سہلاؤشریف،باڑمیر [پریس ریلیز]
16 صفر 1444 ھ/14 ستمبر 2022 عیسوی بروز بدھ سنی تبلیغی جماعت باسنی کے جنرل سکریٹری اور نگینہ مسجد کے خطیب وامام مشہورومعروف عالم باعمل حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری اللہ بخش صاحب اشرفی صدرالمدرسین مدرسہ غوثیہ کلاجماعت خانہ باسنی ناگور شریف کی علاقۂ تھار کی مرکزی وراجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں قبل نماز مغرب آمد ہوئی-اس موقع پر بعد نماز مغرب دارالعلوم کی عظیم الشان غریب نواز مسجد میں طلبہ کو نصیحت کرنے کی خاطر ایک مختصر مجلس رکھی گئی-جس کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئ،بعدہ دارالعلوم کے ایک خوش گلو طالب علم نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا،پھر وقت کی قلت کومدنظر رکھتے ہوئے دارالعلوم کے اساتذہ کی خواہش پر بلا کسی تاخیر کے پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا حافظ وقاری اللّٰہ بخش صاحب اشرفی دار العلوم انوار مصطفیٰ کے طلبہ کو اپنے قیمتی نصائح سے نوازنے کے لیے تشریف لائے اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:آپ حضرات کا دینی تعلیم کےحصول کے لیے یہاں دارالعلوم میں داخلہ لے کر تحصیل علوم میں مصروف رہنا اللہ کی جانب سے ایک عظیم انتخاب ونعمت ہے اور آپ یہ یاد رکھیں کسی بھی دینی ادارے میں آپ کا داخلہ اور آپ کا اس میں تعلیم حاصل کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت کی دلیل ہے، یعنی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’من یرد اللّٰہ به خیرًا یفقه فی الدین‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین میں فقاہت (سمجھ) عطا فرماتا ہے‘‘۔۔۔۔۔ وحی منقطع ہوچکی ہے، جس کے ذریعہ یقینا من جانب اللہ غیب سے قانون الٰہی اترتا تھا، لیکن آپ کے سامنے قرآن کریم موجود ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے، ان کے ذریعہ آپ اللہ پاک کی رضا معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات میں سے آپ کاانتخاب فرماکرآپ کو ادھر متوجہ کیا ۔ یہ آپ لوگوں کے لیے وہ نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیاکی ہرنعمت ہیچ ہے۔ اس لیے آپ اس دین کوسمجھ کر پڑھیں اور آخرت کا اجر وثواب سامنے رکھ کر محنت کریں۔ اس نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ آپ محنت کریں۔تحصل علوم دینیہ کے لیے خوب سعی وکوشش کریں،اوقات کی پابندی کریں۔اپنے ان قیمتی اوقات کی خوب قدر کریں کیونکہ بقول حضول حافظ ملت”تضییع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے” اس لیے اپنے اوقات کو منظم کرکے اپنے مکمل اوقات کو تحصیل علم اور اس کے ذرائع ہی میں استعمال کریں، اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھیں۔ غور سے بات سنیں۔ آپ کی آنکھ، کان اور دماغ پوری طرح استاذ کی طرف متوجہ ہو۔ اور اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہو جو آپ دن میں پڑھ رہے ہیں، رات کو اس کا مطالعہ کرلیں۔آپس میں علمی تکرار کریں، کیونکہ اگر آپ متعلقہ سبق پڑھنے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ اسے مطالعہ کرلیں اور پڑھتے وقت غور سے استاذ کی بات کو سنیں اور پڑھنے کے بعد بھی کم ازکم ایک مرتبہ پھر مطالعہ اور تکرار کرلیں تو ان شاء اللہ! اس طرح کرنے سے پھر کبھی سبق نہیں بھولے گا-اور علم ہرمقام پرادب کامتقاضی ہے جیساکہ آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ علم ادب چاہتا ہے: اپنے استاذ کا ادب، اپنے ادارے کا ادب اور اپنے سے بڑے کا ادب، یہ ادب بہت کچھ دیتا ہے۔یادرکھو خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’من لم یرحم صغیرَنا ولم یوقر کبیرَنا ولم یعرف شرفَ علمائنا فلیس منا۔‘‘ ’’جو ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں کرتا، علماء کی قدر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ اس لیے آپ حضرات ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کیونکہ آپ کا یہ ادب دوسرے مسلمانوں پربھی اچھا اثر ڈالے گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ دیکھو دین پڑھنے والے طلبہ ایسے ہوتے ہیں-آپ نے اپنی نصحتوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:کہ کوئی طالب علم ہو یا عالم دین ، یا ان کے علاوہ کوئی بھی دینی مشغلہ رکھنے والا شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بشارتیں ہیں،جیساکہ ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لن یشبع الموٴمن من خیر سمعه حتّٰی یکونَ منتہاہ الجنّة“ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام واسلاف ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے،ہمیں اور آپ کو بھی چاہییے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھیں، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔
ایک موقعہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کےلیےنکلا تو وہ جب تک واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیونکہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالب علم بھی احیاء دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلب علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالب علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ کیونکہ حصول علم کے بعد اب وہ عالم دین ہوگیا، اور عالم دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔طلب علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَةً لِمَا قَضٰی“ یعنی طلب علم کی وجہ سے ماضی میں کیے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلب علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے، مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔اتنی ساری فضیلتوں کے باوجود اگر ہم اور آپ علم دین کے حصول میں باقاعدہ کوشاں نہ ہوں تو یہ ہماری اور آپ کی حرماں نصیبی ہی ہوگی،
لہٰذا طلبۂ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ عمل بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بغیر عمل کے علم بے فائدہ ہے جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ
علم چنداں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل درتو نیست نادانی
اور غالباً حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم یا کسی بزرگ کا فرمان ہے”العلم بلاعمل وبال والعمل بلاعلم ضلال والجمع بینھما کمال”…جب کہ بہت سے لوگ صرف علم حاصل کرنے کوہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر کوئی محض علم حاصل کرلے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا علم بےکار وبےفائدہ ہے،علم بغیر عمل کے ایسا ہی ہے جیسے انسانی جسم بغیر روح کے ہو،جس طرح روح کے بغیرجسم بے کار ہوتا ہے اسی طرح علم اور عمل کا جوڑ ہے،آپ نے اپنی ناصحانہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کو مخاطب کر کے فرمایا-
قابل احترام اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ ! ہم سب جانتے ہیں کہ علم کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے اور علم پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے کائنات کی ہر شے بخشش کی دعائیں مانگتی ہےجیساکہ حدیث مبارکہ میں آتاہے وہ مچھلیاں جو پانی کی تہوں میں تیر تی ہیں اور چیونٹیاں جو اپنے بلوں میں رہتی ہیں حتٰی کہ کوئی شے ایسی نہیں جو علم والوں کے لیے دعائیں نہ مانگتی ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے راستے میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔اس سے زیادہ سعادت وعظمت اور کیا ہوسکتی ہے اس لیے اللہ نے فرمایاہے :
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
مگر یہ سعادت یہ درجات اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب علم و عمل یکجا ہوجائیں تو پھر درجات کی بلندی شروع ہوجاتی ہے اور اگرصرف علم ہو اور عمل نہ ہوتو ایسے علم کو علم نافع نہیں کہا جاسکتا، اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺجب دعا مانگتے تو یہ فرماتے:اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا (سنن ابن ماجه (1/ 289)
’’اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتاہوں‘‘
اور فرماتے:اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذبک مِن عِلم لایَنفَعُ
’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘‘
علم نافع وہ ہے جس کے مطابق عمل بھی ہو اور جس علم پر عمل نہ ہو وہ علم نافع نہیں اور جب علم و عمل جمع ہوجائیں تو نور علی نور ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔
جب ہم ائمہ اور محدثین کی زندگی و سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نظر آتاہے کہ وہ جو لکھتے پڑھتے تو اس پر عمل بھی کرتے ۔
اور ذخیرۂ احادیث کی سب سے پہلی کتاب موطاء امام مالک ہے جب وہ جمع ہوئی تو امام مالک رحمہ اللہ بہت خوش تھے پوچھنے والوں نے پوچھا امام صاحب کتاب کےمکمل ہونے پر خوش ہیں؟ جواب میں فرمایا:اس کے جمع ہونے پر تو خوش ہوں لیکن حقیقی خوشی اس بات کی ہے کہ اس کتاب میں کوئی حدیث ایسی نہیں جس پر میں نے عمل نہ کیا ہواور بطور مثال فرمانے لگے کہ جب میں حجامہ (سنگی لگانا) کی حدیث لکھنے لگا میری غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ حدیث لکھوں جبکہ میں نے حجامہ نہیں لگوایا تھا لیکن حدیث پر عمل کی خاطر باوجود اس بات کے کہ مجھے حاجت نہ تھی لیکن حجامہ والے کو بلاکر حجامہ لگوایا۔
اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے بارے میں آتاہے کہ وہ ایک دریا کےکنارے احادیث لکھنے بیٹھا کرتے تھے ایک دن وہاں تشریف فرماتھےکہ ایک کشتی کا گذر ہوا اس میں سوار ایک شخص کو چھینک آئی اس نے الحمدللہ کہا امام صاحب نے اس کی چھینک کی آواز بھی سنی اور اس کا الحمدللہ کہنا بھی سنا لیکن خیال نہ رہاکہ جواب میں یرحمک اللہ کہیں اور وہ کشتی گذر گئی، جب خیال آیا تو اپنے آپ سے فرمانے لگے اے داؤد نبی کریم ﷺ کی حدیثیں لکھ رہے ہو اور حدیث پر عمل نہیں کیاکنارےپے ایک کشتی کھڑی تھی اس کشتی والے کو کہا وہ جو کشتی ابھی گزری ہے مجھے اس تک پہنچانے کی کتنی اجرت لوگے اس نے کہا تین دینار،آپ اس میں سوار ہوگئے اور جب وہ کشتی ساتھ آگئی تو جس شخص کو چھینک آئی تھی اس کی طرف منہ کر کے کہا ’’یرحمک اللہ ‘‘یہ بولنے کے بعد کشتی والے کو کہا مجھے واپس کنارے پے لے چلو، جب واپس پلٹے تو آواز غیبی آئی:
یاابا داؤد اشتریت جنتک بثلاثة دنانیر
’’اے ابو داؤد تم نے اپنی جنت تین دیناروں کےعوض خرید لی‘‘
یہ ہے علم و عمل میں مطابقت-
آئیے امام بخاری رحمہ اللہ کو دیکھیئے جو امیر المومنین فی الحدیث ہیں وہ فرماتے ہیں :
’’مجھےاللہ پر سوفیصد یقین ہے کہ اللہ قیامت کےدن مجھ سے اس بات کا حساب نہیں لے گا کیونکہ جب سے میں نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ غیبت حرام ہے تو میں نے کسی کی غیبت نہیں کی‘‘
کیاہم میں سے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتاہے؟ اسے کہتے ہیں علم وعمل میں مطابقت کہ جو سیکھا اس پرپہلے خود عمل کیا۔
میری آپ لوگوں سے التجاہے کہ علم میں پختگی حاصل کریں لیکن عمل کی طرف سے بھی غافل نہ ہو ں اس پر بھی پوری توجہ ضروری ہے۔
آج کے اس دور میں علماء کی کمی نہیں ہے کوتاہی اگر ہے تو عملی پہلو مفقود ہوگیا ہے ، کمی اگر ہے تو وہ عملی زندگی میں ہے ،آئییے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ:
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا”
آپ نے اپنے اختتامی جملوں میں اساتذہ وطلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا ریت کے ان دھوروں کے درمیان دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف ودیگر سنی اداروں کی تعلیمی وتدریسی، دینی ومذہبی خدمات بہت ہی مستحسن اور وعمدہ ہیں اور ان اداروں کے مدرسین ومعاونین اور ذمہ داران لائق ستائش ہیں کہ اس طرح کے پریشان کن سنگلاخ وریگستانی علاقے میں دین وسنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں،خصوصیت کے ساتھ آپ نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے ناظم اعلیٰ نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری کی خدمات کو خوب سراہا-
صلوٰة وسلام اور دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-
Leave a Reply