کسی بھی جمہوری ملک کی جمہوریت کی بقا عدالتی فیصلے پر منحصر ہے ، داخلی اور خارجی امور میں صحافت کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اگر یہ دونوں تعصب ، تنگ نظری یا مذہب پسندی کے شکار ہوۓ تو ملک کی بنیادیں انتہائی کمزور ہو سکتی ہیں ۔ دانشمند طبقہ کی طرف سے مسلسل اس کی پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ موجودہ سرکار کہیں نہ کہیں تمام اہم سرکاری شعبوں میں ایک خاص قسم کا نظریہ رکھنے والے لوگوں کا تقرری کررہی ہے جس سے ملک میں ایک خاص نظریہ کا فروغ ہوگا اس طرح ملک میں چہار جانب بد امنی پھیلنے کا بھی خدشہ ممکن ہے ۔ جسٹس سری کرشنا نے جمعہ کو ممبئی پریس کلب میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں اور ججوں کو متنبہ کرتے ہوۓ کہا کہ ” موجودہ حالات ایمرجنسی کی یاد دلارہی ہیں ، جج اور صحافی اپنا فرض نہیں نبھائیں گے تو جمہوریت تباہ ہوجاۓ گی ۔ میڈیا خود کو سمجھیں کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے یہ سو فیصد درست ہے کہ عدلیہ ، مقننہ اور عاملہ میں ملی بھگت ہوجاۓ تو انہیں راہ راست پر لانا صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ” آج ملک میں جس طرح صحافت زوال پزیری کا شکار ہے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ صحافی خود صحافت کی حساسیت سے ناواقف ہے یا ارادتاً عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کے زیر اثر کام کرنے پر مجبور ہے یا تفتیشی ایجنسی کے خوف میں مبتلا ہے اور یہ وہ خوف ہے جو ملک کو غلامی کی طرف دوبار لے جاسکتا ہے اس لئے ہم اہل وطن کو ” جسٹس سری کرشنا ” کی باتوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا قافلہ آپ کے گھر پر بھی پہنچ سکتا ہے اس کی صورت خواہ کوئی بھی ہو ۔ یقین نہ ہو تو آسام ، اترپردیش اور بہار میں غریبوں کے گھروں کا دورہ کرکے دیکھیں کہ وہاں کی حکومت عدالتی فیصلے کے بنا ہی بے خوف و خطر اپنے مخالفین کے گھروں پر بلڈوژر چلادی ہے جبکہ وہاں کی عدلیہ منہ دیکھتے رہ گئی کہ وہ انہیں کا کارندہ جو ہے ۔ ایک رویش کمار کہاں کہاں حکومت کی خامیوں پر نقد و تبصرہ کرتا پھرے ہاں ہزاروں رویش کمار ہوں تو بھی کم ہے ۔ جسٹس سری کرشنا اپنے بیان میں موجودہ حالات کے پیش نظر بہت ہی اہم بیان دیتے نظر آۓ کہ ” ایسے حالات میں ایمانداری ہی سب سے اچھی پالیسی ہوسکتی ہے اور صحافتی ضمیر کا زندہ رہنا ضروری ہے ۔ “
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
صحافتی آزادی کسی بھی ملک کی ترقی کا اہم ستون ہے ۔ معروف وکیل اور سابق مرکزی وزیر قانون کپل سبل نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوۓ کہا کہ ” گرچہ کالجیم نظام خامیوں سے پاک نہیں ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ججوں کی تقرری پر حکومت کا کنٹرول ہو ، انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ پر قبضہ کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کی جانی چاہئیے کیونکہ عدلیہ جمہوریت کا آخری قلعہ ہے اور اگر یہ گرتا ہے تو پھر کوئی امید باقی نہیں رہے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کا تمام سرکاری اداروں پر کنٹرول ہے اور اگر عدلیہ پر بھی اس کا قبضہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے ججوں کی تقرری کرے گی اور یہ جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا ۔
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
19/ دسمبر 2022ء
24/ جمادی الاول 1444 ھ
Leave a Reply