رحمت و نور کی برکھا
شاعر جدت طراز سید خادم رسول عینی زید مجدہ کا اولین نعتیہ مجموعہ ہے_ سید صاحب قبلہ کی مہربانی کہ نور و نکہت اور عشق و عرفان میں ڈوبا ہوا نعتوں کا یہ حسین گلدستہ فقیر کے لیے سامان راحت ہوا فقیر نے بالاستیعاب ہر شعر کی قرات کی خوب محظوظ ہوا _ اس مبارک مجموعے میں ذات ممدوح علیہ السلام کے محاسن و فضائل ، اوصاف و کمالات اور خصائص و معجزات کے بیان کی جو چاندنی چھٹکی ہوئی ہے ان کے جلوؤں سے دل کی آنکھیں منور ہوئیں اچھی اور دلکش شاعری سحر سے کم نہیں، خوبصورت الفاظ دلکش و دلاویز تراکیب گلستان خیالات کے لیے اساسی عنصر ہیں تو استعارات و تشبیہات کا جمال اس چمنِ کے لیے بہار کی نوید ہیں جب گلستان خیالات پر بہار چھا جائے تو اس کا ہر منظر سحر خیز ہوتا ہے بحمداللہ ایسی دلفریب سحر خیزیاں اس حسین مجموعۂ نعت کے امتیازات میں سے ہیں_
روایت پسندی ہماری نظر میں معیوب نہیں _ ہاں! اگر قدِ فکر پر وہی فرسودہ اور کہنہ پیراہنِ الفاظ رکھے جائیں جس کے نظارے ہم تقریباً ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں تو یہ یقیناً معیوب ہے زبان و بیان پر اگر قدرت نہ ہو تب ایسی بے چارگی نظر آتی ہے بحمداللہ عینی صاحب کی زبان و بیان پر قدرت مسل٘م ہے آپ زمینِ سخن پر فکرِ مدحت کی کاشت کا اعلیٰ شعور رکھتے ہیں شعر کیا ہے اسی شعور کا نتیجہ ہے شعور کے بغیر شعر کی اپج ممکن نہیں_ روایتی مضامین کو بھی سید صاحب قبلہ نے اس قدر دلکش و دلاویز پیرائے میں باندھا ہے کہ جواب نہیں یہاں روایت جدت کے رنگ سے مزین ہوکر جیسے شعریات کا ایک نیا در وا کر رہی ہو جیسے نئے آفاق کی جستجو منزل رسا ہوگئی ہو_
ہر شجر ان کی یادوں کا ہے پرکشش
جس میں راحت کی ہیں ٹہنیاں لاجواب
بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ
رحمت رسول کے سبب
حشر ساز گار ہوگیا
دے گئے آب جود سے اپنے
نخل ہستی کو تازگی آقا
ان کے صدقے امن کا ہے سائباں
زیست میں اب دھوپ کا جنگل نہیں
عجب کشمکش میں ہیں زائر کی آنکھیں
زمین حرم ہے کہ خلد بریں ہے
نبی کے اسم گرامی میں ہے شفا ایسی
ہماری زیست کے سب زخم بھرنے لگتے ہیں
دیکھ کر ان کو چرخ کے تارے
بھول جاتے ہیں روشنی اپنی
ان کی چشم کرم رہے جب تک
پھول کھوۓ نہ تازگی اپنی
لیے دید شاہ دوعالم کی خواہش
کھڑی ہیں دلوں میں کسک کی قطاریں
سورۂ حمد سے سورۂ ناس تک
ان پہ نازل ہوئے سلسلے نور کے
دیکھ رہے ہیں آپ! کیا سلاست ہے کیسی روانی ہے جیسے صاف و شفاف چشمے رواں ہو جیسے کو ثر الفاظ اور سلسبیل معانی مکمل جوش پر ہو بندش کا اسلوب کس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کے حسن و جمال کے جلوؤں سے جیسے آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں روایتی مضامین کو اتنی آسانی کے ساتھ پیراہن سحر اور لباس جدت عطا کرنا سید صاحب کے لیے مشکل نہیں
سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اس شعر سے واضح ہے کہ جب بات مدحت رسول ﷺ کی آۓ تو موضوعات کی کمی نہیں نئے آفاق کی کمی نہیں احتیاط حد کا متقاضی ہے ادب و احترام رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ناعت عظمت ممدوح کے پیش نظر بے جا غلو سے کام نہ لے اس حد کے باوصف بھی نعت کے لیے کوئی حد نہیں کہ فضائل و خصائص مصطفی کا شمار نہیں اگر ہر درخت قلم ہوجاۓ اور ہر سمندر کا پانی روشنائی تب بھی مظہر باری تعالیٰ کے اوصاف و کمالات کا بیان ختم نہیں ہوسکتا جس کا مطالعۂ سیرت ناقص ہو اس کے لیے موضوعات مدحت محدود ہوسکتے ہیں مگر جس کا مطالعہ وسیع ہو اس کے لیے موضوعات مدحت کی کوئی حد نہیں رحمت و نور کی برکھا میں مضامین کا تنوع اور خیالات کی رنگا رنگی سید صاحب قبلہ کی وسعت مطالعہ کا حسین ترین اشاریہ یے بات تشنۂ دلیل نہ رہ جائے اس لیے یہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
آمد مصطفی__
ان کے دم سے جہاں میں بہار آگئی
بے مثال ان کا فیض قدم بولیے
آمد سرکار کا دیکھو اثر
بن میں بھی گل کا بچھونا آگیا
مولد مصطفی_
جان کعبہ کی جس میں ولادت ہوئی
ہے وہ مکہ میں عینی مکاں لاجواب
جمال مصطفی__
عارضی ہے اجالا سورج کا
ہے رخ مصطفی سدا روشن
گفتار مصطفی_
پڑھ کے دیکھو بخاری و مسلم
عینی ان کا ہے ہر کہا روشن
ان کی باتیں رہیں پر اثر اس قدر
موم بنتا گیا خود بشر سنگ دل
کردار مصطفی_
ان کی اخلاق کی تلوار کے آگے ہردم
مات کھاتا ہوا پندار نظر آتا ہے
کرم و سخاوت مصطفی_
لا نہیں کہتے ہیں سائل کو کبھی
شاہ بطحا کی نوازش کیا کہیں
اختیار مصطفی__
کردیں تبدیل حرمت کو حلت میں آپ
یوں شریعت میں با اختیار آپ ہیں
اک گواہی خزیمہ کی دو ہوگئی
اختیار شہ دوسرا بے مثال
علم مصطفی__
ماکان، مایکون کا رکھتے ہیں علم وہ
واضح یہ ہوگیا ہے خدا کی کتاب سے
رحمت مصطفی_
وہ جہاں کی اصل ہیں بنیاد ہیں عالم کی وہ
ملتی ہے ہر ایک کو رحمت رسول اللہ کی
رحمت بنا کے بھیجا ہے پروردگار نے
سارا جہاں رسول زمن کی اماں میں ہے
شفاعت مصطفی_
باذن خدا وہ کریں گے شفاعت
نجات امم کی یہ صورت رہے گی
بے مثالیِ مصطفی_
دانائے سبل ختم رسل قاسم کوثر
القاب ہیں بے مثل، کوئی ان سا ہوا ہے؟
نورانیت مصطفی__
نور سے ان کے بنی ہر ایک شئی کونین کی
سب خواص ان کے لیے ہیں سب عوام ان کے لیے
ان کے سوا رزم و بزم نبی، معجزات نبی، معراج نبی، علو و شان نبی، شہر نبی اور اس کا تقدس اور وہ سب کچھ ہے جس کی امید ایک قادر الکلام ناعت سے کی جاسکتی ہے معجزات کے ذیل میں معراج النبی ﷺ کا الگ الگ رنگ میں بیان اپنی مثال آپ ہیں یہ بو قلمونی یہ تنوع آپ کی شاعری کا اختصاص ہے چمن کی دلربائی کے لیے لازمی ہے کہ اس میں ہر طرح اور ہر رنگ کے پھول کھلے ہوں ہر پھول کی خوشبو جداگانہ اور منفرد ہو بحمداللہ رحمت و نور کی برکھا ایک ایسا ہی چمنستان سخن ہے جس میں ہر طرح کے پھول کھلے ہوۓ ہیں جن کی خوشبوؤں سے مشام جان ایمان یقیناً معطر ہوگا__
اس مجموعے کو جہان ادبیات میں یقیناً ایک گراں قدر اضافہ کہا جائے گا کہ یہ مجموعہ محاسن شعری جواہر ادبی کا حسین مرقع بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ مجموعہ فکر رضا کا مبلغ و ناشر بھی ہے بہت سے شعرا بدمذہبوں کے رد سے یہ کہہ کر مجتنب نظر آتے ہیں کہ یہ نعت کا حصہ نہیں _ حالانکہ ایسا نہیں ہے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شعری روایت یہی رہی کہ دشمنانِ مصطفی کا بہ بانگ دہل رد ہو امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں بد مذہبوں کا خوب خوب رد کیا ہے لہجے کا یہ تیکھا پن در اصل عشقیہ لہجے کی شناخت بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی یہ سوچ کر کہ عقیدت و عقیدے میں یہ تصلب اور اس کا شعری اظہار ان ناقدین کے دربار نقد تک ہمارے ادبی شہ پارے کو پہونچنے نہیں دے گا جو مسلکاً اور عقیدتاً ہمارے مخالف ہیں رد کے اشعار کہنے سے بچنا ہماری نظر میں مداہنت ہے ادب کی پرکھ اس کی ادبیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ ادیب نظریاتی اور فکری اعتبار سے ناقد کا مخالف کیوں نہ ہو اگر نقد کا پیمانہ ادب و ادبیت کی جگہ عقیدت و عقیدہ ہو جائے تو ایسے ناقد کی پرواہ بھی نہیں کی جانی چاہیے_ علامہ عینی کا جو عقیدہ ہے اس کو انہوں نے چھپایا نہیں ہے آپ مفتی اعظم اڑیسہ حضرت مفتی عبد القدوس علیہ الرحمہ کے فرزند جلیل ہیں خانقاہ قدوسیہ بھدرک سے آپ کا تعلق ہے اس طرح آپ پر رضویات کا رنگ غالب ہے _ آپ نے اپنے عقیدے کو بھی سلک نظم میں پرویا ہے اور کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پربیشتر شعرا کے یہاں سطحیت و ابتذال کا ناگفتہ بہ منظر نظر آتا ہے مگر علامہ عینی کے یہاں اس باب میں بھی نشان ترفع جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے__
اللہ نے مختار جہاں ان کو بنایا
اے باغیو سرکار کو مجبور نہ سمجھو
ان کے عدو کو کھل گیا، حاسد تھا جل گیا
بزم سلام سے وہ اچانک نکل گیا
عدوۓ سرور کونین کی تذمیم کرتے ہیں
نبی کے ہوگئے جو ان کی ہم تکریم کرتے ہیں
سرکار کی عظمت کے اے منکر یہ بتاؤ
کیوں معجزۂ شق قمر یاد نہ آیا
بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ
جہاں تک صنائع و بدائع کی بات ہے تو بحمداللہ یہ مجموعۂ نعت اس زاویے سے بھی قابل ستائش و پزیرائی ہے علامہ محمد حسین مشاہد رضوی فرماتے ہیں ” عینی نے اپنے کلام میں صنائع کے نجوم چمکاۓ ہیں بدائع کے مہر و ماہ جگمگاۓ ہیں ” اس مجموعۂ نعت میں صنعت اقتباس و تلمیح کی جلوہ گری عام ہے مضمون کی طوالت کا خوف اگر نہیں ہوتا تو اشہب قلم کی لگام چھوڑ دی جاتی پھر ہمیں فکر و خیال کے خوبصورت موتیوں سے مزید نور کشید کرنے کا موقع فراہم ہوتا_
علامہ قدسی نے حق فرمایا ہے کہ علامہ عینی کا یہ مجموعہ شرعی سقم سے منزہ ہے _ البتہ ایک جگہ سہو کتابت سے مفہوم کیا سے کیا ہوگیا ہے_
اصحاب نے نبی کا مقدر بنادیا
ان کو جہاں میں فضل کا اختر بنادیا
اول مصرعہ در اصل یوں تھا
اصحاب کا نبی نے مقدر بنادیا
دعا ہے کہ اللہ تعالی اس نعتیہ شعری مجموعہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور علامہ عینی کو مع الخیر سلامت رکھے
از قلم
کلیم احمد رضوی مصباحی
خلیفۂ حضور قائد ملت
خادم التدریس والافتا
جامعہ رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف
Leave a Reply