WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     اسلام نے معلّم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے، چنانچہ اللّٰہ ربّ العزت نے قرآن مقدّس میں نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شان بحیثیت معلّم بیان کی ہے ،اور خود خاتم النبیین صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا "انما بعثت معلماً” [یعنی مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے] حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” یقیناً اس بات کی بیّن اور واضح دلیل ہے کہ استاذ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے-

     اسلام کی نظر میں انسانیت کا سب سے مقدّس ومعظّم طبقہ پیغمبرانِ اسلام و انبیائے کرام کا ہے- اور پیغمبر ونبی کی حیثیت اپنے امتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدّد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے ارشاد ربانی ہے” یتلو علیھم آیاته و یزکّیھم ویعلّمھم الکتٰب والحکمة” { آل عمران:۱۶۴}… جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے، یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذکہتے ہیں … اساتذہ کے تعلق سے حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ایک فرمان بہت ہی مشہور ہے” من علّمنی حرفاً فقد صیّرنی عبداً ان شاء باع وان شاء عتق” [یعنی جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے] {تعلیم المتعلم ص/۲۱}
  بلاشبہ ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے اور ویسے بھی انسان جس سے بھی کچھ سیکھے یا علم حاصل کرے اس کا ادب و احترام اس کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر سیکھنے والا سِکھانے والے کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ بد نصیب ہے، علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال قابل عزت ہے، اور خاص طور پر علم دین کا سکھانے والا تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لئے قابل احترام ہوتا ہے-
   یقیناً یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو اساتذہ کے بلند مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا ہے، اسلام میں اساتذہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے، اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے "انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم”[یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں]

اساتذہ کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگر “صلبی وجسمانی باپ” ہے تواساتذہ “روحانی باپ”-

          اب آئیے ہم اساتذہ کے ادب و احترام کے تعلق سے اپنے اکابرین و اسلاف کے معمولات وفرمودات پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کی بارگاہوں میں کیسےپیش آنا چاہیے؟ اورکس نوعیت سے ادب و احترام کرنی چاہیے؟

حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ “ہم اپنےاستاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنااحترام کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں” اور حضرت یحییٰ بن معین جو بہت بڑے محدّث تھے ،حضرت امام بخاری ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ “محدّثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا” اور حضرت امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ “میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جواستاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا” {ایضاً ص/۲۲}
امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنےاستاذ کا اتنا ادب و احترام کیا کرتے تھے کہ کبھی استاذ کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے- حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ”میں حضرت امام مالک کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے”- حضرت امام ربیع فرماتے ہیں کہ “حضرت امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی”… بعض بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایاکہ” ہمیں اپنے اساتذہ کی اولاداوران کے متعلّقین کی بھی تعظیم وتکریم کرنی چاہیئے” صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ”بخارا کے ایک بہت بڑے امامِ وقت اپنے حلقۂ درس میں مصروفِ درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے، جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آ جا رہا ہے، تو میں اس کے لیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں”…… اس طرح کے بہت سارے واقعات تاریخ و سوانح کی کتابوں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ تلامذہ کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کس حد تک کرنا چاہیے؟…… لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے!

ادب تعلیم کاجوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگردہیں جوخدمتِ استاد کرتےہیں

بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق سعید بخشے-
آمین!

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *