گزشتہ شب دارالعلوم امام اعظم ابو حنیفہ حبیب نگر دھنیسر پور وزیر گنج گونڈہ، کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے موقع پر امام اعظم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ،جس میں خصوصی خطاب کے لیے ممبئ سے تشریف لائے مفتی ذوالفقار صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو دین کی تعلیم ضرور دلانا چاہئیے تاکہ وہ زندگی جینے کا شعور سمجھیں، انہیں نے پورے خطاب میں سب سے زیادہ تعلیم پر زور دیا
اس سے پہلے مفتی مسیح الدین حشمتی نے بہترین خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں میں جوش بھر دیا ، ان کے خطاب کے دوران جلسہ گاہ مکمل طور پر بھر چکا تھا اور لوگ باہر مدرسے کے گیٹ پر سیکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوکر بیان سماعت کر رہے تھے-
اسٹیج پر ایک طرف پیر طریقت رہبر شریعت حضرت جمال مینا شاہ بیٹھے ہوئے تھے تو دوسری جانب جماعت کے بزرگ عالم دین مولانا صوفی پیر عبد الوحید صاحب قبلہ حشمتی بھی تشریف فرما تھے،ان کے شانہ بشانہ الجامعہ الاسلامیہ روناہی کے ناظم اعلیٰ قاری جلال الدین صاحب بھی موجود تھے ،انہوں نے جلسے کو خطاب کرتے ہوئے حالات پر گفتگو کی اور کس طرح کی سازشوں میں مسلمان گھرا ہوا ہے اس پر روشنی ڈالی-
نقیب اجلاس حضرت مولانا جمال اختر صدف گونڈوی نے کہا اس وقت گونڈہ کے مسلمانوں کی صحیح نمائندگی خانقاہ مینائیہ کر رہی ہے،
حضرت محبوب مینا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کئ مسجدوں کا حوالہ دیا جسکو بابا جی نے تعمیر کروائی اور مذہبی ملی سماجی کاموں کے حوالے سے بابا جی کے کردار کو لوگوں کے سامنے بیان کیا،
اس کے بعد جامعہ اشرفیہ مظہر العلوم دھانے پور کے سینیئر استاذ شاعر اسلام قاری شعبان رضا نوری صاحب نے بہترین لہجے میں عارفانہ کلام پڑھا جسے سن کر مجمع جھوم اٹھا، قاری صاحب کا اپنا الگ انداز ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان سے کئ کلام کی فرمائش بھی کی، اہل اسٹیج نے خوب داد دی مزید قاری صاحب کی سلامتی کی دعا بھی کی، قاری شعبان صاحب کا اپنا الگ معیار ہے وہ بزرگوں کا کلام بہت ہی عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں،
شاعر اسلام جناب جمیل گونڈوی نے بہت بہترین انداز میں کلام پیش کیا جنہیں سامعین نے خوب پسند کیا،
کانپور سے آئے ہوئے مہمان شاعر غلام نور مجسم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنا کلام پیش کیا ، قاری حامد رضا صاحب نے مدرسے کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ یہ مدرسے ہماری شناخت ہیں انہیں باقی رکھنا ہماری اولین زمہ داری ہے ،اگر یہ مدرسے نہ رہے تو دین ہمارے گھروں سے دھیرے دھیرے نکل جائے گا اور ہم کہیں کے نہ رہیں گے ،لہٰذا ہمیں مدارس اسلامیہ کی بقا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا ہوگا،
مولانا زاہد رضا نوری صاحب سربراہ اعلیٰ دارالعلوم امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا ایک بیج کو پودا بننے اور پھر اسے درخت کی شکل اختیار کرنے میں جو وقت لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ محنت ایک بچے کو عالم دین و حافظ قرآن بنانے میں لگتا ہے،
رات دن ایک کرکے اساتذہ بچوں کو سنوارتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے ، اس پر فتن دور میں دارالعلوم چلانا آسان نہیں
یہ تو اسلام کی برکت اور قرآن کا معجزہ ہے جو بچوں کے سینے میں اترتا نظر آتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ مدرسوں کی دین ہے جو اسلام لوگوں کے گھروں تک پہنچا ہے، ان مدرسوں کے لئے ہمیں اپنا دل کشادہ رکھنا چاہیے ان مدرسوں سے ہمیں دینی سپاہی میسر ہوتے ہیں،
مہمان خصوصی دارالعلوم اہلسنت حبیب الرضا بگی روڈ کے سینیئر استاذ حضرت مولانا قاری حمید اللہ خان صاحب نےبچوں کو خوب دعائیں دیں،
اس موقع پر باہر سے آئے ہوئے مہمان مولانا قاری امتیاز صاحب بستوی، قاری علی احمد صاحب، مولانا مقیم صاحب دارالعلوم مینائیہ ،قاری ذاکر حسین صاحب بلسر، قاری مختار صاحب پرسدا،قاری فخر عالم صاحب ، قاری ظہیر احمد صاحب ، قاری عبد الحمید صاحب،قاری سرتاج احمد پرسدا ،
ادارے کے پرنسپل علامہ قاری اشفاق احمد، قاری حیدر صاحب استاذ مدرسہ ہذا،شاعر اسلام مہتاب احمد،شاعر اسلام جناب عبد الوکیل صاحب،ثنا خوان رسول جناب احمد رضا منکا پوری و احمد رضا گونڈوی صاحبان بھی موجود تھے،
ان کے علاؤہ قاری رضوان صاحب و قاری ممتاز صاحب مینائی کے علاوہ
علاقے سے آئے کثیر تعداد میں علماء و حفاظ اسٹیج پر موجود تھے-
دو بجے دستاربندی کی رسم ادا کی گئی اس کے بعد سلام و دعا پر جلسے کا اختتام ہوا-
Leave a Reply