یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ والانجیل (سورہ اعراف) اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو سید المرسلین و رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا آپ کی خاطر تمام کائنات منصہ وجود پر آئے آپ کی وساطت بابرکت سے تمام انبیاء کرام خلعت نبوت سے سرفراز ہوئے تمام انبیاء کرام سے آپ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا میثاق لیا گیا و اذ اخذ اللہ میثاق(سورہ آل عمران) اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تمام انبیاء کرام کی مسلم و تصدیق شدہ حقیقت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سردار انبیاء اور نبئ آخر الزماں ہیں اور آپ کی سیادت اور خاتم النبیین کی نبوت کا سکہ تمام انبیاء کرام
کے مقدس گروہ پر چلتا ہے حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وسیلہ سے دربار الہی میں اپنی خطا کی معافی مانگی اور ان کا توبہ قبول ہوا
۔۔قرآن مجید برھان رشید–
( 1) حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یا اللہ ! میری اولاد میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو لوگوں کو تیری آتیں پڑھ کر سنائے ان کے نفس کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے.. یہ تھی دعائے خلیل جو رسول اللہ صلی اللہ کی بعثت کی صورت پوری ہوئ نیز اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بھی شرکت تھی حدیث نبوی میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں (المستدرک للحاکم جلد 2)
۔۔تورات شریف۔۔
(2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت : – حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہیں خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا دس ہزار قدسیوں کے ساتھ اس داہنے ہاتھ میں ان کیلئے آتش شریعت تھی وہ بیشک اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے.. اس میں موسی علیہ السلام نے تین انبیاء کرام کی پیشن گوئی فرمائ آن میں سے ایک خود جنہیں حق کا جلوہ
سینا نظر آیا دوسرے حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں یہ شرف سعیر کے قرب و جوار میں حاصل ہوا تیسرے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سید المرسلین جو فاران سے جلوہ افروز ہوا اور اس کے جگمانے سے مراد قرآن کریم کا نزول ہے
اور دس ہزار قدسیوں سے مراد دس ہزار مقدس صحابہ کرام ہیں جو اس فاران سے آنے والے نورانی پیکر کے ساتھ شہر خلیل میں داخل ہوئے اور آتشین شریعت سے مراد اشدآء علی الکفار اور محبت سے مراد رحمآء بینھم ہے اس طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت پوری ہوئ
۔۔زبور شریف۔۔
( 3) حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت :- حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت نہایت صاف اور صریح لفظوں میں دی ہے ترجمہ اور جب عیسی علیہ السلام نے کہا کہ بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور جو مجھ سے پہلے جو تورات آئ ہے اسکی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد احمد نام کا ایک پیغمبر کی خوش خبری لے کر آیا ہوں
۔۔انجیل شریف۔۔
( 4) حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت
حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت اس طرح ہے فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں وہ سدا تیری تعریف کریں نگے مبارک ہیں وہ آدمی جس کی قوت تجھ سے ہیں وہ وادئ بکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں پہلی بارش اسے طاقت کر دیتی ہے وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں ظاہر ہے کہ وادئ بکا سے مراد مکہ ہے قرآن کریم میں بھی مکہ کو بکہ کہا گیا ہے بارش سے مراد غزوۂ بدر ہے امت محمدیہ کی طاقت دن بدن بڑھتی ہے وہ ہمیشہ خدا کی تعریف میں سرگرم ہیں اور دیگر انبیاء کرام نے بشارتوں کا تذکرہ کیا ہے صحابہ کرام اور تابعین میں جن لوگوں کو تورات سے واقفیت تھی یا علمائے یہود میں سے جو لوگ گزشتہ صحف انبیاء میں مذکور ہے. قیصر روم نے بھرے دربار میں کہا تھا کہ ختنہ والے رسول کی پیدائش کا زمانہ قریب ہے شاہ مصر کے دربار میں جو قاصد نبوی خط لے گیا تھا وہ بھی یہ جواب لایا کہ ہاں ہم بھی یقین تھا کہ ایک پیغمبر آنے والے ہیں
Leave a Reply