کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حجاب کے خلاف آیا۔یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا کیونکہ یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ مڈل کلاس کے خلاف بھی ہے۔اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ ایلایٹ فیمیلی کی مستورات نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتیں ،البتہ جو مستورات مڈل کلاس یا لوور کلاس سے وابسطہ ہیں وہ کالجوں میں برقع یا نقاب کا استعمال کرتی ہیں ۔ یہ ان کا پرسنل چوائس ہے۔انھیں علمائے کرام نے مجبور نہیں کیا کہ آپ لوگ نقاب / حجاب میں ہی رہو۔نقاب پہننا ان کا پرسنل ڈیسیزن/ فیصلہ ہے کیونکہ وہ موڈیسٹی / حیا پسند کرتی ہیں اور ان کے گھر میں ان کی تربیت بھی ایسی رہی ہوگی۔نقاب پہننا شریعت اسلامی میں لازم ہے کہ نہیں یہ ایک الگ مسءلہ ہے ۔کورٹ کا حجاب کے خلاف فیصلہ دینا انسان کی آزادی کے خلاف ہے، مستورات کے رائیٹس کے خلاف ہے ۔ہمیں کورٹ سے ایسے فیصلے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کیرلا کے ایک اسکول میں ایک عیسائی طالب علم مورننگ پرئیر کے وقت نیشنل اینتھم پڑھنے سے انکار کردیا اس وجہ سے کہ اس گیت کے پڑھنے کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔یہ معاملہ کورٹ تک پہنچا اور کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ انڈین کانسٹیچیوشن کے مطابق سب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، لہذا طالب علم کے لیے نیشنل اینتھم کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اس عمل کو ملک سے غداری سے تعبیر کیا جائےگا۔لیکن افسوس کہ آج کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف مذہبی آزادی کے خلاف رہا بلکہ انسانی آزادی کے بھی خلاف ہوا۔لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ایوری کلاؤڈ ہیز اے سلور لاءننگ ٹھو۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر مہاراشٹرا کے ہائی کورٹ نے حجاب کی حمایت میں فیصلہ صادر کیا۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہر سال مارچ ١٥ کو عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا۔اسلامو پھوبیا کسے کہتے ہیں ؟ عوام کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف پیوست کرنا اسلامو پھوبیا ہے۔سماج میں یہ احساس دلانا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اسلامو پھوبیا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے اسلامو پھوبیا ہے۔جارج برنارڈ شا نے کبھی کہا تھا کہ اسلام از دی بیسٹ ریلیزین اینڈ مسلمز آر دی ورسٹ کامیونیٹی۔اس قسم کے کئی کوٹس غیر مسلم دانشوروں کی جانب سے تاریخ میں رقم ہیں ۔ان کوٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمو پھوبیا پہلے بھی تھا ، لیکن اسلامو پھوبیا نہیں تھا ۔مذہب اسلام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اسلامو پھوبیا ایک نئی اصطلاح ہے۔غالبا” سن ٢٠٠٠ ء سے اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے اور اسلام کے خلاف ، اسلام کے قوانین کے خلاف سازشیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں میڈیا نے اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے اس لفظ کی خوب تشہیر کی۔ انڈین جرنلسٹ برکھا دت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بھی اسلامو پھوبیا کی شکار ہے اور ڈرتی ہے کہ شاید اس کے پڑوسی فلیٹ میں رہتا ہوا مسلم شخص بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دہشت گرد بن گیا ہو ۔اسلامو پھوبیا کے خلاف اس سے پہلے بھی آوازیں اٹھی ہیں ۔ ٢٦ ستمبر ٢٠١٨ میں بروسیلس کے پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پاس ہوا تھا جس کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی تھی کہ پورے یوروپ میں اسلامو پھوبیا کے خلاف ایک مہم چلائی جاۓ اور لوگوں کو سمجھایا جاۓ کہ اسلام ایک پر امن مذہب کا نام ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردی نہیں سکھاتا ۔لیکن بروسیلس کا یہ قرار داد یوروپ کے لیے تھا ، اسکا دائرء عمل یوروپی ممالک تک محدود تھا ۔پورے کرہء ارض کے لیے اس قسم کی تحریک کبھی چلائی نہیں گئی تھی ۔پہلی بار ایسا ہوا جیسا کہ اقوام متحدہ نے ١٦ مارچ ٢٠٢٢ میں یہ فیصلہ لیا کہ ہر سال ١٥ مارچ ٢٠٢٢ عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا تاکہ عوام کا نظریہ اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے تعلق سے صاف ہوجائے اور عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ شانتی کے پرتیک ہیں ۔ہم اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے ساتھ کرتے ہیں :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔
Leave a Reply