WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کشمیر فائلس: مسلم نسل کشی کی بھیانک تیاری…..مشتاق نوری ۱۶؍مارچ ۲۰۲۲ء

کشمیر فائلس: مسلم نسل کشی کی بھیانک تیاری…..مشتاق نوری ۱۶؍مارچ ۲۰۲۲ء

. 😢😢😢

کل ایک پرنٹ اخبار سو توپ کے برابر تھا۔آج ایک الیکٹرانک میڈیا ہاوس ہزار توپ کے برابر ہے۔اور جب میڈیا فرقہ واریت کا قائل ہو تب تو یہ توپ سے آگے نکل کر کسی جان لیوا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔تب انصاف و رواداری تیل بیچنے نکل جاتا ہے۔وہاں صرف طاقتور خیمے کا متعصبانہ ایجنڈہ ہی حق ہوتا ہے۔تب کورٹ قانون سب لولہے لنگڑے بنے رہنے میں بھلائی خیال کرتا ہے۔باقی کمزور طبقے کا دکھ درد سب ڈھکوسلا یا ڈھونگ کہلاتا ہے۔یہ کام میڈیا کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یہ میڈیا بھی نا بڑا پاور فل ہوتا ہے راتوں رات ہیرو کو ویلن، ظالم کو مظلوم اور فرقہ پرست کو روادار بنا دیتا ہے۔کچھ یہی حال اہل کشمیر کا ہوا۔جو اب تک مظلوم ہیں جن کی آواز تک دبا دی گئی ہے۔جن پر طویل عرصے تک لاک ڈاؤن مسلط رکھا گیا۔ایک فلم کے ذریعے انہیں دنیا کے سامنے دہشت گرد،ظالم، کٹر پنتھ، علیحدگی پسند بنا کر پیش کر دیا گیا۔سب جرم میری ذات سے منسوب ہے محسن کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارےکشمیر فائلس کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لیے اس وقت ملک کا ہر ہندو خود میں میڈیا ہاؤس بنا ہوا ہے۔بہار کے ایک یوٹیوبر نے اپنے خرچے سے ۲۵ سو لوگوں کو فلم دکھانے کا اعلان کیا ہے اور ٹکٹیں بک کروا چکا ہے۔اس فلم کو واشنگٹن ڈی سی میں دکھایا گیا۔کئی دوسرے ملکوں میں دکھاۓ جانے کے قواعد چل رہے ہیں۔انوپم کھیر ویڈیو جاری کر کے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو راشٹر بھکت ہوگا جو اصلی ہندو ہوگا وہ ضرور اس فلم کو دیکھے گا۔ایسے میں کون ظالم اپنی راشٹر بھکتی یا ہندوتو کو خطرے میں ڈالے گا۔مسلم سماج کے خیر خواہ اب تک صرف اسی غم میں مبتلا رہے کہ ہندووں نے کئی سینائیں، کئی طرح کے تشدد آمادہ دل بنا لیے ہیں۔کرنی سینا، رام سینا،شیو سینا، بجرنگ دل، ہندو رکشا دل، وغیرہ ملک میں اس طرح کے قریب قریب چھوٹے بڑے ۳۰ ہزار گروپ کام پر لگے ہیں جن کا اصل مقصد ہی ہے دنگا بھڑکانا، اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانا۔ہر ایک کا لنک بجرنگ دل سے ملتا ہے اور بجرنگ دل آر ایس ایس کا ٹرینڈ لڑاکو دستہ ہے جس میں ہر شعبے کے لوگ جڑے ہوۓ ہیں۔ہم یہ بھول ہی گئے کہ یہ ۲۱ ویں صدی ہے اب گولی، بارود و بم سے جنگ نہیں لڑی جائے گی اس برقی دور میں ڈیجیٹل وار سے اپنے دشمنوں کو گھات لگا کر مات دیا جاۓ گا۔یہ کشمیر فائلس تو آج آئی ہے۔ورنہ بالی ووڈ میں ہزاروں ایسی فلمیں بن چکی ہیں جس میں ہمیں ہر بار اتنکوادی اور ظالم دکھایا گیا ہے۔جس فلم میں بھی اس طرح کا کردار پلے کیا جاتا ہے اسے ڈراونا بنانے، مسلم سماج کے تئیں نفرت برپا کرنے کے لیے ویلن کو کرتا پاجامہ پہنا کر اس کے کندھوں پر سلیقے سے عربی رومال بھی ڈال دیا جاتا ہے۔یہیں تک نہیں رکتے بلکہ جب بھی کسی اتنکوادی کردار کو دکھانا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح بھی تھما دی جاتی ہے۔وہ اللہ اکبر اللہ اکبر بھی کہتا رہتا ہے۔یہ حال صرف بالی ووڈ کا نہیں بلکہ جنوبی ہند کے مختلف صوبوں میں بنی فلموں سے لے کر بھوجپوری فلموں تک یہی کچھ دکھایا جاتا رہا ہے۔آج سے لگ بھگ دس ماہ قبل فیسبک چلاتے ہوئے نرہوا کی کسی فلم کی ۹ منٹ کی ایک ویڈیو کلپ سامنے چلنے لگی۔اس میں ویلن کرتا پا جامہ، کندھے پر عربی رومال اور ہاتھ میں تسبیح لے کر ایک ہندو فیملی کے گھر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ویلن کا چھوٹا بھائی یہ کہتے ہوۓ ہندو لڑکی کا بلاتکار کر دیتا ہے چل تجھے جنت بھیج دیتا ہوں۔قسم خدا کی میں نے اسی وقت اس کلپ کے کمینٹس چیک کیے تو دماغ کو زور کا جھٹکا لگا کہ اس میں سارے کمینٹ کرنے والے کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو مسلم عورتوں کو بھدی بھدی گالیاں دے چکے تھے۔دس منٹ کے ویڈیو کلپ کے ویوز اس وقت 4.5 ملین تھا یعنی صرف فیسبک کے اس پیج پر اس ویڈیو کو تقریبا ۴۵ لاکھ لوگ دیکھ کر مسلمانوں کے تئیں اپنے دل میں نفرت کی آگ مزید بھڑکا چکے تھے۔غالبا ۲۰۰۳ میں طالبان نام کی ایک فلم آئی تھی جس میں طالبانیوں کو صرف دہشت گرد نہیں دکھایا گیا ہے بلکہ انہیں عورت کا دشمن، جاہل، گنوار اور عیاش دکھایا گیا ہے۔اس فلم کو دیکھ کر کوئی بھی ہندو طالبان سے شدید نفرت کرے گایہ صرف ایک مووی کی بات نہیں ہے۔ایسی ہزاروں موویز آ چکی ہیں جس میں دین و شریعت کی کھِلی اڑائی گئی ہے۔دین کو دہشت گردی کا اڈہ دکھایا گیا ہے۔مسلم سماج کو سیدھے ظالم و جابر دکھایا گیا ہے۔اکثر فلموں میں چکلہ یعنی رنڈی خانہ چلانے والا کسی مسلم کو دکھایا جاتا ہے۔اس سے سماج پر کتنا برا اثر پڑا ہے ہم تو سیریس لیتے ہی نہیں۔فلمی دنیا نے ہمیں چکلہ چلانے والا باور کرا دیا کہ سارے قحبہ خانے ہم ہی چلاتے ہیں۔اور ہمارے نوجوان دیکھ کر خوش ہیں۔کشمیر فائلس آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ستون ہے۔آپ محسوس کر رہے ہیں؟ آج سارا میڈیا دن رات کشمیر فائلس پر ہی پروگرام کر رہا ہے۔مطلب وہ اپنے ٹارگٹ کی طرف تیزی بڑھ رہے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے جو کام میڈیا یا آر ایس ایس کے ہرکارے نہیں کر پاۓ تھے کشمیر فائلس نے ایک رات میں سب کر دیا۔سارے ہندو جذباتی ہو کر فلم دیکھنے ہال تک جاتے ہیں اور روتے ہوۓ نکل رہے ہیں۔کوئی نکلتے ہی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ابھی ایک ویڈیو دیکھا اس میں کشمیر فائلس دیکھنے کے بعد ایک آدمی سارے ہندو نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو کاٹنے کی اپیل کرتا ہے۔اور جذباتی ہو کر یہ بھی کہتا ہے کہ میں بیس کو کاٹوں گا۔کشمیر فائلس سے آر ایس ایس کا پلان بالکل کامیاب ہوتا دکھ رہا ہے۔۲۰۲۴ میں پھر مودی کی سرکار بن رہی ہے۔اس کا معنی مخالف، رام راج کا راستہ کلیئر ہونے کو ہے۔اس فلم سے آنے والے وقتوں میں ہندو مسلم کھائی مزید گہراتی چلی جاۓ گی۔ہندو لڑکے اور نفرتی بن جائیں گے۔ماب لنچنگ کی واردات بڑھ جاۓ گی۔ورنہ اس فلم کے اس قدر ہنگامہ خیز پروموشن کا مقصد ہی کیا ہے؟اس فلم کا منفی اثر جو کبھی مالی کبھی بدنی تو کبھی سماجی ضیاع کو بڑھاوا دے گا۔اقلیت کے خلاف تشدد و نفرت کو لوگ اپنا دھرم سدھ ادھیکار (مذہب کا دیا گیا حق) سمجھیں گے۔اس کی چپیٹ میں سب سے زیادہ کشمیر کے وہ طلبہ، وینڈرس،پھیری والے تجار ہوں گے جو ملک کے مختلف قریات و امصار میں رہ رہے ہیں۔ان کو زد و کوب ہی نہیں ان کا گلہ کاٹ کر لوگ کہیں گے کہ سنودھان کی رکشا کے لیے، لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے لیے ان کی لنچنگ ضروری تھی۔کشمیری پنڈتوں جو کشمیر کی پتھریلی زمین پر کاشت کاری کرکے گزر بسر کر رہے تھے۔پہلے سے ہر فیملی کو دس ہزار روپے، مہینہ بھر کا راشن اور کم سے کم ایک آدمی کو نوکری دے دی گئی ہے اب انہیں مزید ہمدردیاں ملیں گی۔پیسے بھی برسیں گے۔دوسرا وہ طبقہ جس پر اس فلم کی نحوست پڑنے والی ہے۔وہ ہے کرتا پا جامہ والے مولوی برادری کے لوگ جو ملک کے ٗ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ اس فلم کی ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے مسجدوں کے منبروں سے امام لوگ اعلان کر رہے ہیں۔فلم میکر یہیں پر نہیں رکے، اس نے تو ہندو جذبات کو مزید بھڑکانے کے لیے یہ بھی بڑھا دیا ہے کہ ہر مسجد کا امام اعلان میں کہ رہا ہے کہ “سارے ہندو اپنی اپنی جوان لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جائیں یہ ہماری گزارش نہیں، حکم ہے”پوری فلم نہ بھی دکھائی جاۓ، صرف تیس سیکنڈ کی چھوٹی سی یہی کلپ دکھا دی جاۓ تب بھی اتنی آگ لگ جاۓ گی جتنی لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بدترین جملے سے کس کے جذبات نہیں بھڑکیں گے؟ کس کو طیش نہیں آۓ گا؟ کون ہوگا جو مسجد کے امام کا یہ اعلان سنے گا اور آج علما و طلبہ سے سخت ترین نفرت نہیں کرے گا؟آخر ظلم کا یہ تسلسل کہاں جا کر ٹوٹے گا؟اور خون کتنا بہے گا؟ساحر لدھیانوی کے لفظوں میںظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہےخون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گااگر مان بھی لیں کہ کشمیریوں نے پنڈتوں کی نسل کشی کی اور انہیں وہاں سے بھگا دیا تاہم یہ بات کبھی قابل قبول نہیں کہ مسجدوں سے یہ اعلان کیا گیا تھا “کہ اپنی اپنی لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جاو”۔ایک خراب سے خراب ترین مسلمان بھی یہ کام نہیں کرے گا۔مگر نفرت کے پجاریوں نے فلم میں وہ سارا مسالہ ڈال دیا ہے جس سے ہندو سماج برافروختہ ہو جاۓ۔طیش میں آکر بدلہ لینے کے لیے مسلم گھروں میں گھس کر خواتین کی آبرو سے کھیلے۔ہم آپ سوچتے رہیں گے مگر فلم جس کام کے لیے بنائی گئی تھی اس میں وہ ۱۱۰ فیصد کامیاب ہے۔آج مودی کا اپنا سارا بھاشن اسی فلم پر رہا ہے۔اس نے زور دے کر کہا کہ ایسی فلمیں بار بار بننی چاہیے۔انوپم کھیر کی لوٹری لگ گئی اب ہر ہندو اس فلم کو سنیماگھروں میں جاکر بڑے پردے پر دیکھ رہا ہے۔اس سے اس کی کمائی بھی ہوئی۔ہندوؤں کا ہیرو بھی بن گیا۔اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب بھی پورا ہونے کو ہے۔جب کشمیر فائلس بن گئی تو اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کشمیر فائلس کا مقابلہ گجرات فائلس، بھاگل پور فائلس،ہاشم پورا فائلس،میرٹھ فائلس بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ستم کہیے کہ مسلم سماج کسی طرح کی بھی فائلس بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جب یہ کرناٹکا میں حجاب معاملے میں مات کھا گیا تو اتنے بڑے معاملے کو ہینڈل کرنا اس کے بس میں نہیں۔جانے کب سے سارے اسکولس کالجوں میں سرسوتی پوجا کا آیوجن کیا جاتا رہا ہے۔اگر اس گرم توے پر روٹی سیکنی ہو تو ملک بھر کے تھانوں کچہریوں میں اس پوجا کے خلاف پی آئی ایل داخل کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے کیا نہیں۔کشمیر فائلس کے کتنے پنے کھلے، کتنے جان بوجھ کر چھپاۓ گئے۔کتنے پنے سے نظریں چرائی گئیں اس کا فیصلہ تو اب ملک کی عدالت میں بھی نہیں ہو سکتا۔اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *