جنسی بے راہ روی اور جھوٹے عشق و محبت کے تعلقات کو فروغ ملنے میں سب سے بڑا کردار ان والدین کا ہے جنہوں نے ایک تو اپنے بچوں کی تربیت قرآن و سنت کےمطابق نہیں کی، اور دوسری یہ کہ لڑکے، لڑکیوں کے مقررہ مدت میں رشتے کرنے میں دیری کی کیونکہ نکاح ایک فطری عمل ہے اگر شریعت کے مطابق بلوغت کو پہنچنے پر لڑکے، لڑکیوں کا انکے مناسب جوڑ کے لحاظ سے نکاح نہیں کروایا گیا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہونگے اور اسکا وبال والدین پر ہوگا، آج رشتہ کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ لڑکا کتنا ہی آوارہ قسم کا کیوں نہ ہو، اس میں دینداری نام کیلیے بھی باقی نہ رہے، اس کے بغیر نکاح کے جنسی تعلقات کئ کئی فاحشہ عورتوں سے ہو، بد اخلاق بد کردار ہو، تعلم یافتہ نہ بھی ہو، نہ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو، پھر بھی لڑکی والوں کا رشتہ تلاش کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اسکی دولت، زمین، کھیتی، پیسہ، بنگلہ، گاڑی، اسٹیٹس، دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی دین داری اور اخلاق کی بات کریں تو اسے یہ کہے کر خاموش کردیا جاتا ہے کہ اللہ ہدایت دینے والا ہے سدھر جائے گا، اور وہی اگر کسی مڈل کلاس کے با اخلاق با کردار لڑکے کا رشتہ آجائیں تو اسے خالی ہاتھ واپس کردیا جاتا ہے کہ ہماری لڑکی کے خرچے بہت ہیں یہ برداشت نہیں کر پائے گا، یہ کیسا اندھا انصاف ہے اور کیسا معیار معاشرے میں رواج عروج پارہا ہے کیا اللّٰه تعالیٰ قادر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے تو کیا وحدہُ لا شریک اس دیندار میڈل کلاس لڑکے کو مال و دولت سے نہیں نواز سکتا اصل چیز تو آخرت ہے اللہ اتنا مہربان ہے کہ آخرت کی کامیابی دے رہا ہے دنیا کونسی بڑی بات ہے اور دنیا کا نظام تو اللہ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہیں جب چاہے حالات تبدیل کر دیتا ہے، اور پھر اگر لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کو پسند بھی کرلیں تو وہاں والدین آڑ بن جاتے ہے حالانکہ کے یہ انکا حق ہے کے ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھیں تاکہ آگے چل کر کوئی پریشانی یا رشتہ میں دراڑ کا سبب نہ بن جائے ایسے بہت سے حادثات ہماری اطراف میں دیکھنے میں آتے ہیں کہ ماں باپ لڑکی پسند کرنے جاتے ہیں اور رشتہ بھی طے کرلیتے ہے لڑکے کو لڑکی نہیں بتائی جاتی اور لڑکی کو لڑکا نہیں بتایا جاتا، اور والدین سمجھتے ہے کہ ہم گھر کے بڑے ہے ہم نے جو طے کرلیا وہی ہوگا، اور پھر کچھ ہی دنوں یا مہینے میں وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر معیار پر دونوں خاندان اتر بھی گے تو ذات اور برادری کو دیکھا جاتا ہے ایسے بہت سے عمدہ رشتہ ذات و برادری کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں میں ایسے عمدہ رشتہ جانتا ہوں کہ لڑکی مفتیہ ہے اور لڑکا بھی تھوڑا بہت دینی تعلیم سے آراستہ مگر کیا برادری دونوں کی مختلف ہے بس پھر کیا اسی بے حس معاشرہ کے نظام کی نظر چڑھ گئے حالانکہ رشتے طے کرنے کا معیار یہ ہے کہ لڑکی کی دینداری دیکھی جائے نا کے حسن اور مال و دولت کو، دونوں طرف سے اگر یہ شریعت کے مطابق باتیں پائی جاتی ہے تو نکاح میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔
نکاح کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شوہر لڑکی کا کھانے پہنے رہنے کا خرچ اٹھانے کے قابل ہو، ایسی کئی احادیث نکاح کی تعلق سے ملتی ہے جس میں نکاح میں جلدی کرنے کیلیے کہا گیا ہے، آج معاشرے میں بگاڑ کا سبب خود والدین بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہی لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنے معیار کے مطابق رشتے تلاش کرنے میں اپنے بچوں کی جوانیاں برباد کررہے ہیں، آج لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جاتی ہے میرا کہنے کامقصد تعلیم سے روکنا نہیں ہے لیکن جو آج اعلیٰ تعلیم کے نام پر لڑکیوں کی عمریں شادی کی عمر سے تجاوز کر جاتی ہے اور پھر اخبارات اور ویب سائٹ، پر اشتہارات دیے جاتے ہیں اور پھر کوئی لڑکا نہیں ملتا جو ان تعلم یافتہ لڑکیوں سے شادی کریں یا پھر انکے معیار کا لڑکا نہیں مل پاتا جو انہیں اپنا سکے، ایسی ہزاروں لڑکیاں گھروں میں سسکیاں لے کر مر رہی ہے، اور معاشرے کا یہ رواج بن گیا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کیا جاتا بیوہ خواتین سے نکاح نہیں کیا جاتا اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیواؤں سے نکاح کیا۔
معاشرہ جنسی استحصال کا شکار ہورہا ہے، لڑکے لڑکیوں کے بروقت نکاح نہ کرنے کی بنا پر بے حیائی (فحاشی)، درندگی بڑھتی جارہی ہے۔
آج حالات یہ بنے ہوئے ہیں کے لڑکے لڑکیاں نکاح کی عمر کو پہنچ جاتے ہے اور کالجوں یونیورسٹیوں میں غیر محرموں سے تعلقات قائم کرلیتے ہے یہاں تک کے لڑکوں سے لڑکیاں عشق و محبت کے نام پر اپنے والدین اور دین و ایمان کو خیرباد کہہ دیتی ہیں ایسی کئ خبریں مل چکی ہیں۔والدین سمجھتے ہیں لڑکی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ بلا تحقیق بھروسے پر گاؤں سے شہروں کی طرف اپنی بچیوں کو ہاسٹل میں داخل کراتے ہیں، اور وہ غیروں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔
آج یہ معاشرہ اور ہمارے نوجوان جس میں اکثر یونیورسٹیوں کے لڑکے لڑکیاں موجود ہوتی ہے جو ایسی پارٹیوں کو شان سے سلیبریٹ کرتے ہیں جس میں ناچ گانا ہوتا ہے جہاں پر بنت حوا عشق و محبت کے جھوٹے بندھن میں پھنس کر اپنی عصمتیں گنوا دیتی ہیں اور پھر عمر بھر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچتا، یہ حالات اس وجہ سے عروج پارہے ہیں کیونکہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بالغ ہونے پر نکاح میں دیر کی جارہی ہیں اور وہ اپنی حوس کو مٹانے کیلیے ایسے غیر شرعی راستے اپناتی ہے بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہوتے ہے جو ایسے حالات میں خود پر قابو رکھ پاتے ہیں لیکن والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بالغ ہونے پر جوڑ کا رشتہ دیکھ کر فوراً نکاح کردیں، اگر صحیح اسلامی طریقہ پر فطری عمل کو پورا نہیں کیا گیا تو انسان کی فطرت ہے وہ غلط راستہ اختیار کرسکتا ہی اس لیے ضروری ہےکہ رشتوں کو اپنے اپنے معیار پر نہ پرکھے اور نا ہی اناؤ ذات پات برادری کے بت باندھ کر رکھے بلکہ شریعت کے معیار پر رشتہ کو ترجیح دیں اور نکاح کو آسان بنائیں تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔
یا اللّٰه ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔
ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما۔ ہمیں گمراہی کے راستے سے بچا۔ آمین۔
Leave a Reply