مذہب اسلام نے جس طرح ظاہری آرائشِ جسم میں طہارت کی ترغیب دی ہے، بالکل اسی طرح بدن کی نشو و نما اور پرورش میں بھی طہارت کی ترغیب دلائی ہے۔ شریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ جب اللہ کا بندہ ،اللہ کے حضور حاضر ہو اور اپنی بندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہو، تو اس وقت جس طرح اس کا ظاہرِ بدن ، اسکے کپڑےاور مقامِ بندگی پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح بندے کا وہ بدن جس پر پاک کپڑے پہنے جاتے ہیں اور جو جسم اللہ کی بارگاہ میں جُھک کر عبد ہونے کا اعلان کرنے جا رہاہے۔ اس کا رزق حلال سے پلاہوا ہونابھی ضروری ہے ۔ اس عنوان کے تحت اگر دیکھا جائے تو کتب احادیث بھری پڑی ہیں (جن کے اندر رزق حلال کمانے کی ترغیب دلائی گئی ہےاور رزق حرام سے بچنے کی ترھیب بھی ہے) اُن میں سے چند احادیث مبارکہ ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں!٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًاوَّاِنَّ اللہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ“۔ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کو قبول نہیں فرماتاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو وہی حکم دیاہے جو حکم رسولوں کو دیاتھا۔ کہ ارشاد فرمایا:﴿یٰاَیُّھَاالرَّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾(المومنون:۵۱)”اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤاور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتاہوں“(کنزالایمان)۔ اور فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾(بقرہ: ۱۷۲) ترجمہ: ”اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی سُتھری چیزیںاور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“ (کنز الایمان)پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفرکرکے آیا ہو، اس کے بال غبار آلودہوں”یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ، یَارَبِّ “ (پھر اسی پریشانی کی حالت میں)اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر عرض کرےاے میرے رب! (لیکن) اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے (حرام کھاتا پیتاہے)اور اس کا لباس حرام ( کے پیسوں کا) ہے، ”وَغُذِیَ بِا الْحَرَامِ“اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا بڑھا ہے۔ ”فَاَنِّی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ؟“ تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔(مسلم، باب قبول الصَّدقۃ من الکسب الطیب، حدیث:۲۲۳۵/۱۰۱۵،ص:۴۶۱،مطبوعہ دار الفکر بیروت) مذکورہ بالا حدیث شریف میں رزق حلال کی ترغیب، حرام کی روزی سے بچنے کی ترھیب کے طور پر جس پریشان حال مسافر شخص کا مثالی ذکر کیا گیا ہے اس کے پاس بظاہر قبولیتِ دعا کے کافی اسباب مہیا ہیں ، جیسے : طویل سفر کا مسافر ہونا، پریشان حال ہونااور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا ئے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ پروردگار کو پکارنا۔ پھر بھی اس کی اجابت دعا پر سوالیہ نشان لگ رہاہے ، وجہ صرف ایک ہے ، اس بندے نے حلال رزق کی تلاش نہیں کی اور خود کو حرام سے بچایا نہیں۔٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ﴿یٰاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ:۱۶۸) اےلوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔(کنزالایمان) تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مستجاب الدعا (جس کی دعائیں قبول کی جائیں) بنادے۔ تو اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یَا سَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ“ اے سعد اپنا کھانا حلال بناؤ مقبول الدعا ہوجاؤگے۔ ” وَ الَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ “اس ذات با برکات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد(ﷺ) کی جان ہے”اِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ الْحَرامَ فِی جَوْفِہٖ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ عَمَلٌ اَرَبَعِیْنَ یَوْمًا“ بندہ جب ایک حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے، تو چالیس دن تک اس کا کوئی (نیک) عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہٗ مِنْ سُحْتٍ فَا النَّارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ اور جس بندے کا گوشت حرام روزی سے بنا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔(المعجم الاسط ۶/حدیث:۶۴۹۵مطبوعہ دارالحرمین، قاھرہ ) معلم کائنات ﷺ کے تعلیمی انداز اور متعلمین کے ذوق علم پر بار بار بعجز و نیاز قربان ہونے کو جی چاہتاہے۔ جب مجلس پاک میں ایسی آیت کریمہ پڑھی گئی جس میں جملہ انسانیت کو اللہ کا کلام رزق حلال کھانے کی تاکید فرما رہاہے عین اسی وقت حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کھڑے ہوکر مستجاب الدعوات ہونے کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کروانے کی عرضی پیش کرنا۔ظاہر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ خود اپنے لیے عرض کررہے ہیں مگر حقیقت میں معلم کائنات سے مذکور ہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کروادی اور ساتھ میں رزق حلال کی اہمیت اور حرام کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد پوچھ کر ہمارے لیے بے شمار اسباق مہیا کروادیے۔حدیث شریف کے اس جز کو جس میں آقا کریم ﷺ قسم اُٹھا کر ارشاد فرماتے ہیں ” بندہ جب حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتاہے“پڑھ کر گزر جانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بھی یہ عہد واثق کرلینی چاہیے کہ ’ان شاء اللہ‘اب حرام کےکبھی قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اور پھر حدیث شریف کا اگلا جز تو ہمیں نہایت ہی جھنجھوڑ کر تنبیہ کر رہاہے کہ اگر اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو حرام کی روزی سے دور رہنا ہوگا۔٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“ حلال روزی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۵، حدیث:۲، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّایُبَالِی الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِّنَ الْحَرَامِ“ترجمہ:لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا ہے(کمایاہے) وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے(مشکوٰۃ، ج:۱،کتاب البیوع،باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الاول، ص:۲۴۶، حدیث:۲۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاھور )غیب داں نبی ﷺ کا مذکورہ بالا فرمان جو کہ پیشین گوئی کی شکل میں بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے لوگ اور تو چھوڑو، یہ بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جس مال سے ہم حج جیسا اہم فریضۂ اسلام ادا کرنے کےلیے جارہے ہیں آیا وہ مال ہم نے حلال ذریعوں سے کمایا ہے یا حرام ذریعوں سے؟۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے ہیں’حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ”جومالِ حرام لے کر حج کو جاتاہے جب وہ لبیک کہتاہے فرشتہ جواب دیتاہے لَالَبَیْکَ وَلَا سَعْدَیکَ وَ حَجُّکَ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکَ حَتّٰی تَرُدَّ مَا فِیْ یَدَیْکَ نہ تیری حاضری قبول، نہ تیری خدمت قبول، اور تیرا حج تیرے مُنہ پر مردود، جب تک تو یہ حرام مال جو تیرے ہاتھ میں ہے واپس نہ دے“(فتاویٰ رضویہ ج:دہمص:۷۱۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن نظامیہ ،لاہور)۔٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَ کُلُّ لَحَّمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتْ نَارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ترجمہ: وہ گوشت جس نے حرام (روزی) سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ہر وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ہے، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ قریب ہے۔ (مشکوٰۃ، ج: ۱،کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثانی،ص:۲۴۷حدیث:۲۶۴۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاھور)٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ا للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ“ ترجمہ: حلال رزق کا ذریعہ تلاش کرنا فرض کے بعد فرض ہے۔ مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ، الفصل الثالث،ص۲۴۸، حدیث:۲۶۵۸، مطبوعہ مکتبہ (رحمانیہ ،لاھور نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کے بعد رزق حلال تلاش کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ بنیادی فریضہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، چونکہ جب بندے کے پیٹ میں رزق حلال ہوگا تبھی جمیع عبادات قبول ہوں گی۔٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِا لْحَرَامِ“۔ ترجمہ: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام روزی سے پلا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۸، حدیث:۲۶۶۴، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور )٭زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیا اور اُسے پسند فرمایا۔ پلانے والے سےدریافت فرمایا کہ یہ دودھ تو نے کہاں سے حاصل کیا؟ اُس نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تالاب پر گیا، جس کا نام اس نے لیا تو وہاں زکوٰۃ کے اُونٹ تھے جنہیں لوگ پانی پلارہے تھے۔ اُنھوں نے میرے لیے دودھ دوہا تو میں نے اپنے مشکیزے میں ڈال لیا، یہ وہی تھا۔ ’فَاَدْخَلَ عُمَر یَدَہٗ فَاسْتَقَاءَہ‘ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ مُنہ میں ڈالا اور اس دودھ کی قئےکردی (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص: ۹۱،حدیث:۲۷۸۶، مطبوعہ البشریٰ کراچی)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے”تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمٌ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ رَجُلٌ خَرَجَ ضَارِبًا فِیْ الْاَرْضِ یَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعُوْدُ بِہٖ اِلٰی عَیَالِہٖ“۔ اس دن وہ شخص عرش کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہوگا، جوشخص اللہ کا فضل(رزق حلال) تلاش کرنے کے لیے زمین میں نکلتاہےپھر اسے حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آتاہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال،ص:۲۲۷ مطبوعہ: دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ،فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادُہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُو السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَلٰکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ“ ترجمہ: اگر کوئی بندہ حرام مال کمائےپھر اس سے صدقہ کرے تو قبول نہیں کیا جائے گا، اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوگی، اور اگر وہ اس (مال ) کو ترکہ کی صورت میں (وارثوں کے لیے)چھوڑ جاتاہے تو بھی وہ اس کے لیے جہنم کا سبب بنے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۷، حدیث:۲۶۴۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ حلال کمانا جہاد ہے اور تمہارا اسے اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ تجارت سے کمایا ہوا ایک درہم دوسرے حلال ذرائع سے حاصل کیے ہوئے دس درہموں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال، ص:۲۲۷ مطبوعہ دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَاتَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْاَلَ عَنْ اَربَعٍ، عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَ عَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اَکْتَسَبَہٗ، وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہِ؟“۔ ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوجائے، عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کے بارے میں کہ کیسے گزاری (نیکی میں یا بدی میں)؟ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۰، مطبوعہ دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان)٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا حِلِّہٖ ، وَ اَنْفَقَہٗ فِیْ حَقِّہٖ اَثَابَہُ اللہُ عَلَیْہِ وَاَوْرَدَہٗ جَنَّتَہٗ“دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، جس نے اس میں حلال ذریعہ سے مال کمایااور حق کے راستے میں خرچ کیا، تو اللہ اسے اس کا ثواب عطا فرمائے گا اور اسے جنت تک پہنچا دے گا، ”وَمَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا مِنْ غَیْرِ حَلِّہٖ، وَاَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ اَحَلَّہُ اللہُ دَارَ الْھَوَانِ“اور جس نے دنیا میں مال ناجائز طریقہ سے کمایااور اس کو ناحق طریقہ سے خرچ کیا ، توا للہ تعالیٰ اسے ذلت کی جگہ تک پہنچادے گا، ”وَ رُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِیْ مَالِ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ لَہٗ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مال کو ہتیانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی﴿کُلَّمَاِخَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا﴾(الاسراء:۹۷)ترجمہ: (وہ آگ) جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(کنزالایمان)۔ الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۱، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر شب آواز دیتاہے کہ جو حرام کھاتاہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ سنت ۔(کیمیائے سعادت)٭عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شبہے کا ایک درہم جو اس کے مالک کو واپس کردوں وہ میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص حرام کھاتاہے اس کے ساتوں اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ نا فرمانی میں مبتلا ہونا چاہے یا نہ چاہے اور جو شخص حلال کھاتاہے اس کے اعضا نیک کام میں لگے رہتے ہیں اور اس کو خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کے کسب اور حرام سے اجتناب کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین
Leave a Reply