WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

﷽قربانی :فضائل و مسائل!از:حبیب اللہ قادری انواری! آفس انچارج: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا، تحصیل: رامسرضلع:باڑمیر (راجستھان)

مسلمانوں کے درمیان بہت سے تہوار مروج ہیں ان میں عید الفطر اور عید الاضحٰی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،عید الاضحٰی میں کچھ مخصوص جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو اللہ نے اپنے صاحب استطاعت بندوں پر واجب کی ہے،اور صرف رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے ،اور یوں بھی قربانی کی اصل اور روح بھی یہی ہے کہ بندہ صرف بصرف اپنے خالق و مالک کو خوش کرنے اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے اپنا مال و متاع اور اپنی عزیز ترین چیزیں اس کے حکم کے مطابق قربان کردے ،جانوروں کی قربانیاں تو اپنے اسی جزبے کا مظہر اور عبدیت اور بندگی کے اظہار کا ذریعہ ہیں ،اگر ان میں نام و نمود اور شہرت و ناموری اور رسم و رواج کا دخل ہوگا تو نہ صرف یہ کہ یہ قربانیاں مقبول نہ ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت مواخذہ کا بھی خطرہ ہے ۔اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی قربانیاں خالصۃً لوجہ اللہ کریں ۔
قربانی ایک اہم ترین عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے،زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا ۔مگر وہ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے ،اسی طرح آج بھی کچھ مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے، اور ان مذاہب کےپیروکار بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر میں اپنے محبوب نبی حضور احمد مجتبیٰ محمدمصطفیٰ ﷺکو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی قربانی بھی اسی کے نام پر (اس کے رضا کے لئے)ہونی چاہیئے چنانچہ “فصل لربک وانحر “کا یہی مفہوم ہے اور دوسری آیت کریمہ میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے عالم کا پالنہار ہے ۔

قربانی کے فضائل: بلا شبہ اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ “قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ،ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے، اور ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حدیث میں قربانی کی بڑی مؤثر تاکید فرمائی کہ “اےلوگو!بڑے خلوص و للّہیت کے ساتھ قربانی کیاکرو “
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بعض صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کی ان قربانیوں کی حقیقت اور بنیاد کیا ہے ؟تو حضور نبی رحمت ﷺنے فرمایاکہ یہ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے ۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پھر عرض کیا کہ اس میں ہمارے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟تو حضور نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی،صحابۂکرام نے پھر عرض کیا کہ بھیڑ کے بالوں کا بھی یہی معاملہ ہوگا ؟تو حضور ﷺنے فرمایا !ہاں !بھیڑ کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی (مفہوم حدیث)
سبحان اللہ !قربانی کرنے پر اس سے بڑھ کر اور کیا اجر و ثواب ہوگا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں ۔اس کے باوجود اگر استطاعت ہوتے ہوئے ہم اور آپ قربانی نہ کریں تو اس سے بڑھ کر محرومی کی بات کیا ہوگی ؟۔اور ویسے بھی قربانی کرنے والوں کی جس قدراہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کی ترغیب و تاکید قرآن و احادیث میں مذکور ہیں اسی طرح قدرت و استطاعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم ﷺسے بڑی وعید اور دھمکی بھی وارد ہے چنانچہ قربانی نہ کرنے والوں پر حضور نے اپنی شدید خفگی و ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ “جو آسودہ حال ہو نے کے با وجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے”۔
قربانی واجب ہونے کے لئے چار شرطیں ہیں: (۱)مسلمان ہونا (۲)مقیم ہونا(۳)بالغ ہونا(۴)مالک نصاب ہونا(مالک نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کے دام کی مقدارروپیےکا مالک ہونا ہے )مندرجہ بالا شرائط مرد و عورت میں سے جس میں بھی ایام قربانی کے حصہ میں پائے جائیں اس پر قربانی واجب ہے (درمختار ج/۹ص/۵۲۴)
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی طلوع صبح صادق سے بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں ،ان ایام کو ایام نحر کہتے ہیں ،پہلے دن قربانی سب سے افضل ،دوسرے دن اس سے کم اور آخری دن سب سے کم درجہ ہے (درمختارج/۹ص/۵۲۰)
کن جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے ؟: قربانی کے جانور تین طرح کے ہیں (۱)اونٹ(۲)گائے(۳)بکری یہ سب جانور چاہے نر ہو ں یا مادہ خصی ہوں یا غیر خصی سب حکم میں یکساں ہیں، یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔(عالمگیر ی ج/۵ص/۲۹۷)
جانور کی عمریں: قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیئے اونٹ پانچ سال کا ،گائے دوسال کی ،بکری ایک سال کی ،اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ،ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھہ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (در مختارج/۹ ص/۲۹۷)
کن جانوروں کی قربانی نہیں ہو سکتی ؟: (۱)قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیئے ،لہٰذا خرید تے وقت اس کا خاص خیا ل رکھیں تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (۲) اندھے اور کانے کی(۳)جس جانور کی ناک کٹی ہو(۴)اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ ہو(۵)جس کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں (۶)جانور اتنا لنگڑا ہو کہ قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے (۷) جس جانور میں اتنا جنون ہوکہ چرتا بھی نہ ہو (۸)جس جانور کے دانت نہ ہوں (۹)جس کا تھن کٹا ہو یاتھن سوکھا(چاروں میں سے اگر صرف ایک سوکھا ہوتو حرج نہیں ) (۱۰)خنثیٰ جانور (یعنی جس کے نر اور مادہ دونوں طرح کی علامتیں ہوں ) (۱۱) وہ جانور جو صرف غلاظت کھاتا ہو ،ان سب کی قربانی جائز نہیں (در مختارج/۹ص/۵۳۵،بہارشریعت )
قربانی سے قبل جانور سے نفع اٹھانا: (۱)ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لئے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنامکروہ و ممنوع ہے (۲)قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اجرت پر دینا ممنوع ہے، غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے ،اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوھ لیا تو اسے صدقہ کرے اور اجرت پر جانور کو دیا ہے تو اجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تو اس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔(درمختار ج/۹ص/۵۴۴)

اب آئیئے ہم قربانی کے کچھ مزید اہم و ضروری مسائل مستند کتب فقہ کے حوالے سے درج کر نے کی سعادت حاصل کررہے ہیں!
(۱) قربانی کے دن گزرجانے کے بعد قربانی فوت ہو گئی اب نہیں ہو سکتی ہے ،اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خریدرکھا ہے تو اس کا صدقہ کرے-

(۲)قربانی کا جانور خرید نے کے بعد قربانی سے پہلے بچہ دے دے تو اسے بھی ذبح کر ڈالے اور اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کرے اور اگر قربانی کے دنوں میں ذبح نہ کیا تو زندہ صدقہ کرے-

(۳)جس پر قربانی واجب ہے اسے ایک بکری کا ،یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ذبح کرنا واجب ہے-

(۴)دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پہ رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے ،اگر ایک نے نہ کہا تو جانور حلال نہ ہوگا-

(۵)اگر جا نور مشترکہ ہو جیسے گائے ،اونٹ،بھینس تو گوشت اندازے سے ہر گز نہ تقسیم کریں بلکہ وزن سے تقسیم کریں (البحر الرائق ج/۲ص/۵۷)

(۶)وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی، وحشی اور گھر یلو جانور سے مل کر بچہ پیدا ہوا مثلاًہرن اور بکری سے اس میں ماں کا اعتبار ہے یعنی اس بچہ کی ماں بکری ہے تو جائز ہے، اور بکرے اور ہرنی سے پیداہوا ہے تو نا جائز۔(عالمگیری ج/۵ص/۲۹۷)

(۷)قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیزوں سے بدل نہیں سکتا ہے جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جا تا ہو جیسے روٹی ،گوشت،سرکہ،روپیہ ،اور اگر اس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کرے۔(در مختار ج/۹ص/۵۴۳)

(۸)گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اگر اس کو ایسی چیز کے بدلے میں بیچا جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کرے۔ (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۰)

(۹)قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں نہیں دے سکتا کہ اس کو اجرت میں دینا بھی بیچنے ہی کے معنیٰ میں ہے (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۱)

(۱۰)میت یا مرحوم کی وصیت پر کی جانےوالی قربانی کا سب گوشت فقرا اور مساکین کو صدقہ کرنا واجب ہے نہ خود کھائے اور نہ مالداروں کو دے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۴۵)

(۱۱) اگر شرکاء حضرات اپنا اپنا حصہ لے جانا چاہتے ہوں تو وزن کی مشقت سے بچنے کے لئے دو حیلے کر سکتے ہیں (۱)ذبح کے بعد اس گائے کا سارا گوشت ایک ایسے بالغ مسلمان کو ہبہ (یعنی تحفۃً مالک)کردیں جو ان کی قربانی میں شریک نہ ہو اور اب وہ اندازے سے سب میں تقسیم کر سکتا ہے (۲)دوسرا حیلہ اس سے بھی آسان یہ ہے جیسا کہ فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیھم فرماتے ہیں :گوشت تقسیم کرتے وقت اس میں کوئی دوسری جنس (مثلاًکلیجی مغز وغیرہ )شامل کی جائے تو بھی اندازے سے تقسیم کرسکتے ہیں ۔(درمختار ج/۹ص/۵۲۷)
اگر کئی چیزیں ڈالی ہیں تو ہر ایک میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا لازمی نہیں ،گوشت کے ساتھ صرف ایک چیز دینا بھی کافی ہے۔ مثلاًکلیجی ،سری ،پائے ڈالے ہیں تو گوشت کے ساتھ کسی کو تلیّ دیدی، کسی کو کلیجی کا ٹکڑا کسی کو پایہ ،کسی کو سری اگر ساری چیزوں میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا چاہیں تب بھی حرج نہیں-

(۱۲)کرفیو یا کسی دوسرے فتنے کے سبب شہر میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں دسویں ذی الحجہ ہی کو شہر میں بھی طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی کرنا جائز ہے (درمختار ج/۵ص/۲۰۳)

(۱۳) شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہو چکی ہو ،لہٰذا عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی ہو سکتی ہے ،اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے (عالمگیری ج/۵ص/۲۵۹)

(۱۴) قربانی کے لئے بکرا اور بکری کی عمر پورے ایک سال کی ہونا ضروری ہے اگر ایک دن بھی کم ہوگی تو اس کی قربانی شرعاً جائز نہ ہوگی (ایضاً)

(۱۵) عورت کی طرف سے قربانی ہو تو صرف عورت کا نام لینا کافی ہے فلاں بنت فلاں یا فلاں زوجہ فلاں کہنا ضروری نہیں ،اور اگر کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں (فتاویٰ فیض الرسول ج/۲ص/۴۴۸)

(۱۶)جرسی گائے یا بیل جب کہ گائے کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی قربانی کرنا ان کا گوشت کھانا جائز ہے اور جرسی گائے کا دودھ پینا بھی جائز ہے اس لئے کہ جانوروں میں ماں کا اعتبار ہے (فتاویٰ برکاتیہ ص/۲۲۹)

(۱۷)جانوروں کو اس طرح ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرے تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ تکلیف ہے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۵۳)

نماز عید کا طریقہ : نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نیت کرکے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیئے جائیں اور جہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں پھر امام اعوذاور بسم اللہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے، دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جاکر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور باقی نماز پوری کرے (بہار شریعت ج/۱ص/۷۸۲)

