WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category عید الاضحٰی

﷽قربانی :فضائل و مسائل!از:حبیب اللہ قادری انواری! آفس انچارج: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا، تحصیل: رامسرضلع:باڑمیر (راجستھان)

مسلمانوں کے درمیان بہت سے تہوار مروج ہیں ان میں عید الفطر اور عید الاضحٰی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،عید الاضحٰی میں کچھ مخصوص جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو اللہ نے اپنے صاحب استطاعت بندوں پر واجب کی ہے،اور صرف رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے ،اور یوں بھی قربانی کی اصل اور روح بھی یہی ہے کہ بندہ صرف بصرف اپنے خالق و مالک کو خوش کرنے اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے اپنا مال و متاع اور اپنی عزیز ترین چیزیں اس کے حکم کے مطابق قربان کردے ،جانوروں کی قربانیاں تو اپنے اسی جزبے کا مظہر اور عبدیت اور بندگی کے اظہار کا ذریعہ ہیں ،اگر ان میں نام و نمود اور شہرت و ناموری اور رسم و رواج کا دخل ہوگا تو نہ صرف یہ کہ یہ قربانیاں مقبول نہ ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت مواخذہ کا بھی خطرہ ہے ۔اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی قربانیاں خالصۃً لوجہ اللہ کریں ۔
قربانی ایک اہم ترین عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے،زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا ۔مگر وہ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے ،اسی طرح آج بھی کچھ مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے، اور ان مذاہب کےپیروکار بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر میں اپنے محبوب نبی حضور احمد مجتبیٰ محمدمصطفیٰ ﷺکو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی قربانی بھی اسی کے نام پر (اس کے رضا کے لئے)ہونی چاہیئے چنانچہ “فصل لربک وانحر “کا یہی مفہوم ہے اور دوسری آیت کریمہ میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے عالم کا پالنہار ہے ۔

قربانی کے فضائل: بلا شبہ اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ “قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ،ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے، اور ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حدیث میں قربانی کی بڑی مؤثر تاکید فرمائی کہ “اےلوگو!بڑے خلوص و للّہیت کے ساتھ قربانی کیاکرو “
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بعض صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کی ان قربانیوں کی حقیقت اور بنیاد کیا ہے ؟تو حضور نبی رحمت ﷺنے فرمایاکہ یہ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے ۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پھر عرض کیا کہ اس میں ہمارے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟تو حضور نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی،صحابۂکرام نے پھر عرض کیا کہ بھیڑ کے بالوں کا بھی یہی معاملہ ہوگا ؟تو حضور ﷺنے فرمایا !ہاں !بھیڑ کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی (مفہوم حدیث)
سبحان اللہ !قربانی کرنے پر اس سے بڑھ کر اور کیا اجر و ثواب ہوگا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں ۔اس کے باوجود اگر استطاعت ہوتے ہوئے ہم اور آپ قربانی نہ کریں تو اس سے بڑھ کر محرومی کی بات کیا ہوگی ؟۔اور ویسے بھی قربانی کرنے والوں کی جس قدراہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کی ترغیب و تاکید قرآن و احادیث میں مذکور ہیں اسی طرح قدرت و استطاعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم ﷺسے بڑی وعید اور دھمکی بھی وارد ہے چنانچہ قربانی نہ کرنے والوں پر حضور نے اپنی شدید خفگی و ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ “جو آسودہ حال ہو نے کے با وجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے”۔
قربانی واجب ہونے کے لئے چار شرطیں ہیں: (۱)مسلمان ہونا (۲)مقیم ہونا(۳)بالغ ہونا(۴)مالک نصاب ہونا(مالک نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کے دام کی مقدارروپیےکا مالک ہونا ہے )مندرجہ بالا شرائط مرد و عورت میں سے جس میں بھی ایام قربانی کے حصہ میں پائے جائیں اس پر قربانی واجب ہے (درمختار ج/۹ص/۵۲۴)
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی طلوع صبح صادق سے بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں ،ان ایام کو ایام نحر کہتے ہیں ،پہلے دن قربانی سب سے افضل ،دوسرے دن اس سے کم اور آخری دن سب سے کم درجہ ہے (درمختارج/۹ص/۵۲۰)
کن جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے ؟: قربانی کے جانور تین طرح کے ہیں (۱)اونٹ(۲)گائے(۳)بکری یہ سب جانور چاہے نر ہو ں یا مادہ خصی ہوں یا غیر خصی سب حکم میں یکساں ہیں، یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔(عالمگیر ی ج/۵ص/۲۹۷)
جانور کی عمریں: قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیئے اونٹ پانچ سال کا ،گائے دوسال کی ،بکری ایک سال کی ،اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ،ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھہ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (در مختارج/۹ ص/۲۹۷)
کن جانوروں کی قربانی نہیں ہو سکتی ؟: (۱)قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیئے ،لہٰذا خرید تے وقت اس کا خاص خیا ل رکھیں تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (۲) اندھے اور کانے کی(۳)جس جانور کی ناک کٹی ہو(۴)اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ ہو(۵)جس کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں (۶)جانور اتنا لنگڑا ہو کہ قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے (۷) جس جانور میں اتنا جنون ہوکہ چرتا بھی نہ ہو (۸)جس جانور کے دانت نہ ہوں (۹)جس کا تھن کٹا ہو یاتھن سوکھا(چاروں میں سے اگر صرف ایک سوکھا ہوتو حرج نہیں ) (۱۰)خنثیٰ جانور (یعنی جس کے نر اور مادہ دونوں طرح کی علامتیں ہوں ) (۱۱) وہ جانور جو صرف غلاظت کھاتا ہو ،ان سب کی قربانی جائز نہیں (در مختارج/۹ص/۵۳۵،بہارشریعت )
قربانی سے قبل جانور سے نفع اٹھانا: (۱)ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لئے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنامکروہ و ممنوع ہے (۲)قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اجرت پر دینا ممنوع ہے، غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے ،اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوھ لیا تو اسے صدقہ کرے اور اجرت پر جانور کو دیا ہے تو اجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تو اس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔(درمختار ج/۹ص/۵۴۴)

