وہ رحمتِ خدا کی ہمیشہ نظر میں ہے
اسوہ شہِ امم کا جو رکھتا نظر میں ہے
نورِ جمالِ گنبدِ خضریٰ نظر میں ہے
“مختارِ کائنات کا جلوہ نظر میں ہے”
پھولوں کی بات کیا کروں جب جاں سے بھی عزیز
کوئے نبئ پاک کا کانٹا نظر میں ہے
مجھ کو سکونِ قلب میسر ہے کیونکہ اب
فصلِ بہارِ شہرِ مدینہ نظر میں ہے
رعنائیاں جہاں کی ہمیں کیوں لبھا سکیں
عشقِ رسولِ پاک کا تحفہ نظر میں ہے
نعتِ رسول لکھنے کو شاہد ہر ایک پل
سیرت ہے ان کی، حسن سراپا نظر میں ہے
از قلم محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی 7 704552886
Leave a Reply