WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

منقبت در شانِ سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمة اللہ علیہ،، رشحات قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

بزم برکات نوری

عارفِ ذاتِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں
شمعِ عشقِ مصطفی مخدوم اشرف آپ ہیں

پیکرِ رشد و ہدی مخدوم اشرف آپ ہیں
شانِ بزمِ اولیا مخدوم اشرف آپ ہیں

کوہِ زہد و اتقا مخدوم اشرف آپ ہیں
بحرِ عرفانِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں

کیجیے آزاد قیدِ غم سے بہرِ پنجتن
دافعِ رنج و بلا مخدوم اشرف آپ ہیں

زہد و تقوی عزم و ہمت صبر و استقلال میں
پرتوِ شیرِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں

وہ جگہ ہے خلد کے باغات میں سے ایک باغ
جس جگہ جلوہ نما مخدوم اشرف آپ ہیں

سارے عالم پر عیاں ہے آپ کا جاہ و جلال
کیا کہے فانی کہ کیا مخدوم اشرف آپ ہیں

رشحات قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں ہوا محفل ایصال ثواب کا انعقاد،، رپورٹ :محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف


ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ میں 26 اگست بروز جمعہ کی شام حضور احسن العلماء حضرت سید مصطفی حیدر حسن رحمہ اللہ تعالی علیہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی یاد میں ایک پر کیف اور روح پرور محفل کا انعقاد کیا گیا جس کی سرپرستی حضور رفیق ملت دامت برکاتہم القدسیہ نے فرمائی اور صدارت ان کے برادر مکرم حضور شرف ملت حضرت سید اشرف میاں قادری برکاتی دام ظلہ العالی نے فرمائی۔ یہ نورانی و عرفانی محفل جامعہ احسن البرکات کے صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد عرفان ازہری کی زیر نگرانی ہوئی۔
محفل پاک کی ابتداء اسلاف کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔جس کے لیے حافظ و قاری نعمان برکاتی (جماعت اولیٰ) کو بلایا گیا اور انہوں نے بہترین انداز میں تلاوت قرآن پاک کرکے حاضرین کے دلوں کو محظوظ فرما یا پھر اس کے بعد جماعت ثالثہ کے طالب علم محمد رفیع نے کلام اعلی حضرت” ہے کلام الہی میں شمس الضحیٰ تیرے چہرئےنور فزا کی قسم”کو پرکشش انداز میں پڑھا اس کے بعد پھر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لیے محمد اکرم (جماعت اعدادیہ) تشریف لائے بعدہ جماعت کی فضیلت کے ایک ہونہار طالب علم فخر عالم نے حضور شرف ملت کی ایک بہترین منقبت “اس سخی کے ہاتھوں نے خوب خوب بانٹا تھا” جوانہونے اپنی والدہ ماجدہ کی یاد میں رقم فرمائی تھی ۔جس کو سن کر محفل پر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔فری وی نعت و منقبت کا سلسلہ چلتا رہا اور ناظم بزم حضرت قاری عرفان صاحب برکاتی نے جامعہ کے ایک بہترین عالم و فاضل حضرت علامہ مولانا محمداسلم نبیل ازہری صاحب کو نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت سخن دی حضرت اسلم نبیل ازہری صاحب حضرت نظمی علیہ الرحمہ کا مشہور زمانہ کلام”بسی ہے جب سے وہ تصویر یار آنکھوں میں”کو اپنی بہترین لب و لہجہ میں پیش فرما کر محفل کو لطف اندوز فرمایا، پھر اس کے بعد محفل کا رخ نظم سے نثر کی طرف منتقل ہوا اور خطاب نایاب کے لیے جامعہ کی ایک نہایت قابل عالم دین حضرت مولانا مفتی انیس القمر صاحب امجدی حفظہ اللہ ورعاہ کو دعوت دی گئی جنہوں نے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی زندگی کے انمول لمحات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، اور انہونے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی وہ عادات کریمہ بیان فرمائی جن کا اب کسی عورت میں پایا جانا نا ممکن نظر آتا ہے اور موصوف کی خطاب سے مجلس پر کیف وسرور فرحت وانبساط کی لہر دوڑ پڑی بعدہ ابا حضور نے اپنی والدہ محترمہ کے اوصاف کریمانہ بیان فرمائے اور تمام حاضرین کو یہ درس دیا کہ جس طرح اپنے استاد، پیر اور دیگر علماء کرام کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیتے ہو یونہی اپنے والدہ کے ہاتھ پیر کو بوسہ دیا کرو پھر اباحضور نے حضرت قاری عرفان صاحب کو نعت پڑھنے کے لئے مدعو فرمایا اس کے بعد حضور شرف ملت نے اپنے مشفقہ سیدہ عابدہ زاہدہ والدہ ماجدہ کے کچھ قصائص بیان فرمائے اور انہوں نے اپنی گفتگو ایک مشہور شاعر نور کے اس شعر “میں تو غزل سناکے اکیلا کھڑا رہا_ سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے”پر مکمل فرمائی،اس کے بعد صلاۃوسلام و فاتحہ خوانی پر محفل اختتام پزیر ہوئ اور چلتے چلتے ابا حضور نے حیدر آباد کے ایک بی جے پی لیڈر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہنے کی بنا پر پر زور مذمت فرمائی ۔
رپورٹ:
محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)
متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف.

عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین: وقت کی اہم ضرورت،، از: حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر(راجستھان)

کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے،اتحاد ایک زبر دست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تو دور کی بات آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتی ،حضور نبی کریم ﷺ،خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کے عہد کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس کام کو بڑی بڑی قومیں اپنی طاقت کے بَل بوتے پر نہیں کرسکیں،اُس کو مسلمانوں نے باہمی اتحاد و اتفاق ،اخوت وہمدردی آپسی بھائی چارگی اور اجتماعیت سے کر دکھایا۔

آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو، اور جتنا کمزور آج کا مسلمان ہے شاید ہی اتنا کمزور کبھی رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر ہی حملہ آور ہورہی ہیں۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے، ان کے املاک تباہ و برباد کئے جا رہے ہیں، بہت سارے ممالک میں انہیں تہ وتیغ کیا جارہا ہے ،جن میں قابل ذکر فلسطین، افغانستان،عراق، سیریا،حلب اور میانمار ہے۔ وطن عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے ہراساں و پریشاں کیا جاتا ہے ،کبھی شریعت میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،تو کبھی گائے کے نام پر ،معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامی قلعے مدارس و مساجد کی طرف انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری ایسی درگت کیوں ہو رہی ہے؟ہمیں ہر طرف سے دبانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟جب کی اللہ نے مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے ،اور یہ نعمتیں مختلف انواع و اقسام کی ہیں، جیسے اللہ نے مسلمانوں کو زراعتی،حیوانی،آبی، معدنی غرضیکہ ہر قسم کے دولت وثروت سے نوازا ہے، پیٹرول کا ایک وافر مقدار مسلمانوں کے پاس موجود ہے، مسلمانوں کی تعداد بھی ایک عرب سے زائد ہے،ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور ان کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، اہم آبی گزر گاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ پھر بھی مسلمان اتنا بے بس، مجبور، کمزوراور ذلیل و خوار کیوں ہیں ؟ان کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟ا ن کے متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ان میں سب سے اہم اور اصل وجہ آپسی اختلاف و انتشار اورتفرقہ بازی ہے ،یہی وہ بیماری ہے جس نے آج مسلمانوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے آج اغیار ہم پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف سے اتحاد اتفاق اور باہمییکجہتی کی جو میراث ملی تھی ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے اوراس کے بر عکس آج دوسری قومیں متحد و متفق ہو کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اور ویسے بھی اسلام نے مسلمانوں کے سامنے آپسی اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور پیش کیا ہے اور مسلمانوں کے مضبوط تعلقات پر خاص زور دیا ہے۔آج عالمی سطح پر دعوتِ دین اور غلبۂ دین کے لئے امت مسلمہ میں مضبوط اجتماعیت اور منظم اتحاد کی ضرورت ہے۔قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اجتماعیت اور آپسی اتحاد پر صاف صاف وضاحتیں ملتی ہیں۔جیسا کہ سورۂعمران آیت/ ۱۰۳،میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: “وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔ یہاں مفسرین کے نزدیک ’’حبل اللّٰہ ‘‘سے مراد کتاب اللّٰہ اور سنت رسول ہے۔ اسی طرح سورۂانفال آیت/۴۶ میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ”یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جگھڑا و اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” اللہ کے رسول ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے تمام صحابۂ کرام کے سامنے فرمایا ’’تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت ہے۔(مسلم)