اب آئیئے ہم قربانی کے کچھ مزید اہم و ضروری مسائل مستند کتب فقہ کے حوالے سے درج کر نے کی سعادت حاصل کررہے ہیں!
(۱) قربانی کے دن گزرجانے کے بعد قربانی فوت ہو گئی اب نہیں ہو سکتی ہے ،اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خریدرکھا ہے تو اس کا صدقہ کرے-

(۲)قربانی کا جانور خرید نے کے بعد قربانی سے پہلے بچہ دے دے تو اسے بھی ذبح کر ڈالے اور اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کرے اور اگر قربانی کے دنوں میں ذبح نہ کیا تو زندہ صدقہ کرے-

(۳)جس پر قربانی واجب ہے اسے ایک بکری کا ،یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ذبح کرنا واجب ہے-

(۴)دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پہ رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے ،اگر ایک نے نہ کہا تو جانور حلال نہ ہوگا-

(۵)اگر جا نور مشترکہ ہو جیسے گائے ،اونٹ،بھینس تو گوشت اندازے سے ہر گز نہ تقسیم کریں بلکہ وزن سے تقسیم کریں (البحر الرائق ج/۲ص/۵۷)

(۶)وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی، وحشی اور گھر یلو جانور سے مل کر بچہ پیدا ہوا مثلاًہرن اور بکری سے اس میں ماں کا اعتبار ہے یعنی اس بچہ کی ماں بکری ہے تو جائز ہے، اور بکرے اور ہرنی سے پیداہوا ہے تو نا جائز۔(عالمگیری ج/۵ص/۲۹۷)

(۷)قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیزوں سے بدل نہیں سکتا ہے جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جا تا ہو جیسے روٹی ،گوشت،سرکہ،روپیہ ،اور اگر اس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کرے۔(در مختار ج/۹ص/۵۴۳)

(۸)گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اگر اس کو ایسی چیز کے بدلے میں بیچا جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کرے۔ (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۰)

(۹)قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں نہیں دے سکتا کہ اس کو اجرت میں دینا بھی بیچنے ہی کے معنیٰ میں ہے (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۱)

(۱۰)میت یا مرحوم کی وصیت پر کی جانےوالی قربانی کا سب گوشت فقرا اور مساکین کو صدقہ کرنا واجب ہے نہ خود کھائے اور نہ مالداروں کو دے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۴۵)

(۱۱) اگر شرکاء حضرات اپنا اپنا حصہ لے جانا چاہتے ہوں تو وزن کی مشقت سے بچنے کے لئے دو حیلے کر سکتے ہیں (۱)ذبح کے بعد اس گائے کا سارا گوشت ایک ایسے بالغ مسلمان کو ہبہ (یعنی تحفۃً مالک)کردیں جو ان کی قربانی میں شریک نہ ہو اور اب وہ اندازے سے سب میں تقسیم کر سکتا ہے (۲)دوسرا حیلہ اس سے بھی آسان یہ ہے جیسا کہ فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیھم فرماتے ہیں :گوشت تقسیم کرتے وقت اس میں کوئی دوسری جنس (مثلاًکلیجی مغز وغیرہ )شامل کی جائے تو بھی اندازے سے تقسیم کرسکتے ہیں ۔(درمختار ج/۹ص/۵۲۷)
اگر کئی چیزیں ڈالی ہیں تو ہر ایک میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا لازمی نہیں ،گوشت کے ساتھ صرف ایک چیز دینا بھی کافی ہے۔ مثلاًکلیجی ،سری ،پائے ڈالے ہیں تو گوشت کے ساتھ کسی کو تلیّ دیدی، کسی کو کلیجی کا ٹکڑا کسی کو پایہ ،کسی کو سری اگر ساری چیزوں میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا چاہیں تب بھی حرج نہیں-

(۱۲)کرفیو یا کسی دوسرے فتنے کے سبب شہر میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں دسویں ذی الحجہ ہی کو شہر میں بھی طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی کرنا جائز ہے (درمختار ج/۵ص/۲۰۳)

(۱۳) شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہو چکی ہو ،لہٰذا عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی ہو سکتی ہے ،اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے (عالمگیری ج/۵ص/۲۵۹)

(۱۴) قربانی کے لئے بکرا اور بکری کی عمر پورے ایک سال کی ہونا ضروری ہے اگر ایک دن بھی کم ہوگی تو اس کی قربانی شرعاً جائز نہ ہوگی (ایضاً)

(۱۵) عورت کی طرف سے قربانی ہو تو صرف عورت کا نام لینا کافی ہے فلاں بنت فلاں یا فلاں زوجہ فلاں کہنا ضروری نہیں ،اور اگر کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں (فتاویٰ فیض الرسول ج/۲ص/۴۴۸)

(۱۶)جرسی گائے یا بیل جب کہ گائے کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی قربانی کرنا ان کا گوشت کھانا جائز ہے اور جرسی گائے کا دودھ پینا بھی جائز ہے اس لئے کہ جانوروں میں ماں کا اعتبار ہے (فتاویٰ برکاتیہ ص/۲۲۹)

(۱۷)جانوروں کو اس طرح ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرے تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ تکلیف ہے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۵۳)

نماز عید کا طریقہ : نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نیت کرکے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیئے جائیں اور جہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں پھر امام اعوذاور بسم اللہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے، دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جاکر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور باقی نماز پوری کرے (بہار شریعت ج/۱ص/۷۸۲)

قربانی کرنے کا طریقہ : جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اس کا منہ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے ذبح کرے اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے ۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ط لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے اس کے بعد یہ دعا پڑھے اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہ السَّلاَمُ و حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ رسول اللہﷺ اگر قربانی دوسرے کی طرف سے ہو تو منی کی جگہ من کہے ۔

قربانی کا عمل رضا ٕالٰہی کا سبب ہے۔۔

از۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی،استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع مہراج گنج یوپی ۔

شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام اس امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے

”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں

الکوثر،١٠٨۔٢

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔

یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟

”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“

یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا

”سنة ابیکم ابراھیم“

تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔

”بکل شعرة حسنة٠٠“

ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔

بکل شعرة من الصوف حسنة ۔

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“

ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)

بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں کہ خودگوشت کھاسکتاہے دوسرے کو بھی کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

”قربانی کس پر واجب ہے“

قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت محنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔

”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”

اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)

حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔

قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔

”قربانی کا وقت“

قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “

جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)

اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”فاعد ذبحک باخر“

دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔

”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“

”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔

جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥

اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔

”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“

سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩

نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“

بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.

جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:

اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)

قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے

قرآن مجید میں ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

(الحج، 22: 37)

یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

مسائل و احکام قربانی

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔

(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)

شب عید کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘

(الترغيب والترهيب)

نویں ذی الحج کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘

(صحيح مسلم)

یوم عید کی سنتیں

صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے ۔

قربانی: حضرت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کی ایک عظیم یاد گار:سیدنوراللہ شاہ بخاری

مسجد غریب نواز میں ہزاروں لوگوں نے نماز عیدالاضحیٰ ادا کر کے ملک وملت میں امن چین کی دعا کی!


رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)


بلاشبہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔اور ان کے وفاشعار صاحبزادے حضرت اسماعیل نے خود کو قربان کرنے پر اپنی رضاورغبت ظاہر فرمائی تھی،قربانی کے اس عظیم الشان اور صبر آزما عمل کے دوران نہ ہی حضرت ابراہیم کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔ مزکورہ خیالات کا اظہار مغربی راجستھان کی عظیم ومنفرد اور علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور “خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدپیر نوراللہ شاہ بخاری نے دارالعلوم کی عظیم الشان “غریب نواز مسجد” میں نماز عیدالاضحیٰ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کیا-ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت سیدنا ابراہیم اللہ کے برگزیدہ اورجلیل القدرنبی ورسول ہیں جنہیں اللہ نےاپنی خلت سے نوازا، جن پر اپنا صحیفہ نازل فرمایا،جنہیں اپنے رب کی رضا جوئی کی خاطر اس دار فانی کے اندر بے شمار امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا،اور قدم قدم پر جانثاری و فداکاری اور تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑا۔غرض ان کی پوری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اس برگزیدہ نبی نے محض اپنے رب کی رضاجوئی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیےہوش ربا آگ کی اذیت کو برداشت کرنا گوارہ کر لیااور عظمت دین و عقیدۂ توحید کی سربلندی کی خاطرعزم و استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہے اس صبر و رضا پر آگ کے لیے اللہ کا حکم آیا:

يَا نَارُكُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ
اے آگ ! تو ٹھنڈی اورابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا۔(انبیاء: 69)

اس آیت کی ترجمانی شاعر مشرق مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے کیاخوب کی ہے؂

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اہل علم فرماتے ہیں اللہ تعالی کا یہ حکم ’’بردا و سلاما‘‘ ’’ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ اور ایک بہت بڑا معجزہ بھی ہے کہ اگر وہ آگ ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی نہ ہوتی تو اس کی ٹھنڈک بھی حضرت ابراہیم کو نقصان پہنچا سکتی تھی اس پر اللہ نے اپنے خلیل کو دشمنوں کی اس عظیم سازش اور چال سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اس کی دہکتی ہوئی آگ میں کود کرکے اپنے جزبۂ ایمان کی تکمیل فرمائی اور اللہ کے بہت بڑے امتحان میں پورے اترے۔

اسی طرح بڑھاپے کی عمر میں پہنچنے کے بعد اللہ نے ایک مرتبہ آپ کو پھر آزمایا اورصغر سنی میں بے حد تمناؤں، آرزؤں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہونے والے اکلوتے فرزند ارجمند کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مدت کے بعد اسی اکلوتے لاڈلے کو اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ دونوں باپ اوربیٹے اللہ کے اس فرمان پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے رب کی رضا جوئی کی خاطر قربانی کرنے اور قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئے یہی وجہ ہے کہ اطاعت شعار و فرما نبردار بیٹا اپنے والد محترم کے سامنے اپنے جبین نیاز کو خم کرتے ہوئے گویا ہواکہ:

يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
اے ابا جان !آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(الصافات:102)
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس چھوٹی سی عمر میں اپنے والدبزرگوار کو اپنی رضا ورغبت پر مشتمل جو یہ جواب دیا اسی کی ترجمانی غالباً شاعر مشرق نے کچھ یوں کی ہے؂

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

چنانچہ رب کے حکم کی تعمیل میں ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کے حلقوم پر چھری رکھ کر اللہ کے نام پرچلادیتا ہے لیکن چھری ہے کہ اپنا کام نہیں کررہی ہے، پھر آسمان سےفرمان آتاہے:

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اے ابراہیم! یقینا تونے اپنے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ (الصافات: 105)

اس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم اپنے اس عظیم الشان اور مشکل ترین امتحان و آزمائش میں پورے اترے اور رب ذوالجلال نے جنت سے ان کے لاڈلے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کےبدلے میں ایک دنبہ بھیج کر اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا۔ اللہ رب العالمین کوابراہیم خلیل اللہ کی یہ عظیم اور یادگار قربانی کی سنت اتنی پسند آئی کہ اسے بعد میں آنے والی تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مسنون قرار دے دیا چنانچہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل کی اس سنت مبارکہ کوزندہ کرنے کے لیے ہر سال ذی الحجہ کے مہینہ میں ایام قربانی میں پوری دنیا میں مسلمان اپنے جانوروں کو اللہ کی راہ میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ ذبح کرتے ہیں جس کے متعلق کتب احادیث میں مروی کہ نبی کونین ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ خود ہر سال قربانی کرتے اور اس سنت پر اپنے صحابہ کو بھی عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے رہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے متعلق فرمایاکہ’’من وجد سعة لان يضحي فلم يضح فلا يقربن مصلانا‘‘جسے قربانی کرنے کی طاقت ووسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔

در اصل قربانی اس عظیم الشان سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے اور اس یادگار لمحے کو ہمیشہ اپنے قلوب و اذہان کے اندر پیوست کرنے کے لیے کی جاتی ہے جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے کی تھی۔ انبیائے کرام کی قربانی میں امت کے لیے یہ پیغام پنہا ں ہےکہ اے مسلمانو! تم ان حسین ایام میں اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرکےاپنے جد امجد کی سنت کو زندہ کرو،اور اگر تم اپنے رب کی رضا مندی چاہتے ہو تو اپنا مال ہی نہیں بلکہ وقت اور جان بھی اس کے راستے میں قربان کرنے کے لیے تیار رہو، اور اگر دنیاوی اسباب و وسائل کے بالمقابل اخروی کامیابی و کامرانی اور رب کی رضا جوئی چاہتے ہو تو ایثار وقربانی اور اطاعت و وفاکی راہوں پر گامزن رہو اور اگر اپنے مالک حقیقی کی بے پایہ رحمتوں، خصوصی عنایتوں کے خواہش مند ہو تو اس کے ہر حکم واشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہو اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ یہ قربانی جسے ہم ہر سال اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں جس کے گوشت، پوست سے خود بھی مستفید ہوتے اور اپنے اہل خانہ و احباب کو بھی مستفید کرتے ہیں یہ اس کا مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اس قربانی کو ایک عبادت سمجھ کر کریں اور سیدنا ابراہیم واسماعیل ونبی کریم علیہم السلام کی سنت سمجھ کر انجام دیں۔

اس لیے کہ ہمارے ان ذبح کئے گئے جانوروں کے گوشت اور خون تو اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے خون تو زمین پر گر کر بہہ جاتے ہیں اور گوشت ہم کھا لیتے ہیں تو اللہ کو ہماری ان قربانیوں سے کیا ملا؟ تو اس کا سیدھا اور آسان سا جواب یہ ہے کہ ہمارے مالک حقیقی کو ہمارا تقوی اور پرہیز گاری پہنچتا ہے، وہ ہمارے نیتوں اور قلوب و اذہان کو دیکھتا ہے کہ ہم نے اپنی قربانی کس نیت سے کی ہے، ہمارا مقصد ریا کاری و مکاری، شہرت ونمود ہے آیا رب کی رضا مندی۔۔!

اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اے محبوب ! آپ کہہ دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ (انعام: 162)

اور دوسری جگہ فرمایا :

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ
اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔(الحج : 37)

ایک مسلمان و مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہے کہ اس کا مالک حقیقی اس سے راضی و خوش ہوجائےاوراسے اس کا تقرب حاصل ہوجائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عشرۂ ذی الحج کےان مبارک ایام میں کئے گئےہمارے سارے اعمال حسنہ خصوصا حج و عمرہ اور ایام قربانی میں کی گئی ہماری قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے،اور ہم سبھی لوگوں کے دلوں میں عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جاگزیں فرمائے اور ہمارے ملک کو امن چین اور شانتی کا گہوارہ بنادے- آمین!

حج کی فضیلت،اجر وثواب اور حج نہ کرنے پروعید،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم ترین رکن ہے جو زندگی میں ایک بار ہر اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے جو کہ بیت اللہ تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو حج کی فرضیت کے بعد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جم غفیر کے ساتھ مدینہ طیبہ سے سفر کر کے اس اہم فریضے کو ادا فرمایا، اس مہتم بالشان عبادت کی ادائیگی پر شرع میں بے شمار اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اور بغیر کسی عذر کے اسے ترک کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔
قابلِ مبارک باد اور خوش نصیب ہیں وہ سعید روحیں جنہیں اللہ عز و جل نے اپنے پاک گھر کی زیارت کا شرف بخشا اور ابر رحمت کی برستی ہوئی رم جھم بارشوں سے سیاہ کا ریوں کی جمی ہوئی پرت در پرت اور تہ بہ تہ کائیوں کو دھل کر کسی نو مولود کی طرح اپنے مقدس گھر سے واپس لوٹایا،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ خانۂ کعبہ کا حج کرنا هے ہر اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ [البقرة: 196] اور تم حج اور عمرے کو مکمل کرو، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے لھذا تم حج کیا کرو(مسلم شریف کتاب الحج) ایک مرتبہ آپ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے، (نسائی شریف)۔
جمہورعلماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج کا منکر کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ چونکہ حیات مستعار کے لمحوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے جس آدمی پرحج فرض ہواورظاہری کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اسے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں بالکل تاخیرنہیں کرنا چاهئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے ( ابو داؤد شریف)۔
اسی طرح ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ کچھ نہیں معلوم کہ کیا امر پیش آجائے (کنزالعمال)

حج کی فضیلت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،عرض کیاگیاکہ اس کے بعدکیاہے؟ فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،عرض کیاگیا پھر کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حج مبرور”( یعنی وہ حج جس میں گناہ نہ کیے گیے ہوں اور ریاکاری نہ ہو)-[رواہ البخاری ومسلم]
نیز حضرت ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس نے اللہ کے لیے ٌحج کیا اور اس نے ایسی باتیں نہ کیں جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں اور گناہ نہ کیے تو یہ شخص اس طرح ہوگا جیسا اس دن بے گناہ تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا”
اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “الحج المبرور لیس له جزاء الاالجنة” کہ حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے-
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کو ادا کرو کیونکہ وہ دونوں تنگدستی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے”-[رواہ الترمزی]

حج کا اجر وثواب: اجر وثواب کے اعتبار سےحج کی عبادت اپنی ایک الگ ہی شان رکھتی ہے، چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ دو صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حج کے الگ الگ اعمال کا اجر وثواب پوچھنے کی غرض ونیت سے حاضر ہوئے -حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ان کے سوالات دہرا دییے- اور پھر ہر ایک کاترتیب وار جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
(1)جب کوئی حاجی اپنے گھر سے مسجدحرام کے ارادے سے چلتا ہے تو اس کی سواری کے ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک ایک غلطی معاف کی جاتی ہے-
(2)طواف کے بعد کی دورکعتوں کاثواب خاندان بنی اسماعیل کے کسی غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے-
(3)اور جب حجاج میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگاکر میرے پاس آئے ہیں لہٰذا ان کے گناہ اگرچہ ریت کے ذرات، بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں، پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا، پس ائے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس چلے جاؤ تم بھی بخش دییے گیے، اور جس کے لیے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی-
(4)اور شیطان کو کنکری مارنے کاثواب یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلہ میں کسی بڑے گناہ کی مغفرت ہوتی ہے-
(5)اور قربانی کرنے کاثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کردیا جاتا ہے-
(6)اور احرام کے بعد حلق کرایاجاتاہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے-اور ایک برائی مٹائی جاتی ہے-
(7)اور جب طواف زیارت کیا جاتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ حاجی گناہ سے بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے، اور ایک فرشتہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ” آئندہ کے لیے از سرنو اعمال کرو تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کردییے گیے ہیں”-[الترغیب والترہیب ۲/۱۱۰]
اور ایک روایت میں ہے کہ حج کے سفر میں ایک روپیہ خرچ کرنے کاثواب دس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے-[کنزالعمال ۵/۵]
حاصل کلام یہ ہے کہ سفر حج میں قدم قدم پر اجر وثواب کے اسباب موجود ہیں-تلبیہ پڑھنا خود ایک ایساعمل ہے کہ آدمی بے اختیار ذکر خداوندی کے روحانی ماحول کے جھرمٹ میں آجاتا ہے اور فرشتوں کی طرف سے اس کو مبارک بادیاں ملنے لگتی ہیں،اس کے بعد بیت اللہ میں حاضر ہوکر دعا مانگنا قبولیت کا اہم موقع ہے نیز حرم شریف کی نیکیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ گنا کردیا ہے،پھر حجراسود کے استلام کی بھی عجیب خوبی رکھی رکھی گیی ہے کہ یہ قدرتی طور پر استلام کرنے والے کے گناہوں کو جزب کرلیتا ہے،حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رکن یمانی اور حجراسود کو چھونا غلطیوں کو مٹادیتا ہے-[ترمذی شریف]
اور یہ دونوں پتھر قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کی دو زبانیں، دو آنکھیں اوردو ہونٹ ہون گے اور یہ اپنے استلام کرنے والوں کے حق میں گواہی دیں گے اور سفارش کریں گے-[الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
اسی طرح طواف کرنا بھی ایک انتہائی قابل اجر وثواب عمل ہے -ایک موقوف روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کے ہر ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں،اور ستر ہزار برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور ستر ہزار درجے بلند کیے جاتے ہیں- [الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
علاوہ ازیں ایک خاص بات یہ ہے کہ حج کے ایام میں نہ صرف یہ کہ شطواف کرنا اور دیگر عبادات انجام دینا موجب ثواب ہے،بلکہ یہاں اگر کوئی شخص حرم شریف میں بیٹھ کر نیک نیتی کے ساتھ بیت اللہ کی صرف زیارت سے شرفیاب ہو تو وہ بھی ثواب سے محروم نہیں ہوگا-
الغرض سفرحج کا ہر ہر لمحہ نیکیوں کو سمیٹنے کازمانہ ہے -جوشخص اپنے کو اللہ کی خاص رحمت کا مستحق بنانا چاہتاہے اسے چاہییے کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت جانے اور ایک ایک لمحہ کو کار آمد بنانے کی کوشش کرے، اور غفلت وکوتاہی کو پاس بھی نہ آنے دے،ایک ایسے موقعہ پر جبکہ رحمت خداوندی کی برسات ہورہی ہو، اس سے فیضیاب نہ ہونا اور سستی میں پڑ کر اوقات کو ضائع کردینا انتہائی محرومی کی بات ہوگی-
بالخصوص سفر حج کےدوران گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے،ایک روایت میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت وارد ہے کہ جو شخص حج کے دوران اپنے کانوں آنکھوں اور زبان کی گناہوں سےحفاظت کرے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے-

