WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کتنے بیگہےزمین ہو تو قربانی واجب ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh mufti sahab qiblah ap ke bargah me arz ye hai ki zed ke paas itna paisa nahi ki qurbani kar sake lekin zameen hai ghar hai gadi hai sab kuchh hai magar paisa nahi to zed qurbani kare ki na kare aur kitne bigha zameen hai to qurbani wajib hai huzor nazre inayet farmayen badi maher bani hogi asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسؤلہ میں زید پر قربانی واجب ہوگی اور نقد روپے نہ تو قرض لیکر یا کوسامان بیچ کر قربانی کریں جیساکہ میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مجدددین وملت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہِ رَحْمۃ الرّحْمٰن سے سُوال کیا گیا کہ ’’ اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت ( یعنی رہائشی مکان ) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟ ‘‘الجواب:واجب ہے ، جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے حاجتِ اصلِیہ سے زائد ہو ، مل کر چھپَّن روپے (یعنی اتنی مالیَّت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو ) کی قیمت کو پہنچے ، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ ( اگر ) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس( شخص ) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سُکُونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس ( دوسرے حصّے ) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے( حاجتِ اَصلِیَّہ )سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے ، جب بھی قربانی واجب ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۳۶۱)
اور فتاوی رضویہ ج 20 ص 370,میں ہے کہ
جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ سامان جیسے چاندی ، سونا وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے اسے قربانی معاف نہیں۔اھ
اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” اگر کسی پر قربانی واجِب ہے اور اُس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قَرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کر کے قربانی کرے “( فتاوی امجدیہ ج 3 ص 315 )

*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
7 / ذی الحجہ /1443 ھ

اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسلہ ذیل میں اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے ، محمد رضا قادری نوءیڈا یو پی
👆👇
وعلیکم السلام
الجـــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا زید سے خالد ظاہراً وباطناً کدورت رکھتا ہے حتّی کہ زید جس وقت مسجد میں داخل ہو کر سلام علیک کہتا ہے خالد جواب سلام بھی نہیں دیتا اور خالد ہی امامت کرتا ہے، ایسی حالت میں زید کی نماز خالد کے پیچھے ہوگی یا نہیں اور زید جماعت ترک کرکے قبل یا بعد جماعت علیحدہ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں جبکہ خالد دل میں کدورت رکھتا ہے، اس کے واسطے کیا حکم ہوتا ہے؟تو آپ جوا ب میں تحریر فرماتے ہیں محض دنیوی کدورت کے سبب اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں اور اس کے واسطے جماعت ترک کرنا حرام، خالد کی زید سے کدورت اور ترک سلام اگر کسی دنیوی سبب سے ہے تو تین دن سے زائد حرم، اور کسی دینی سبب سے ہے اور قصور خالد کا ہے تو سخت تر حرام، اور قصور زید کا ہے تو خالد کے ذمے الزام نہیں زید خود مجرم ہے۔
(فتاوی رضویہ مترجم جلد ۶؍ص ۵۵۹)
اور الفتاوى الهندية (1/ 87):
“رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط”.
لہذا محض دنیوی کدورت چاہۓ مقتدی کو امام سے ہو یاامام کو مقتدی سے نماز ہوجاتی ہے۔جیساکہ ذکر ہوا۔البتہ یہ فعل بہت برا ہے۔اھ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
6 / ذی الحجہ /1443 ھ

گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟ کتبہ احمد رضاقادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ایک مسئلہ بیان کریں . . . . .
اگر عورت کے گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں . . . . . حوالہ بھی عنایت کریں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسؤلہ میں عورت کلائیاں کھول کر نماز ادا نہیں کرسکتی چند اعضاء کو مستثنی کرکے آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے ۔یعنی مثلاً نماز میں ان کا چھپانا ضروری ہے  ۔
وہ اعضاء جو مستثنی ہیں درج ذیل ہیں:
(١) : : آزاد عورتوں اورخنثیٰ مشکل کے ليے سارا بدن عورت ہے، سوا مونھ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ (درمختارالدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۹۳،۱۰۷۔جن اعضا کا ستر فرض ہے، ان میں کوئی عضو چوتھائی سے کم کھل گیا، نماز ہوگئی اور اگر چوتھائی عضو کھل گیا اور فوراً چھپا لیا، جب بھی ہوگئی اور اگر بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے کھلا رہا یا بالقصد کھولا، اگرچہ فوراً چھپا لیا، نماز جاتی رہی۔ ](عالمگیری، ردالمحتار)
اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے، یعنی اسی حالت پر اﷲ اکبر کہہ لیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔۔
مزید تفصل کے لۓ فتاوی رضویہ ج 3 ,وبہارے شریعت دیکھیں۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟ کتبہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

حضور کی بارگاہ میں ایک سوال
تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟
صرف نکاح اول کا دینا ہے یا دونوں کا؟
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔تجدید نکاح اگر بغیر کسی علت (طلا ق یا ردّت )کے ہو تو چو نکہ اس صورت میں حرمت پہلے سے نہیں(کیو نکہ بیوی تو پہلے سےحلال ہے) لہذا اس صورت میں مہر لازم نہیں آئے گا لیکن اگر اضافہ کی غرض سے ہی نکا ح کرے اور پچھلے دس ہزار مہر پر یہ دس ہزار اضا فہ کرنا مقصود ہو تو پھر اس اضا فے کا اعتبار ہے اور بیس ہزار مہر دینا ہو گا۔ اگر اضافہ نہ ہو تو صرف احتیا طا تجدید میں کوئی مہر لا زم نہیں آتاالبتہ تجدید نکاح میں گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے کیو نکہ نکاح میں گوا ہو ں کا ہو نا شرط ہے۔ بغیر گوا ہو ں کے نکاح منعقد نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی تجدید نکا ح احتیا طا کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں نیا مہر لا زم نہیں ہو گا بلکہ پہلے والا مہر ہی وا جب ہو گا البتہ گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے ۔
لمافی الدر المختار(۱۱۲/۳) وفي الكافي جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر۔
وفی الردّ تحتہ: ثم ذكر أن قاضيخان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر۔۔۔أقول بقي ما إذا جدد بمثل المهر الأول ومقتضى ما مر من القول باعتبار تغيير الأول إلى الثاني أنه لا يجب بالثاني شيء هنا إذ لا زيادة فيه وعلى القول الثاني يجب المهران ۔
(تنبيه) في القنية جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اھ أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔
وفی الشا میہ (۲۱/۳):قوله ( وشرط حضور شاهدين ) أي يشهدان على العقد۔)۵۶۲)
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ہکلے کی امامت کا حکم،، از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکا تہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع عظام کوئی حافظ ھکلے پن کا شکار ھے دوران نماز ہکلاتے ہیں ہکلاہٹ سے ایسا لگتا ھے لمبا سکتہ کیا ھے تلاوت بار بار کرتے ہیں اس طرح بہت مرتبہ پیش أتاھے اس معاملے میں مصلیان میں اختلاف ھو چکا ھے ایسے میں مذکورھ حافظ قران کے پیچھے نماز ھوگی یا نھی لو گو میں اشد اختلاف ھے انکو امامت وہاں کرنا چاہئے یا نھی. جواب عنایت فرمائے کرم ھوگا المستفتی شیخ عبد الجلیل باکھرا پیٹ M p
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔
لا یصح اقتداء غیر الالثغ بہ و حرر
غیر تو تلے کی اقتداء توتلے کے پیچھے درست نہیں

 الحلبی و ابن الشحنۃ انہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالامی فلو یؤم الامثلہ ولا تصح صلوتہ اذاامکنہ الاقتداء بمن یحسنہ او ترك جھدہ او وجد قدرالفرض مما لالثغ فیہ ھذا ھو الصحیح المختار فی حکم الالثغ وکذا من لا یقدر علی التلفظ بحرف من الحروف  ملتقطا

الثغ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی زبان سے ایك حرف کی جگہ دوسرا نکلے)حلبی اورابن شحنہ نے لکھا ہے کہ ہمیشہ کی حتمی کوشش کے بعد توتلے کا حکم اُمّی کی طرح ہے پس وُہ اپنے ہم مثل کا امام بن سکتا ہے (یعنی اپنے جیسے توتلے کے سوا دوسرے کی امامت نہ کرے) جب اچھی درست ادائیگی والے کی اقتداء ممکن ہو یا اس نے محنت ترك کردی یا فرض کی مقدار بغیر توتلے پن کے پڑھ سکتا ہے ان صورتوں میں اسکی نماز درست نہ ہوگی توتلے کے متعلق یہی مختار اورصحیح حکم ہے اور اسی طرح اس شخص کا بھی یہی حکم ہےجو حروفِ تہجی میں سے کوئی حرف نہ بول سکے یعنی صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو اھ ملخصًا۔

 فتاوٰی محقق علّامہ ابوعبدﷲ محمد بن عبدﷲ غزی تمر تاشی میں ہے 

الراجع المفتی بہ عدم صحۃ امامۃ الالثغ لغیرہ [

راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ توتلے کی امامت غیر کے لئے جائز نہیں۔۔مختار یہی ہے کہ اس پر تصحیح زبان کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا ضروری ہے اور اس کے ترك پر معذور نہیں سمجھا جائے گا اگرچہ اس کی زبان کا اجراء درست نہ ہو جس کو وُہ اچھی طرح ادا نہیں کرسکتا تو اب اس کی نماز اس آیت سے درست ہوگی البتہ وُہ غیر کی امامت نہ کروائے ، پس وہ صحیح ادائیگی کرنے والے کے حق میں امّی کی طرح ہوگا اس آیۃ میں جس سے عاجز ہے، اور جب مذکورہ شخص کو ایسے آدمی کی اقتدا ممکن ہو جوصحیح ادا کرسکتا ہے، تو اس کی تنہا نماز نہ ہوگی، اور اگر وہ ایسی آیۃ پر قادر ہے جس میں مذکورہ حرف نہیں تو اس حرف والی آیۃ پڑھنے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی کیونکہ اس حر ف کا درست پڑھنا نماز کے لئے ضروری تھا جب وہ تقاضا معدوم ہے تو نماز کا وجود بھی نہ ہو گا ۔توتلے اور اس جیسے شخص کے لئے یہی حکم ہے اور یہی صحیح ہے۔(ملخصا فتاوی امجدیہ ج اول ص 87 )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔۔14/صفر۔1444
(نوٹ ) بہتر کہ پہلے کسی ماہر قاری کو انکی قرأت کو سنادیں۔)

حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے مفصل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورت مسؤلہ میں اس کی ایک اہم حکمت صفائی و ستھرائی ہے۔حج اور عمرہ کے اعمال ختم ہونے پر  سر منڈانا یا بال کتروانا بھی ایک عبادت ہے، گویا یہ حج اور عمرہ سے فارغ ہونے کی نشانی ہے ، جیسے نماز کے لیے فارغ ہونے کی نشانی “سلام” ہے، اور روزہ سے فارغ ہونے کی نشانی “افطار” ہے۔۔ احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو  بالوں کو کاٹنے میں  ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔

حجة الله البالغة (2/ 94)
“والسر في الحلق؛ أنه تعيين طريق للخروج من الإحرام بفعل لا ينافي الوقار، فلو تركهم وأنفسهم لذهب كل مذهباً، وأيضاً ففيه تحقيق انقضاء التشعث والتغبر بالوجه الأتم، ومثله كمثل السلام من الصلاة”.اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید نے ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اور مفتیان کرام اس مسلئہ کے بارے میں ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے ( کیا ہندہ کو عدت گزارنا پڑےگا ) قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

السائل محمــــــــد سلیمان بہرائچ شریف
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورتِ مستفسرہ میں اگر زوج وزوجہ تنہائی کے مکان میں یکجا ہولئے ہوں اور اُن میں کوئی مانع حقیقی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے وطی اصلاً نہ ہوسکے اس کے بعد زید نے طلاق د ی تو بیشک ہندہ پر عدت واجب ہے اگرچہ مبا شرت نہ ہوئی۔
خلوۃالصحیحۃ فی النکاح الصحیح مثل الوطی فی ایجاب العدّۃٰ وصحۃ الخلوۃ ھٰھنا العدم المانع الحقیقی وان جد مانع شرعی کالصوم۔
ہاںاگرخلوت بھی نہ ہوئی اور ویسے ہی طلاق دے دی تو ہندہ پر عدت نہیں، اسے اختیار ہے کہ اسی وقت جس سے چاہے نکاح کرلے۔
درمختار باب العدّۃ ( مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۵۵ ) میں ہے
سبب وجوبھا (یعنی العدۃ) عقد النکاح المتأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت او خلوت الخ
۔یعنی وجوبِ عدت کا سبب وہ نکاح ہے جس میں بیوی سپرد کردی گئی ہو یا وہ جو اس کے قائم مقام ہو مثلاً موت یا خلوت ہو، الخ، لہذا اگرزید نے ہندہ کو خلوت صحیحہ سےبھی قبل طلاق دیا ہے تو اس پر عدت نہیں جیسا کہ مذکور ہوا۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
11/12/2022

مسجد میں اگر ممبر کی وجہ سے اگلی صف میں جگہ خالی رہ جائے تو نماز باجماعت کا کیا حکم ہے؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

حضور مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں بعض ایسی مسجدیں جہاں ممبر تھوڑا آگے ہونے کی وجہ سے پہلی صف میں ممبر کے سامنے 2/ لوگوں کی جگہ رہ جاتی ہے اسی وجہ سے پہلی صف کے بیچ میں 2 لوگوں کی جگہ چھوڑ کر پہلی صف کی تکمیل ہوتی ہے
1 تو کیا ایسی صورت میں صف منقطع ہو جاتی ہے ؟
2 اوراس صورت میں ان لوگوں کی نماز کا حکم کیا ہے ؟اور كس طرح نماز ادا كريں
بيينوا توجروا

محمد صائم رضا
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔     صفوں کے بارے میں تین باتوں کی بڑی تاکید ہے، پہلی بات:    تَسوِيه: کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے، پیچھے نہ ہوں. دوسری بات:   إتمام: کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ لگائیں. تیسری بات:    تراصّ: یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ شانہ سے چھلے. یہ تینوں امر شرعاً واجب ہیں.
     (فتاوی رضویہ- التقاط و تسہیل کے ساتھ- ج:3،ص:387،386،385، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) لہذا  صفوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑنا جائز نہیں، جو نمازی خالی جگہ بھرنے پر قادر ہوں اور نہ بھریں تو گنہ گار ہوں گے.
     ہاں کسی وجہ سے انھیں وہ خالی جگہ بھرنے پر قدرت نہ ہو تو معذور ہوں گے، انھیں بقدر میسور پر عمل چاہیے واضح ہو کہ صفوں کے اتمام اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے احکام واجباتِ نماز سے نہیں، بلکہ واجباتِ صفوف سے ہیں، چناں چہ عمدۃ القاری میں ہے:
“التسوية وَاجبَة بمقْتضى الْأَمر، ولكنها ليست من واجبات الصَّلاَة بِحَيث أَنه إِذا تركهَا فسدتْ صلَاته أَو نقصتها.” (عمدۃ القاری، ج:5، ص:371، دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: فرمان رسالت کے مطابق صفوں کو سیدھی رکھنا واجب ہے، لیکن یہ واجباتِ نماز سے نہیں کہ چھوڑ دے تو نماز فاسد یا ناقص ہو جائے.
یوں بھی کتبِ فقہ میں فرائض اور واجباتِ نماز میں کہیں اس کا ذکر نہیں جو اس کے واجباتِ نماز سے نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے، یہی حال اِتمام اور تراصّ کا بھی ہے کہ یہ بھی واجباتِ نماز سے نہیں، نہ ہی کتب فقہ میں واجباتِ نماز میں کہیں ان کا ذکر ہے.
ایسے واجبات کا ترک قصداً، بلا عذر ہو تو گناہ ہوتا ہے مگر نماز بلا کراہت صحیح ہوتی ہے اور اگر ترک، عذر کی وجہ سے ہو تو قطعِ صف کا گناہ بھی نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہوتی ہے. اس کی دلیل حضرت ابو بکرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رکوع میں پایا تو صف کے پیچھے ہی تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلے گئے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: “زادك اللّٰه حرصا ولا تعد” اللّٰہ تجھے اور زیادہ نماز کا شوق بخشے، دوبارہ ایسا نہ کرنا. (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ باب إذا رکع دون الصّف) ظاہر یہ ہے کہ اگلی صف میں گنجائش تھی تو ان پر اتمام واجب تھا اس لیے سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے لازمی طور پر انھیں دوبارہ ایسا کرنے سے ممانعت فرمادی مگر نماز کے اعادہ کا حکم نہ دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتمام صف واجبات نماز سے نہیں. فتاوی رضویہ میں ہے کہ:
“زید نے در میں نماز ناجائز بتائی، یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے.” (ج:3، ص:43، باب اماکن الصلاۃ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) “نماز ناجائز نہیں” یعنی مکروہ تحریمی نہیں، ہاں امام کا فعل مکروہ ہے.خلاصہ کلام یہ کہ مسجد میں ممبر اس طرح بنانا چاہیے کہ پہلی صف کا کچھ بھی حصہ منبر کی زد میں نہ آئے؛ منبر قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھاکر پہلی صف خالی کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز کے دوران پہلی صف میں منبر کے سامنے جگہ خالی نہ رکھنی پڑی یا اس جگہ جو شخص نماز پڑھے، اسے سجدہ میں زحمت نہ ہو۔ اور اگر منبر کو قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھانا ممکن ہو تو بڑھا دیئں ورنہ لکڑی کا منبر بنالیا جائے جو خطبہ کے وقت رکھا جائے اور اس کے بعد ہٹادیا جائے۔ اور جب تک نظم نہ ہوتو مجبوری میں منبر کے سامنے کی جگہ خالی چھوڑکر نماز پڑھتے رہیں ۔ نماز ہوجاۓ گی جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ضرورت مندوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں..تحریر ، محمد جمال اختر صدف گونڈوی

