آج (29/جنوری 2022ء)نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے ہر دن کی طرح گنے چنے چند لوگ آۓ ہوۓ تھے(جیسا کہ بیشتر جگہوں کا حال ہے) جنہیں باسانی انگلیوں کے انامل پر گنا جا سکتا تھا۔ انہی نمازیوں کے ساتھ ایک ننھا بچہ بھی آیا ہوا تھا اس ننھی سی جان کے چہرے پر جہاں معصومیت نے غلاف ڈال رکھا تھا، وہیں کچھ سچی نیت سے کر گزرنے کا جذبۂ شوق بھی خوب عیاں تھا۔ پہلے تو بچے نے مسجد میں اپنی طبیعت بھر خوب تفریح کی۔ پھر یکلخت میرے قریب آ کر مسکراتے ہوۓ کہتا ہے “حافظ جی میں بھی نماز پڑھوں گا” ابھی میں کچھ کہہ بھی نہیں پایا تھا کہ بچے نے جلدی سے ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہا کہ “مجھے تو کچھ آتا بھی نہیں، میں اب کل پڑھوں گا اپنی امی سے پوچھ کر آؤں گا تب۔ اچھا جی! (آواز بڑی پیاری لگ رہی تھی صاحبزادے کی)۔ میں نے کہا بیٹا آۓ ہو تو میرے ساتھ پڑھ لو۔ حافظ جی کہا نا کہ مجھے کچھ نہیں آتا(شاید صاحبزادے کو میرے اصرار کرنے پر بہت جلال آ گیا تھا)میں نے کہا ” اچھا جیسے میں پڑھ رہا ہوں ویسے تو آپ پڑھ ہی سکتے ہو نا؟”۔ جی! ۔۔۔۔۔۔۔ میں نیت باندھ کر پڑھنے لگا۔ بچہ میری نقل کرتا ہوا اپنی نماز مکمل کرلی۔ میں دعا مانگنے لگا تو بچے کی دعا سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ دھیمی دھیمی آواز میں اپنے رب سے کہہ رہا تھا۔ “اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو”۔ بچہ بڑی لگن اور معصومیت سے اس دعا کو کئے جا رہا تھا۔ میں اس بچے کی دعا میں آہستہ آہستہ آمین کہتا ہوا شامل ہوگیا۔ جب بچے کی دعا ختم ہوئی۔ تو میں نے پوچھا منی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟بیٹا۔۔۔۔!!!! حافظ جی وہ میری بہن ہے ، وہ نانی کے یہاں ہے۔ میرے ابو خوب زیادہ پیسہ لائیں گے تو اپنی منی کی دوا لینے جاؤں گا ۔ میں بھی نانی کے یہاں جاؤں گا ۔ بچے نے جب اپنی بات ختم کی۔ تو میں نے پوچھا بیٹا منی کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ حافظ جی بیمار ہے منی میری، آپ دعا کرو نا حافظ جی میری منی کے لیے۔(آواز غم سے بہت نڈھال لگ رہی تھی، شاید منی کافی دن سے بیمار تھی) ہاں بیٹا دعا کروں گا ان شاءاللہ۔ پھر آگے ہمت نہ پڑی کہ بچے سے غم کی داستاں کچھ اور سنوں۔ یہ آواز اب بھی میرے کان میں گونج رہی ہے اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو” بچے کی عمر تین سے چار سال کے آس پاس رہی ہوگی۔ اور اس کی چھوٹی بیمار بہن جسے بچہ محبت سے منی کہہ کر اپنے رب سے شفا کی بھیک مانگ رہا تھا، اس کی عمر تقریبا ڈیڑھ سے دو سال ہوگی۔(یااللہ اس بچے کی منی کو شفاء کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ آمین)
شریک غم
Leave a Reply