دل سے جب پہنچا ہے کوئی مدّعی اجمیر میں
اس کی حسرت لازماً پوری ہوئی اجمیر میں
زائرِ اجمیر کے لب پر مسلسل ہے یہی
“چار سو پھیلی ہوئی ہے روشنی اجمیر میں”
بالیقیں ہوتا ہے شب میں بھی گمانِ نیم روز
سر پٹکتی پھرتی ہے تیرہ شبی اجمیر میں
در پہ ہوتا ہے سدا مستانِ خواجہ کا ہجوم
میں نے جا کے دیکھی ہے دیوانگی اجمیر میں
ہے مئے میخانۂ خواجہ نشانِ معرفت
آئیے کرتے ہیں چل کے میکشی اجمیر میں
جس کو بھی مطلوب ہو خلدِ بریں کا راستہ
وہ پڑھے جا کر دروسِ راستی اجمیر میں
با ادب ، نظریں جھکائے حاضرِ دربار رہ
نا روا ہے نفس! تیری سرکشی اجمیر میں
فلسفہ نوری! سمجھنا ہو غلامی کا اگر
جا کے پڑھیے داستانِ بندگی اجمیر میں
Leave a Reply