مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
۔۔۔۔۔
وضو کے مستحبات کی حکمت پر جب حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا تھا :
کلی کرنے سے پانی کے ذائقے کا پتہ چلتا ہے ، ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بو کا پتہ چلے گا اور ہاتھ میں پانی ڈالنے سے پانی کے رنگ کا پتہ چلتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت کی اس عقلی دلیل سے یہ واشگاف ہوا کہ
اسلام کے احکام میں کچھ نہ کچھ حکمت پنہاں رہتی ہے اور سائنٹیفک رزننگ ہوتی ہے۔
سرکار اعلی’حضرت کی سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ آپ کے اقوال و افعال میں بھی حکمت عملی پوشیدہ رہتی تھی ۔مثال کے طور پر حدائق بخشش میں شامل مشہور کلام رضا ہے:
مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
آخر اس سلام کے لکھنے میں کیا حکمت عملی تھی؟ آئیے سب سے پہلے اس کلام کا مختصر عروضی تجزیہ کرتے ہیں:
اس کلام کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن/ فاعلات
اور بحر کا نام ہے:
بحر متدارک مثمن سالم ۔
ضرب/ عروض میں فاعلن کی جگہ فاعلات لاکے زحاف ازالہ کا استعمال کیا گیا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب نے مندرجہ ذیل شعر :
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمایے کیوں
کے اولی’میں ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
اس کلام کا ایک شعر یوں ہے:
شب اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشہء بزم جنت پہ لاکھوں سلام
اس شعر کے اولی’ کے افاعیل یوں ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلات
اس مصرع کے صدر میں فاعلن کی جگہ فعلن کا استعمال کرکے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے زحاف خبن کا استعمال فرمایا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب کے مشہور شعر :
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
کے اولی’میں خبن کا استعمال ہوا ہے۔
سرکار اعلی’حضرت کے اس کلام میں عروضی خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری بدیعی خوبیاں بھی ہیں ۔اس کلام میں تشبیہات بھی ہیں استعارات بھی ، اس میں علامات بھی ہیں اور تلمیحات بھی ۔تشبیہ مفصل بھی ہے تشبیہ مجمل بھی ، تشبیہ حسی بھی ھے تشبیہ عقلی بھی ، تشبیہ مفرد بھی ہے تشبیہ مرکب بھی ۔ صنعت متلون بھی ہے اور صنعت تضاد بھی ۔معنویت کی فراوانی بھی ہے اور محاکات کی جلوہ گری بھی ۔صنعت تنسیق الکلمات بھی ہے صنعت تنسیق الصفات بھی ۔انسجام کا حسن بھی ہے اور تفویت کی تجلی بھی ۔تہذیب و تادیب بھی ہے اور حسن نزاکت بھی ۔فرائد کا حسن بھی ہے اور فصاحت و بلاغت کی بہاریں بھی۔اشارہ و کنایہ کا حسن بھی ہے اور سہل ممتنع کا جمال بھی۔صنعت طباق کا حسن بھی ہے اور تقابل تضاد کی رعنائی بھی ۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور مجاز مرسل بھی ۔صنعت اشتقاق بھی ہے اور ترصیع کا حسن بھی ۔ صنعت مراعات النظیر کا حسن بھی ہے اور صنعت تکرار بھی ۔
وغیرہ وغیرہ ۔
ایک عرصے سے لوگ یہ سلام پڑھتے آرہے تھے:
یا نبی سلام علیک
یا رسول سلام علیک
اور اس کے ساتھ چار مصرعوں پر مشتمل مختلف بند پڑھے جاتے ہیں ، مثلا”:
قطرہ قطرہ دریا دریا
ذرہ ذرہ تارا تارا
جب ہوءے سرکار پیدا
سارا عالم کہہ رہا تھا
اس بند کے افاعیل مندرجہ ذیل ہیں:
فاعلاتن فاع فعلن
اور اس بحر کا نام ہے :
بحر رمل مسدس مزاعف مدروس مخبون محذوف
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا میزان فاعلاتن فاع فعلن کے مطابق یا نبی سلام علیک موزوں ہوتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔
گویا یہ مصرع ناموزوں ہے۔ثانیا” جب عوام میں سے اکثر لوگ یا نبی سلام علیک پڑھتے ہیں ، وہ ع گرا کے پڑھتے ہیں ، یعنی یا نبی سلاملیک پڑھتے ہیں جس کے سبب یہ ترکیب مہمل بن جاتی ہے۔
جب ہم کسی دوست کو سلام کہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور کہتے وقت علیکم کے عین کا درست تلفظ ادا کرنا نہیں بھولتے ۔تو پھر جب نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں تو یا نبی سلام علیک کی جگہ یانبی سلاملیک پڑھیں ؟ ہر گز نہیں ۔جب کوئی شخص ہم کو السلام علیکم کی جگہ السلاملیکم کہے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ ہم کو یہ شخص سلام نہیں کہہ رہا ہے ، بلکہ مہمل لفظ استعمال کررہا ہے ۔ تو کیا یہ عجب نہیں لگتا کہ ہم نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پڑھتے وقت مہمل لفظ کا استعمال کریں ؟
شاید یہی وجہ کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام جیسا لا جواب کلام لکھا جو موزوں ہے، مہمل نہیں ہے ، عروضی حسن رکھتا ہے اور بدیعی جمال بھی وغیرہ وغیرہ ۔
شاید یہی وہ حکمت عملی ہے جس کی بنیاد پر ایک بہترین نعم البدل عطا فرماتے ہوئے سرکار اعلی’حضرت نے کلام مصطفی’ جان رحمت پہ لاکھوں سلام لکھا تاکہ جامع الکم (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارگاہ میں وہ منظوم ہدیہء سلام پیش کیا جائے جو فصیح بھی ہو اور بلیغ بھی ۔
لہذا جو یہ کہے کہ مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام نہ پڑھ کے یا نبی سلام علیک پڑھو وہ شدید غلطی پر ہے اور علم عروض ، علم بیان ،علم معنی و علم بدیع سے نا واقفیت رکھتا ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا
سلام و نعت رضا کوئی تو سنائے ذرا
کہ پھیکی لگتی ہے محفل شہ رضا کے بغیر
از قلم : سید خادم رسول عینی