ایک مَثَل مشہور ہے
تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برأت۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو دعاؤں سے نوازتا ہے تو یہ کہتا ہے:تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برات، عید سے مراد عید الفطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے اور شب برآت سے مراد پندرہویں شعبان المعظم کی رات۔ شوال کی پہلی تاریخ عید کے طور پر اس لیے منائی جاتی ہے کہ مسلمان رمضان کے تیس روزے مکمل کرتا ہے اور تکمیل روزہ کی خوشی میں وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور مسرت سے سرشار ہوکر شوال کی پہلی تاریخ کو وہ عید مناتا ہے۔
تو پھر شب برات کس خوشی میں منائی جاتی ہے ؟ ہر رات شب برات جیسی ہو ، یہ دعا کیوں دی جاتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاریخ اپنی قوم اور دیگر اقوام میں کیوں اہمیت رکھتی ہے۔پندرہ شعبان کو فارس کے لوگ خوشیاں مناتے آئے ہیں اور اسے وہ جشن مھر کا نام دیتے ہیں اور اس جشن میں وہ اپنے یزتھا مترا کی تعظیم بجالاتے ہیں ۔اہل تشیع پندرہویں شعبان میں خوشیاں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق پندرہ شعبان ٢٥٦ ہجری کو بارھویں امام محمد بن الحسن المھدی پیدا ہوئے تھے۔اور ہر گھر میں اس رات امام محمد الحسن المھدی کے نام فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔یہ منظر ہم نے دبئی میں دیکھا تھا کیونکہ ہمارے کچھ کسٹومرز اہل تشیع تھے جو اپنے گھروں میں بہت دھوم دھام سے یوم ولادت امام محمد الحسن المھدی کے طور پر پندرھویں شعبان کی خوشیاں مناتے تھے۔لیکن ہم اہل سنت کے لیے کون سی خوشی کی بات ہے کہ ہم اس قدر اہتمام سے شب برات مناتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں ۔خوشبو لگاتے ہیں، نئے کپڑے/ صاف ستھرے پہنتے ہیں، ، رات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اور رات بھر مسجدوں میں خدا کی عبادات کرتے ہیں ۔ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ہم زندگی ایسی گزاریں کہ آخرت میں خدا و رسول کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہوں ۔اگر مسلمان شریعت مطہرہ کے بتائےہوئے ہوئے طریقوں پر چلے تو اس کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی۔لیکن مسلمان آخر ایک انسان ہی تو ہے ، ایک بشر ہی تو ہے۔انسان کے اندر جہاں نفس مطمئنہ و نفس لوامہ ہیں وہیں نفس امارہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے ۔ان غلطیوں کی مغفرت کیسے ہو؟ ان غلطیوں کی معافی کی راہ ہموار کیسے ہو ؟ کیا کوئی راستہ ہے جس سے انسان کی غلطیاں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے سے پہلے معاف ہوجائیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔خدا غفور الرحیم ہے، خدا کریم ہے،خدا غفار ہے ، خدا رحمان ہے۔خدا قادر مطلق ہے ۔ وہ جب چاہے ہماری توبہ قبول فرمالے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا ہم پر بے پایاں احسان ہے کہ رب کریم نے کچھ خاص راتیں مقرر کی ہیں جن میں خصوصی رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔ان راتوں میں اگر مسلمان اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرے تو خدا مسلمان پر خصوصی کرم فرماتے ہوئے معاف فرمادیتا ہے۔ انھی راتوں میں سے ایک رات ہے جس کا نام ہے شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ چونکہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں اور گناہ کی معافی ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ باعث مسرت و شادمانی ، وجہ کیف و سرور ہوتی ہے ، اس لیے مسلمان اس رات کو خوشیاں مناتا ہے کہ شب برات گناہ بخشوانے کی رات ہے ، شب برات مغفرت کی رات ہے ،شب برات رحمتوں کے نزول ہونے کی رات ہے ۔شب برات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے کے بارے میں رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان میرا مہینہ ہے۔جس مہینے کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا مہینہ کہیں اس مہینے کی عظمت کا کیا کہنا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کو اپنا مہینہ کیوں فرمایا؟ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے :١.شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار شفاعت عطا فرمایا ۔٢.شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دلی خواہش کی تکمیل رب کریم نے فرمائی یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے عوض کعبہء معظمہ بن گیا ۔ ٣.شعبان میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔شب برات وہ رات ہے جس کو فرشتوں کے لیے عید سے تعبیر کیا گیا ۔شب برآت اسلامی تاریخ کی اہم ترین رات ہے۔شب برأت جود و عطا کی رات ہے شب برأت اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی تھیشب برات وہ رات ہے جس رات کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔ شب برات برکتوں والی رات ہے شب برات دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات ہے شب برات دستاویز والی رات ہے شب برأت اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات ہے شب برأت وہ رات ہے جس کا نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا کیونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں شب برات وہ رات ہے جس رات میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔شب برأت وہ رات ہے جس میں دعا رد نہیں ہوتی بلکہ قبول ہوتی ہے ۔شب برأت تقدیس والی رات ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برآتجس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح ماہ شعبان تمام مہینوں سے افضل ہے ۔لہذا ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ماہ شعبان میں خصوصاً پندرہویں شعبان میں روزے رکھیں اور پندرہویں شعبان کی رات میں رب کی عبادت کریں ، نبی پر درود بھیجنے کا اہتمام کریں اور خوب توبہ و استغفار کریں ۔ابو نصر نے اپنے والد سے نقل کی ہے جو انھوں نے بالاسناد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔لہذا اگر ہمیں شب برات کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی بخشش کا سامان کریں ۔الحمد لللہ ہم مسلمان ہیں ، شرک نہیں کرتے ۔آپس میں اگر دل کے اندر بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں تو بغض و کینہ کو دل سے نکال دیں ، رشتہ داروں سے اگر قطع تعلق ہے تو رشتہ داری کو استوار/ بحال کریں ، اگر کوئی شخص رشتہ داری کو استوار/ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے نہ روکیں ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔حقوق العباد کا خیال رکھیں ، کسی کا دل نہ توڑیں ، کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں ، کسی کی زمین کو ناجائز طور پر ہڑپنے کی کوشش نہ کریں ، دل کو صاف و شفاف رکھیں اور دل سے حسد،بغض ، کینہ ، عناد کے کیڑے مکوڑوں کو نکال کر باہر پھینک دیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سےتم پر کرےگی ہر گھڑی نصرت شب برآت شب برأت میں مسجد کو آباد کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ، درود کا ورد کریں ۔نفل نمازوں کا اہتمام کریں ، لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کو عشاء اور فجر کی نمازیں جو فرض ہیں انھیں بھی ادا کرنی ہیں اور باجماعت ادا کرنی ہیں ۔ایسا ہر گز نہ کریں کہ رات بھر نفل پڑھیں اور فجر کی نماز کے وقت سوجائیں۔مستحبات کو فرض پر ترجیح نہ دیں ۔پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔سفر ہو کہ حضر، گھر ہو کہ باہر ، حالت امن ہو یا حالت مصیبت، ہر حال میں ایک مسلمان کو پنج وقتہ نمازوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔صحابہء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں، صحابہء کرام کے دور کو یاد کریں ۔صحابہء کرام دوران جنگ بھی فرض نمازوں کا اہتمام کرتے تھے ۔قرآن کا مطالعہ کریں ۔قرآن میں ہے :اور اے محبوب جب تم ان میں تشریف فرماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ تم میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہوجاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں اور تم پر مضائقہ نہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے پھر جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر حسب دستور نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہء آیت قرآن میں نماز خوف کا بیان ہے۔جہاد میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے مع تمام اصحاب کے نماز ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انھیں افسوس ہوا انھوں نے اس وقت کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا جب بعضوں نے ان سے کہا اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نماز عصر جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری طاقت سے حملہ کرکے انھیں قتل کردو اس وقت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نماز خوف ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے واذا کنت فیھم ۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ایک ان میں سے آپ کے ساتھ رہے آپ انھیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں قائم رہے ۔نماز خوف کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ پہلی جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پوری کرکے دشمن کے مقابل جائے اور دوسری جماعت جو دشمن کے مقابل کھڑی تھی وہ آکر امام کے ساتھ دوسرے رکعت پڑھے فقط امام سلام پھیرے اور پہلی جماعت آکر دوسری رکعت بغیر قرآت کے پڑھے اور سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابل چلی جائے پھر دوسری جماعت اپنی جگہ آکر ایک رکعت جو باقی رہی تھی اس کو قرآت کے ساتھ پورا کرکے سلام پھیرے ۔حالت خوف میں دشمن کے مقابل اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کس قدر ضروری ہے ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان شب معراج یا شب برآت کا روزہ رکھے اور رمضان کے فرض روزے ترک کردے؟ اگر ایسا کوئی کرے تو کیا وہ گنہگار نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی شب معراج یا شب برآت میں نفل نمازیں ادا کرے مگر عشاء اور فجر کی نماز چھوڑ دے یا فرض نمازیں جماعت سے نہ پڑھے تو وہ بھی گنہگار ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،ماہ شعبان و شب برآت کی قدر کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ، شب برآت میں عبادت کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شعبان کے پندرہویں دن میں روزہ رکھنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
سید خادم رسول عینی
ما شاء اللہ
عمدہ پیش کش