WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

یوم عاشوراء کی دینی وتاریخی اہمیت،، (مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

یوم عاشوراء کی دینی وتاریخی اہمیت،، (مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

تقویم اسلامی کے سب سے پہلے مہینے”محرّم الحرام” کا دسواں دن”یوم عاشوراء” کہلاتاہے، یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱) یوم عاشوراء میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔

(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا یابی حاصل ہوئی۔

(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ج/۱ص/۳۴۷،۳۴۸ )

یومِ عاشوراء کی فضیلت

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں اس دن کی اہمیت وفضیلت کےبارےمیں متعدد روایات رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کے صحابہ سے منقول ہیں؛ چنانچہ: (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ج/۲ص/۱۱۵) روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔ (۳) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ج/۱ص/۳۶۷ابن ماجہ ص/ ۱۲۵) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب ج/۲ص/۱۱۵) ان احادیث سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات

یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے: (۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِ فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی ج/۱ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی ج/۱ ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ج/۲ ص/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔ (۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: (۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ج۱ ص/۲۳۴- مسلم ج/۲ ص/۶۰) (۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ج/۱ ص/۶۰۱)

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام

یومِ عاشوراء میں جن امور پرہمیں عمل کرناچاہییے ان میں سے کچھ یہ ہیں: (۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے ہی ایک دوسری روایت یوں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا”صُومُوا یَومَ عَاشُوراءَ وَ خَالِفُوا الیَھُودَ،صُومُوا قَبلَهُ یوماً،اَو بَعدَہُ یَوماً(صحیح ابن خزیمہ ج/۳ص/۲۹۰)

(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائےگا۔

ان کے علاوہ کچھ اور مستحسن امور ہیں جنہیں ہمیں بجالانا چاہیئے!
اس مبارک موقع اوردن پانی یاشربت کی سبیل لگانا،غریب ومسکین کوکھاناکھلانااور شہدائےکربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یادمیں محافلِ خیر کا انعقادکرناچاہییے، اوران محافل میں شہیدان کربلاکی مبارک زندگی کے روشن اورتابناک پہلواورشہادت کے اسباب اورشہداء کے پیغامات کوبیان کرناچاہییے، اورلوگوں کوان کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کی جانی چاہییے، عبادت وریاضت بالخصوص تلاوت قرآن کی کثرت اور روزہ رکھناچاہییے اورہروہ کام جو شریعت میں مستحسن ہوں انہیں بجالاناچاہییے،
اللہ تبارک وتعالیٰ شہدائے کربلا کے صدقے ہم سبھی مسلمانوں کو نیکیوں کے کرنے اوربری باتوں سے توبہ کی توفیق سعید عطافرمائے-

اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت مہینہ اور مقدس دن ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے آپ کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی خرافات اور غیرشرعی رسومات سے احتراز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *