💡 سَركار غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے اپنے وَطن جیلان ہی میں باضابطہ طورپر قرآنِ عَظِیم ختم کیا اور چَند دُوسری دِینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں.
آپ نے حضرت شیخ حَمَّاد بِن مُسلِم ہی سے قرآنِ مجید حِفظ کیا اور برسوں خِدمَتِ حَمَّادیَہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے.
🌼 آمَدِ بَغدَاد :
بَچپَن میں ہى وَالدِ گِرامی حضرت سَيّد اَبُوصَالِح مُوسىٰ جَنگی دوست رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کا سَایَہ آپ کے سَر سے اُٹھ چکا تھا.
لہٰذا جب آپکی عُمر شریف ســـنه ۴۸۸ ھ میں کم و بیش اَٹھارَہ سال کی ہوئی تو آپ نے حُصُولِ عِلم کے لیے بَغدَاد جَانے کی خَواہِش اپنی وَالدَۂ مُحتَرمَہ اُمُّ الخَیر اَمَةُالجَبَّار سَیّدَہ فَاطِمَہ کے گوش گزار کی۔
بَغدَاد جِیلان سے کم و بیش چَار سَو مِیل کی دُوری پر وَاقِع ہے۔
اِس طویل سَفر میں ہَزارہا صَعُوبَتِیں اور خَطرَات پِنہَاں تھے۔
لیکن جِس عَزم کا اِظہار سَیّدنا سَیّد عَبدُالقَادِر نے کیا، آپ کی وَالدَۂ مُحتَرمَہ جو پَاک بَاطِن کی مَالِکہ تھیں۔ اپنے فَرزَندِ اَرجمَند کو اِس نيک اِرادے سے کیسے روک سکتی تھیں۔
چُنانچہ سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ اپنی وَالدَۂ مُحتَرمَہ سے رُخصَت ہو کر بَغدَاد جانے والے قافلے کے ہمراہ ہو لیے۔
قافلہ ہَمدَان تک تو بَخَيریَت پہنچ گیا لیکن جب ہَمدَان سے آگے ترتنک کے سُنسَان کوہستَانِی عِلاقہ میں پہنچا تو سَاٹھ قَزَّاقوں بَاِختلافِ رِوَايَت چَاليس قَزَّاقوں کے ایک جَتّھے نے قافلے پر حَملہ کر دیا.
اس جَتّھے کے سَردَار کا نام اَحمَد بَدوی تھا۔
قافلہ کے لوگوں میں ان خُونخَوار قَزَّاقوں کے مُقابلہ کی سَکت نہ تھی۔
قزَّاقوں نے قافلہ کا تَمَام مَال و اَسبَاب لُوٹ لیا۔
اِتّفَاقاً ڈاکوؤں کی نظر سَیّدنا غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ پر پڑی۔
اُنہوں نے آپ سے پُوچھا:
کیوں لڑکے ! تیرے پاس کچھ ہے؟
آپ نے بِلا خَوف و ہرَاس جَوَاب دیا:
میرے پاس چَالیس دِینَار ہیں۔
ڈاکو آپ کو پکڑ کر اپنے سَردار کے پاس لے گئے۔
آپ نے وہی جواب ڈاکوؤں کے سردار کو بھی دیا۔ ا ور اپنی گڈری پھاڑ کر چالیس دینار ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ:
میری مَاں کا حُکم تھا کہ جُھوٹ نہ بولنا، سَچ کا دَامَن کبھی نہ چھوڑنا۔
چُنانچہ تمام قزّاق تھوڑی دیر تک تو حَيرَت سے آپ کا مُنھ تکتے رهے پھر یہ کہتے ہوئے آپ کے قَدموں میں گِر پڑے کہ ہم اِنتے سَالوں تک اپنے رَبّ سے كیے عَہد و پَيمَان كى پَامَالى كرتے رهے اور آپ نے صِرف اپنی مَاں سے کیے وعدے پر جَان و مال كو دَاؤ پر لگا دیا.
قزّاقوں نے قافلے کا لُوٹا ہوا سَامَان وَاپس کیا اور آپ کے دَستِ مُبَارَک پر ڈاکہ زنی سے تَوبَہ کی.
❇ سرکارغوث اعطم نے ســـنه 528 ھ میں دَرسگاہ کی تعليم سے فراغت پائی اور مُختلف اَطراف وجَوَانِب کے لوگ آپ سے شَرفِ تَلمُّذ حاصل کرکے عُلومِ دِینیَہ سے مالامال ہونے لگے.
آپ کی ولايَت و بُزرگی اِسقدر مشہور اور مُسَلّمُ الثّبُوت ہے کہ آپ کے “غَوثِ اَعظم” ہونے پر تمام اُمَّت کا اِتّفاق ہے.
💡 حضرت کے سَوَانِح نِگار فرماتے ہیں کہ:
“کِسی وَلی کی کرامتیں اِسقدار تَوَاتُر اور تفاصِیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غُوثُ الثّقلین کی کرامَتیں ثقاہت سے مَنقول ہیں.”
(📖 نُزهَةُالخَاطِرالفَاطِر)
🌅 خَلقِ خُدا میں آپ کی مَقبولیَت ایسی رہی ہے کہ اَکابِر و اَصَاغِر سب ہی عَالَمِ اِستِعجَاب میں مُبتلا ہوجاتے ہیں.
مَشرق یا مَغرب ہر ایک غَوثِ اعظم کا مَدَّاح اور آپ کے فیض کا حَاجَت مَند نظر آتا ہے.
مَقبُولیَت و ہردِلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبانِ فَيض تَرجمان كى شِیریں بیانی اور کلام و وَعظ میں اَثرآفرینی بھی حَیرَان کُن تھی۔
اِسے آپ یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حَیاتِ مُقدَّسَہ کاایک ایک لمحہ کرامت ہے.
اور آپ کے عِلمی کمال کا تو یہ حال تھا کہ جب بَغداد میں آپ کی مَجَالِس وَعظ میں سَتَّر سَتَّر ہزار سَامعین کا مَجمَع ہونے لگا تو بعض عَالِموں کو حسد ہونے لگا کہ ایک عَجمی گیلان کا رہنے والا اِسقَدَر مَقبُولیَت حَاصِل کر گیا ہے۔
💎 چُنانچہ حَافظ اَبُوالعَبَّاس اَحمَد بِن اَحمَد بَغدَادِی اور علامہ حافظ عَبدُالرَّحمٰن بِن الجَوزی ( يہ دونوں ہى اپنے وقت میں عِلم کے سَمندر اور فَنّ تَفسِر و اَحَاديث بيانى ميں پَہاڑ شُمار کیے جاتے تھے.)
آپ کی مَجلِسِ وَعظ میں بَغَرضِ اِمتحَان حَاضِر ہُوئے، اور یہ دونوں خَامُوشى سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے.
جب حضور غَوثِ اَعظم نے وَعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تَفسِیر مُختَلِف طریقوں سے بیان فرمانے لگے.
پہلی تَفسِیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عَالِموں نے ایک دُوسرے کو دیکھا اور تَصدِیق کرتے ہُوئے اپنی اپنی گردنیں ہلا دیں.
اِسی طرح گیارہ تَفسِیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر اپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور تَصدِیق کرتے رہے ، مگر جب حضور غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تَفسِیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے ، اِس لیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا مُنھ تَکنے لگے.
اِسی طرح چالیس تَفسِیریں اس آیتِ مُبَارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عَالَمِ اِستِعجَاب میں تَصویرِ حَیرَت بنے سُنتے اور سَر دُھنتے رہے.
پھر آخر میں حُضُور غَوثِ اَعظم نے فرمایا کہ اب ہم قَال سے حَال کی طرف پَلٹتے ہیں.
پھر بلند آواز سے کلمۂ طیّبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مَجلس میں ایک جوش و کیفیت اور جَذب پیدا ہو گیا اور عَلّامَہ اِبنُ الجَوزی نے جوشِ حَال میں اپنے کپڑے پَھاڑ ڈالے.
(📖 بَہجَةُالاَسرَار)
💎 بغیر كِسى سَاؤنڈ سِسٹم کے سَتَّر ہَزَار کے مَجمَع تک اپنی آواز پہنچانا اور سب کا یَکسَاں اَنداز میں سَماعَت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے کہ روزانہ ظاہر ہوتی رہتی تھی۔
✍🏻 سراج تاباؔنی ـ کلکتہ
👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑
فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے
Leave a Reply