قربانی کرنے کا طریقہ : جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اس کا منہ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے ذبح کرے اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے ۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ط لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے اس کے بعد یہ دعا پڑھے اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہ السَّلاَمُ و حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ رسول اللہﷺ اگر قربانی دوسرے کی طرف سے ہو تو منی کی جگہ من کہے ۔

قربانی کا عمل رضا ٕالٰہی کا سبب ہے۔۔

از۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی،استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع مہراج گنج یوپی ۔

شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام اس امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے

”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں

الکوثر،١٠٨۔٢

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔

یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟

”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“

یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا

”سنة ابیکم ابراھیم“

تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔

”بکل شعرة حسنة٠٠“

ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔

بکل شعرة من الصوف حسنة ۔

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“

ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)

بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں کہ خودگوشت کھاسکتاہے دوسرے کو بھی کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

”قربانی کس پر واجب ہے“

قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت محنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔

”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”

اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)

حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔

قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔

”قربانی کا وقت“

قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “

جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)

اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”فاعد ذبحک باخر“

دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔

”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“

”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔

جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥

اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔

”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“

سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩

نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“

بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.

جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:

اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)

قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے

قرآن مجید میں ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

(الحج، 22: 37)

یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

مسائل و احکام قربانی

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔

(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)

شب عید کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘

(الترغيب والترهيب)

نویں ذی الحج کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘

(صحيح مسلم)

یوم عید کی سنتیں

صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے ۔

سید خادم رسول عینی ایک عظیم شاعر .. پیش کش :ڈاکٹر شفیق جے ایچ

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر میناءی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کے دو مجموعہاءے کلام بنام رحمت و نور کی برکھا ، نور مناقب شاءع ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم بھی شاءع ہوءی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شایع ہوتے رہتے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فاءز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست ہیں۔علاوہ ازیں آپ علم عروض میں مہارت رکھتے ہیں اور اردو کے ایک بہترین نقاد و مقالہ نگار ہیں ۔آپ کے تبصرات و مضامین ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شاءع ہوتے رہتے ہیں ۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارءین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

“عینی” رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔

شجر وہ سب کو جو اک بے دیار لگتا ہے
وہی کسی کے لیے سایہ دار لگتا ہے

سیاہ زلفوں کی جھرمٹ میں اس کا ہے چہرہ
شب سیہ میں وہ نصف النہار لگتا ہے

وفا کے بحر پہ پلنے لگی جفا کی آگ
صدف کے ذہن میں اب انتشار لگتا ہے

یہ مژدہ امن کا پھیلا ہے سارے جنگل میں
کہ سانپ نیولوں کا اب شکار لگتا ہے

گلوں کے بیج ہے خاروں کی بالادستی عجب
چمن یہ دیکھ کے اب اشکبار لگتا ہے

عبور کرنا تھا دشوار تر خزاں کا پہاڑ
تمھارے ساتھ سفر پر بہار لگتا ہے

چمک رہا ہے امیدوں کا ماہتاب حسیں
کہاں کٹھن ہمیں اب انتظار لگتا ہے

عجب معمہ ہے آلائشوں سے پانی کی
ہوا کے جسم میں عینی بخار لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
پیش کش:
ڈاکٹر شفیق جے ایچ

سہلاؤشریف میں عیدالفطرکاتہوار پرامن وخوشگوار ماحول میں منایاگیا.. رپورٹ:باقر حسین قادری برکاتی انواری خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

سہلاؤشریف میں عیدالفطرکاتہوار پرامن وخوشگوار ماحول میں منایاگیا


ہزاروں فرزندان توحید نے عیدالفطر کی نماز اداکرکے ملک وملت کی خوشحالی اور آپسی اتفاق واتحاد کے لیے دعا مانگی

سہلاؤشریف،باڑمیر/پریس ریلیز
رمضان المبارک کے پاکیزہ مہینہ کے مکمل ہوتے ہی شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو جہاں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں نے سنیچر کو انتہائی عقیدت ومحبت اور جوش وخروش کے ساتھ دورکعت نماز عیدالفطر اداکی وہیں علاقۂ تھارکی مرکزی دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ درگاہ حضرت پیرسیدحاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے احاطہ میں واقع عظیم الشان غریب نواز مسجد میں ہزاروں مسلمانوں نے امن وآشتی،خشوع وخضوع اور محبت وبھائی چارگی کے ساتھ وقت مقررہ پر عیدالفطر کی نماز ادا کی-
عیدالفطر کی نماز نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری نے پڑھائی-
نمازعیدالفطر سے قبل آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیدالفطر ہم مسلمانوں کابہت ہی بڑا تہوار ہے اور یہ انتہائی رونق بخش دن ہے،دنیا کے کونے کونے میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں اس دن عید مبارک…عیدمبارک کی صدائیں سنائی دیتی ہیں،ایک دوسرے سے بغلگیر اور مصافحہ ومعانقہ کرتے ہوتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں،جو آپسی اتفاق واتحاد کی بہترین نظیر ہے-یہ کوئی معمولی دن نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ ایک عظیم تحفہ ہے جو عبادت وریاضت کے مہینے رمضان المبارک کے اختتام پر حاصل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دن کو یوم الانعام یعنی انعام کا دن بھی کہاجاتا ہے،اس تہوارکی رونق اور خوشی کے کیا کہنے-
عیدکانام آتے ہی کیابچہ کیاجوان کیا بوڑھا سب کے چہرے کھل اٹھتے ہیں،کیونکہ سب کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ خوشی ایک ماہ کی عبادت کے بعد میسر ہوتی ہے-
دنیابھر میں عید کاایک ہی پیغام ہے اور وہ پیغام خوشی ومسرت اور امن ومحبت کا پیغام ہے-
آپ نے ان باتوں کے علاوہ مزید اور بھی کچھ اہم ومفید ناصحانہ باتیں کیں-
نمازعیدالفطر کے بعد حضرت قبلہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری نے عبادت وریاضت کی قبولیت اور ملک وملت کی بہتری کے لیے خصوصی دعا کی، بعدہ لوگوں نے آپس میں مصافحہ ومعانقہ کرکےایک دوسرے کو عیدالفطرکی مبارکبادی پیش کی-

نعت شہِ عالمینﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعت شہِ عالمینﷺ

رہے جو نرگسِ سرکار کا خیال بحال
ہمارے باغِ نظر کا رہے جمال بحال

اسی سے منصبِ دیوانگی کی شان سمجھ
ہیں اس پہ سرور کونین کے بلال بحال

ستارےلفظوں کی صورت جوڈھل رہےہیں مدام
مہِ عرب کی ثنا سے ہے یہ کمال بحال

نبی کی یاد میں گزرے ہیں جس کے دن وہ رہا
بہ وصفِ گردشِ ایام سارے سال بحال

خداۓ برتر و بالا سے مانگ ان کے طفیل
یوں ہوگی لمحے میں موقوفیِ نوال بحال

عجیب ہوش ربا حالتوں سے گزرے مگر
نبی کی یاد نے رکھا دمِ وصال بحال

وہ بد مآل ہو کیوں اس کا حال کیوں ہو خراب
جسے حضور نے فرمایا خوش مآل بحال

دئیے ہیں اور صدف نے بھی کیا یوں دُرِ یتیم
ازل سے دیکھی گئی کیا تری مثال بہ حال

تو کون روکے بحالیِ حال سے اے کلیم
مرے حضور اگر کہہ دیں تیرا حال بحال

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعتِ رسولِ اکرم ﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی بہار