لہذا مسلمانوں کے پاس کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ایک مصرعہ ہم نے اکثر سنا ہوگا “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے” یہ مشہور مصرعہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کا ہے،ڈاکٹر اقبال نے بھی اُمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ر ہے ہیں کہ قومیت کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔لیکن مقام افسوس صد افسوس ہے! کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ گمراہ اور بھٹکی ہوئی راہ پر گامزن ہیں ، ذلت و رسوائی اور ذہنی محکومی ہمارا مقدر ثابت ہورہی ہے۔ آج دشمنان ِ اسلام عالمی سطح پر ملت کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ شروع ہے۔ عالم اسلام کے بے شمار قائدین کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے ،اور بہت سی شخصیتیں شہید کردی گئیں ہیں۔ اسی طرح اب ہندوستانی مسلمانوں پر بھی خوف کے کچھ بادل منڈلانا شروع ہوچکے ہیں۔یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشیش جاری ہیں۔ جس کے لئے مختلف قانون وضع کئے جارہے ہیں۔اس ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں کے اکثر بےقصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرکے ان کے مستقبل کو برباد کیا جاتا رہا۔ انہیں جیلوں کے اندر طرح طرح کی اذیتوں سے گزارا گیا۔ اور اب براہِ راست تمام ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مآب لیچنگ کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی ایک منظم پروپگنڈے کا حصّہ ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت ملک کی جو موجودہ حکومت ہے وہ فسطائیت پر کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے نازک ترین حالات میں ملت اسلامیہ کے اندر آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپسی اتحاد و اتفاق کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ دین اسلام ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا ،خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگالیں۔ آج ہمیں اسی یقیں محکم کے ساتھ مسلمانوں کے اندر آپسی اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

   لیکن افسوس بالائے افسوس ! آج ایک طرف عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ہم مسلمان آپس میں ہی خانہ جنگی کے شکار ہیں ،ہم مختلف گرہوں اور ٹکڑوں و ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں،ذات پات اور قومیت کا الگ مسئلہ ،ہم میں کا ہر ایک فرد وسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے،معمولی معمولی باتوں کو ایشو بنا کر ہم ایک دوسرے سے بر سر پیکار یا کم از کم بد ظن ضرور ہوجاتے ہیں ،اور بد ظنی اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تک سننا گوارہ نہیں ہوتا،اِس طرح کے اختلافات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اِس سے ہماری داخلی طاقت و قوت کمزور ہوتی  جا رہی ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے اِسلام کی نشر و اشاعت بھی متاثر ہورہی ہے،غیر مسلموں کے ذہن و دماغ میں اسلام کے خلاف مختلف طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں ،جن لوگوں کے دلوں  میں ملّت ِاسلامیہ کا درد ہے وہ ہمیشہ اِس فکر میں سر گرداں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں کیونکہ بقول شاعر مشرق