حجاج سے دعائیں کرائیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہوتے ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی گناہوں کو بخش دے گا-

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر وعید: حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کو ظاہری ضرورت (سفر خرچ اور سواری کاانتظام وغیرہ) یا ظالم بادشاہ (حکومت) یا مہلک مرض جیسی کوئی مجبوری نہ ہو اور وہ (حج کا نصاب ہونے کے باوجود) حج نہ کرے -تو اس کے لیے یہ بات برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے-[رواہ الدارمی]
اللہ کی پناہ! کس قدر سخت وعید ہے استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر حج فرض ہو اور انہوں نے بغیر عذرشرعی کے حج نہیں کیا تو ان کے سوء خاتمہ کااندیشہ ہے-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو زیارت حرمین طیبین کی توفیق عنایت فرمائے-(آمین]

عیدقرباں کا پیغام:امت مسلمہ کے نام، از:(علّامہ) سید نوراللّٰہ شاہ بخاری، مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ و سجادہ نشین:خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

قربانی کا لفظ “قرب” سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنیٰ ہے: ” قریب ہونا، نزدیک ہونا ” اور قربانی اللہ کاتقرب حاصل کی جانے والی چیزوں کو کہتے ہیں چونکہ قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں, اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہیں کہ خاص جانور کو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثواب اور تقرب کی نیت سے سے ذبح کرنا-
قربانی کے اس سارے عمل اور اس کے پس منظر وپیش منظر کے ذریعہ ہم سبھی مسلمانوں کو یہ سیکھایا گیا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے حکم کی بلا چوں وچرا اتباع کا نام ہی دین ہے-لہٰذا جب بھی کسی چیز کے بارے میں اللہ کا حکم سامنے آجائے تو اس میں نہ ہی عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع ہے اور نہ ہی اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہ جاتا ہے( گرچہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم وفرمان حکمت سے خالی نہیں ہے چاہے بندہ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے) بلکہ ایک بندۂ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ حکم پر اپنا سر جھکادے اور اس حکم کی دل وجان سے اتباع کرے-

قربانی کا مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنا ہے، لہذا قربانی سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا چاہییے تاکہ اپنے جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہم اس مقصد کے پانے والے بن جائیں جو اس ذبح عظیم کا مقصد ہے۔ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔
اب آئییے دیکھتے ہیں کہ اس قربانی کا اصل مقصد اور پیغام کیا ہے اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر ہم اور آپ قربانی کس کے لیے کرتے ہیں؟کیا ہمارا یہ عمل اللہ کی رضاجوئی کے لیے ہوتا ہے یا لوگوں کو دیکھانے کے لیے؟ ظاہر سی بات ہے کہ ہر بندۂ مومن کا یہی جواب ہوگا اور ہونا بھی چاہییے کہ “ہم قربانی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کرتے ہیں نہ کسی انسان کو دیکھانے کے لیے”…اگر ہم قربانی صرف رضائے مولیٰ کے لیے کرتے ہیں تو ہمیں چاہییے کہ ہم قربانی کے اصل پیغام پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کو سختی سے یہ بات سمجھا دیں کہ ائے نفس! ہم قربانی کا جانور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے ذبح کررہے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ اپنے نفس اور تمام برےخوہشات کو اسی جانور کی طرح ذبح کرکے تمام امور خواہ وہ معاشرتی ہو یا معاشی،ملازمت ہو یا تجارت غرض یہ کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی ہی مطمح نظر رکھیں گے،چاہے کوئی راضی ہو یا ناراض ہمیں تو اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا ہے،یہ عہد کرکے اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا بھی کرتے رہیں کہ یااللہ تو اپنی اور اپنے محبوب کی رضا کی خاطر تمام خواہشات کو قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرما-ائے اللہ! یہ ہماری قربانی تو تیرے محبوب بندوں بالخصوص حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہماالسلام کی ایک نقل ہے اس نقل کو تو اپنی رحمت سے اصل بنادے اور قربانی کی جو اصل حقیقت ہے وہ ہمیں محض اپنے فضل وکرم سے عطافرمادے-
قربانی کی حقیقت اور روح نیز پیغام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنے خواہشات کو قربان کردیا جائے،بظاہر قربانی جانور کی کی جاتی ہے مگرقربانی سے مقصود تعمیل حکم ہےاور اپنے خالق ومالک کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہے-

ہر سال اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی اس بات کی بھی یاد دلاتی ہے کہ جو بندہ اللہ کے جتنا قریب ہوتا ہے اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش کا معاملہ بھی اتنا ہی سخت ہوتا ہے، قربت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنی ہی بڑی قربانی کی طالب ہوتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مومن بندوں کو اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ اگر ہم اپنے عہد کے پابند ہیں تو حق کا یقیناًبول بالا ہوگا۔
جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں وہ ہر اس چیز پر انکار کی چھری چلانے میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ سچی محبت کے راستے میں روڑا بن کر آتی ہو۔اللہ سے محبت کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اطاعت گذار ہو، اللہ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتا ہو،خود کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے اور ہر اس چیز کو اختیار کرے جس میں اللہ کی رضا ہو اور ہر اس بات سے پرہیز کرے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو۔ہمارے اہل و عیال اور مال و منال، ہماری جائدادیں اور عیش و عشرت کے سامان سے لبریز ہماری سکونت گاہیں، ان میں سے اگر کوئی شئی اللہ کے راستہ میں جدو جہد اور اس کی حقیقی محبت کے راستے میں آڑے آرہی ہیں تو پھر ایک مسلمان اپنے ایمان کے دعوے میں سچا نہیں قرار دیا جا سکتا ، اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن مجید میں فرمان ہے کہ ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے شدید ترین محبت کرنے والے ہوتے ہیں‘‘ اور محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی اپنے محبوب کے لئے ہر چیز کو قربان کردے، مال و منال اور اہل و عیال کیا چیز ہیں خود اپنی جان کی بھی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جائے۔جن لوگوں کے دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی کے آگے اپنی مرضیات و مرغوبات کو بہت آسانی کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی صرف ایک غلام کی اپنے آقا کے سامنے خوشدلانہ اطاعت شعاری ہی نہیں تھی بلکہ آقا کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک غلام کی لافانی محبت کا اظہار تھی۔اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اللہ کے پاس نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نا ہی(قربانی کے جانوروں کا)خون بلکہ اس کے پاس تو صرف تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘
اس لیے ہمیں عید قرباں سمیت اپنے دیگر سبھی مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔لہٰذا سوچیں اور بار سوچیں کہ کہیں آپ کی قربانی جذبۂ ایثار اور خلوص سے خالی تو نہیں، اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ جومسلمان آج قربانی کررہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں۔ اور ان سبھی قربانی کرنے والوں کےلیے بہت ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت اپنے اندر پیداکریں، دین وایمان اورملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اوردریغ نہ کریں۔ چاہے اپناگھر بار چھوڑناپڑے۔ اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتی کہ اگراپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اورحوصلہ سے کام لیاجائے۔ خاردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سینہ چاک کرنا پڑے پھر بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے خود کومٹاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، حتیٰ کہ کامیابی ہمارے قدم چوم لے۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو اپنی رضا کاسبب بنا کر ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے-(آمین)