ماہ صفر المظفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے اس مہینے میں شریعت مطہرہ نے نہ تو کوئی خاص عبادت مقرر کی ہے اور نہ ہی اس مہینے کے بارے میں کوئ خاص توہم پرستی کی تعلیم دی ہے مگر بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مہینہ بدبخت اور منحوس ہے اسی وجہ سے اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد سے پرہیز کیا جاتا ہے یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ماہ صفر المظفر کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے کی کوئ حقیقت نہیں۔ اسلام میں بد شگونی اور نحوست کا کوئ تصور نہیں اسلام میں اگر کوئی بد شگونی اور نحوست کی چیز ہے تو وہ انسان کے بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحاشی عریانی اور اللہ و رسول کی نافرمانیاں ہیں جو گھر گھر میں ہو رہی ہیں اگر ہم واقعی نحوست و بد شگونی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحش و عریانی سے بچنا پڑے گا
دن اور مہینے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے کسی خاص وقت، دن یا مہینے کو منحوس قرار دینا سراسر جہالت ہے،علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں دور جاہلیت میں ماہ صفر کے بارے میں لوگ اس قسم کے وہمی خیالات بھی رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت نازل ہوتی ہیں، اسی وجہ سے وہ لوگ ماہ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے
( عمدۃ القاری ج 7 ص 110)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید ان الفاظ میں فرمائی ” لاصفر” یعنی صفر کچھ نہیں ہے۔ (اس میں کوئی مصیبت و آفت نہیں ہے)اس حدیث کی تشریح میں محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں عوام اسے بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وقت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے
( اشعۃ اللمعات ج ٣ / ص ٦٦٤)۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں حدیث میں فرمایا کہ ’’صفر کوئی چیز نہیں یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے( بہار شریعت حصہ ١٦ / ص ٥٦٩) صاحب تفسیر روح البیان علامہ شیخ اسمٰعیل حقی لکھتے ہیں”صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وقت کو منحوس سمجھنا درست نہیں، تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وقت میں بندۂ مومن اللہ کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وقت مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کے لیے منحوس ہے ۔ در حقیقت اصل نحوست تو گناہوں میں ہے ۔ ( تفسیر روح البیان ج ٣ ص ٤٢٨)اخیر میں ان لوگوں کے لیے عرض ہے جو اس مہینے میں شادی کرنے سے منع کرتے ہیں کہ :پہلی ہجری کے اسی مہینے ( صفر المظفر) میں مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا خاتون جنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے عقد نکاح یعنی شادی ہوئی
صفر المظفر یعنی کامیابی کا مہینہ کہا جاتا ہے،اس مقدس اور برکت والے مہینے میں کئی عظیم الشان تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ماہ صفر المظفرمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی ہوئی ،صفر کے مہینے میں مسلمانوں کو فتخ خیبر نصیب ہوئی ، صفر کے مہینے میں سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ،صفر کے مہینے میں مدائن جس میں کسریٰ کا محل تھا کی فتح ہوئی۔صفر المظفرکے مہینے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کے دور خلافت میں 16ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایوان محل کسریٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق کی مملکت میں پڑھا گیا ،صفر المظفر کے مہینے میں 11ھ میں ہی جھوٹی نبوت کے دعویدار اسود عنسی کذاب سے مسلمانوں نے نجات پائی
جس مقدس مہینے میں ایسے ہم اواقعات ہوئے ہوں وہ مہینہ کس طرح منحوس ہوسکتا ہی افسوس علم دین سے دوری اور بری صحبت کے سبب لوگوں کی ایک تعداد صفر المظفر جیسے بارونق اور بابرکت مہینے کو بھی مصیبتوں اور آفتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتی ہے باالخصوص اس کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کے بارے میں بہت سی خلاف شریعت باتیں مشہور ہیں
ماہ صفر کے آخری بدھ
ماہِ صفرُالمظفّر کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہوئے کئی انداز اختیار کئے جاتے ہیں،مثلا اس دن لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں،سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں،پوریاں پکتی ہیں نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرض شِدَّت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع (جھوٹی)ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ بہارشریعت، حصہ۱۶،۳/۶۵۹
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں سُوال کیا گیا کہ اس دن عورتیں بطورِسفرشہر سے باہر جائیں اور قبروں پر نیاز وغیرہ دلائیں جائز ہے یانہیں؟ تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :(ایسا ) ہر گز نہ ہو( کہ اس میں)سخت فتنہ ہےاور چہار شنبہ(بدھ کا دن منانا ) محض بے اصل۔( فتاوی رضویہ،۲۲/۲۴۰)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشیاں مناتے ہیں کہ مَنحوس شَہْرچل دیا یہ بھی باطل ہے۔
از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدیاشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت
خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور
7030786828
Leave a Reply