صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے اور تاریخ تھی 15 اگست کی، پورا ملک آزادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اچانک غیر معروف (unknown) نمبر سے دو تین کالیں (calls) آئیں لیکن آزادی کے جشن میں محو تھا کہ جس کی وجہ سے کال ریسیو نہ کرسکا ۔ اور یوں بھی کال ریسو ( receive) نہ کر پانا معمولی سی بات ہے، لیکن بعد میں جب اس نمبر پہ ریٹرن کال کیا تو پتا چلا کہ وہ دار العلوم مینائیہ سے ہے –
ایک جانب تو دل کی دھڑکنیں اس اندیشے کے زیر اثر بڑھ چکی تھیں کہ خدا جانے کیا خبر آنے والی ہے؟ ریجیکشن کی مایوسی چہرے بگاڑ دے گی یا سلیکشن کا مژدۂ جاں فزا اچھلنے پہ مجبور کردے گا-
مگر ابھی کچھ کنفرم نہ ہوا، کیوں کہ ادھر سے صرف آدھار کارڈ طلب کرنے کے لیے فون آیا تھا ۔ مگر اس طلب پر ہمارے بعض احباب نے یہ امید دلائی کہ آدھار کارڈ کی طلب یہ انتخاب کی دلیل ہے ۔ پھر بھی ابھی دل مکمل مطمئن نہیں تھا-
بالآخر رات گیارہ بجے کے بعد ہاشم بھائی کے واٹس ایپ پر یہ خوشخبری موصول ہوئی کہ آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں ساڑھے چھ سو طلبہ میں سے ٹاپ ٹین منتخب شرکاء میں آپ نے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے –
یہ خبر سنتے ہی جماعت فضیلت میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی – ہمارے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں حالانکہ اس سے پہلے کچھ طلبہ کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہیں تھیں کہ ملکی پیمانے پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں نمبر حاصل کرنا محال ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے زبان پر قفل لگ گئے اور خوشی کا دیکھاوا کرنے لگے اور کچھ تو ہاشم احسنی کو سپورٹ کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے انشاءاللہ ہو جائے گا- –
پھر 26 / اگست بروز جمعہ برادر محترم نے احباب و اساتذہ کی دعاؤں کا توشہ لیے خانقاہ برکاتیہ سے خانقاہ مینائیہ گونڈہ پہنچے اور وہاں پہنچنے کے بعد آخر کار وہ گھڑی آہی گئ جس کا تمام طلبہ اور اساتذہ کو انتظار تھا یعنی مقابلے کا پروگرام شروع ہوا، مدرسے کے بہت سے طلبہ یوٹیوب کے ذریعے لائیو پروگرام ملاحظہ کر رہے تھے، اور بڑی بے صبری اور اضطراب کے ساتھ ہاشم بھائی کے نمبر کا انتظار کر رہے تھے بالآخر سوا بارہ بجے ان کے نام کا اعلان ہوا اور بھائی نے بہت ہی شاندار اور اچھوتے انداز اور مقررانہ لب و لہجے میں اعتماد سے بھرپور خطاب کیا اور اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ۔
اب ایک اور آزمائش تھی رژلٹ کی، ہم تو پر اعتماد تھے کہ ٹرافی تو مارہرہ ہی آئے گی مگر اپنے اس اعتماد کے تارو پود بکھرنے سے ڈر بھی رہے تھے ۔ اگلے دن رزلٹ آوٹ ہونا تھا ۔
جامعہ کے تمام طلبہ اور اساتذہ رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ نتیجہ کب برآمد ہو گا؟ اس میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور کچھ طلبہ کہہ رہے تھے کہ ٹاپ ٣ میں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔
آخر کار اگلی صبح کا سورج نوید مسرت لے کر افق عالم پر چمکا ۔ ٨/ بجے رزلٹ آؤٹ ہوا اور ہاشم بھائی کی تقریر نے ان تمام بدگمانیوں اور حوصلہ شکنیوں سے لبریز خیالات کو مسترد کرتے ہوئے دوم پوزیشن حاصل کی – اور پچیس ہزار کی خطیر رقم، توصیفی سند اور خوبصورت ٹرافی سے بطور انعام و اکرام سرفراز کیا گیا ۔
استاذ مکرم مفتی شاداب امجدی صاحب کا حوصلہ افزائی سے لبریز اعلان خوش خبری سوشل میڈیا پہ مبارکبادیاں بٹورنے لگا، استاذ مکرم فرط شادمانی کےساتھ ہشاش بشاش ہوکر جب درسگاہ میں آئے تو ہم نے انہیں بھی مبارکباد دی، کیوں کہ تقریری مواد کی فراہمی انہیں کی طرف سے تھی ۔ حضرت نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے مگر ہاشم کی تقریر سننے کے بعد مجھے ایک نمبر کی امید تھی-
سرپرست جامعہ ابا حضور، پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و طلبہ کے سینے اس کامیابی سے چوڑے ہورہے ہیں ۔ اس کامیابی کو صرف ایک طالب علم کی کامیابی نہیں قرار دیا گیا بلکہ پورے جامعہ کی کامیابی قرار دیا گیا، کیوں کہ اس سے پورے جامعہ اور خانقاہ کا نام روشن ہوا ہے-
ہاشم بھائی یہ کامیابی حاصل بھی کیوں نہ کرتے جس کو خانقاہ برکاتیہ کے مخدوموں نے اپنی دعاؤں سے نوازا ہو، چاہے وہ سرکار امین ملت ہوں یا رفیق ملت (ابا حضور) ہوں یا شرف ملت –
آج مجھے وہ لمحہ رہ رہ کے یاد آ رہا ہے جب ابا حضور نے 15/ اگست کو ہاشم بھائی کو انعام سے نوازتے وقت فرمایا تھا: بیٹا! اللہ تمہارے زبان و قلم دونوں کو مضبوط کرے –
اور میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ہاشم بھائی کو اگر دوم پوزیشن حاصل ہوئی ہے تو ان کی محنت تو مسلم ہے ہی مگر ابا حضور کی اس دعا کی قبولیت کا یہ اعلان بھی ہے اور یہ مخدوموں اور ہمارے مشفق و مہربان اساتذہ کی محنت اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
بالخصوص ہمارے جامعہ کے پرنسپل حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کی حوصلہ افزائیاں اور حضرت مولانا شاداب امجدی صاحب قبلہ کی محنت بھری رہنمائیاں بھی پشت پناہی کرتی رہیں –
اللہ رب العزت ہاشم احسنی کو مزید ترقیوں سے نوازے اور حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے اور ان مخدومان گرامی اور اساتذہ کے صدقے ہمیں بھی دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین –
اقبال کے اس شعر پہ اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ :
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
Leave a Reply