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی،قرآن بھی اللہ بھی ایک

کیا بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ باطل طاقتیں اپنے پورے وسائل کے ساتھ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لئے صف آراہوچکی ہیں۔ اس وقت گروہی تعصبات کو ہوا دے کر ملّی وحدت کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔رنگ و نسل،حسب و نسب اور قومیت کے نام پر ملت کو تقسیم کرنے کا منصوبہ زور وشور سے جاری ہے۔تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہماری اس زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی کیا وجوہات ہیں؟ ہم جو کبھی قافلۂ سالار ہوا کرتے تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اسلاف کے ناموں سے قیصر و کسریٰ کے در و دیوار بھی دہل جاتے تھے، پھر آج کیوں ہم خوف و ڈر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟؟ تاریخ گواہ ہے ماضی میں ہماری قوم نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئیے اور ساحل پر کشتیاں جلا ڈالی تھیں،پھر اسی قوم کے ماننے والے آج کیوں پست حوصلہ اور کمزور ہوگئے ہیں؟؟؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیئے کہ جو قومیں آپسی اختلافات کا شکار ہوگئیں، ان کے اتحاد کا سورج ڈوب گیا، محکومی ان کا نصیب بن گیا ،اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے آپسی اتحاد پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے،ہزاروں تقریریں کی جاچکی ہیں، سمینار اور کانفرنسیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ہمیں آج اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اس وقت ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ آپسی انتشار اور گروہ بندی ہے۔ آج ہم نے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم حالات کی سنگینی سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں ۔ ہماری موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ ہم اس پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے ماضی کے مسلمانوں کو محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال قبل سر زمینِ عرب سے ایک”قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ”ٌ کا پیغام لے کر اُٹھی تھی جو شرک و کفر کے اندھیروں سے نکل کر توحید اور انصاف کی علمبردار بن گئی۔ کچھ ہی عرصے میں کفر وشرک کا زور مٹ گیا۔ فتح و کامرانی اور عزت و توقیر صرف اہل ایمان کو نصیب ہوئی۔لیکن آج جب ہم امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج ہماری اجتماعیت بکھر چکی ہے ، ہم مغربی تہذیب کو اپنا شعار بناچکے ہیں،اور نظامِ کفر کی غلامی کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔اسی وجہ سے آج ہماری صفوں سے اتحاد و اتفاق کا تصور کمزور ہوتا جارہا ہے۔اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ فکری سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے”واعتصموا بحبل اللہ”کے مفہوم و تقاضے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہم نے اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر گزارنے کی بجائے اپنی خواہشات نفس پر نچھاور کردی ہے۔ہم نے دینی تعلیمات سے کم اور اپنے نظریات سے زیادہ محبت رکھی۔ اجتماعیت اور “واعتصموا بحبل اللہ “کے سبق کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی پر چلنے والی اور “بنیان مرصوص” صفت کی حامل قوم سمجھتی ہے لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہائے افسوس!ہماری عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں۔ ہم نے غور و فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کیا یہ بات غور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے سینکڑوں فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کونسے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔ عراق،شام، فلسطین،افغانستان،برما اور کشمیر کے علاقوں میں شہید ہونے والے لاکھوں مسلمانوں سے کبھی ان سے جماعتی پہچان نہیں پوچھی گئیں۔ کاش ہم دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے۔! اب سوال یہ ہے کہ جب امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی وجہ معلوم ہوچکی ہے تو اس کے حل کی کوششیں کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ اور اگر ہورہی ہیں تو وہ کامیاب اور بااثر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آج ہر جماعت کے پاس اپنی ہی پالیساں بنی ہوئیں ہیں۔ آج جماعتوں اور ملی تنظیموں کے پاس اتحاد کا طریقۂ کار بس یہی ہے کہ ہمارے پرچم تلے آجاؤ، ہماری دکان کے خریدار بن جاؤتبھی تم فلاح پاؤگے۔آج ہر جماعت نے دین کے کسی نہ کسی ایک جُز کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور ساری توانائیاں اسی ایک جُز کی ترویج و اشاعت میں لگارہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو متبادل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا یا زندگی کے تمام شعبوں پر اسلامی احکام و قوانین کو نافذ کرنا، اس مقصد حقیقی سے آج ملت کی بے شمار جماعتیں اور ادارے ناواقف ہیں۔بے شمار جماعتوں نے اسلام کے کسی ایک ہی جُز کو اپنا مقصد و نصب العین بنادیا ہے۔چند عبادتوں اور فرائض سے آگے سوچنے اور کرنے کی کسی جماعت کے پاس آج مہلت ہی نہیں ہے۔ بعض جماعتوں نے شرک و بدعت کی کمر توڑنے کے لیے لاٹھی اُٹھا رکھی ہے تو کچھ لوگ صرف نماز کے لیے دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں خانقاہوں میں صرف پیر ی مریدی اور اللہ ہُو اللہ ہُو کی صدا تک بات محدود ہے،تو بعض ملی جماعتوں کے نزدیک صرف سیاسی کوشیش ہی دین کی سربلندی کا واحد راستہ ہے۔ کسی گروہ نے صرف خدمتِ خلق کو ہی اپنا حقیقی نصب العین بنالیا ہے۔ آج کئی دینی جماعتیں اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے خودساختہ نکاتوں پر کام کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں انتشار و افتراق پیدا ہورہا ہے۔عوام فروعی معاملات میں الجھ کر اصل دین سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم غیر شعوری طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارگی، آپسی رواداری، خلوص،باہمی محبت جیسی اصطلاحوں کی اب کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ہماری صفوں سے اتحاد ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور متنفر ہی ہوسکتا ہے۔مسلمانوں کے درمیان ایثار،قربانی،محبت اور خلوص جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ذہن نشین رہے !کہ مسلمانوں کا آپسی اختلاف اور تفرقہ تمام مشکلات اور مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے (جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے، تفرقہ کرو گے، اتفاق و اتحاد کو پس پشت ڈال دو گے تو پھر کمزور ہوجاؤ گے، تمہاری طاقت وقوت،شان و شوکت سب ختم ہوجائیگی، تمہاری عظمت و عزت خاک میں مل جائیگی،اور تم ذلیل و خوار ہو جاؤ گے۔لہذا اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوکر حق و باطل کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہوگا۔ اسلامی نظامِ زندگی کو نافذ کرنے کا مقصد ہی آج ملت میں آپسی اتحاد و اتفاق کو پیدا کرسکتا ہے۔جب تک ہم اسلامی نظام کو قائم کرنا اپنا مقصد نہیں بنالیں گےتب تک ہمارا آپسی اتحاد کمزور ہی رہے گا۔ امت مسلمہ کی طاقت،قوت،عزت، غلبہ، کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ آپسی اتحادو اتفاق ہی ہے۔اور صرف اسی کے ذریعہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسے ہی ذلت ورسوائی، کمزوری،بے بسی،محکومی اور ذہنی غلامی کی پستی میں گرتے رہیں گے۔

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے فروعی و جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی وحدت و اخوت اور بھائی چارگی کے رشتہ کو مضبوط و مستحکم کریں، کیوں کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی مضبوط اور منظم قیادت اتحاد کی شکل میں ابھرے،جو مستقبل میں اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ کا ذریعہ بن سکے۔

امام احمد رضا ریسرچ سینٹر ناسک میں عرس مخدومی کا انعقاد

ناسک سے دی گئی اطلاع کے مطابق مورخہ 28 محرم الحرام 1444ھ کو قدوۃ الکبری غوث العالم سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے 636 ویں عرس سراپا قدس کے حسین وپربہار موقع پر جماعت رضائے مصطفے شاخ ناسک کے بینر تلے امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام میرج کر نگر اوپن اسپیس وڈالا روڈ سہیادری ہاسپیٹل کے سامنے عظیم الشان پیمانہ پر عرس مخدومی کا انعقاد کیا گیا،محفل کا آغاز بعد نماز عشا قرآن خوانی سے کیا گیا ،پھر حمد باری تعالی اور نعت ومنقبت کے اشعار پیش کیے گیے بعدہ ادارہ ہذا کے فقہی ریسرچ اسکالر مولانا محمد عارف حسین غوثی نے صاحب عرس کی سیرت وسوانح پر تفصیلی روشنی ڈالی اور سمنان سے کچھوچھہ تک منزل بہ منزل حضرت مخدوم قدس سرہ کا پورا سفر نامہ پیش کیا اخیر میں ادارہ کے صدرالمدرسین اور صدر شعبہ افتا فاضل علوم اسلامیہ حضرت ابوالاختر مفتی مشتاق احمد امجدی زید مجدہ نے خصوصی خطاب فرمایا، آپ نے اپنے مختصر خطاب میں صاحب عرس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا : حضرت مخدوم سمناں نہ صرف ایک ولی کامل،نجیب الطرفین سید اور صاحب دل صوفی با صفا تھے بلکہ علوم وفنون کی ہفت اقلیم کے بے تاج بادشاہ بھی تھے،قرآن کریم کا فارسی زبان میں سب سے پہلے ترجمہ کرنے کا شرف آپ کو حاصل تھا، آپ کثیر التصانیف مصنف اور بالغ نظر فقیہ بھی تھے، آپ نے حضرت مخدوم کے دعوتی وتبلیغی مشن پر گفتگو کرتے ہوئے عوام اہل سنت کو نیکی کی راہ پر گامزن ہونے کی صلاح دی،آپ نے فرمایا حضرت مخدوم قدس سرہ نے محض سات برس کی عمر میں صرف ایک سال کی قلیل مدت میں قرات سبعہ کے ساتھ پورا قرآن حفظ فرمالیا تھا اورجب مسند تدریس میں جلوہ افروز ہوئے اور بساط تدریس بچھائی تو اللہ تعالی نے آپ کی تدریس میں وہ برکت عطا فرمائی تھی کہ آپ کی درسگاہ میں آنے والا ہر بچہ محض ایک سال کی مدت میں حافظ قرآن بن جاتا،اس تناظر میں آپ نے سامعین کو اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے اور سکھانے پر زور دیتے ہوئے یہ نعرہ بھی دیا “گھر گھر قرآن، ہر گھر کنزالایمان” بعدہ صلاۃ وسلام اور آپ کی خصوصی دعا پر محفل اختتام پذیر ہوئی، بعد محفل لنگر مخدومی تقسیم کیا گیا، عرس کی اس تقریب سعید میں عوام وخواص نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اس موقع پر امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے تمام شعبہ جات کے معلمین خصوصا مولانا محمد عرفان رضا قادری، حافظ وقاری جیش محمد رضوی اور شعبہ تحقیق کےمتخصصین مولانا محمد شفیق خان امجدی، مولانا محمد مبین قادری، مولانا عیسی رضا امجدی، مولانا محمود رضا حنفی، مولاناشہرالحق مصباحی، مولانا محمد توفیق علی غوثی، مولانا محمد کلیم سبحانی،مولانا محمد نورشاد رضا مظہری اور مولانا مرجان مصباحی وغیرہ موجود تھے۔

منقبت در شان: تارک السلطنت، قدوۃالعارفین، آفتاب ولایت حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ، عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

◇◇◇~~◇◇◇~~◇◇◇
ہر دل میں تیری عظمت، اے والیِ کچھوچھہ
ہر لب پہ تیری مدحت، اے والیِ کچھوچھہ

باغِ ارم کی غیرت، آماج گاہِ عالم
بے شک ہے تیری تربت اے والیِ کچھوچھہ

تیرے حسب نسب میں صد آفریں، ہے شامل
بوے گلِ سیادت اے والیِ کچھوچھہ

پھولا پھلا جہاں میں لا ریب تیرے دم سے
گلزارِ اشرفیت اے والیِ کچھوچھہ

تانتا لگا ہوا ہے شیدائیوں کا در پر
ہے خوب مرکزیت اے والیِ کچھوچھہ

للہ ہو میسر مصباحِ معرفت سے
مشکوۃِ دل کو طلعت اے والیِ کچھوچھہ

ہو ساتویں صدی میں رحلت کی آج لیکن
ہر دل پہ ہے حکومت اے والیِ کچھوچھہ

چھائی ہے آشیاں پر بومِ الم کی شامت
بھیجو ہُماے فرحت اے والیِ کچھوچھہ

مدت سے مبتلا ہے آفاتِ جاں میں، کیجیے!
بیکس پہ چشمِ رحمت اے والیِ کچھوچھہ

ٹوٹا ہوا ملا ہے دہلیزِ آستاں پر
ہر اک طلسمِ کلفت اے والیِ کچھوچھہ

بہرِ صلاحِ ہستی نوری کو بھی عطا ہو
مرآتِ حسنِ سیرت اے والیِ کچھوچھہ
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۸/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۷/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: سنیچر

⚠️یہود کی اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ⚠️✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

دوران مطالعہ ایک بڑا عجیب اور دل دہلا دینے والا واقعہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔۔اس کو میں مختصراً اور بلا تمہید ذکر کرتا ہوں

برطانیہ (britain) میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان نے برطانوی عیسائی دوست سے کہا۔۔ کہ مجھے کوئی انوکھی جگہ دکھاؤ ۔جہاں ہم پکنک کر سکیں۔انگریز دوست نے ایک جگہ جانے کا پروگرام بنایا اور اپنے مسلمان دوست کے لیے وہاں جانے کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس انگریز نے کہا کہ وہ بہت پر اسرار جگہ پر لے کر جائے گا، دونوں وقت پر اپنی گاڑی سے اس پر اسرار مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک جنگل پہنچے۔ مسلمان دوست کا بیان ہے کہ جنگل میں فوجی چھاؤنیاں تھیں، جگہ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اور اجازت نامہ دیکھا گیا۔۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ہمیں اپنی گاڑی بھی چھوڑنی پڑی ۔ عیسائی دوست نے بتایا کہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ جانا ہوگا۔ اور ایک چیز کا خیال رکھنا کہ وہاں کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔۔۔
انٹری گیٹ سے گزر کر ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا ۔ اندر بہت سی عمارتیں تھیں ۔پیدل چلتے ہوئے ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے ۔جہاں کلاس روم بنے ہوئے تھے۔ کلاسوں میں بچے قرآن مجید حفظ کر رہے تھے ۔ کس کلاس میں عربی ، فارسی، تفسیر و حدیث اور فقہی مسائل پڑھائے جا رہے تھے ۔ الغرض ، ان تمام کلاسوں میں اسلامی دینی تعلیم پڑھنے پڑھانے کا انتظام تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہم جنگل سے باہر آئے اور انگریز دوست سے میں نے کہا ۔ یہ کونسا عجوبہ تھا ، ایسے مدارس تو پاکستان میں بہت ہیں۔
تو اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں دیکھا ؟ کہ جگہ ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی ۔
یہ اس لیے کہ یہاں جو بچے قرآن وحدیث اور اسلامیات پڑھ رہے ہیں ۔ وہ تمام یہودی بچے ہیں ۔ انہیں عرب و عجم کے مسلم ممالک کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ (ماہنامہ پیغام شریعت دہلی ، ص 51)

ٹھہریے!!!
اور غور کیجیے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کس قدر سازشی انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں. ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جب دشمن ہمارے قرآن و حدیث اور فقہ کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس کے دفاع کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم بھی اپنی قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کا عالم بنائیں تاکہ جب ان مقدسات پہ وہ اعتراضات لے کر آئیں تو ہم جواب دے کر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرسکیں ۔
قارئین کرام! یاد رکھیں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سب سے اہم ہے، اور فریضے کی ادائیگی عالم بن کر ہی کی جاسکتی ہے اس لیے خود بھی علم دین حاصل کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی سکھائیے ۔ پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی حفاظت کے لیے” بنیان مرصوص “ کا پیکر بن جائیے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

مقالاتِ بدر،،مقالہ نگار : حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی(علیہ الرحمۃ والرضوان)

رسم اجرإ: شہزادہ صدرالشریعہ حضور محدث کبیر علامہ ضیإالمصطفٰے قادری امجدی کے ہاتھوں 28/ اگست کو ہوگا۔

جمع و ترتیب: محمد ذیشان رضا قادری امجدی صاحب

ناشر: اسلامک اکیڈمی گھوسی مئو یوپی

صفحات: 550


مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہتا ہے بلکہ اسے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔

اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔
مقالات مفتی اعظم ہند ،مقالات نعیمی، مقالاتِ شارح بخاری ، مقالاتِ سعیدی، مقالات مصباحی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ انہیں میں سے ایک حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی (علیہ الرحمۃ والرضوان)
(٢٥ اکتوبر ١٩٥٠ء-١٧اگست ٢٠٢١ء) بھی ہیں۔

ماہنامہ اشرفیہ کے پہلے ایڈیٹر ہونے کے علاوہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور المجمع اسلامی کے مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ٣٠ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں سیکڑوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں بزم اولیاء ، اسلام اور خمینی مزہب ، جادہ و منزل ، مسلمان اور ہندوستان ‘ پیکر عشق سیدنا ابوذر غفاری، اسلام اور امن عالم، اور حیات حافظ ملت ‘ زیادہ معروف ہیں

مقالاتِ بدر

ان ٨٥ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں ماہنامہ اشرفیہ اور ماہنامہ حجاز دہلی، ماہنامہ قادری میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ اسلامیات، تزکرہ، تاریخ، سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔

منقبت در شان حضرت بابا تاج الدین علیہ الرحمہ ۔۔از: سید خادم رسول عینی

سیدوں کے پیشوا ہیں شاہ تاج الاولیاء
چرخ عظمت کی ضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دنگ سارے ہوگئے انگریز ان کو دیکھ کر
باکرامت پرضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ حضرت عسکری کی منفرد اولاد ہیں
چہرہ دیکھو خوش نما ہیں شاہ تاج الاولیاء

دیکھنے سے جن کو یاد آئے خدائے دوجہاں
جذب کا وہ آئینہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

ایک ہی ہے وقت لیکن دو جگہ پر ہیں مقیم
سوچنا مت گمشدہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کی برکت ہے ایسی، نیم بھی میٹھا ہوا
سب نے دیکھا خوش ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ‌ کی موجودگی سے خوب تر ہے ناگپور
ایسے محبوب خدا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دے دیا جب حکم تو مردہ بھی زندہ ہوگیا
غوث اعظم کی ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کے در سے کوئی خالی نہیں لوٹا کبھی
صاحب جود و سخا ہیں شاہ تاج الاولیاء

وقف کردی خدمت دیں کے لئے عمر تمام
خوب “عینی “باوفا ہیں شاہ تاج الاولیاء
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غوث العالم سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا آخری نصیحت نامہ،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


جب حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا دن قریب آیا ماہ محرم الحرام کا تھا ایک محرم الحرام سے لیکر دس محرم الحرام تک حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب کےساتھ ملکر قرآن پاک کی تلاوت مع قرأت کے کرتے رہے اُنہی ایام میں اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ[میری قبر باغ کے درمیان بناو اور طول وعرض اتنا ہوکہ نماز پڑھی جاسکے]حکم کے مطابق مرقد مبارک تیار کیا گیا پھر حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ خود ہی مرقد کے معاٸنہ کیلٸے تشریف لے گٸے پھر اُنہی ایام میں اپنے جملہ اصحاب اور خصوصا اپنے سجادہ نشین حضرت مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور[رضی اللہ عنہما] المعروف حضرت نور العین رضی اللہ عنہ کو صبر و استقامت کی تلقین فرماتے رہے پھر ایک دن حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ چند ورق سادہ کاغذ کا لیکر اس مرقد مبارک پر تشریف لے گٸے جو کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق آپ ہی کے لیٸے بنایا گیا تھا چنانچہ مکمل ایک رات دن اس بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے وقت گذارے اور وہی بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر ان سادھے کاغذوں پر یہ نصیحت نامہ تحریر فرماکر تشریف لاٸے جس میں حمد ونعت کے بعد یہ تحریر تھا کہ[میرے برادان احباب اور اصحاب کو معلوم ہو کہ میں اللہ(عزوجل)اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتا ہوں اور اسلام کے احکام کا پابند ہوں میرا عقیدہ ہیکہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے سب اصحاب(رضی اللہ عنہم اجمعین)مسلمین و تابعین افضل تھے اور اصحاب (یعنی اصحاب مُحَمَّد ﷺ)میں افضل واعلی ابو بکر(رضی اللہ عنہ)ہیں اُن کے بعد عمر۔پھر۔عثمان۔پھر۔مولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)میرے فرزندوں اور معتقدوں کو معلوم ہوکہ میرا یہی عقیدہ تھا۔یہی ہے۔اور یہی ابد تک رہے گا۔جس شخص کا یہ اعتقاد نہ ہووہ گمراہ اور زندیق ہے میں(یعنی سید اشرف سمنانی) اس سے بیزار ہوں اور خدا اس سے راضی نہیں۔حق سبحانہ کی تجلی ستر ہزار بار اس فقیر پر ہوٸی۔اور اس قدر نوازش اور مرحمت ہوٸی کہ تحریر میں نہیں آسکتی۔عالم ملکوت سے ندا آٸی کہ اشرف ہمارامحبوب ہے۔اس کے سب مریدوں کے گناہ ہم نے معاف کٸے اور اُن کو اشرف کے طفیل میں بخشا۔یہ آخری بشارت میں(سید اشرف سمنانی) سب بھاٸیوں اور دوستوں کو پہنچاتا ہوں](ماخوذ از رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف)
بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت
ہر سال کی طرح اس سال بھی عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوگی ان شاءاللہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین کو بشارت عظمہ سنائی ہے سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہیکہ جو شخص میری قبر پر حاضری دیگا ان شاء اللہ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی(بشارت المریدین قلمی-بحوالہ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبر ص ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء)
ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ
اشرفی تو ناز کر اشرف پر
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﮐﺤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﺒﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺠﺎﺩﮦ ﻧﺸﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﻼﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺑﮍﯼ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﮔﺬﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺷﺒﮩﯿﮧ ﻏﻮﺙ ﺍﻻﻋﻈﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻗﻄﺐ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪﻃﺎﮨﺮ
ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻ ﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﺸﺎﺋﺦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺑﮭﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔

۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔
تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی
خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال
مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
7030786828

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار,, تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو،، از قلم ،محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار
تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو

آج میرے ساتھ ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا ۔کہ

جیسے ہی میں لائبریری میں داخل ہوا ۔اور استاذ محترم سے کچھ عرض کرنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا۔کہ یکایک ایک کبوتر اڑا اور پنکھےکی زد میں آ کر اس کا ایک بازو کٹ کر الگ ہو گیا۔ استاذ محترم نے فوراً اپنے روم سے مرہم منگایا،پٹی بھی کی گئی۔لیکن! وہ بچ نہ سکا۔افسوس…… اس دکھی منظر کو دیکھنے کے بعد انگریزی کا ایک بڑا پیارا جملہ یاد آگیا ۔ شاید اس نے بھی ایسا دکھی منظر دیکھا ہو؟ وہ جملہ کچھ اس طرح سے ہے ” A CHILD WITHOUT EDUCATION IS LIKE A BIRD WITHOUT WINGS” یعنی۔ جس طرح پر(wing) کے بغیر پرندہ، پرندہ نہیں بالکل اسی طرح علم کے بغیر انسان، انسان نہیں اور علم بغیر محنت کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتا ہے۔۔
“Study while others are sleeping ..
Work while others are loafing .
Prepare while others are playing.
Dream while others are wishing.”

یعنی “آپ اس وقت مطالعہ کریں جب سب مزے سے سو رہے ہوں،
آپ اس وقت محنت کریں جب دوسرے لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوں،
اس وقت آپ تیاری کریں جب دوسرے کھیل رہے ہوں
اور آپ خواب دیکھیں جب سب خواہش کر رہے ہوں، سیدھا سا مطلب یہ کہ- ان نصائح پر عمل کرنے کے بعد آپ تو اپنے خوابوں کو پورا کر چکے ہوں گے ، رہے دوسرے لوگ تو وہ صرف خواہشات میں گرفتار ہوں گے”۔۔۔
یہ وہ اصول ہیں، کہ جن پر ہمیشگی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ عربی شاعر کہتا ہے۔
“بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي”
۔ یعنی ۔کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف