اس وقت ملک و بیرون ملک مخالفین اسلام باضابطہ خطرناک منصوبہ بندیوں میں منہمک ہیں اور انکی کوششیں کہیں نہ کہیں ہماری تخریب کاریوں کے اسباب بنتی نظر آئ ہیں،
اندرون ملک سب سے بڑی سازش یہ رچی گئ اور یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ مسلمان ہندوؤں سے نفرت کرتا ہے، جبکہ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہا، چاہے وہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو بنام ہندوستانی سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حامی رہا،
لیکن افسوس کہ خاص طور پر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے غلط استعمال کرواکر ایک خاص طبقے میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا گیا، اور وہ زہر اتنا اثر پزیر ہوا کہ کبھی گاے کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مارا جانے لگا،
پچھلے دنوں حجاب پر خوب شور غوغا مچا کہ حجاب اسلام کا اشینشیل پریکٹس نہیں ہے تو پھر مسلم لڑکیوں کو حجاب کے لئے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ،
افسوس کہ ہم نے اسلام کی صحیح نمائندگی ہی نہیں کی،
ہم نے اسلام کو جسلہ جلوس چادر گاگر نیاز و فاتحہ تک محدود کر رکھا ،
اس سے پہلے بھی تین طلاق پر آواز اٹھی اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوے عدلیہ تک پہنچی ، جہاں طلاق پر باضابطہ قانون بنا دیا گیا، اب تین طلاق دینے والے مسلمان کو تین سال قید ہوگی،
جبکہ سات پھیرے لیکر شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو چھور دینے والوں کے خلاف کوئ قانون نہیں بنا،
اتر پردیش میں مدرسوں کا سروے کرایا گیا اور امداد یافتہ مدارس کو احکام جاری کئے گئے کہ ہماری طے کردہ شرائط پر عمل درآمدگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں،
سرکاری فرمان کے مطابق اب مدرسوں میں جن گن من کے ساتھ ساتھ وہ نصاب بھی شامل درس ہونگے جنکا ماضی میں دور دور تک تصور نہیں تھا،
حالانکہ میں شروع سے اس بات کی وکالت کرتا چلا آیا کہ مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت اپنے نصاب میں ضروری ترمیم ضرور کرنی چاہئے ،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ زبوں حالی کے شکار مدرسوں سے فارغ التحصیل وہ لوگ ہیں جنکو صرف ایک زبان کی تعلیم دی گئ اور وہ اس زبان کو سیکھ کر جب باہر نکلے تو اس زبان کے جانکار و قدردان کی عدم موجودگی و ناقدری سے پریشان در بدری پر مجبور ہوئے اور مناسب کام نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کے شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں،
صرف مسجد و مدرسہ کے لئے ہم نے تعلیم دی کی ہے ،
تو پھر مدارس و مساجد میں بھی اتنی جگہ نہیں کہ ہر سال پانچ ہزار سے زائد فارغین علماء و حفاظ کو ملازمت مل سکے ،
کیونکہ ہمارے یہاں دعوت و تبلیغ کا باضابطہ ادارہ نہیں جہاں سے قابل علماء کی ٹیم الگ الگ شہروں میں اس کام کو انجام دینے کے لئے نکلیں، اور اللہ و رسول کے فرامین پر لوگوں کی توجہ حاصل کریں،
جبکہ دعوت و تبلیغ کے ادارے نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم اسلام کو غیروں میں متعارف نہیں کروا سکے ، اور نہ ہی اسلام کی خواہش کے مطابق اللہ کے بندوں اسلام کی خوبصورتی سمجھا کر انہیں کلمے کی سے آراستہ کر سکے،
اس وقت سب سے زیادہ نو جوان جیلوں بند اپنی رہائی کے لئے پریشان ہیں ، انکا کیس لینے کے لئے ہمارے پاس کوئ ادارہ نہیں اور نہ ہی کوئ ایسی تنظیم ہے جہاں قانون کے جانکاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین کا عمل دخل ہو ،
سیاست میں ہماری موجودگی کوئ معنی نہیں رکھتی ،کیونکہ ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لی اسکا یہ نتیجہ ہوا کہ ہماری آواز جگہ جگہ دبائ جانے لگی ،
حکومت میں ہمارے نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے من چاہا قانون پاس کر لیا گیا،
ہم دو چار احتاج کرکے سرد پڑ گئے ،
جس دن یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا اس دن بھی ہم صرف تماشبین ہونگے اور کچھ نہیں ،
کیونکہ ہم نے ان چیزوں پر زور دیا جن کی اتنی ضرورت نہیں تھی کہ جتنی ضرورت سیاست میں ہمارے نمائندوں کی موجودگی کی،
علماء سیاست نہیں کر سکتے یہ مسلم عوام کی ذاتی رائے ہے،
جبکہ ماضی میں اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر علمائے کرام نے سیاست کی تقدیر بدل کر رکھ دی ،
ملک کی آزادی میں علمائے کرام نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے تاریخ کبھی بلا نہیں سکتی ،
جب غیر پڑھے لکھے مسلم لیڈران قوم کی نمائندگی کا دم بھرتے ہوے سیاسی ایوان میں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ تین طلاق کیا ہے، اسلام میں حجاب کی حیثیت کیا ہے ، ملک کی آزادی میں علمائے کرام کا کردار کیا رہا ، ملک سے محبت کا اسلام میں تصور کیا ہے،
مسلم دانشوروں کی خاموشی بھی شاید اسی وجہ سے ہے کہ جہاں بولنا غیر مفید ہو وہاں خاموش رہنا چاہیئے،
حجاب پر پابندی کی بات کرنے والوں کو جواب دینے کے لئے ہمارے پاس خود کی یونیورسٹی،اسکول ،کالج، ضرور ہونے چاہئیں،
خانقاہوں کے پاس اتنا پیسہ ہے، اور مسلسل آمدنی جاری بھی ہے ، کہ ملک کے ہر بڑے شہروں میں یونیورسٹی،کالج،اسکول بنا سکتے ہیں،
مگر افسوس کہ وہ ساری دولت پر چند خاندان عیش کر رہے ہیں ،
مسلمانوں کی حالات اس وقت تک نہیں درست ہو سکتے جب تک تعلیم میں دنیا کی کامیاب قوموں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں ،
سیاست میں بھی جب تک ہم اپنی نمائندگی درج نہیں کروائیں گے تب تک ہماری آواز اٹھانے والا کوئ نہیں ہوگا،
اب تک بیس سے زیادہ مرتبہ ناموس رسالت پر حملے ہو چکے ہیں ، بعض اوقات لوگوں نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا اور بعض اوقات خاموش تماشائی بنے رہے، ایک ڈری ہوئ قوم کی طرح یہ سب دیکھنا اور اس پر چپ رہنا بھی ایمان کی کمزور علامت ہے،
ملک میں جسکو بھی سستی شہرت چاہئے ہوتی ہے وہ براہ راست ناموس رسالت پر حملہ آور ہو جاتا ہے ، نتیجے میں ہم اپنے غم و غصّے کا اظہار کرکے بد دعائیں کرکے اپنے اپنے گھروں میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں،
ٹی وی پر ہفتوں بحث چلتی ہے ،
چند بجے ہوئے نام نہاد اسلامک اسکالرز شریک بحث ہوتے ہیں اور بچی کچی عزت بھی لٹا کر چلے آتے ہیں،
کہیں نہ کہیں ہم بھی مجرم ہیں کہ ہم اپنے پیغمبر کے کردار کو قوم میں پیش کرنے میں ناکام رہے،
دنیا کام کے ذریعے متاثر ہوتی ہے ہم نے پیغمبر کی زندگی پر کام نہیں کیا جس سے لوگ متاثر ہوں،
اصلاح معاشرہ کے لئے ہم نے صرف رسمی جلسے کئے،
تعلیم کے میدان میں ہم نے صرف مدرسے کھولے ، جو کہ چند نادار مسکین اور کچھ غریب گھروں کے بچوں کو فائیدہ پہنچانے کے لئے پوری قوم کا فطرہ زکوٰۃ مدرسوں میں لگا دیئے ،
مدرسوں میں اگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی تو شاید مدرسے ہماری ترقی میں حد درجہ معاون ثابت ہوتے ، مگر افسوس کہ ہم نے مدرسوں کو صرف مولوی خانہ بنایا ،
ہماری یہاں کسی بھی کام میں اتحاد و باضابطگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام مفید نتیجے تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں ،
مثلاً شادیوں میں جہیز کی لعنت سے بچنے کے لئے بعض خانقاہوں نے اعلان کیا ،لین اس پر اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ لعنت بہت بڑی لعنت بنکر غریب مسلمانوں کے لئے عزاب کی شکل اختیار کر چکی ہے،
ابھی حالیہ دنوں میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے شادی کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ مسلمان ذات برادری سے اوپر اٹھکر شادی کریں،
یہ بہت اچھا اعلان ہے اس سے بہت فائدے ہونگے ذات برادری کی قید سے لوگ باہر آکر من پسند رشتے تلاش کریں گے اور جہیز پر کنٹرول بھی ہوگا،
مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی دیگر خانقاہوں نے اسکا استقبال نہیں کیا ،
جبکہ صرف اسی اعلان پر تمام خانقاہیں متحد ہو جائیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے،
مسلم بچیوں کے گھر فراری و ارتداد کی ایک وجہ جہیز بھی ہے ، کیونکہ جب غریب باپ جہیز کے لالچیوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتےہیں، تو شادی ٹھکرا دی جاتی ہے اور وہ بچی جو کہ بالغ ہے کب تک گھروں میں بیٹھی رہے،
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اپنے اسکول کالج یونیورسٹی نہیں ہیں جہاں لڑکوں سے علاحدگی کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کا انتظام ہو ،
ہماری بچیاں غیروں کے بچوں کے ساتھ پڑھتی ہیں انکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ سب کہیں نہ کہیں واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے بکریوں کو بھیڑیوں کے جھنڈ میں خود ہی بھیجا ہوا ہے ،
انسان کتنی بھی کوشش کر لے فطرت نہیں بدل سکتا ،
فطرت ہمیشہ اپنے راستے کی مسافر رہی ہے،
ہر سال جلسہ جلوس کے نام پر کروڑوں روپے ہمارے معاشرے میں چندہ دے دیا جاتا ہے
اور اس پیسے سے چند گھنٹوں کے رسمی پروگرام جسکا تعلق نہ تو قرآن سے ہوتا ہے نہ حدیث سے ، برباد کر دیے جاتے ہے،
اغیار اس جلوس کے جواب میں اس سے بڑا جلوس نکال کر اسمیں نعرہ لگاتے ہیں اور بھی قابل اعتراض افعال انجام دیتے ہیں ،
جس سے جگہ جگہ فساد کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،
ہمارا سارا عمل سادگی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن ہم اپنے تمام کام بغیر ڈھول نگاڑا و ڈی جے کے کرتے ہی نہیں ،
اس پر ستم یہ کہ قوم کے نوجوان اس ڈی جے پر سر عام رقص کرتے ہوے مذہبی نعرہ بھی لگاتے ہے، لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ انکے مذہب میں ڈی جے ہے یا رقص و سرود یا پھر نعرے بازی،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،
Leave a Reply