اس کے لیے رحمت کا نہ کیوں باب کھلا ہو
گل جس سے شہ دین کی مدحت کا کھلا ہو
نظروں میں کسی شخص کی گر غار حرا ہو
کیونکر نہ شجر اس کے تعلم کا ہرا ہو
تم سے ہی ہیں کونین کے سب تارے منور
تم خالق کونین کی یوں خاص ضیا ہو
ناعت ہوں میں مجھ کو دے زباں ایسی مرے رب
جو کوثر و تسنیم کے پانی سے دھلا ہو
اقصی’ کے ستوں پوچھتے ہیں یہ شب اسریٰ
کیسی تھی امامت شہ کونین کی ، شاہو
دل کے در و دیوار پہ ہے اسم محمد
بے ہوش نہ کیوں سامنے ہر ایک وبا ہو
میں فرحت مدح شہ عالم سے ہوں سرشار
کیوں زیست کی دنیا میں کبھی کوءی خلا ہو
عظمت ہم اس انسان کی کیا “عینی “بتاءیں
اک وقت ہی جو صحبت آقا میں رہا ہو
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
Leave a Reply