مذہب اسلا م میں ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں و کمزوروں کی مدد کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے-
پھر وہ چاہے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہو یا پیاسوں کو پانی پلانا-
اسلام کی اسی خوبصورتی کو دیکھ کر اغیار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ جتنی اخوت و انسانیت اسلام میں پائی جاتی ہے دنیا کے کسی مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی،
کیوں کہ پیغمبر اسلام ساری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے،
انہوں نے بلا تفریق قبیلہ و نسل تمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی و بھائی چارہ کا درس دیا،
انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ،
اس ماڈرن دور میں مسلمانوں نے عبادات سے لےکر صدقات و خیرات تک سب ڈیجیٹل کر دیا ہے،
حاجی صاحبان جب حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں پہنچتے ہیں تو حج کے اغراض و مقاصد کو بھول کر پہلے کعبہ کو پیٹھ ایک مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ سیلفی ضرور لیں گے اور وہیں سے تمام رشتہ داروں کو بھیجنا شروع کر دیں گے کہ دیکھ لو ہم نے کعبے کو بھی پیٹھ کے پیچھے کر دیا،
صرف اتنا ہی نہیں اس کے بعد جا بجا فوٹو بازی اور ویڈیو گرافی کرتے ہوئے اسی کیمرے کے ساتھ سارے ارکان حج مکمل کریں گے،
کچھ حاجی تو طواف کے دوران لائیو پروگرام دکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں،
ایسے ہی جب کوئی کسی مجبور کی مدد کرنے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے کیمرے کے سامنے کھڑا کرتا ہے اس کے بعد اسے راشن،کمبل، وغیرہ دیتے ہوئے فوٹو کھنچواتا ہے اور تمام سوشل میڈیا پر عام کرتا ہے،
ذرا سوچیں اس غریب کے رشتے داروں تک جب یہ فوٹو پہنچتی ہوگی تو ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی، اور وہ غریب بیزاری قسطوں میں ذلیل ہوتا ہوگا، جب جب لوگوں کی نظروں سے وہ تصویر گزرتی ہوگی لوگ اس بیچارے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے،
ایسے ہی مسجد و مدرسے میں کوئی صاحب جب کچھ چندہ دیتے ہیں تو بار بار اپنے نام کا مائک سے اعلان کرواکر پورے معاشرے کو بتاتے ہیں کہ ہاں ہم نے آج حاتم طائی کا رکارڈ توڑ دیا ہے،
بلکہ سخاوتوں کے سلسلے میں میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد حاتم طائی سے بڑی میری ہی مزار بننی چاہئے،
کسی غریب کی عزت نفس کو ذلیل کرکے خود کو سخی سمجھنے کی بے وقوفی کرنے والوں کی سوشل میڈیا پر تعریف کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ، انہیں اس مذموم کام سے روکنا چاہئے تھا لیکن
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،

سارے کے سارے ماشاءاللہ ،سبحان اللہ، واہ واہ، بہت خوب، لا جواب، لکھ کر انہیں ان کی غلطیوں سے روکنا اپنی زمہ داری نہیں سمجھتے،
دور عمر رضی اللہ عنہ میں یہ لوگ ہوتے تو انہیں سخاوت کا صحیح سبق مل گیا ہوتا،
ایسے لوگ ہسپتالوں میں اکثر دیکھنے کو مل جائیں گے، جہاں کسی مریض کے پاس دو چار لوگ ایک کیلے کو پکڑ کر باری باری فوٹو کھنچوا رہے ہوتے ہیں،
کچھ تو ایسے ہیں کہ سڑک پر حادثے میں زخمی افراد کی مدد کے بجائے ان کی ویڈیو بناکر شئیر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور زخمی کراہ رہے ہوتے ہیں، اگر بر وقت ان کی مدد کر دی جائے تو زخمیوں کے لئے اتنی دشواری نہ ہو جتنی سارا خون بہ جانے کے بعد ہوتی ہے،
ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگ ذہن میں ایک خیال ضرور لاتے ہیں کہ یہ اسلام کا ماننے والا ہے ضرور یہ اسلامی طریقے کا پابند ہوگا،
مگر افسوس کہ اکثر انڈین مسلم اور انکا کردار دونوں اسلام کے خلاف ہی نظر آتا ہے،
شادیوں کا سارا سسٹم سنت کے خلاف ریاکاری سے بھر پور چل رہا ہے،
وہاں بھی شروع سے آخر تک کیمرے کی پہرے داری میں سارا کام ہوتا ہے،
آج کل تو کوئی غریب دس بار ایسی شادیوں میں جانے کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہاں مغلیہ سلطنت کے واثین کے شہزادوں والے لباس و جوتے کہاں سے لاؤں ، کسی ہسپتال میں عیادت کے لئے جاتے وقت کوئ بھی لفافہ نہیں لے جاتا ہے جب کہ وہاں مریض کو پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،
لیکن شادیوں میں موٹے موٹے لفافے کا زبردست چلن پڑ گیا ہے،
وہاں لفافہ لے جانا نہیں بھولتے ہیں،
کیا یہی ہمارا کلچر تھا؟
افسوس کہ ہر جگہ ریاکاریوں میں ہماری زندگی پھنسی ہوئی ہے اور ہم اس گھناؤنے ماحول سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں،
تحفہ تحائف دینا بھی سنت ہے لیکن جب کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو سب سے پہلے اس کے کھانے کا انتظام کرنا ایک مسلمان کی زمہ داری ہے کسی کی مدد کرنا، کسی کا سہارا بننا ، یا کسی بیمار کے علاج کے لئے روپئے پیسے کا بند و بست کرنا بہت بڑا کام ہے اگر خالص اللہ کے لئے کیا جائے، جب لوگ آپکو مخلص پائیں گے توآپ کے قریب آنا شروع کر دیں گے ،
بلکہ وہ بھی آپ کے اس نیک کام کا حصہ بننا پسند کریں گے اور آہستہ آہستہ آپکے پاس ایک جماعت موجود ہو جائےگی جو دوسروں کی مدد کرنے اور اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے میں آپ کی مددگار ہوگی،
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اچھے وقتوں میں کسی کے ساتھ بھلائی کا کام بہت یاد رکھی جاتی ہے لیکن کسی کے برے وقت میں جب کوئی سہارا بنتا ہے تو وہ انسان تا دم مرگ اپنے اس محسن کو نہیں بھول پاتا ہے، آج کے دور میں لوگ غریب رشتے داروں سے نظریں چراتے ہیں اور بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، کچھ لوگ تو اپنی تقریبات میں غریب رشتے داروں کے لئے الگ انتظام کرنا شروع کر دئیے ہیں یہ چیزیں فقیر کے مشاہدے میں بہت بار آ چکی ہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی دل سے عزت کریں تو آپکو مخلص بننا بہت ضروری ہے ،
لوگ اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانتے جب تک کہ آپ کو نہ مان لیں
اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کو منوائیں، اسلام کے قریب لانے کے لئے اسلام کو منوائیں، عزت و ذلت رب کے ہاتھ میں ہے اس لئے خود کی کوشش سے کوئی عزت دار نہیں ہوتا جب تک کہ اسے رب عزتیں نہ عطا کرے،
اگر آپ کے افعال میں خلوص و للہیت شامل ہے تو ہر حال میں رب آپ کو عزت عطا کرے گا،
سر بلندیوں، نوازشوں کے دروازے آپ پر کھول دےگا،
اگر ایسا نہیں ہے تو ساری زندگی آپ خیرات کرتے رہیں فوٹو کھنچواتے رہیں اس کا کوئ فائدہ نہیں،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بستی میں رات رات گشت کرتے تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا ہے، اور ضرورت مندوں تک ضروری اشیاء خود اپنے کندھوں پہ لاد کر اس کے گھر چپکے سے پہنچاتے تھے،
یہی کام تمام خلفاء کا رہا اور صحابہ کرام نے اسی روش پہ زندگیاں گزار دیں،
بحیثیت امت رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسی طریقے پر چلیں جس پر چل کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کی رضا حاصل کی-

سید خادم رسول عینی اور نور مناقب۔۔۔۔۔۔۔از قلم : احسن امام احسن، بھوبنیشور اڈیشا

خادم رسول عینی کو ادبی گروپوں میں پڑھتا رہا ہوں ۔ پھر اس کے بعد رسالوں میں ان کی چیزیں نظروں سے گزرنے لگیں ۔ موصوف اپنی تخلیقات سے اہل ادب کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں موصوف خاکسار کے غریب خانے میں تشریف لائے اور نور مناقب جو منقبتی کلام کا مجموعہ ہے بہت ہی خلوص و محبت کے ساتھ موصوف نے میرے ہاتھوں پر رکھ دیا ۔

