۔اعلیٰ حضرت کے خلف اکبر، مجاہد ملت کے مرشد خلافت حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی سیدی حامد رضا علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین، مفتیء شرع متین ، فقیہ اسلام ، مناظر اہل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ادیب اور باکمال شاعر بھی تھے۔آپ نے حمد، نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں جنھیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور قلب کو قرار ملتا ہے۔حجۃ الاسلام کی نعتیہ شاعری میں فصاحت و بلاغت کا حسن ہے تو تشبیہات و استعارات کی رعنائی بھی۔ الفاظ و محاورات کا جمال ہے تو صنایع و بدائع کی خوب صورتی بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام دیگر شعرا کے کلام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔”معارف رضا “میں سرکار حجۃالاسلام کا ایک نعتیہ کلام نظر سے گزرا۔اس کلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مستفید و محظوظ ہوں :ہے عرش بریں پر جلوہ فگن محبوب خدا سبحان اللہ
اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ
حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر
راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ
طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف
پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ
سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن و الفت کے
خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ
اس کلام کے ارکان ہیں :فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
اور اس بحر کا نام ہے :بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثلم بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثرم مسکن گویا آپ نے اس کلام میں زحاف ثلم، ثرم، تسکین کا استعمال کیا ہے اور چند مقامات پر زحاف تسبیغ کا بھی استعمال فرمایا ہے۔اشعار کے مختلف مقامات پر، صدر، ابتدا، حشو ، ضرب، عروض میں اتنے سارے زحافات کا استعمال کرنا حجۃالاسلام کے استادانہ کمال اور مہارت در علم عروض کا پتہ دیتا ہے۔ حجۃالاسلام کے اس کلام میں صنعت تلمیح بھی ہے اورصنعت اشتقاق بھی، صنعت عکس بھی ہے اور صنعت تجنیس زائد بھی۔صنعت تضاد بھی ہے اور صنعت تنسیق الصفات بھی۔صنعت تفویت بھی ہے اور صنعت تہذیب و تادیب بھی ،صنعت ترتیب بھی ہے اور صنعت طباق بھی۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور صنعت مراعاۃ النظیر بھی۔ صنعت فرائد بھی ہے اور صنعت کنایہ بھی۔
حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر
راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ
حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔یہ جملہ خبریہ ہے اور صدق خبر بھی، کیونکہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اک آن میں مکہ سے بیت المقدس، پھر آسمان، سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں تشریف لے گیے اور واپس کرہء ارض پر تشریف بھی لے آئے ۔اس مصرع میں برق کا استعمال اپنے موقف میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ مقتضیء حال کے مطابق بھی ہے ۔ سائنس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں سب سے تیز جو شیء حرکت کرتی ہے وہ روشنی ہے اور روشنی کی ایک شکل ہے برق ۔ برق کی رفتار کتنی ہے ؟ برق کی رفتار ہے ١٨٦٠٠٠ میل فی سیکنڈ ، جبکہ آواز کی رفتار ہے ٣٤٣ میٹر فی سیکںڈ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی پہلے دکھائی دیتی ہے اور گرج کی آواز بعد میں سنائی دیتی ھے۔ نظر کی رفتار روشنی / برق سے بھی کم ہوتی ہے۔کرہء ارض سے سورج تک دوری ہے ٩٣ ملین میل۔سورج ، کرہء ارض سے سب سے نزدیک کا ایک ستارہ ہے ۔اگر سورج کی دوری ٩٣ ملین میل ہے تو اندازہ لگائیں ساتوں آسمان، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں کی دوری کتنی ہوگی۔ اور حضور صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک آن میں لامکاں جاکے تشریف لے آئے۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کے سامنے نظر/ روشنی/ برق کی رفتار کی کیا حیثیت ؟اس لیے حجۃالاسلام نے کہا:
حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔اس مصرع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی رفتار کو نظر اور برق سے تشبیہ دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ ہے تیزی ۔ برق کے استعمال سے بصری پیکر تراشی کا حسن بھی جلوہ گر ہوگیا ہے ۔
راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ
۔اس مصرع میں راکب کے ساتھ ساتھ مرکب کے استعمال نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہاں راکب سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرکب سے مراد براق/ رف رف ۔حجۃالاسلام ایک اور نعتیہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نہ کوئی ماہ وش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوب خدا تم ہو ۔حجۃالاسلام نے اس شعر کے ذریعہ تشبیہات و استعارات جن سے عموما” مجازی فضا تیار کی جاتی ہے ان کو رد کیا ہے اور رد کرتے ہوئے ممدوح گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی توصیف بیان کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔اس قبیل کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ و خورشید سیاروں ستاروں کی ضیا تم ہو
وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا
اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو
نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر
تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو
تم ہو حبیب کبریا پیاری تمھاری ہر ادا
تم سا کوئی حسیں بھی ہے گلشن روزگار میں ؟
صنعت اقتباس کے حسن سے مزین یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو
انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا
سرکار حجۃالاسلام کے اشعار میں پیکر تراشی کے جلوے ملاحظہ فرمائیں:
ماہ تری رکاب میں نور ہے آفتاب میں
بو ہے تری گلاب میں رنگ ترا انار میں
گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں
جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہ تمام دو
سارے بہاروں کی دلھن ہے میرے پھول کا چمن
گلشن ناز کی پھبن طیبہ کے خار خار میں
سوسن و یاسمن سمن سنبل و لالہ نسترن
سارا ہرا بھرا چمن پھولا اسی بہار میں
ان کی جبین نور پر زلف سیہ بکھر گئی
جمع ہیں ایک وقت میں ضدین صبح و شام دو
حجۃالاسلام کے ان اشعار میں بصری پیکر تراشی بھی ہے اور سماعی پیکر تراشی بھی، لمسی پیکر تراشی بھی ہے اور مشامی پیکر تراشی بھی۔ در حقیقت حجۃالاسلام کے کلاموں میں لفظوں کی ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے کہ جس کے سبب قاری کے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں اور اس کا قلب جمالیاتی چاشنی سے بھر جاتا ہے۔سرکار حجۃالاسلام نے خاتم الاکابر حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت کہی ہے جسے پڑھ کر قلب میں ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور دل و دماغ میں ایک روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
فانی ہوجاؤں شیخ میں اپنے
ہو بہو ہو ادائے آل رسول
حقہ حق ہو ظاہر و باطن
حق کے جلوے دکھائے آل رسول
دل میں حق حق زباں پہ حق حق ہو
دید حق کی کرائے آل رسول
پھر الی اللہ فنائے مطلق سے
پورا سالک بنائے آل رسول
ان اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشق رسول اور محبت آل رسول ہی وہ محور ہیں جن کے گرد حضرت حجۃالاسلام کی پاکیزہ نعتیہ و منقبتیہ شاعری حرکت کناں نظر آتی ہے ۔
Leave a Reply