رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