ایک خوبصورت شاہزادی جو اپنے محل میں تنہا رہا کرتی تھی اس پر رعایاکو سنبھالنے کی ذمہ داری تھی وہ اپنے رعایا کا بہت خیال رکھتی تھی . مگر شاہزادی کو اپنے آپ سے باتیں کرنے کی بہت عادت تھی وہ اپنے محل کی کھڑکی سے اکثر باہر کا نظارہ کیا کرتی تھیں اور اسماں کے ستاروں سے چلنے والی ہواوں سے باتیں کیا کرتی تھیں
اک دن شاہزادی اپنے ہی خیالوں میں مصروف تھیں کے محل میں رہنے والی کنیز ائ اور شاہزادی سے مخاطب ہوکر کہا آپ اپنے میں خود سے کیا باتیں کرتی رہتی ہیں آپ شاہزادی ہیں آپ کو باہر کی دنیا بھی دیکھنی چاہیے آپ کو باہر کا نظارہ کرنا چاہیے اس محل کے باہر ایک اور دنیا ہے جو خوبصورت ہے.
شاہزادی نے اپنے کنیز سے کہا کیا باہر کی دنیا الگ ہوتی کیا وہ خوبصورت ہوتی ہے تب کنیز نے کہا جی شاہزادی باہر کی دنیا بہت خوب صورت ہوتی ہے بہت سارے رنگوں سے سجی ہوتی ہے آپ خود ہی دیکھ لیں
شاہزادی نے سونچا ک اسے باہر کی دنیا دیکھنا چاہئے پھر اس نے اپنے نوکروں سے کہا ک وہ مختلف موقامات پر لے جایں جہاں وہ جانتے ہیں
شاہزادی کے اس خواہش پر دو کنیزیں دو غلام شاہزادی کے ساتھ سفر پر نکلے اور سارا محل وزیر پر چھوڑ دیا
جب شاہزادی پہلے مقام پر پہنچتی ہیں تو وہ ان غریب اور مجبور لوگوں سے ملتی ہیں جہاں زندگی مشکل نظر آتی ہے جن کے پاس سہولت کا کوئ سامان نہیں ہوتا شاہزادی کو ان کے ن
حالات پر رحم اتا ہے اور شاہزادی سے کہتی ہیں ک تم نے کہا تھا باہر کی دنیا بہت خوب صورت ہے مگر یہاں لوگ کتنی مشکل میں ہیں ان کا خیال کیوں نہی رکھا جاتا پھر شاہزادی ان غریبوں ک لئے تمام ضروریات کا سامان منگواتی ہیں
پھر اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور جب دوسرے مقام پر پہنچتی ہیں تو وہاں اسے بھوکے پیاسے جانور نظر آتے ہیں اور شاہزادی بہت بے چین ہوجاتی ہیں کنیز پر چلّانے لگتی ہیں اور نوکروں کو حکم دیتی ہیں ک جانوروں کے لئے کھانے پینے کا خیال رکھا جاے .
کچھ اور مقام پر شاہزادی کو ایسے پیڑ پود ملتے ہیں جو مرجھاءے ہوے تھے جہاں سوکھا پڑا تھا شاہزادی دل برداشتہ ہوکر اپنی کنیز کو اک زوردار طمانچہ دیتی ہیں اور کہتی ہیں کیا یہی تمہاری خوبصورت دنیا ہے شاہزادی کے اس غصّہ پر کنیز خاموش ہوجاتی ہیں اور پیچھے ہٹ جاتی ہیں پھر شاہزادی دو نوکروں کو مقرر کرتی ہیں اور حکم دیتی ہیں ک پودوں کا اچھے سے خیال رکھیں
پھر شاہزادی محل واپس اکر یہ اعلان کرواتی ہیں کے محل میں سارے لوگوں کو بلوایا جاءے جب سارے لوگ جمع ہوگےء تو شاہزادی نے ہر ایک سے سوال کیا میں تو محل کے اندر رہتی تھی مجھے تو معلوم ہی نہی تھا کے باہر لے ایسے حالات ہیں تم لوگوں نے مجھے کیوں نہی بتایا اگر آج میں باہر نہ جاتی تو مجھے معلوم نہ ہوتا اس پر محل میں سارے لوگ چپ ہوگءے پر ایک شخص نے جواب دیا شاہزادی ہم سب جانتے تھے ک باہر کا کیا حال ہے مگر ہم چاہتے تھے ک آپ خود دیکھیں
شاہزادی نے کہا تم لوگ میری رعایا ہو تمہارا خیال رکھنا میری زمہ داری ہے مگر جو محل کےباہر رہتے ہیں جو غریب ہیں اور جو جانور بول نہی سکتے جن پیڑوں کی زبان نہی ہوتی انکا خیال اگر ہم نہی رکھینگے تو کون رکھینگے اگر اج ان کا یہ حال ہے تو کل ہمارا بھی یہی حال ہوسکتا ہے اگر ہم ایک دوسرے کا احساس نہ کرینگے تو.
پھر شاہزادی نے ہر ایک کو یہ احساس دلایا
ک صرف اپنی ہی دنیا خوبصورت بنانے سے کچھ فائدہ نہں اگر باہر کی دنیا خوبصورت نہ ہو تو اس لئے اپنے ساتھ ساتھ سب کا خیال رکھیں اور اپنے ساتھ ساتھ سبکی زندگی خوبصورت بنانے کی کوشیش کریں…
رفعت کنیز
حیدر آباد
ّ
Leave a Reply