اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے روایتی خیالات و انداز بیان سے قطعِ نظر کرتے ہوۓ نعت کے میدان میں ایک نئی راہ نکالی اور اپنی تخیل کی ندرت اور اپنے بیان کی لطافت سے نعت کو جواب تک ایک مذہبی موضوع تھا ، ایک پروقار واہم صنف سخن بنا دیا ۔ ان کی نعت اپنے انفرادیت کی بنا پر اردوادب کا ایک مستقل سرمایہ بن گئی۔
پروفیسر محمد طاہر فاروقی ( صدرشعبۂ اردو پشاور یونیورسٹی ) کی راۓ ہے:
”اعلی حضرت عشق رسول میں ڈوبے ہوۓ تھے اور وہی جذبہ ان کی نعت گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے ۔اس لیے ان کے اشعار میں ”از دل خیزد بردل ریزد“ کا صحیح عکس نظر آ تا ہے۔“
مشہور محقق کالی داس گپتا رضا کہتے ہیں:
” اسلامی دنیا میں ان کے مقام بلند سے قطع نظر ان کی شاعری بھی اس درجہ کی ہے کہ انہیں انیسویں صدی کے اساتذہ میں برابر کا مقام دیا جاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کامل صاحب فن اور مسلم الثبوت شاعر ہونے میں شبہ نہیں اور ان کی نعقیہ غزلیں تو مجتہدانہ درجہ رکھتی ہیں“
پروفیسر مجید اللہ قادری رقم طراز ہیں:
”امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہٗ فقیہ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ بحیثیت شاعر بالکل منفرد مقام کے مالک ہیں۔“
پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے
” امام احمد رضا محدث بریلوی کے کلام میں والہانہ سرشاری سپردگی اور سوز و گداز کی جو کیفیت ملتی ہے وہ اردو کے نعت گو شعرا میں اپنی مثال آپ ہے، وہ ہر ایک اعتبار سے بلند مرتبہ شاعر ہیں۔“
ڈاکٹر سراج احمد بستوی کی راۓ میں:
” حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے نعت کے فن میں عشق رسول کی سچی تڑپ اور کسک پیدا کر کے اس فن کو سرحد کمال سے آگے کا سفر کرادیا۔“
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے خیال میں:
”ان کی شاعری کا محور حضورﷺ کی زندگی وسیرت تھی۔ مولانا صاحب شریعت بھی تھے اور صاحب طریقت بھی ۔ صرف نعت وسلام ومنقبت کہتے تھے اور بڑی دردمندی و دل سوزی کے ساتھ کہتے تھے۔“
سرکار اعلیٰ حضرت ایک شریف ، دیندار اور پڑھے لکھے خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ فطرت میں نیکی ، زہد وتقوی اور پاکیزگی جیسی خوبیاں رچی بسی تھیں۔ دل عشق رسول ﷺ سے سرشار اور ذہن و دماغ یادِ رسول سے معطر تھا ۔
لہذا ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر شعر کیف و مستی اورسوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے۔
Leave a Reply