قرآن مقدّس اللّٰہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی آخری کتاب ہے، جسے انسانیت کی ہدایت کے لئے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل کیا گیا،اس کتاب ہدایت سے انسان استفادہ اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا- حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: “اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب [قرآن مجید] کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کر دے گا”… (مسلم ج/1 ص/ 272)
سر فراز اللّٰہ کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں چنانچہ ابتدائی چند صدیوں میں مسلمان جب ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے، لیکن جب سے مسلمانوں نے قرآن کے احکام پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے- کاش مسلمان دوبارہ قرآن مقدّس سے اپنا رشتہ جوڑتے، تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس ہو جاتی-
قرآن پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا- یہ ایک ایسی تنہا آسمانی کتاب ہے جو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال سے اب تک اسی اصل عربی زبان میں بغیر کسی تحریف و تبدیل کے محفوظ ہے-اس کی تلاوت باعث برکت و ثواب ہے، اس کا سمجھنا رشد و ہدایت کا سبب اور اس کے مطابق عمل کرنا فلاح اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے-
قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جسے کروڑوں انسان روزآنہ کم سے کم پانچ مرتبہ ضرور پڑھتے ہوں، یہ اعجاز صرف اور صرف قرآن مقدّس کو ہی حاصل ہے-
قرآن پر ایمان لانے کا باقاعدہ مطلب یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے،اسے آخری نازل شدہ الہامی کتاب تسلیم کیا جائے،اس کی تعلیمات اور احکامات کو برحق مانتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے-
آئیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر قرآن کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ اور ہم ان کی بجاآوری کہاں تک کر رہے ہیں؟
یوں تو ہم مسلمانوں پر اللّٰہ ربّ العزت کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر ہم اُنہیں شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کر سکتے، اور اگر شکرانِ نعمت کے طور پر زندگی بھر اس کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی وہ ان احسانوں کا بدل نہیں ہو سکتے، چنانچہ اللّٰہ کے احسانوں میں سے ایک عظیم ترین احسان یہ ہے کہ اس نے ہم انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کی خاطر اپنا پیارا کلام اپنے محبوب نبی آخر الزماں صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا-اب ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم پر قرآن شریف کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟… پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے تو اس بات پر غور و فکر کریں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہوسکتی ہے؟ اور پھر بلا تاخیر اس کے لئے لیے سرگرم عمل ہو جائیں- اس لیے کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے، اور اس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی محض قرآن کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہوسکتی-
مسلمانوں پر قرآن مقدّس کے حقوق: جس طرح قرآن مقدّس پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مسلمان قرآن مقدّس کے درج ذیل بنیادی پانچ حقوق ادا کرے!
1: قرآن پر سچے دل سے ایمان رکھے- 2: قرآن کی تلاوت کرے-
3:قرآن کو سمجھنے-
4:قرآن کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرے-
5:قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے-
پہلاحق: قرآن پر ایمان لایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اللّٰہ کے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل ہوا- اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل تو ہوجاتا ہے لیکن حقیقی ایمان اس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے دل میں پیدا ہو جائے-اب یہ بات بھی بظاہر عجیب سی لگ رہی ہے کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مقدّس پر ایمان لایا جائے حالانکہ دیگر ضروریات دین کے ساتھ قرآن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا-
معاذاللہ اگر کوئی شخص قرآن کے کلام اللّٰہ ہونے کا منکر ہو جائے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائےگا، مگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں(1) زبان سے اقرار کرنا-(2)دل سے تصدیق کرنا، اور ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے… اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا باقاعدہ یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جاتا، جیسے ہر آدمی کو معلوم ہے کہ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں اپنی انگلی بھی نہیں ڈالتا،بلکہ انسانوں کا تو عام طور پر طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر شک بھی ہو جاتا ہے اس سے بھی انسان احتیاط برتتا ہے، جیسے اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے سانپ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر زہر نہیں ہوتا اس کے باوجود عموماً کوئی سانپ پکڑنے کو تیار نہیں ہوتا… ہم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن پر کامل یقین اور ایمان ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے، اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اس کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ در اصل ہمارا ایمان و یقین کمزور ہے…ہم زبان سے اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ اللّٰہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی باضابطہ دولت سے محروم ہیں، ورنہ جسے باقاعدہ یقین حاصل ہو جائے تو اس کا اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے یعنی وہ اکثر و بیشتر قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر و تفکر اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں لگا رہتا ہے… صحابۂ کرام کے احوال میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ قرآن سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے تھے… اگر ہمارے دلوں میں بھی صحابۂ کرام کی طرح قرآن سے محبت ہو جائے اور اس کی تلاوت کریں، انہیں کی طرح باقاعدہ یقین ہوجائے کہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے، اور یہ ہماری ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا، اور قرآن کی عظمتوں کا نقش دل پر قائم ہوتا جائے گا،اور جوں جوں قرآن پر ایمان و یقین بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم وتکریم اور احترام میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا-
قرآن پر ایمان لانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زبان و دل سے اقرار و تصدیق کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے من و عن [ہوبہو] جیسا نازل ہوا تھا ہمارے پاس موجود ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف و تبدیلی اور کمی وزیادتی نہ مدّعا میں واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متن میں،بلکہ یہ محفوظ و مامون ہے اور قیامت تک اسی وصف کے ساتھ رہے گا-
دوسرا حق: قرآن مقدّس کی تلاوت کی جائے:- مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر قرآن مقدّس کا جو دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں، اس کی تلاوت کریں، اور اسے باربار اور اس طرح پڑھیں کہ جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے-
تلاوتِ قرآن پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کا موثر ذریعہ ہے- قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے، اس لیے کہ یہ روح کے لئے غذا کے منزل میں ہے-
تلاوت قرآن کے کچھ اہم آداب:-(1) قرآن کی تلاوت ایک اہم عبادت ہے، یہ عبادت پورے ذوق و شوق سے کرنی چاہیے-(2) تلاوت سے پہلے طہارت ضروری ہے، بغیر وضو قرآن کو چھونا بھی نہیں چاہیے- (3)پاک جگہ اور قبلہ رخ ہو کر، اور دوزانو بیٹھ کر تلاوت کرنی چاہیے- (4)تلاوت سے پہلے تعوذ اور پھر تسمیہ پڑھیں،اس کے بعد تلاوت شروع کریں-(5)ٹھہر ٹھہرکر اچھی آواز سے تجوید اور ترتیل کے مطابق تلاوت کرنی چاہیے-(6)تلاوت کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہو اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ درمیانی آواز سے تلاوت کرنی چاہیے-(7)تین دن سے کم وقت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے، بہتر اور افضل یہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ختم کیا جائے ورنہ کم از کم ایک پارہ یا جتنا بھی میسر ہو بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- (8) قرآن مجید کی تلاوت ثواب اور ہدایت کی نیت سے کرنی چاہیے-(9) تلاوت کرتے وقت قرآن کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرنی چاہئے… اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ جو مستند تراجمِ قرآن و کتبِ تفاسیر ہیں علمائے اہلسنت سے رجوع کرکے ان کا انتخاب کرلیں-(10)جہاں عذاب یا دوزخ کی آیت آئے وہاں اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے اور جہاں رحمت اور جنت سے متعلق آیت ہو وہاں پر اللّٰہ سے رحمت اور جنت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے-(11)قرآن کی تلاوت اس عزم اور ارادے کے ساتھ کی جائے کہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی توفیق سعید بخشے-
تیسرا حق: قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں:- قرآن پر ایمان لانے اور اسے پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے، اس لیے کہ قرآن کے نزول کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے کیوں کہ قرآن کے معنیٰ و مطالب، اس کے احکام وغیرہ کو سمجھے بغیر عمل کیسے کیا جائے گا؟ اور ویسے بھی اس پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے، اس کا فہم و ادراک حاصل کیا جائے-
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عجم(غیرعرب) کے زیادہ تر لوگ بغیر سمجھے ہی اسے پڑھتے ہیں، یعنی صرف اس کی تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں- ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدا نہ خواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی فائدہ یا ثواب نہیں ہے،کیونکہ ہماری نظروں میں حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا وہ فرمان مبارک بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ “قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں” پھر آپ نے مثال دے کر فرمایا کہ ” الم(الف لام میم) تین حروف ہیں ان کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں” آپ کے اس فرمان مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں، لیکن اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو سونے پر سہاگہ، اور قرآن کے حقوق پر ہم صحیح معنوں میں عمل کرنے والے بھی ہوں گے-
اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو قرآن کی سمجھ عطا فرمائے-
چوتھا حق: قرآن پر عمل کیا جائے:- قرآن پر ایمان لانے، تلاوت و ترتیل،پڑھنے و سمجھنےکے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے، کیوں کہ قرآن کو ماننا، پڑھنا اور سمجھنا یہ سب اصل میں عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں، اور یہ ساری چیزیں اسی وقت زیادہ مفید و نفع بخش ثابت ہوں گی جب اس پر عمل کیا جائے-
قرآن تو تمام لوگوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے، اس میں ہمارے لئے ہر ہر معاملے کے لئے ہدایات موجود ہیں- قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے؟اور کن کاموں سے بچنا چاہیے؟ اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی- اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لئے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں، مگر افسوس کہ دورِ حاضر میں بعض لوگوں نے قرآن کے تعلق سے اس کے خلاف اپنا معمول بنا لیا ہے، اور اسے صرف تلاوت، قرآن خوانی اور دعا و تعویذ کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، جب کی قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا منتر کی کتاب ہے، جس کاصرف پڑھ لینا ہی دفعِ بلیّات کے لیے کافی ہو، نہ یہ محض حصولِ ثواب و برکت کے لئے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب کے حصول پر اکتفا کر لی جائے، یا اس کے ذریعہ سے جاں کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے، اور نہ یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضتِ ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے، بلکہ یہ تو حقیقت میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن خود اس پر شاہد ہے فرمان خداوندی کامفہوم ہے” یہ کتاب[قرآن] لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے” اور اس کا مقصدِ نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے حقیقت میں اپنی زندگیوں کا لائحۂ عمل بنائیں-
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات و احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے-
پانچواں حق: قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے،پڑھنے اور اس کو سمجھنے و عمل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قرآن مجید کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس کے پیغامات اور تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے، جس طرح صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پڑھنے و سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے ساتھ اور انفرادی طور پر بھی اس کے پیغامات کو آگے پہنچایا تھا-
ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم تمام لوگوں تک اس ابدی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن اور اس کی تعلیمات کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اورکون پہنچائے گا؟
حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خاتم النبییین ہیں، اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، لہٰذا جن لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام اب تک نہیں پہنچ سکا ان تک اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حسبِ صلاحیت واستطاعت امت محمدیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ہے، اور یہ حضور کی امت کے لئے بہت بڑے اعزاز اور شرف کی بات ہے-
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنی پیغامات اور شریعت اسلامیہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کریں-
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مقدّس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خاتمہ بالخیر کی توفیق عنایت فرمائے- آمین بجاہ سیّد المرسلین(صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم)
Leave a Reply