WebHutt

شکست ناروا !۔۔۔۔۔۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

۔

بزم غوث الورٰی کے دوسویں (انعامی) مشاعرے میں مصرع طرح دیا گیا تھا:

رسول اکرم حبیب داور کا ہر صحیفے میں تذکرہ ہے ۔

یہ مصرع دیکھ کر ایک صاحب نے ہمیں انباکس کیا کہ اس مصرع میں شکست ناروا کا عیب ہے کیونکہ مصرع کے پہلے نصف حصے میں فقرہ ختم نہیں ہوا اور کا پہلے حصے میں آنا چاہیے تھا ۔

بزم تاج الشریعہ کے گزشتہ مشاعرے میں بھی ایک دوسرے صاحب نے شعرا کے چند اشعار پر ریمارک لکھا کہ اس مصرع میں شکست ناروا ہے کیونکہ مصرع کے پہلے نصف حصے میں فقرہ تمام نہیں ہوا ۔

تو آئیے سمجھتے ہیں شکست ناروا کیا ہے ۔شکست ناروا کسے کہتے ہیں ۔شکست ناروا کا اطلاق کن بحروں میں ہوتا ہے۔

معترضین نے جس ترکیب پر اعتراض کیا اور شکست ناروا کا فتوی’ صادر فرمایا ایسی ترکیب استاد شعرا کے اشعار میں بھی ملتی ہے۔مثال کے طور پر امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا یہ شعر دیکھیں :

نئی دلھن کی پھبن میں کعبہ ، نکھر کے سنورا ، سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے، کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

اس شعر کے افاعیل ہیں :
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
اولی’ میں پہلے دو ارکان کعبہ پر ختم ہوگئے
لیکن ثانی میں پہلے دو ارکان تل پر ختم ہوئے۔معترضین کا کہنا ہے کہ پہلے دو ارکان تل میں پر ختم ہونے چاہیے تھے اور چونکہ ایسا نہیں ہوا ایسی ترکیب کو شکست ناروا کہتے ہیں ۔
کیا یہ واقعی شکست ناروا ہے ؟ کیا ایسی ترکیب معائب سخن میں شامل ہے؟ ہر گز نہیں ۔

ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اس شعر کے افاعیل ہیں:
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اولی’ میں پہلے دو ارکان منتظر پر ختم ہوگئے
لیکن ثانی میں پہلے دو ارکان رہے پر ختم ہوئے۔
۔معترضین کا کہنا ہے کہ پہلے دو ارکان رہے ہیں پر ختم ہونے چاہیے تھے اور چونکہ ایسا نہیں ہوا ایسی ترکیب کو شکست ناروا کہا جاتا ہے۔
کیا یہ واقعی شکست ناروا ہے؟ کیا ایسی ترکیب معائب سخن میں شامل ہے؟ ہر گز نہیں ۔

تو پھر شکست ناروا کسے کہتے ہیں ؟
شکست ناروا کو سمجھنے کے لیے پہلے دوہا کے ارکان سمجھتے ہیں ، کیونکہ شکست ناروا کا اطلاق دوہا میں ہوتا ہے۔دوہا کے ارکان مندرجہ ذیل ہیں:
فعلن فعلن فاعلن ، فعلن فعلن فاع
استاد گرامی علامہ سید اولاد رسول قدسی کا ایک دوہا ملاحظہ فرمائیں:
اعلیٰ نعمت ہے زباں ، اس کا رکھیے پاس
دیتے ہیں خود کو ضرر ، بے جا قیل و قال
اولی’کی تقطیع یوں ہے:
فعلن۔۔۔۔اعلا
فعلن ۔۔۔۔نعمت
فاعلن ۔۔۔ہے زبا

فعلن۔۔۔اس کا
فعلن ۔۔۔رکیے
فاع۔۔۔۔پاس

اگر اولی’ یوں ہوتا :
اعلیٰ نعمت ہے لب اس کا رکھیے گا پاس
تو اس کی تقطیع یوں ہوتی:
فعلن۔۔۔اعلا
فعلن۔۔۔نعمت
فاعلن ۔۔۔ہے لبس

فعلن۔۔۔کا رک
فعلن ۔۔۔یےگا
فاع ۔۔۔پاس

اس خود ساختہ مصرع میں شکست ناروا ہے کیونکہ بحر کا پہلا نصف حصہ لب اس پر ختم ہورہا ہے ، جب کہ لب پر ختم ہونا چاہیے تھا جیسا کہ علامہ قدسی کے اصل مصرع :
اعلیٰ نعمت ہے زباں ، اس کا رکھیے پاس
میں زباں پر ختم ہورہا ہے اور دوسرے نصف حصے میں ایک مکمل فقرہ اس کا رکھیے پاس آرہا ہے اور دوہا کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے کہ فعلن فعلن فاعلن میں مصرع کا ایک فقرہ ختم ہوجانا چاہیے ،اگر ایسا نہیں ہوا تو ایسے مصرع کو عیبی کہا جائےگا اور اس عیب کو شکست ناروا کہا جاتا ہے ۔

مندرجہ بالا مثال سے یہ مزاج ملا کہ شکست ناروا کا اطلاق دوہا کی بحر پر ہوتا ہے اور دوہا میں کل بارہ ارکان ہوتے ہیں:
فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع
فعلن فعلن فاعلن ، فعلن فعلن فاع

گویا شکست ناروا کا اطلاق بارہ رکنی یا سولہ رکنی یا اس سے زیادہ ارکان والی بحروں میں ہوتا ہے۔
یعنی کہ شکست ناروا کا اطلاق مسدس اور مثمن بحروں میں نہیں ہوتا ۔ علامہ رضا بریلوی اور ڈاکٹر اقبال کے مذکورہ اشعار مثمن بحروں میں ہیں ۔ لہذا شکست ناروا کا اطلاق ان اشعار میں نہیں ہوگا اور یہ دونوں اشعار شکست ناروا عیب سے پاک ہیں ۔

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ پتہ چلا کہ شکست ناروا کا اطلاق ان بحروں میں نہیں ہوگا:
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فعولن فعولن فعولن فعولن
اور اس قسم کی مثمن بحریں ۔

لیکن مسدس یا مثمن بحروں کو اگر مضاعف کردیں یعنی کہ مسدس کو بارہ رکنی اور مثمن کو سولہ رکنی کردیں تو شکست ناروا کا اطلاق ہوگا ۔یعنی ان بحروں پر شکست ناروا کا اطلاق ہوگا:
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
اور اس قسم کی سولہ رکنی یا بارہ رکنی یا اس سے بھی زیادہ ارکان کی بحریں ۔

علامہ ارشد القادری کا یہ شعر دیکھیں:
سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو ، منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو
کرکے تبدیل اک دن لباس بشر ، دونوں عالم کے سرکار آجائیے ۔
اس شعر کے افاعیل یہ ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
یعنی کہ یہ بحر سولہ رکنی ہے۔
علامہ کے شعر کے اولی’ کا تجزیہ کریں ۔ مصرع کا پہلا فقرہ سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو بحر کے پہلے نصف حصے میں ختم ہوگیا اور فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کے وزن پر آگیا ، دوسرا فقرہ منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔
لیکن اگر اولی’ یوں ہوتا : سامنے‌ جلوہ گر آپ ہوں ، منکروں کا بھی اے میرے سرکار شک دور ہو
اس خود ساختہ مصرع میں پہلا فقرہ سامنے جلوہ گر آپ ہوں کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن اور دوسرے فقرے منکروں کا بھی اے میرے سرکار شک دور ہو کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔چونکہ مصرع کا پہلا فقرہ بحر کے نصف حصے تک نہیں پہنچا اور دوسرے فقرے کا ایک لفظ منکروں پہلے نصف حصے میں ہی رہا ، یہ ترکیب شکست ناروا کے زمرے میں داخل ہوجائےگی اور ایسا مصرع عیب دار ہوگا ، کیونکہ جب اس طویل بحر کی قرأت کرینگے تو مصرع کے پہلے نصف حصے میں وقف لازم ہے، دوہا کی طرح ۔

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ ثابت ہوا کہ شکست ناروا کا اطلاق مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن بحر پر نہیں ہوگا ۔ لہذا بزم غوث الورٰی میں دیے گیے مصرع رسول اکرم حبیب داور کا ہر صحیفے میں تذکرہ ہے میں شکست ناروا نہیں ہے۔

از قلم : سید خادم رسول عینی

Exit mobile version