مُبتلا ہوجاتے ہیں.
مَشرق یا مَغرب ہر ایک غَوثِ اعظم کا مَدَّاح اور آپ کے فیض کا حَاجَت مَند نظر آتا ہے.
مَقبُولیَت و ہردِلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبانِ فَيض تَرجمان كى شِیریں بیانی اور کلام و وَعظ میں اَثرآفرینی بھی حَیرَان کُن تھی۔
اِسے آپ یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حَیاتِ مُقدَّسَہ کاایک ایک لمحہ کرامت ہے.
اور آپ کے عِلمی کمال کا تو یہ حال تھا کہ جب بَغداد میں آپ کی مَجَالِس وَعظ میں سَتَّر سَتَّر ہزار سَامعین کا مَجمَع ہونے لگا تو بعض عَالِموں کو حسد ہونے لگا کہ ایک عَجمی گیلان کا رہنے والا اِسقَدَر مَقبُولیَت حَاصِل کر گیا ہے۔

💎 چُنانچہ حَافظ اَبُوالعَبَّاس اَحمَد بِن اَحمَد بَغدَادِی اور علامہ حافظ عَبدُالرَّحمٰن بِن الجَوزی ( يہ دونوں ہى اپنے وقت میں عِلم کے سَمندر اور فَنّ تَفسِر و اَحَاديث بيانى ميں پَہاڑ شُمار کیے جاتے تھے.)
آپ کی مَجلِسِ وَعظ میں بَغَرضِ اِمتحَان حَاضِر ہُوئے، اور یہ دونوں خَامُوشى سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے.
جب حضور غَوثِ اَعظم نے وَعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تَفسِیر مُختَلِف طریقوں سے بیان فرمانے لگے.
پہلی تَفسِیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عَالِموں نے ایک دُوسرے کو دیکھا اور تَصدِیق کرتے ہُوئے اپنی اپنی گردنیں ہلا دیں.
اِسی طرح گیارہ تَفسِیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر اپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور تَصدِیق کرتے رہے ، مگر جب حضور غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تَفسِیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے ، اِس لیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا مُنھ تَکنے لگے.
اِسی طرح چالیس تَفسِیریں اس آیتِ مُبَارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عَالَمِ اِستِعجَاب میں تَصویرِ حَیرَت بنے سُنتے اور سَر دُھنتے رہے.
پھر آخر میں حُضُور غَوثِ اَعظم نے فرمایا کہ اب ہم قَال سے حَال کی طرف پَلٹتے ہیں.
پھر بلند آواز سے کلمۂ طیّبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مَجلس میں ایک جوش و کیفیت اور جَذب پیدا ہو گیا اور عَلّامَہ اِبنُ الجَوزی نے جوشِ حَال میں اپنے کپڑے پَھاڑ ڈالے.
(📖 بَہجَةُالاَسرَار)

💎 بغیر كِسى سَاؤنڈ سِسٹم کے سَتَّر ہَزَار کے مَجمَع تک اپنی آواز پہنچانا اور سب کا یَکسَاں اَنداز میں سَماعَت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے کہ روزانہ ظاہر ہوتی رہتی تھی۔

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے