[امجدی ڈاٸری]
حضور شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ولادت 11/ شعبان 1339ھ/ 20/ اپریل 1921ٕ ء/ میں مشہور و معروف اور مردم خیز خطہ ، قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور اعظم گڑھ حال ضلع مئو میں ہوئی۔
آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے ۔ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبد الصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی۔
مولا نا خیرالدین علیہ الرحمہ اپنے عہد میں پاے کے عالم اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔ ان کا یہ روحانی فیض آج تک جاری ہے کہ ان کے عہد سے لے کر اس دور میں پانچویں پشت تک ان کی نسل میں اجلہ علماے کرام موجود ہیں ۔ انہیں میں سے ایک شارح بخاری ، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی بھی تھے ۔ جو ماضی قریب میں ہندو پاک کے مسلمانان اہل سنت کے صف اول کے مقتدا اور پوری دنیاۓ اہل سنت کے مرجع فتاوی اور مرکز عقیدت تھے ۔ آپ کی کثیر الجہات شخصیت کے متعلق استاذی الکریم حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفى قادری امجدی اطال اللہ عمرہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : ”حضرت مفتی صاحب قبلہ مدظلہ جماعت کے ممتاز ترین صاحب علم و بصیرت باقیات صالحات میں سے ایک ہیں۔ ذکاوت طبع اور قوت اتقان ، وسعت مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں تعمق نظر ، قوت فکر ، زور استدلال اور حسن بیان ، زودنویسی میں بھی آپ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ معلومات کی گیرائی و گہرائی میں بھی بلند رتبہ ہیں۔ خطابت ، جدل ومناظرہ میں بھی آپ کو امتیاز حاصل ہے ۔ کئی موضوعات پر آپ کی معلومات افزا تصانیف آپ کی تصنیفی خوبیوں کی مظہر ہیں۔“
مفتی شریف الحق امجدی کی ابتدائی تعلیم قصبہ گھوسی کے مقامی مکتب میں ہوئی ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1934ء میں دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور حضور حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مراد آبادی ( م 1976 ء ) کے زیر سایہ رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی ۔ 1942 ء میں آپ مدرسہ مظہر اسلام مسجد بی بی جی محلہ بہاری پور ، بریلی شریف پہنچے جہاں ابوالفضل حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری ثم لائل پوری محدث اعظم پاکستان کا خورشیدعلم تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا ۔ محدث اعظم پاکستان سے آپ نے صحاح ستہ حرفاً حرفاً پڑھ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی اور 15/ شعبان 1362ھ /1934 ء کو درس نظامی سے آپ کی فراغت ہوئی۔
اساتذہ و مشائخ کرام میں جن حضرات کی تعلیم وتربیت کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر تھا ان میں *حضور صدر الشریعہ مولا نا امجد علی اعظمی، حضورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں ، حضورحافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ، حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی سرفہرست ہیں۔*
خصوصیت کے ساتھ آپ نے حافظ ملت سے سب سے زیادہ فیض پایا ۔ درس نظامی کے علاوہ فتوی نویسی کی تعلیم و تمرین ایک سال سے زائد حضور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی سے حاصل کی اور حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ میں گیارہ سال رہ کر فتویٰ نویسی سیکھی اور اس کا عمل جاری رکھا۔
اکتساب علم کے بعد مفتی شریف الحق امجدی نے تقریبا پینتیس (35)سال تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ بڑی عرق زیزی و جاں سوزی اور کمال مہارت کے ساتھ ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ ہرفن کی مشکل سے مشکل ترین کتابیں پڑھائیں ۔ برسہا برس تک دورۂ حدیث بھی پڑھاتے رہے اور اخیر میں درس و تدریس کا مشغلہ چھوڑ کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبہ افتا کی مسند صدارت پر متمکن ہوکر چوبیس برس تک رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ جن درس گاہوں کی مسند تدریس و افتا پر جلوہ افروز ہوکر آپ نے علم و حکمت کے گوہ آبداران لٹاۓ ان کے اسما یہ ہیں مدرسہ بحر العلوم مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ ، مدرس شمس العلوم گھوسی ضلع مٸو ، مدرسہ خیرالعلوم پلامو بہار، مدرسہ حنفیہ مالیگاؤں مہاراشٹر ، مدرسہ فضل رحمانی گونڈہ، مدرسہ عین العلوم گیا بہار، جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور ، دارالعلوم ندائے حق فیض آباد، دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور۔
آپ کی درسگاہ فیض سے شعور و آگہی کی دولت حاصل کرنے والے طلبہ اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا شمار تقریبا ناممکن ہے ان میں سے چندمشہور حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔ جو اس وقت اہل سنت و جماعت کے نامور علما میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، مولانا مجیب اشرف اعظمی ثم ناگپوری، قاضی عبدالرحیم بستوی ، مولانا رحمت حسین کلیمی پورنیہ، مولانا قمرالدین اشرفی اعظمی، مولانا عزیز الحسن اعظمی ، مولانا رضوان احمد شریفی، مفتی محمد نظام الدین رضوی، مولانا حافظ عبدالحق رضوی، مفتی محمد معراج القادری ، مولانا محمد مرتضی نعیمی، مولانا حفیظ اللہ اعظمی، مولانا سلطان احمد ادروی ، مولانا امام الدین مصطفوی، مولانا محد کوثر خان نعیمی، مولانا افتخاراحمد قادری، مفتی شفیق احمد گونڈہ ، مولانا محمدعمر بہرائچی
تصنیف و تالیف:
مفتی شرایف الحق امجدی کی فکر وقلم تحریر و تصنیف اور زبان و ادب سے گہری وابستگی ابتدائی عمر سے ہی رہی ۔ ان کی تحرو تصنیف نصف صدی پر محیط ہے۔ ابتدا ہی سےآپ نے وسیع مضامین و مقالات لکھے ہیں ۔ مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آ پکی قیمتی اور جامع تحریر میں اور وقیع ومؤثر مقالے دبد بہ ٕ سکندری رام پور ، نوری کرن بریلی شریف ، پاسبان الہ آباد ، جام کوثر کلکتہ ، استقامت کانپور ، اشرفیہ مبارک پور، رفاقت پٹنہ، حجاز جد ید دہلی وغیرہ رسالوں میں چھپ کر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہوتی رہیں۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور میں التزام وتسلسل کے ساتھ آپ کے منتخب فتاوی شائع ہوتے رہے ۔ جس کی وجہ سے ماہنامہ کا وقار بلند اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ مفتی شریف الحق امجدی سے قلم کے مختلف عنوانات پر متعدد کتابیں معرض وجود میں آئیں ۔جن میں چند مشہور کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔
نزهة القاری شرح صحیح البخاری:
یہ صحیح بخاری کی اردو شرح ہے جو پانچ ہزارصفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ اسلامی علوم و معارف اور حدیث وسنت کی تحقیقات و تدقیقات کا دائرۃ المعارف ، علماۓ متقدمین و متاخرین اور سلف صالحین کی عربی و فارسی شروح کا عطر مجموعہ ہے ۔ جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے۔
اشرف السير:
اس کتاب میں سیرت نبوی کے بنیادی ستون محمد بن اسحق ( 151ھ / 768 ٕ ) محمد بن عمر الواقدی ( 207ھ / 822ٕ ) محمد بن سعد ( م 320ھ / 844) محب الدین بن جریر طبری ( 301 ھ ) پرفن تاریخ و حدیث اور سیرت کے حوالے سے مخالفین کے اعتراضات کے دندان شکن علمی جوابات ہیں ۔ سیرت پاک سے متعلق مغربی ظالمانہ اور جاہلانہ اورمشرق کے مرعو بانہ اور معذرت خواہانہ طرزعمل پر سیر حاصل تنقیدی وتحقیقی کلام اور ابتدا سے بعثت نبوی تک سرکار دو عالم ﷺ کے احوال وکوائف اور آپ کے آبا واجداد کے تعلق سے جامع پرمغز اور معلوماتی گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ کتاب حصہ اول کا نصف ہے، باقی کام دیگر مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ پا سکا۔
اشک رواں :
آزادی ہند سے پہلے کا نگریس میں اور مسلم لیگ کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی پر فریب سیاست پر ضرب کاری اور اس کی مخالفت اور مسلمانوں کے لیے اسلامی وشرعی نقطہ نظر سے تیسرے متبادل کی تجویز، تقسیم ہند کے بعد ہونے والی مسلمانوں کی جان و مال ، عزت وآبرو کی تباہی و بربادی اور بعد میں انہیں در پیش سیاسی و سماجی ، مذہبی وملی پریشانیوں اور رسوائیوں کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ کر اس پر اپنے قلبی و ذہنی خطرات ، بے کلی اور بے چینی کا اظہار اور پھر اس کے تدراک کے لیے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل ، یہ سب کچھ اس کتاب میں شامل ہے۔
شارح بخاری نے پچیس برس کی عمر میں اسلامی سیاست کے موضوع پر یہ کتاب تحریر فرامائی ہے ۔ آزادی ہند وتقسیم ہند سے پہلے 1946 ء کے پر آشوب و پرفتن دور میں اس کی اشاعت ہوئی ۔ پھر آج تک اس کا دوسرا ایڈیشن نہ شائع ہوسکا۔
اسلام اور چاند کا سفر :
شرعا انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہے ۔ اسلامیات اور فلکیات کے اصول وقواعد اور قوانین و مباحث کی روشنی میں اس مدعا پر محققانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ جو آپ کے وسعت مطالعہ ، ژرف نگاری ، قوت استدلال اور زور بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ محققانہ و عالمانہ تحقیقات وابحاث کا حسین گلدستہ ہے۔
تحقیقات(دوحصے) :
اس میں وہابیوں ، دیوبندیوں اور معاندین اہل سنت کے کچھ لا یعنی اعتراضات کے مدلل تحقیقی والز امی جوابات ہیں یہ کتاب دوحصوں میں ہے۔
فتنوں کی سرزمین کون ، نجد یا عراق ؟:
اس کتاب میں نجد وعراق کا ایک گراں قدر حقیقت افروز اور ایمان افرا تاریخی ، جغرافیاٸی اور دینی و سیاسی جاٸزہ پیش کیا گیا ہے۔
سنی ، دیو بندی اختلاف کا منصفانہ جائزہ :
یہ سنی و دیو بندی اختلاف کی بنیاد اور اکابر علماے دیو بند کی کفری عبارتوں پر غیر جانب دارانہ فیصلہ کن ابحاث کا خوبصورت علمی گلدستہ ہے ۔ آپ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر لا جواب اور بے مثال ہے۔
اثبات ایصال ثواب :
یہ رسالہ ایصال ثواب کے موضوع پر مصنف کی ایک نئے انداز میں بحث ، میلا دو قیام ، نیاز و فاتحہ کے سلسلے میں شکوک وشبہات کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کے اطمینان کلی کے لیے ایک بیش قیمت ، زوردارعلمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
مقالات شارح بخاری :
یہ دینی و مذہبی علمی وادبی تاریخی وسوانحی فکری و حقیقی گونا گوں عنوانات پر حضرت کے سیکڑوں بوقلموں مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا :
اپنے موضوع پر نہایت شاندار گراں قدر اور اچھوتی محققانہ و متکلمانہ تحریر جو موضوع کے تمام زاویوں کو حاوی اور شبہات کے سارے تار و پود بکھیر دینے والی ہے۔
فتاویٰ شریفیہ:
آپ کی زندگی بھر کے علمی تحقیقی فتاوی کا مجموعہ جو ایک انداز کے مطابق پچھتر ہزار سے زائد فتاوی کو محیط ہوگا ۔ جو لوگوں کے عقائد و اعمال میں رہنمائی کرتا ہے اور اہل علم اور ارباب فقہ و فتاویٰ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔
1359ھ میں مفتی شریف الحق امجدی نے صدرالشریعہ مولانا امجد اسمی کے دست حق پر بیعت کیا۔
آپ کا شمار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے سابقین اولین مریدوں میں ہوتا ہے ۔ حضرت صدرالشریعہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا بریلی اور احسن العلما مولانا مصطفی حسن حیدر مارہرہ نے بھی اجازت و خلافت سے نوزا تھا۔
حضور شارح بخاری متعدد بار حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوۓ 1985 ء میں پہلا حج اور 1997 ء میں دوسرا حج فرمایا 1996 ء اور 1998 ء میں دو مرتبہ سفر عمرہ پر بھی گیے۔
6/ صفرالمظفر 1421ھ/ 11/مٸ 2000 ٕ بروز جمعرات آپ اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر گئے ، اور یہ علم وفن کا راز داں اور استقامت و ثابت قدمی کا کوہ ہمالہ ہمیشہ کے لیے آغوش زمین میں محو خواب ہو گیا۔ آپ کا مزار مبارک گھوسی ضلع مئو میں مرجع خلائق ہے۔(بحوالہ علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)
[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]