شبِ قدر کی عطا

تیری ممکن نہیں مثیل رسول
تیرا عالم ہوا قتیل رسول

تیرے حسنِ خرام پر قربان
ہے منور مری سبیل ، رسول

اور سب آئنے انہی کے ہیں
فضل میں ہیں فقط اصیل رسول

آتشِ غم ہے سرد جن کے لیے
ہیں تمہارے، مرے خلیل رسول

ظلمتوں کا نصیب صرف شکست
شہر تنویر کی فصیل رسول

ایک بھی تشنۂ کرم نہ ملا
ہیں عطاؤں کی سلسبیل رسول

تجھ کو بے عیب نے کیا بے عیب
ہر جہت سے ہے تو جمیل رسول

ذرہ ہے جن کے آگے مہرِ منیر
ایسے ہیں خوبرو شکیل رسول

سب سے اعلیٰ کتاب جن کو ملی
ہیں وہ شبہات کے مزیل رسول

اپنی یکتائی پر کیا یک نے
تیری یکتائی کو دلیل رسول

غالب آۓ کثیر پر اکثر
شان والے ترے قلیل رسول

سہل گزرے گا یہ حساب کا دن
ہیں گنہ گاروں کے وکیل رسول

ہر جلالت ہے جس خدا کے لیے
اسکی رحمت سےہیں جلیل رسول

اب سپیدِ خوشی ہو جلوہ طراز
شام غم کی ہوئی طویل، رسول

ہر غنی سے غنی نہ کیوں ہو کلیم
آخرش اس کے ہیں کفیل رسول

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی بہار

نعتِ پپاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم.. از ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی9430555134

کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی

نذر احباب

بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا

شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا

حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا

ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا

ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا

اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا

تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا

ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا

گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا

قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا

شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134

تہذیبِ ہند پر اسلام کے انمٹ نقوش۔آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]صحافی:- روزنامہ شانِ سدھارتھ

ہندوستان مختلف تہذیب و ثقافت کا گہوارا ہے برسہا برس سے مختلف اقوام کے لوگ بنا کسی بھید و بھاؤ کے آپسی اخوت و محبت سے سکونت اختیار کئے ہوۓ تھے۔ ہمہ وقت یہاں گنگا جمنی تہذیب کی ندیاں بہتی تھیں۔ شادی بیاہ سے لے کر ایک دوسرے کی تہوار نیز مذہبی و غیر مذہبی تقریبات میں خلوص و محبت کے ساتھ شامل ہوتے تھے یہاں تک کہ خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے۔لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی بے مثال گنگا جمنی تہذیب پر جاہل قسم کے غیر مسلموں نے کٹر پنتھی دکھانا شروع کردیا اور جگہ جگہ مسلمانوں کو نشان زد پر لینے لگے۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی تنظیم و تحریک تشکیل کرلی گئی جس سے کہ قوم مسلم کو حراساں و ظلم و جبر کرنے میں آسانی پیدا ہو اور وقتاً فوقتاً تنظیم سےمدد بھی ملتی رہے۔ آزادئ ہند کے بعد سے کچھ سال تک یہاں کے حالات کافی حد تک بہتر تھے۔ لیکن آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلنے والی بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئ دن بدن اس کی لو تیز ہوتی جاری ہے یہاں تک کہ حالات یہ بن گئے کہ مسلمانوں کی مذہبی عمارت نہ ہی ان کی ذاتی جائیداد (دوکان و مکان وغیرہ) محفوظ ہے۔ غیرمسلموں کے چھوٹے سے چھوٹے تہوارمیں بھی مسلمانوں کے جان و مال کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مآب لینچنگ میں ہزاروں مسلمانوں کو بنا کسی وجہ کے بے دردی سے قتل کرڈالا گیا، گئوکشی کے بےوجہ جرم میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یہاں کے سماجی عدل و انصاف کا توازن بالکل مسخ کردیا گیا۔ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا، صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرڈالا بھارتی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کسی سے مخفی نہیں اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس بھی محفوظ نہیں ۔ یہ کس جمہوری ملک کی تہذیب و تمدن ہے کہ تہوار و جلوس میں ننگی تلواریں دھار دار آلہ لے کر نکلا جاۓ اور ایک مخصوص مذہب کے خلاف بھڑکاؤ نعرے بازی کی جاۓ ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوٹ مچایا جاۓ اور پھر اس پر اپنے مذہبی جھنڈے نصب کئے جائیں۔ حد تو اس وقت ہوگئ جب یہ ننگا ناچ حکومت ہند کی کھلی آنکھوں کے سامنے ناچا جارہا تھا پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔لیکن اسی سرزمین پر مختلف مذاہب کے مابین ایک بڑا ہی صاف و شفاف پاکیزہ مذہب ‘اسلام’ ہے جس کا پیغام ہرآن امن و امان کا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے پیغام کو عمل میں لاتے ہیں۔
دنیا کا ہرگوشہ خاص کر بھارت ملک کا ہر ہر ذرہ گواہ ہے کہ یہاں پر صدیوں سے نکلنے والے اسلامی جلوس[ربیع الاول،محرم نیز دگر جلسے جلوس] میں مسلمانوں نے کسی خاص مذہب و کمیونٹی کو نشانہ بنایا ہو یا اپنے مذہب سے ہٹ کر نعرے بازی کیا ہو یا کسی دگر مذہب کی عبادت گاہوں کو ٹھیس پہنچایا ہو۔ یہ تو کجا مسلمان اپنے جلوس میں ایک چینٹی جیسی مخلوق کو ایزا دینے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر اس سرزمین پر کوئی سچا سپوت بن کر بودوباش اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ یقیناً قوم مسلم ہے۔ ہرسال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر دنیا بھر میں اربوں کھربوں کی تعداد میں ایک ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں یہ نظم صرف مذہب اسلام میں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان اکٹھا ہونے کے باوجود کبھی کسی مذہب، کسی خاص کمیونٹی یا کسی کی عبادت گاؤں کو کوئی ٹھیس پہنچایا ہو۔ اسی عیدالفطر کی نماز کو مثال کے طور پر لے لیجئے جو ٢٢/اپریل ٢٠٢٣ ٕ بروز سنیچر کو ادا کی گئ ایک اندازے کے مطابق خالص بھارت میں بیس کروڑ سے زاٸد مسلمانوں نے مساجد،عیدگاہ اور سڑکوں پر نماز عیدالفطر ادافرمائی بغیر کسی نعرہ بازی کے بغیر کسی مندر کی طرف آنکھ اٹھاۓ اور بغیر کوئی دھار دار آلہ لئے امن و امان، چین و سکون کے ساتھ سچے وفادار بھارتی بن کر اپنے اپنے گھروں پر واپس آگئے۔

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں۔]

محب گرامی وقار محترم اقبال خان صاحب کے صاحبزادے عزیزم شاداب خان سلمہٗ نے ماہِ رمضان کے مکمّل روزے رکھے,، ازقلم محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی 7045528867

ماہِ رمضان المبارک یقیناً بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس کی آمد ہوتے ہی تمام عاشقانِ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چہروں پر خوشیوں کے نمایاں آثار نظر آتے ہیں
ہر بندۂ مومن اس ماہِ مبارک کی تمام برکات و حسنات اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر روزہ رکھ کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتا ہے
اور کیوں نہ ہو
کہ

صحیحین و سنن و ترمذی و نسائی ابنِ خزیمہ میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں، جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں

نیز
ابو یعلی بیہقی سلمہ بن قیس اور احمد و بزاز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جس نے اللہ عزوجل کی رضا کے لیے ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جیسے کوا کہ جب بچہ تھا اس وقت سے اڑتا رہا یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مرا،

اس کے علاوہ بھی قرآن و احادیث میں روزہ کے بے حساب فضائل وارد ہیں

یقیناً جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس کی لذتیں اور برکتیں حاصل کرتے ہیں
لیکن اس گرمی کے ایام میں جہاں بڑے بڑے طاقتور نوجوان بے دریغ روزہ سے بے پرواہ نظر آتے ہیں وہیں اہلِ محبت کے گھروں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں

انہیں ایک نام محب گرامی وقار محترم اقبال خان صاحب (گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات انڈیا) کے صاحبزادے، محمد شاداب خان سلمہٗ کا ہے کہ جنہوں نے محض 9 سال کی عمر میں مارچ اپریل کے مہینے میں بھوک و پیاس کی شدت پر صبر کرتے ہوئے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اس ماہِ رمضان المبارک کے تمام روزے مکمّل رکھ کر اپنے والدین کی بہتر تربیت کا نتیجہ پیش کیا

جس کے لئے ہم انہیں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللّٰـــہ عزوجل آپ کو دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے اور آئندہ بھی ماہِ رمضان المبارک کے تمام روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین و دنیا کی تمام نعمتوں برکتوں سے مالا مال فرمائے

آمین اللھم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

دعا گو
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ایڈیٹر جامعہ امام المرسلین ویب سائٹ
خطیب و امام فیضانِ رضا مسجد گلشن نگر گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات انڈیا
7045528867

کاتب ذوالقرنین خان کی نواسی کلثوم نے رکھا مسلسل 28/ روزہ

مہراج گنج پریس ریلیز

رمضان بابرکت و نعمتو ں والا مہینہ ہے۔ اس کے روزے فرض و خوشنودی رب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان فوائد سے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ کا ذخیرہ و مجموعہ مالا مال ہے۔ تاہم اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ روزہ ایک مشقت کی چیز ہے۔ اس گرمی کے موسم میں جواں عمر کی ہمت بھی روزہ رکھنے کے تعلق سے پش و پیش کا شکار ہوجاتی ہے۔ ننھی جانوں کا کیا کہنا؟ مگر اس مشقت میں مبتلا کرنے والی چیز “روزہ ” جیسے فرض کو جس خوش دلی سے دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی بیالیس گاؤں پوسٹ جدو پپرا کے استاذ مولانا کاتب ذوالقرنین خان کی نو سالہ نواسی کلثوم بنت ذبیح اللہ صدیقی نے رکھا۔ مسلسل 28/اٹھائیس روزے رکھ کر اس ننھی سی عمر میں ایک نمایاں مثال پیش کی ہے اور ذہن دیا ہے کہ اگر عزم مستحکم ہو تو مکلفین کو فرائض خداوندی کی ادا سے کوئی مشقت باز نہیں رکھ سکتی۔ جیسے مجھ غیر مکلفہ کو مارچ و اپریل کی تکلیف دہ گرمی روزہ سے باز نہ رکھ سکی۔ باوجودیکہ گھر کے تمام افراد مجھ پر روزہ فرض نہ ہو نے کے سبب اس سے منع کر رہے تھے۔ میرا عزم محکم ہے کہ اس رمضان المبارک کے باقی ایام کے روز ے بھی خوش ظرفی و خلوص قلبی کے ساتھ رکھوں اور اجر عظیم کی مستحق بنوں۔ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی مہراج گنج یوپی کے پرنسپل مولانا شیر محمد خاں قادری، مفتی قاضی فضل رسول مصباحی ، مولانا توحید احمد برکاتی مصباحی ، مولانا تصور حسین نظامی ، حافظ وقاری توصیف رضا صفوی ، حافظ مسعود عالم سراجی نے کہا “مبارک صد مبارک اللہ تعالی نانا و نواسہ کو درازی عمر کے ساتھ احکام خداوندی کی بجا آوری کا حسین و عمدہ موقع ہمیشہ عطا فرمائے اور خلوص نیت میں استحکام بخشے” ان کے علاوہ درجنوں علماء و فضلاء نے بھی صائمئہ موصوفہ کے حق میں نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