خادم رسول عینی نے اپنے تجربات اور احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے اور منقبتی شاعری میں ایک الگ مقام بنایا ہے۔ خادم رسول عینی خالص مذہبی آدمی ہیں۔
خانقاہ قدوسیہ سے تعلق ہے تو صوفیاے طریقت کے طور طریقے ان کے اندر مل جائینگے۔ سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہیں ۔ موصوف نعتیہ شاعری میں اتنے عمدہ اشعار نکالتے ہیں جس سے عقیدت کے پھول جھڑتے ہیں ۔ ان کی پوری شاعری عشق رسول سے سرشار نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ محسوس ہوگا کہ موصوف مرشد برحق کے چشم کرم سے مستفیض ہونے لگے اور ان کے فیضان سے مالا مال ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں نعتیہ و منقبتی شاعری کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی میں مشغول ہونے کے باوجود دنیاوی کاموں کو بھی بخوبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی تو ضروری ہے ہر حال میں ، ذکر الٰہی کرنا چاہیے ، اس کے علاوہ پاس انفاس کی تربیت ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

خادم رسول کی نعتیہ شاعری جس سے منقبتی شاعری کی ایک لکیر نکلتی ہے جو ان کی شاعری کے کمالات کو قاری کے آگے اس طرح پیش کرکے انھیں منقبتی شاعری کا شہنشاہ بناتا ہے ۔ابو البرکات محمد ارشد سبحانی صاحب کے چند کلمات کو آپ دعائیہ پھول بھی کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت رقم طراز ہیں :

” حضرت عینی نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی نعت و منقبت نگاری کی ہے ۔ عشق و ادب رسول اعظم میں ڈوب کر لکھی ہوئی نعتیں پڑھنے سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک اچھے ، پکے اور سچے عاشق رسول شاعر ہیں اور بہترین ذوق شاعری کے مالک ہیں ۔صحابہء کرام ، اہل بیت اطہار ، ازواج مطہرات، ائمہ کرام ، اولیاے کرام ، صوفیائے طریقت ، علمائے شریعت کی شان میں بے شمار مناقب تحریر فرمائے ہیں “.

خادم رسول عینی کے یہاں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ عشق رسول اور علمائے شریعت و اہل بیت کی مدح کے اظہار کے لیے ہے اور اس کا اظہار اپنے اشعار میں خادم رسول خوب صورتی سے کرتے ہیں ۔ دو اشعار شان اہل بیت پر دیکھئے :

ہوگیا تیار اک روشن قصیدہ دیکھیے
میرے فکر و فن میں ایسے جگمگائے اہل بیت

دین و دنیا میں مقام ان کا ہے اونچا کس قدر
حضرت سلمان فارس تھے فدائے اہل بیت

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سارے مناقب لکھے ہیں ۔سب سے ایک دو شعر دیکھیے:

احادیث میں ہیں مناقب علی کی
بہت خوب درجہ ہے شیر خدا کا

فضیلت مرتضیٰ کی دین میں کیا کیا میں گنواؤں
شہادت کا مہینہ بھی مقدس ماہ فرقاں ہے

جب مدینہ چھوڑ کر کوفہ گیے تو روپڑے
ایسی ہے آقا سے الفت حیدر کرار کی‌

اسی کے دم سے منور ہدی’ کے سیارے
ہدایتوں کا وہ سورج ہے نقش پائے علی

اسلام کی بقا کی علامت علی سے ہے
دین مبیں کا نور بصیرت علی سے ہے

پانی کے بلبلوں سے بھی پیدا ہو روشنی
اس فلسفے کا نور حقیقت علی سے ہے

خادم رسول عینی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کی محبت ، صوفیائے کرام سے دینی رغبت انہیں نعتیہ اور منقبتی شاعری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔آج کل زیادہ تر لوگ غزل کی طرف ہی رہتے ہیں ۔ موصوف نے اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت ، غوث اعظم ، وارث پاک ، خواجہ بندہ نواز ، سرکار مخدوم اشرف ،خواجہ معین الدین چشتی علیہم الرحمہ گویا کہ کسی بھی اولیا ، بزرگان دین کو نہیں چھوڑا ، سبھی کی شان میں نذرانہء عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم رسول ایک زود گو شاعر ہیں ، جو بھی کہتے ہیں مفکرانہ انداز اور اسلامی طریقے سے کہتے ہیں ، اس میں عقیدت کی لہریں بھی شامل ہوتی ہیں ، جو نذرانہء عقیدت کی عمدہ مثال ہے ۔کلیم احمد رضوی مصباحی یوں رقم طراز ہیں :

“شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سید خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں ۔ نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے ۔آپ کا لہجہء سخن بحمد اللہ
سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے ۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ۔”

حمد ، نعت ، مناجات ، منقبت ایک ایسا گلدستہ ہے جسے عینی صاحب نے تھام لیا ہے ۔ غزلیں بھی عمدہ کہتے ہیں جس پر الگ سے کبھی بات ہوگی ۔ان سب سے ان کی فنی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ان کا اپنا اسلوب جو نور مناقب میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ کتنے ہی دلوں کو منور و معطر کرتا نظر آتا ہے ۔اب چونکہ خادم رسول کی تقدیسی شاعری سنجیدہ مطالعہ چاہتی ہے ۔

خادم رسول عینی کے یہاں الفاظ پر عمدہ گرفت ہے۔ساتھ ہی زبان کا احترام بھی نظر آتا ہے۔ مضامین عمدہ باندھتے ہیں ۔ ساتھ ہی اسلامی نقطہء نظر کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ خادم رسول عینی جس طرح لفظوں کے چراغ جلاتے ہیں جس کی روشنی تقدیسی شاعری میں چمکتی ہے، سعید رحمانی صاحب نور مناقب پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“اس کے مطالعے سے صاف ظاہر ہے کہ عینی صاحب اولیائے کرام اور بزرگان دین سے گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں جس کا برملا اظہار ان کے منقبتوں میں ہوا ہے۔ عینی صاحب کے اشعار بلا شبہ ان کے جذب عقیدہ کے آئینہ دار ہیں ۔ غزل کے فارم میں ان کے رقم کردہ سبھی مناقب اہل بیت ، اولیائے کرام اور بزرگان دین سے ان کی گہری نسبت کا پتہ چلتا ہے”۔

سید خادم رسول عینی کا تعلق روحانی اور ادبی خانوادہ سے ہے۔ لہذا ان کے اندر تینوں چیزیں علمی ، روحانی اور ادبی یہ مل کر ایک معجون کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ادب میں اعلیٰ و ارفع نظر آتی ہے ۔ نور مناقب میں جناب تنویر پھول (امریکہ) یہ کہتے نظر آئے
:
“جناب خادم رسول عینی تقدیسی شاعری میں معتبر مقام کے حامل ہیں ۔ انھوں نے سترہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا کلام مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی منقبت کے طور پر سامنے آیا ۔وہ خود کو بنیادی طور پر منقبت کا شاعر کہتے ہیں ۔
نعت رسول کے ساتھ ساتھ وہ محبان رسول یعنی اہل بیت و صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی شان میں مناقب کہتے رہتے ہیں ۔”

عینی صاحب کی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز منقبت کے اشعار سے ہوا ۔ ان کی بلندی کا اندازہ ان کے کلام سے ہوتا ہے ۔ موصوف نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ انگریزی میں بھی نعتیہ شاعری کی ہے اور اچھی شاعری کی ہے ۔ “کچھ اپنی باتیں ” کے عنوان کے تحت خادم رسول عینی نے اپنی باتیں قاری کے گوش گزار کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

“جب میں نے شاعری باقاعدہ شروع کی تو نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ محبان رسول کی شان میں بھی منقبتیں لکھتا رہا ۔ مختلف مواقع پر بزرگان دین کے اعراس کے حوالے سے یا آپ کے یوم ولادت کے حوالے سے میں نے منقبتیں کہیں ۔ میں نے منقبت جب بھی کہی اشعار بزرگوں کی سیرت کی روشنی میں کہے۔
منقبت کا مقصد یہ رہا کہ بزرگان دین کی زندگی ، ان کی سیرت اور قوم و ملت کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کیا جائے اور دور حاضرہ کے انسان کو یہ ذہن دیا جائے کہ بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے سے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔”

سید خادم رسول عینی کے لہجے کی تازگی ، توانائی تقدیسی شاعری میں یہ بتاتی ہے کہ ان کے اندر منقبتی شاعری کرنے کا مادہ ہے ۔ افکار و خیالات کا دریا ان کے یہاں بہتا رہتا ہے۔ آپ شاعری کس معیار کی کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو نور مناقب کے مطالعہ کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔

سید خادم رسول عینی کی شاعری متاثر کرنے والی ہے ۔
جس میں ان کے محسوسات اور تجربات کو اشعار کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ خادم رسول صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں وہ مذہب اور طریقت کا ماحول ہے۔ جن حالات سے ان کا سابقہ پڑا ہے اس میں مذہبی خیالات شاعری میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
مگر جس انداز سے خادم رسول حمد ، نعت اور منقبت میں ادبی شعور کا استعمال کرتے ہیں وہ قابل قدر ،
قابل دید اور قابل مطالعہ ہے۔

احسن امام احسن ،
بھوبنیشور ،

٥ دسمبر ٢٠٢٢