ملک ہندوستان جہاں اپنی زرخیزی ،صنعت وحرفت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خاص شہرت کا مالک رہا ہے ۔ وہیں اہل فضل و کمال کا گہوارہ بھی رہا ہے ۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی ہندوستان پوری دنیا کے لئے قابل رشک بنا ہوا تھا ، دنیا کے بیش قیمتی سامان ہندوستان میں تیار ہوا کرتے تھے ، کھیتوں میں بھی طرح طرح کے اناج اور غلے ہوا کرتے تھے ، جب ہندوستان کی اس حیثیت کو دوسرممالک کے لوگوں نے دیکھا تو انکی بھی رال ہندوستان پر ٹپکنے لگی کہ ہمیں بھی ہندوستان سے کچھ ملنا چاہیے ۔ کیونکہ ہندوستان کو اس زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔اور پوری دنیا کے تاجروںکی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ، پندرہویںصدی سے غیرملکی تاجروں نے یہاں تجارت کا آغاز کیا ۔۱۶۰۰میں انگریزبھی بغرض تجارت ہندوستان پہنچے اور ساحلی علاقوں میں تجارت شروع کردی مگر ٹیکس کی واجبی ادائیگی کی وجہ سے انہیں خاص نفع حاصل نہ ہوا کہ انہیں دنوں شاہجہاں کی شہزادی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوئی جسکا ہندوستانی طبیبوں سے علاج ممکن نہ ہو سکا ، اور ایک انگریز طبیب نے کامیاب علاج کیا جسکی خوشی میں بادشاہ نے بنگال میں انگریزوں کو کمپنی شروع کرنے کی اجازت دی ۔ اور ٹیکس بھی معاف کر دیا ۔ بنگال میں انہوںنے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی ، یہ انگریزوں کے ہندوستان میں عروج کی خشت اولین تھی ، کمپنی میں انہوںنے ملازمین کو جنگی تربیت بھی دی ۔ اور ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ پہ الزام لگا کر اعلان جنگ کر دیا اور نواب کے وزیر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح سازشی انداز میں نواب کو پلاسی کے میدان میں شکست دیکر انگریزبنگال میں قابض ہو گئے ۔ پھر اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ عالم کے پاس جاکر جبرا یہ فرمان جاری کروادیا کہ بنگال ،بہار ،اڑیسہ ،اور الہ آباد پر انگریزوں کی حکومت رہے گی ۔ ان شہروں پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چا ل (لڑاؤ اور حکومت کرو) کے پیش نظر دوسرے نوابوں اور راجاوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کردی ۔ انگریزوں نے اپنی پالیسی پر عمل کرکے ۱۸۵۶ء میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے جو ظلم و بربریت کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی ہے وہ یقینا بھلائی نہں جا سکتی ۔ پھر ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے ملک کی ہر قوم اپنی بساط کے مطابق جدو جہد میں لگ گئی ۔ مگر ہندوستانی عوام اس کشمکش میں تھی کہ پہل کرے اس وقت ہمارے علمائے اہلسنت نے جنگ آزادی میں نہ صرف اپنا قائدانہ کردار ادا کیا ہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔ ملک کی آزادی میں جن مایہ نازہستیوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ان میں سے چند علماکی قربانیوں کو آنے والی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱)علامہ فضل حق خیر آبادی : آپ کو اللہ تعالی نے جس ذہانت وفطانت کی وافر دولت سے مالا مال کیا تھا وہ آاب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ آپ علوم عقلیہ میں امامت واجتہاد کے منصب پر فائز تھے ۔ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے علم و فضل کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ جس وقت انگریزہندوستان میں مسلمانوں کے خو ن کے ساتھ ہولی کھیل رہے تھے اسوقت سب سے پہلے دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جسنے جہاد کی آواز بلند کی وہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہی کی ذات تھی ۔ جیسے ہی یہ خبر شائع ہوئی پورے ہندوستان میں شورش بڑ گئی ۔ ۹۰ ہزار سپاہی دہلی کی جامع مسجد میں ہو گئے ۔علامہ صاحب دل و جان سے انگریزی استعمار کے خلاف ڈتے رہے انکی اشتعال انگیزیوں سے متأثر ہوکر شہزادے بھی میدان میں نکل آئے ۔ لیکن حالت یہ تھی کہ اپنوں میں کئی دغاباز تھے علامہ صاحب نے جو فتوی دیا تھا اسکی خبر انگریزوں تک پہنچا دی گئی ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کی بڑے زوروں سے تلاشی کی جا رہی تھی۔ اسی حالت میں وہ اپنے خاندان کو لیکر دہلی نکل گئے ،اور علی گڑھ کے نواب کے یہاں پناہ لی ۔ وہاں اٹھارہ دن رہنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ بدایوں تشریف لے گئے ۔ علامہ صاحب تقریبا ۲سال تک ادھر ادھر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے رہے۔پھر کچھ دنوں بعد گرفتار کر لئے گئے ۔ مقدمہ چلایا گیا ْ ْ ۔اتفاق سے جج علامہ صاحب کا شاگرد تھا ۔اس نے چاہاکہ علامہ صاحب جھوٹ بول دیں اور انکو چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن آپ نے جھوٹ بولنے سے انکارکر دیا ۔جج نے آپ کے لئے انڈمان میں کالے پانی کی سزا تجویز کی ۔۱۸۶۱ءمیں وہیں علامہ صاحب کا انتقال ہو گیا ۔
خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی فرماتے ہیں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی زندگی کے دو پہلو ہیں ۔آپ کی علمی و ادبی زندگی دیکھ کر بو علی سینا ، غزالی ، رازی ، ابو حنیفہ کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اور آپکے مجاہدانہ کردار سے حسین ابن علی کی مظلومیت کی خونی داستان آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے(۲)مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی صاحب قبلہ :آپکی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ شیخ طریقت بھی تھے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ انگریز ہندوستانی باشندوں کے خاندانی وقار اور عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں تو آپ اپنے مریدوں کے ساتھ میدان کارزار میں تشریف لے آئے ۔ اور آپنے آزادی کے متوالوں کی ٹیم تیار کی ۔ اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔ جہاد کرتے کرتے آدھے لکھنؤ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ لیکن یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نا اہل شخص انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اور آپ شہید کر دیے گئے ۔ مولانا مدراسی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے آزادی کا صور پھونکنے کے لئے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ ہندوؤں کو بھی منتخب کیا تھا ۔ انگریزوں کے لئے آپکی شخصیت قہر ذوالجلال بنی ہوئی تھی ۔ ہزاروں انگریزوں کو آپنے کیفر کردار تک پہچایا تھا (۳)سید کفایت علی کافی مرادآبادی :مجاہد آزادی ،چشم و چراغ خاندان رسالت حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مراد آبادی ایک جیداور ممتازعالم دین تھے ۔ جس وقت آپنے آنکھیں کھولی وہ انگریزوں کے ظلم وبربریت کے عروج کا دور تھا ۔انگریز پورے ملک میں اپنی مکاری کا جال پھیلا چکے تھے ۔ ایسے پر آشوب دور میں آپنے جب اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو آپکی وطنی اور مذہبی غیرت نے آ پ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ پھر اسکے بعد آپنے انگریزوں کے ناپاک وجود سے مادر وطن کو پاک کرنے کا جو عزم مصمم کیا تھا آخری دم تک اس پر دٹے رہے ۔ ہزاروں آندھیاں چلیں ۔لاکھوں طوفان آئے ۔ مگر آپکے ارادہ میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی ۔آخر کار انگریزوں نے آپ کو گرفتار کرکے قید خانہ میں بڑی درد ناک اذیتیں دیں ۔آپکو مراد آباد کے بیچ چوراہے پر پھانسی دے دی مگر آپکے چہرے پر ذرہ برابرا خوف کے آثار ظاہر نہ ہوئے بلکہ راضی برضائے الٰہی یہ کہتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا ۔
کو ئی گل با قی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا پررسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایسے سورماؤں کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی مگر اسکے باوجود جب بھی آزادی کا جشن منایا جاتاہے تو برادران وطن انکی قربانیوںکو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے علما کی ان قربانیوں کو جانیں اور عام کریں ۔
Leave a Reply