السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے کیونکہ لوگ مسجد کے ذمہ دار کو پیسے اس لیے دیتے ہیں کہ یہ مسجد کے اخراجات کو پورا کریں
پوچھنا یہ ہے کیا اس پیسے سے امام یا مؤذن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
مفتی صاحب جواب عنایت فرما دیں آپکی عین نوازش ہوگی۔(محمد یاسر)
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ امامِ مسجد کو تنخواہ یا وظیفے کے طور پر کھال دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ یا وظیفہ علیحدہ سے مقرر ہو، اور محض اس کو عالم یا حافظ سمجھ کر کھال ہدیہ کی جائے، تو یہ جائز ہے، بلکہ ایسے علماء اور حفاظ اگر محتاج ہوں، تو ان کی امداد کرنا باعث فضیلت ہے۔جیسا کہ فتاوی فیض الرسول ج دوم 478 ص میں کہ مسجد کے اماموں کو بطور نزرانہ چرم قربانی دینا جائز چاہے امیر ہو یا غریب۔اھ۔
اور صحیح البخاری: (کتاب المناسک، رقم الحدیث: 686)
عن علي رضی اﷲ عنہ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: أمرہ أن یقوم علی بدنہ، وأن یقسم بدنہ کلہا لحومہا وجلودہا وجلالہا، ولا یعطي في جزارتہا شیئا۔
اعلاء السنن: (باب التصدق بلحوم الأضاحي، 29/17، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ولأن ما یدفعہ إلی الجزار أجرۃ عوض عن عملہ وجزارتہ، ولا تجوز المعاوضۃ بشيء منہا، فأما إن دفع إلیہ لفقرہ أو علی سبیل الہدیۃ، فلا بأس بہ؛ لأنہ مستحق للأخذ۔۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
14/ ذی الحجہ /1443 ھ
Leave a Reply