۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تزکیہ نفس کے باب میں بزرگوں کے اقوال وارشادات کی اہمیت و افادیت سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا, اہل اللہ کے قول و ارشاد میں دینی و فلاحی دعوت وتبلیغ کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ان کی نظر ہمہ وقت لوح محفوظ پرہوتی ہے, ان کے اقوال وارشادات عین منشاء الہی کے مطابق ہوتے ہیں وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے ,انانیت, ونفس پرستی کی وہاں گزرنہیں ہوتی ,وہ خودی میں جیتے ہیں, بے خود ہوتے ہیں, کشف کے ذریعہ انہیں ہر اچھی اور بری باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے, تجدید دین و ایمان کے امین یہی ہوتے ہیں, اخلاق کریمانہ سے, تو کبھی قلم وقرطاس سے ,تو کھبی شیریں اقوال وارشادات سے ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم وبربیت کا وافی شافی علاج فرماتے ہیں اور کسی کا جانی ومالی نقصان بھی نہیں ہوتا ہے, بلکہ وہ شخصیت اپنے اس مدبرانہ, حکیمانہ اور منصفانہ عمل کی وجہ سے ایک صدی پر محیط ہوجاتی ہیں ,انہیں اشخاص میں ایک نام,, حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ,, کا بھی آتا ہے ۔آپ نے اپنے اقوال و ارشادات,قلم وقرطاس سے اکبری دین اور اس کی تخت وتاج کا بیڑا ہمیشہ کے لئے غرق کردیا ۔ اور دین اسلام میں مجتہد و مجدد کا یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہے گا ,جب بھی دین میں کسی طرح کی غیرشرعی باتیں داخل کی جائیں گی تو ان کی سدباب کے لئے اللہ عزوجل ایک مجدد بھیجتا ہے جو اپنی تجدیدی صلاحیتوں سے باطل کا قلع قمع کردیتا ہے اور دین اسلام کو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک وصاف کرکے وہی امتیازی شان وشوکت بخشتاہے,اور امت فرامین الہی کا پھر سے پابند ہوجاتی ہے ,یہی وہ مقدس شخصیتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ عزوجل کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فریا ہے کہ,, میری یہ امت کبھی گمراہی پر متفق نہ ہوگی,, اور آپ کا یہ ارشاد کہ,, اللہ تعالی اس امت کے لئے ہرصدی کے شروع میں ایسے بندے پیدا کرتا رہے گا جو اس کے لئے اس کے دین کو تازہ کرتے اور نکھارتے رہیں گے ۔ ,, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی وضاحت اور تشریح ان احادیث سے ہوتی ہیں جو کتب حدیث میں مروی ہے کہ,, میرے لائے ہوئے اس علم ( یعنی دین) کی امانت کو ہرزمانے کے اچھے اور نیک بندے سنبھالیں گے اور اس کی خدمت وحفاظت کا حق ادا کریں گے وہ افراط وتفریط کی تحریفوں, کھوٹے سکے کی ملمع کاریوں اورجاہلوں کی فاسد تاویلوں سے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کرتے رہیں گے ۔فتنہ اکبری کا آپ نے خاتمہ کیا, یہ فتنہ اکبری آخرکیاتھا ؟ یہ دین میں شرک کی آمیزش تھی, سورج, آگ, پانی اور ہرطاقت کی بندگی بادشاہ اکبر سے لے کر اس کے حواریین کرنے لگے تھے, رفتہ رفتہ اکبربادشاہ کا سجدہ کیاجانے لگا تھا, تمام ادیان ومذاہب کو ایک نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا یعنی ہر مذہب کو حق کہاجانے لگا, معاذ اللہ ۔ان ملعونوں نے دجال کی صفات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جوڑکر بیان کرنا شروع کردیا تھا, شاتمان رسول اس قدر نڈر اور بےخوف ہوچکے تھے کہ کھلم کھلا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے تھے اور انہیں ٹوکنے والا کوئی نہ تھا, ان باتوں سے اکبربادشاہ کی پیشانی پر بل تک نہ پڑتا بلکہ ان گستاخ پادریوں کا استقبال انتہائی خندہ جبینی سے کرتا,اور اپنے شاہزادہ مراد کو حکم دیتا کہ,, چند اسباق ان پادریوں سے پڑھ لیا کرو ۔ ,, نمازوں کا یہ حال تھا کہ دربار میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز پڑھے, جبکہ کبھی اسی دربار میں باضابطہ پنجگانہ نمازوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور دربار میں موجود افراد باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے, نماز, روزہ حج یہ سب پہلے ہی ساقط ہوچکے تھے, سود اور جوا حلال کردیا گیا تھا اسی پر دوسری حرام چیزوں کو قیاس کرلیں! حالت یہ تھی کہ ایک,, جوا گھر ,, خاص دربار میں بنایا گیا اور جواریوں کو شاہی خزانہ سے جوا کھیلنے کے لئے سودی قرض دیا جاتا تھا ,درباری مولویوں سے شراب کی حلت پر فتوی لے لیاگیا تھا اور دربار کے ایک حصہ میں شراب کی دوکان کھول دی گئی تھی اور نوروز کی مجلس خاص میں دنیادار علما, صلحا, قاضی ومفتی تک شراب کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے, حد تو یہ تھی کہ وہ ,, شراب کے ہر پیالہ کو کسی نہ کسی فقیہ کے نام سے موسوم کیا ہواتھا اور کہتا کہ یہ پیالہ فلاں فقیہ اندھاپن کے نام سے پیتاہوں ۔ ,, داڑھی کا مذاح اڑایا جاتا تھا اور نہ رکھنے کی یہ بدبختانہ دلیل دیتے کہ داڑھی خصیتین سے پانی لیتی ہے اس لئے اس کے رکھنے کی قطعا ضرورت نہیں اور درباری قاضیان کوئی بھی داڑھی نہیں رکھتے تھے ۔ مسائل نکاح میں اپنی ذاتی شرط شریعت سے الگ اور چودہ چودہ عورتوں کو ایک ساتھ رکھنے کی اجازت ملی ہوئی تھی, خود اکبر ایک ساتھ چودہ عورتوں کو اپنے پاس رکھا ہواتھا ,گو شریعت کے تمام مسائل احکام شرع کے بجاۓ منشاء طبیعت کے موافق ڈھال لئیے گئے تھے ۔ ایسے نازک وقت میں آپ نے اپنی زبان وقلم سے وہ جرآت مندانہ کام کیا کہ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصروعاجز ہے ۔ اور دین میں شرک وبدعت, صلح کلیت کا رواج جب ہوتا ہے ۔جب علما فروعی مسائل کو لے کر آپس میں دست بگریباں ہوتے ہیں۔ اسی کا فائدہ سربراہان حکومت اور اس کے عملہ یعنی وزرا , کارکنان اور ملازم اٹھاکر دین میں تحریف وتغیر کرنا شروع کردیتے ہیں جیساکہ حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ۔ ,, پچھلے دور میں علما کے اختلافات نے دنیا کو ایک مصیبت میں مبتلا کردیاتھا, اب پھر وہی بات سامنے ہے, دین کارواج کیا ہوگا, اس کی بھلا کیا گنجائش ہے, بلکہ دین کی بربادی اس سے ضرور ہوگی ۔,, ایک موقع سے علما کی اسی فتنہ رسانی کو دیکھتے ہوۓ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ,, ایک صاحب نے ملعون ابلیس کو دیکھا کہ فارغ اور بیکار بیٹھا ہوا ہے, پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے ۔ابلیس بولا کہ اس زمانے کے علما میرا کام انجام دے رہے ہیں, راہ مارنے اور بھٹکانے کے لئے اب وہی کافی ہے ۔
( تذکرہ مجددالف ثانی, ص: ١٢٦ )
حضرت مجدد الف ثانی کا اس مثال سے مطلب صاف تھا کہ وہ علوم اور علما کس کام کہ ان کے رہتے ہوۓ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخانہ کلمات کا بے دریغ استعمال ہوں ,وحدانیت پر شب خون مارے جارہے ہوں, شرک وبدعات کا رواج عام ہوں, دوستوں نے ہی دشمنی کے لئے کمر باندھ رکھی ہو ,جو بظاہر اللہ کی فوج ہیں وہی شیطان کے صفوں میں شریک ہوکر اسلام وسنت کی دھجیاں اڑاےنے پر بضد بیٹھا ہو , جب رہنما ہی راہزن ہوں تو اسلام کا شجر کیوں کر پھلے پھولے گا ۔یہی وہ ماحول تھا جسے دیکھ کر حضرت عالم ربانی مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو کہنا پڑا کہ,, دنیا بدعت کے دریا میں غرقاب ہے, شب ظلمت سے فرحاں ہے, دفع بدعت کے لئے کس کی مجال کہ وہ اٹھ کھڑے ہو, احیاۓ سنت کے لئے لب کشاں ہو اس دور کے علما تو خودہی بدعت کورواج دینے اور سنت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔
( مکتوب : ٥٤ , ج ۔٢ )
واقعی یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ مدارس , خانقاہوں کے قیام کا مقصد حضور فخرموجودات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت کے دلوں میں وحدانیت وربوبیت اور عشق رسول کا وہ نور پیدا کرنے کے لئے کیا گیاتھا جس سے تمام جہاں روشن ومنور ہوں, مگر یہاں کے فارغین علما, خانقاہوں کے گدڑی پوش صوفیا ہی بدعت کی طرف رہنمائی کریں اور غیر شرعی امور کے تعلق سے اس کے مستحسن ہونے کا فتوی صادر کرے, تو دین حنیف کا تحفظ کون کرے گا ۔لیکن ایسے پرفتن ماحول میں اللہ عزوجل کی نصرت اپنے بندوں پر اترتی ہے اور وہی کسی عالم ربانی کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت فرماتا ہے ۔اور یوں صدا بلند ہوتی ہے ۔
اس راز کو پھر فاش کر اۓ روح محمد!
اس عہد میں اب تیرا مسلماں کدھر جاۓ
اور پھر حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کے لئے کمر باندھ کر میدان عمل میں اترجاتے ہیں اور کفار و مشرکین,الحاد وارتداد, بد مذہب و صلح کلیت اور شاتمان رسول کا اپنی زبان وقلم سے شکست فاش دیتے ہیں اور ایک مجدد کا جو کام ہوتا ہے اسے مکمل کرکے ہی دنیا سے یوں کہتے ہوۓ کہ(,, ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں,,) رخصت ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی متبرک ذات اس دارگیتی سے ٢٨ / صفرالمظفر ١٠٣٤ ھ میں بعمر ترسٹھ سال مطابق عمر شریف نبوی ( علیہ الصلوة والسلام) واصل جنت ہوۓ ۔
ترسیل دعوت : صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی عفی عنہ
رکن اعلی : شیرمھاراشٹرتعلیمی فاؤنڈیشن ,میراروڈ ,ممبئی
١٥/ شوال المکرم ١٤٤١ ھ مطابق ٧ / جون ٢٠٢٠ ء
Leave a Reply