WebHutt

اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت ،از :روشن القادری انواری فاضل :دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)


اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اے مومنو! تم لوگ اللہ کی رسی کو اکٹھا ہوکر مضبوطی سے پکڑ لو “(مفہوم قرآن)اللہ تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو یہ حکم دیا کہ اے میرے بندو ! جب تم لوگ کوئی نیک کام کرنا چاہو تو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کرو،اس فرمان خداوندی سے اتفاق و اتحاد کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺکی بہت سی حدیثیں بھی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن سے آپسی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جائے گی ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ سارے مومنین ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی ایک آنکھ بیمار ہوئی تو وہ تمام بیمار ہیں (مسلم شریف )
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے اس کا بعض بعض کو طاقت پہنچاتا ہے پھر حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائی یعنی یہ جس طرح ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہیئے (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (ایضاً)
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چار گی کی کیا اہمیت ہے؟۔
بڑا مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ مسلمانوں میں وحدت اسلامیہ اور اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کا سچا جذبہ موجود تھا اور وہ آپس میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مدد گار تھے، ان کی تعداد اگر چہ کم تھی لیکن بڑی بڑی طاقتیں ان کے خوف سے لرزتی تھیں اور کسی کی مجال نہ تھی جو ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ،تاریخ کے اوراق میں اس مقدس عہد ِمحبت کا ذکر موجود ہے جو مدینہ کی پاک زمین پر ہجرت کے پہلے سال میں مسلمانوں میں قائم ہوا ۔رسول ﷺنے جب اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بہت سے فرزندان ِاسلام نےحضور ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اور اپنے گھر بار ،دوست واحباب اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے مال وزر کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ کا رُخ کیا ،جب یہ بے سرو سامان جماعت مدینہ پہنچی تو ان میں سے اکثر کی حالت صحیح نہ تھی، نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندو بست تھا ،نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی انتظام تھا ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عہد محبت کو قائم کیا ،جب اس عہد کی تکمیل ہو گئی تو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے انتہائی ایثار و محبت سے کام لیا ،جس انصاری کےپاس دو مکان تھے اس نے اپنا ایک مکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اور جس کے پاس پانچ سو دینار تھے اس نے ڈھائی سو دینار اپنے مہاجر بھائی کو دے دیئے ،اور جس کے پاس دو باغ تھے اس نے ایک باغ دے دیا ،جس کے پاس دو بیویاں تھی اس نے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے بھائی مہاجر سے کہا کہ تم اس سے نکاح کرلو ۔
ایک انصاری کا نام حضرت عبد الرحمٰن بن عاصم تھا وہ نہایت غریب تھے اور ان کے پاس سوائے ایک چادر کے کچھ نہ تھا لیکن ایمان و ایقان کی دولت ان کے پاس کسی سے کچھ کم نہ تھی انہوں نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اس قسم کے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جن سے پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی سچی محبت اور سچی ہمدردی، مخلصانہ دوستی اور آپسی اتفاق و اتحاد ظاہر ہوتا ہے ،اور یہ وہ چیز ہے جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی اور کامیابی کی اعلیٰ اور بلند منزل پر پہنچا دیا تھا اور اقوام ِعالم کے دلوں میں ان کا ایک خاص وقار اور رعب قائم کر دیا تھا ،لیکن آہ !آج یہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی مسلمانوں میں نہیں ہے ،آج ان کی تعداد دنیا میں کروڑوں ہے لیکن اقوام عالم کے دلوں میں ان کا وقار اور کو ئی احترام نہیں، ہر قوم اور ہر جماعت ان کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے اور ان کی کمزوریوں کو محسوس کرکے ان کی ہستی کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
اسلام کادعویٰ کرنے والو! تمہیں معلوم ہے ؟کہ آج یہ ذلت و رسوائی کیوں تمہارے لئے مخصوص ہے ؟اس لئےاور صرف اس لئے کہ تم میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی نہیں ہے ،تم نے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کو نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا اور تم نے ان تعلقات کو جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث تھے اپنی نفس پرستیوں کے حوالے کردیا ہے، آج تمہارے اختلاف و انتسار کی کوئی انتہا نہیں ہے، تم اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی امداد و اعانت کو ضروری نہیں سمجھتے ہو ،تم اپنے بھائیوں کو آپس میں دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہو، تم ذرا ذرا سی باتوں پر مشتعل اور جھگڑ جاتے ہو، تم اپنے نفس پرستیوں میں مصروف ہو اور تمہیں خبر نہیں ہے کہ دوسری قومیں تمہاری ہستی کو مٹانے کے لئے کس قدر خوف ناک اور جدو جہد سے کوشش کر رہے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی غفلتوں و کوتاہیوں کو دور کردو !اسلامی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی اپنے اندر پیدا کر لو! تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تجارت و صنعت کا ایک بڑا حصہ تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے، مسلمان ان شعبوں میں بہت کمزور ہیں ،ضرورت ہے کہ تم اپنے مسلم بھائیوں کی امداد و اعانت کرو اور ان کو تجارت و صنعت کے شعبوں میں کامیاب بناؤ ،اگر تمہارے دل میں ملت ِاسلامیہ کا کچھ بھی درد ہے اور تم مسلمانوں کی کچھ بھی تباہی نہیں چاہتے ہو تو خدا کے لئے آج ہی سے اپنے دل میں عہد کر لو کہ تم ہر اعتبار اور ہر حیثیت و نوعیت سے مسلمانوں کی مدد کرو گے ،اتفاق و اتحاد اور آپسی بھائی چارگی اور امدادو اعانت کا معاملہ کروگے ،مساوات و انصاف کا آپس میں برتاؤ کرو گے اگر تم نے ایسا کیا تو تم کامیاب و فائزالمرام ہو جاؤگے ۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے سبھی مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا فرمائے ! آمین

Exit mobile version