20 فروری 2022 عیسوی بروز اتوار مولانا صوفی عبدالکریم صاحب نیگرڑا کے بچوں کی شادی خانہ آبادی کے مبارک موقع پر “وامّابنعمة ربک فحدّث”پر عمل کرتے ہوئے بعد نماز مغرب فوراً ایک شاندار “جشن عید میلادالنّبی وسنّت رسول” کا انعقاد کیا گیا-اس جشن کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ یکے بعد دیگرے حضرت پیر سیّد محمداشرف جمالی صاحب جام سر،بیکانیر وقاری محمدحمیر صاحب بریاڑا نے بارگاہ رسول انام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم میں نعتہائے رسول کے نذرانے پیش کئے-پھر حضرت مولانا شاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر نے “انّ اکرمکم عندالله اتقٰکم” کو موضوع سخن بناتے ہوئے اسلاف کرام کے تقویٰ وطہارت اور ان کی عبادتوں بالخصوص نماز کی پابندی کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے لوگوں کو نماز کی پابندی کی تاکید وتلقین کی-بعدہ پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا الحاج محمدپٹھان صاحب سکندری [سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ، سم،جیسلمیر] سربراہ اعلیٰ:مدرسہ اہلسنّت فیض گلشنِ سکندری لاکھانیوں کی بستی،ریوڑی،فتح گڑھ،نے ذکر الٰہی کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ “بیشک اللّٰہ کا ذکر ہی ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے دلوں کو چین وسکون میسر آتا ہے اور یہی قرآن کا فیصلہ بھی ہے،لہٰذا ہم سکندریوں کے پیران طریقت نے ہمیں جوذکر کی تعلیم وتاکید کی ہے ہمیں نمازوں کی پابندی کے ساتھ اس پر مواظبت کرنی چاہییے”…آخر میں اس بزم کے خصوصی خطیب نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیّدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلّہ العالی مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر نے خصوص اورصدارتی خطاب فرمایا-آپ نے اپنے خطاب کے دوران قوم مسلم کے آپسی اتفاق واتحاد اور کتاب و سنت پر کار بند رہنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی فضیلت اور نتائج واضح کئے اور یہ بھی بتلایا کہ اس طرح پوری امت فتنوں سے محفوظ ہو جائے گی، نیز انہوں نے اختلافات، آپسی رسہ کشی اور تنازعات سے خبردار بھی کیا؛ کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔مزید آپ نے فرمایا کہ کسی بھی کام میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے کا واحد اور عمدہ طریقہ اتفاق واتحاد ہے،جس قوم یا جماعت میں اتفاق واتحاد نہیں وہ کمزور ہے،اتفاق واتحاد کی برکت سے ہم ہرایک منزل پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں،اتفاق واتحاد میں وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اتفاق ہر جگہ ضروری ہے،اس لیے کہ گھر کے افراد میں اگر اتفاق نہ ہو تو گھر خراب ہو جاتا ہے،خاندان میں اتفاق واتحاد نہ ہو تو خاندان تباہ وبرباد ہوجاتا ہے،ملک یا ریاست میں اتفاق نہ ہوتو امن وامان نہیں رہتا اور ہر طرف خطرہ پیدا ہوجاتا ہے جب کہ اتفاق سے یہ دنیا جنت بن جاتی ہے اور اگر اتفاق نہ ہو تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اکثر وبیشتر کامیابیاں اتفاق کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں،اتفاق سے قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے-اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ آپسی اتفاق واتحاد پر زور دیتے ہوئے ہم آپس میں کبھی نا اتفاقی نہ کریں”ساتھ ہی ساتھ آپ نے دینی وعصری تعلیم کے حصول پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ “ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی دھیان دیں کیونکہ علم خواہ دینی ہو یا دنیوی انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے، علم کی اہمیت وحی الہی کے آغاز سے مسلّم ہے،علیم و حکیم پروردگار نے انبیاء و رسل کو علم کی شمع جلانے،نور ہدایت کو عام کرنے،اور جہالت کی ظلمت کو کافور کرنے کے لیے معلمین انسانیت بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا،علم کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”العم نور والجھل ظلمة” علم ایک نور ہے اور جہالت ایک تاریکی،علم وہ شئ ہے جسے نہ چرایا جاسکتا ہے،نہ چھینا جا سکتا ہے،اور نہ ہی آگ علم کو جلا سکتی ہے،نہ دریا ڈبو سکتا ہے نہ سمندر غرق کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے کیڑے کھا سکتے ہیں، علم ہی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے العلم باق لا یزال (علم باقی رہنے والا جوہر ہے جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہوگا) کیونکہ یہ انبیاء کی میراث ہے ارشاد گرامی ہے:إنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ، وإنَّ الأنبياءَ، لم يُوَرِّثوا دينارًا، ولا درهمًا، إنما وَرّثوا العلمَ، فمن أخذه أخذ بحظٍّ وافرٍ (رواه أبو داود (3641)، والترمذي (2682)رہی بات خاص علم دین کی تواس کی اہمیت و فضیلت تو مسلّم ہے قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں، علم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعۂ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو علمِ دین ہے،یہی علم دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے قعر مذلت سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا،اسی علم دین سے جُڑے رہنے کی بنیاد پر اسلامی شوکت کا علَم بنجر وادیوں کی سربلند چوٹیوں پر لہرایا،اسی علم دین سے رشتہ و تعلق نے امت مسلمہ کو عظیم مناصب اور کامیابی کی بلند منازل پر فائز کیا،اسی علم دین سے وابستگی کی بنیاد پر کبھی ساری دنیا میں تہذیبِ اسلامی کا سویرا تھا،مغرب کی گمراہ کن تہذیب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔ان سب فضائل کے باوجود بھی آج ہمارا معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ہے، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد، اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا، کیا شہر، کیا گاؤں اور دیہات ہر جگہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہے ،اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے سے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے،اعلیٰ نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہے، دنیوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے بلکہ ہر علم نافع کا حصول بیحد ضروری ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عقاب ہے،حالانکہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے، ہر کلمہ گو پر فرض ہے، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، معاملات سے ہو یا معاشرت سے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:طلب العلم فريضة على كل مسلم.(رواه ابن ماجة)یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان کو احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک یقینا ان پر عمل پیرا ہونا بھی ناممکن اور مشکل ہوگا اور جب دین سے ناواقفیت کی وبا عام ہوگی تو امت طرح طرح کی پریشانیوں اور دشواریوں کا شکار ہو جائے گی۔چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے :عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا”.(متفق علیہ، مشکوٰة المصابیح:33)ترجمہ:حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ سے نبی کریم علیہ السلام کا یہ فرمان مروی ہے کہ الله رب العزت علم دین کو اچانک (بندوں کے سینوں سے) نہیں ختم کرے گا، لیکن وہ علماء کرام کو وفات دے کر علم دین کو ختم فرمائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم ( دین کا ضروری علم رکھنے والا) باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما اور راہبر بنالیں گے اور ان ہی سے مسائل پوچھیں گے ، وہ لوگوں کو بغیر جان کاری کے فتویٰ دیں گے اور مسائل بتائیں گے، جس کی وجہ سے خود بھی گم راہ ہوں گے اور عوام کو بھی گم راہ کریں گے۔ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جامع فرمان پر غور کیجئے!! اور دیکھیے کہ علم دین کے سلسلے میں معاشرہ کی کیا صورت حال ہے؟در حقیقت حدیث شریف میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اس وقت من وعن اسی صورت حال سے ہمارا معاشرہ گذر رہا ہے، علوم دینیہ سے بے رغبتی عام ہوگئی ہے لوگوں کو دین اور علم دین سے کوئی رغبت نہیں رہی اور عام لوگ جاہلوں کو ہی اپنا سردار اورراہ نما بناچکے ہیں،ان ہی سے مشورے کرتے ہیں حد تو یہ ہوگئی کہ اب ان ہی سے مسائل بھی پوچھ رہے ہیں، بے دینی کے عام ہونے اور علم دین سے بے رغبتی اور علماء دین کی تحقیر کی بنا پر آج عوام خود بھی گمراہی کے شکار ہیں اور اوروں کو بھی اس گمراہی میں گھسیٹ رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں آج مسلمان عقائد و احکام میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں،عبادات و معاملات کی ادائیگی میں غافل ہیں،معاشرت و معیشت کے اسلامی اصول سے بالکلیہ ناواقف ہیں،حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد دونوں کی ادائیگی پر کوئی توجہ باقی نہیں ہے، ذہنوں میں صبح وشام،رات ودن حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنے کی فکر سوارہے-اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے،اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر کے ساتھ آپس میں اتفاق واتحاد اور محبت ومودت کی زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-صلوٰة وسلام اور دعا پر یہ مجلس خیر اختتام پزیر ہوئی
-رپورٹ
:محمد نصیر انواری بن محمدآدم متعلم درجۂ فضیلت:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)
Leave a Reply