السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
حضرت ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ
آج سے چھ سال پہلے ایک بھٹے میں پانچ ہزار اینٹوں کیلئے پیسے دیا گیا تھا
اس وقت ایک ہزار اینٹ کی قیمت چھ ہزار تھی تو پورے تیس ہزار ہوئے لیکن انہوں نے اب تک اینٹیں نہیں دی
اب اس اینٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے اور اب اگر بھٹے والا پیسے لوٹائے گا تو تیس ہزار لوٹا ئیگا يا جو قیمت اب چل رہی ہے وہ قیمت دیگا ؟ المستفتی۔محمد سباحت رضوی۔متعلم ۔دارالفکر بہرائچ شریف۔
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ خرید و فروخت میں جو قیمت معاملہ کے وقت طے ہوتی ہے وہی اصل قیمت ہوتی ہے، معاملہ طے ہوجانےکے بعد مارکیٹ ریٹ میں کمی یا زیادتی کا اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر وہی قیمت لوٹانا واجب ہے جو معاملہ کے وقت طے کی گئی تھی، اگر اینٹ دینا چاہے تو اسی قیمت پر دینا اس پر لازم ہے جو معاملہ کے وقت طے ہوئ تھی ۔جیسا کہ
مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:
“(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.”
(الكتاب الأول في البيوع، المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، ص:33، )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/ جمادی الآخرۃ 1444ھ
Leave a Reply