WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حسن اخلاق کے فضائل و برکات، ،✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ،اتردیناجپور مغربی بنگال

حسن اخلاق کے فضائل و برکات، ،✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ،اتردیناجپور مغربی بنگال

       ’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’پسندیدہ عادتیں،اچھی خصلتیں،اچھابرتاؤ،اور ملنساری وغیرہ(فیروز اللغت) ‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔ 
           حسن اخلاق ایک ایسی پیاری اور اعلی خصلت ہے جس کی وجہ سے صاحب خصلت کو ہر معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج کے اس نفرت آمیز فضا میں حسن اخلاق کی ضرورت واہمیت اور بھی اشد ہوجاتی ہے، 
        ہر مسلمان کو حسن اخلاق کی دولت سے آراستہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے خصوصاً علمائے دین اور مبلغین حضرات کے لیے تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ باخلاق بن کر ہی دین کو پھیلانا ممکن ہے بداخلاقی ہمیشہ تبلیغ دین میں مضر ثابت ہوتی ہے 
    مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے بل بوتے پر نہیں بلکہ حسن اخلاق اور نرمی کی بدولت پھیلا ہے آج پوری دنیا میں جو ہمیں اسلام کا حسین گلشن لہلہاتا نظر آرہا ہے اس میں نبی اکرم نور مجسم ﷺکے اخلاق کریمہ اور آپ کی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے حسن اخلاق اور خوش گفتاری کا بہت بڑا عمل دخل ہے 
*حسن اخلاق کے فضائل احادیث کی روشنی میں*
           احادیث کریمہ میں حسن اخلاق کے فضائل کے متعلق بے شمار روایات پائے جاتے ہیں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں   
  حضرت سیدنا ابو داؤد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺنے ارشاد فرمایا:میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی (سنن ابی داؤد باب فی حسن الاخلاق الحدیث 4799)
        بندہ حسن اخلاق کے ذریعے اعلی مقام مرتبہ حاصل  کر سکتا ہے چنانچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا بندہ حسن اخلاق کی وجہ سے تہجد گزار اور سخت گرمی میں روزے کے سبب پیاسا رہنے والے کے درجہ کو پا لیتا ہے (مکارم الاخلاق صفحہ۱۶ لامام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفّٰی 360ھ) 

اسی صفحہ میں ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی رحمت شفیع امتﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تم میں سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبر نہ دوں،ہم نے عرض کی:کیوں نہیں_ فرمایا:وہ جو تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے
بااخلاق لوگوں کے درمیان صرف بہتر شخص ہی نہیں بلکہ افضل مومن بھی ہے
چنانچہ بارگاہ رسالت ﷺمیں عرض کی گئی:کہ یا رسول اللہ ﷺ أیّ المؤمنين افضل إيماناً یعنی باعتبار ایمان سب سے افضل مومن کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا أحسنهم خلقاً،یعنی جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں
(سنن ابن ماجہ باب ذکر الموت الحدیث 4259)
حسن اخلاق کے دنیاوی اور اخروی فوائد
حسن اخلاق کے گوناگوں دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں دنیاوی فوائد تو یہ ہیں کہ حسن اخلاق سے ہی لوگوں کے درمیان عزت مل سکتی ہے بداخلاق شخص کو لوگوں کے درمیان عزت ملنا ناممکن ہے،حسن اخلاق ہو تو دنیا عزت کی نظر سے دیکھتی ہے، اور تو اور بااخلاق آدمی اپنے کاروبار میں بھی بآسانی ترقی کر لیتا ہے مثلاً جب کوئ دکاندار اہنے گاہکوں (customers) سے خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے تو لوگوں کے دل اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی دکان کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس باخلاق شخص کی کاروبار ترقی ہوجاتی ہے
حسن اخلاق کے اخروی فوائد ملاحظہ کریں
آقاۓ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ قریب اچھے اخلاق والے ہونگے (احیاء العلوم ج 3ص 157)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم بارگاہ رسالت میں حاضر تھے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں پر جھکا ہوا ہے اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان ایک حجاب حائل ہے اس کا حسن اخلاق آیا اور اس نے اسے اللہ کے بارگاہ میں پہنچا دیا (احیاء العلوم ج 3ص 159)

اچھے اخلاق کس سے سیکھیں؟

   اس کا جواب اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا 

   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب 21)

 ترجمۂ کنز العرفان:
بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے
تاجدار رسالت ﷺ کے اخلاق کریمہ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہم آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ پر مکمل طور پر گامزن ہوجائیں تو یقیناً ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں گے
آئیےحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اخلاق حسنہ کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو کامل بنا کر ایک مکمل مسلمان بن جائیں
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟آپ نے کہا کہ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے یعنی گھر والوں کا کام کرتے تھے پھر جب نماز آجاتی تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے(مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص519 الحدیث5816)
اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضور انورﷺ کی بیرونی اور اندرونی زندگی کے حافظ ہونا چاہتے تھے اور امت تک پہنچانا چاہتے تھے اس لیے بیرونی زندگی شریف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے تھے اور اندرونی زندگی ازواج پاک سے خصوصاً ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (مراٰۃ المناجیح جلد ہفتم ص 71)
معلوم ہوا اپنے گھر کا کام کاج کرنا اور اپنی بیوی کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہمارے پیارے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت مبارکہ ہے،لیکن صد افسوس آج جب کوئی شخص اس سنت کو ادا کرتا ہے تو محلے کے لوگ اسے بیوی کا غلام یا مرید کہتے ہیں اللہ تعالی ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
حضورﷺ کا اپنے خادموں کے ساتھ حسن سلوک
ایک حدیث پاک میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبئ کریم رؤف الرحیم ﷺکی دس سال تک خدمت کی کبھی مجھ سے تف نہ فرمایا اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ یہ کہ کیوں نہ کیا (مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص 518 الحدیث 5801)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص خادم تھے آپ رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی اس وقت ان کے والد حضور انور ﷺکی خدمت میں لاۓ اور بولے ہم نے انہیں آپ کی خدمت میں وقف کر دیا،(مراۃالمناجح جلد ہفتم ص 62)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کم عمراور کم سمجھ کی وجہ سے قصور ہوتے تھے اور کبھی نقصان بھی ہو جاتا تھا مگر اس سراپا رحم و کرم نے ان کو کبھی جھڑکا نہیں اور ملامت کے طور پر یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کر دیا یہ کیوں چھوڑ دیا
مال داروں اور اہل ثروت کے لیے یہ سبق آموز حدیث شریف ہے انہیں بھی چاہیے کہ اپنے نوکروں اور خادموں کے ساتھ سختی اور غصے سے پیش آنے کے بجائے نرمی سے پیش آئے اور حسن سلوک کا معاملہ کرے
حضورﷺنے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا
کفار مکہ جو آپ علیہ السلام کے بہت بڑے دشمن تھے اور اتنے بڑے دشمن تھے کہ شاید کوئی ایسی تکلیف اور ظالمانہ برتاؤ باقی ہوگا جو آپ علیہ السلام کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتح مکہ کے دن جب انصار و مہاجرین تمام ظالموں کافروں کا محاصرہ کر لیا تو سب کے سب حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے سب کے جسم لرزہ بر اندام ہو رہے تھے اس وقت رحمت دو عالمﷺ نے ان تمام مجرموں کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا اور سب کو آزاد کردیا
یہ تھا حضور علیہ الصلاة والسلام کا اپنے گھر والوں، خادموں اور دشمنوں کے ساتھ حسن اخلاق،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کے حسن اخلاق کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

       

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *