دوسری قسط
جب فتویٰ اصلاح کی غرض سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو امام احمد رضا نے خط پہچان لیا ۔ دریافت فرمایا کس نے دیا ہے ؟ لے جانے والے نے بتایا کہ چھوٹے میاں نے ( گھر میں لوگ پیار میں حضرت مفتی اعظم کو چھوٹے میاں کہتے تھے ) امام احمد رضا نے طلب فرمایا ۔ مفتی اعظم ہند خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ اعلی حضرت باغ باغ ہیں ۔ پیشانی اقدس پر بشاشت سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔فرمایا اس پر دستخط کرو ۔ دستخط کروانے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہ نے صح الجواب بعون الله العزيز الوهاب لکھ کر اپنے دستخط فرماۓ ۔اس طرح اگر ایک طرف حضرت مفتی اعظم رضوی دارلافتاء کے مفتیان کرام پر سبقت لے گئے ۔ تو دوسری طرف امام احمد رضا بریلوی کی طرف سے فتوی نویسی کی باقاعدہ اجازت مل گئی ۔جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ اختر رضاخاں ازہری، مفتی اعظم کے فتاوی نویسی کے متعلق ارشادفرماتے ہیں:
”مفتی اعظم علم کے دریاۓ ذخار تھے ۔جزئیات حافظے سے بتادیتے تھے فتاوے قلم برداشتہ لکھ دیا کرتے تھے۔“ مولا نا مصطفی رضا خاں قادری اپنی بہت سی علمی وعملی خوبیوں میں امتیازی مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی پوری زندگی ایک تحریک آفریں زندگی تھی۔ آپ ہر جگہ متحرک نظر آتے تھے ۔ ملت اسلامیہ کو جب بھی اپنی بقا اور تحفظ کی ضرورت درپیش ہوئی آپ اس کے تدارک کی ہرممکن سعی کرتے نظر آۓ ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم رقم طراز ہیں :
”۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کر عبادت وریاضت سے لے کر میدان کے ہنگاموں تک انہوں ( مولا نا مصطفی رضاخاں ) نے جو نمایاں خدمت انجام دیں ہیں ۔ رہتی دنیا تک ان خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ملک وملت سے متعلق ایسے ایسے مسائل پیش آۓ جسے سوچنے کے بعد آج بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ مگر جس جرأت اور مجاہدانہ عزیمت کے ساتھ مفتی اعظم نے اس کا مقابلہ کیا وہ تاریخ ہند کے اوراق پر زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس درویشانہ زندگی بسر کرنے والے شخص کا اس طرح میدان میں آ کر اسلام دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور پھر اعلائے کلمہ حق کر کے فتح و کامرانی سے ہمکنار ہونا بقول شیخ سعدی اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا
”ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نه بخشد خدائے بخشندہ“
مولا نا مصطفی رضا خاں نے اہل سنت و جماعت کے نظریات کی خوب خوب نشر و اشاعت کی اور اس کے لیے متعد تحریکات کا مقابلہ کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس سلسلے کی چند تحریکات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
1911 ء میں امام احمد رضا بریلوی نے ”انصار الاسلام“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد حمایت خلافت و حفاظت سلطنت اسلامی تھی ۔ مظلومین تُرک کی اعانت کے لیے عملا اقدام کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ جماعت انصارالاسلام کے ناظم اعلی مولانا حسنین رضا ( برادرعم زادمولانا احمد رضا بریلوی ) تھے ۔ عالم شباب میں مولانا مصطفی رضا خاں اس کے خاص رکن تھے۔ 1920 ء میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ کا قیام عمل میں آیا ۔ فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقادی پیدا کرنے میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ نے مثالی اور موثر کام کیا ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں اس کے رکن رکین تھے ۔ اس جماعت کے ساتھ منسلک رہ کر مولانا نے اشاعت وتبلیغ اسلام اور تحریک آزادی کے سلسلےمیں اہم کردار ادا کیا۔ چناچہ 1343ھ/1924ٕٕ ٕ میں شردھانند کے فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا اور تبلیغی مشن میں مصروف رہے
اور مولا نا مصطفی رضا خاں نے فتنہ ارتداد کے دور میں پانچ لاکھ ہندٶں کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا۔
1919 ء میں تحریک خلافت اور 1920 ء میں تحریک ترک موالات کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے تحفظ کی خاطر مولانا مصطفی رضا خاں اپنے والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی اور دوسرے ہمنوا علما کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ 1935 ء میں سکھوں نے انگریز حکام کی پشت پناہی میں لاہور کی مسجد شہید گنج کومسمار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ جگہ اور عمارت گورو دوارہ ہے ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں نے اس ضمن میں ایک اہم فتوی دیا اور آپ نے دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ اس تحریک میں حصہ لے کر مسلمانوں پر فرض ہے کہ مسجد کو سکھوں سے آزاد کرائیں ۔اس فتوی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور انہوں نے دوبارہ اپنی اصل جگہ پر مسجد کی تعمیر کی ۔ 1938 ء میں آپ نے اشتراکیت کے فتنے کے خلاف موثر آواز بلند کی۔
1925ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کی داغ بیل پڑی۔مولا نا مصطفی رضا خاں اس کانفرنس کے مرکزی سر پرست تھے ۔ آپ کی سربراہی اور رہنمائی میں آل انڈیا سنی کانفرنس نے برصغیر کی سیاست میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا۔آل انڈیاستی کانفرنس کا ایک اہم اجلاس 1946 ء میں بنارس میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پانچ سومشائخ عظام ، سات ہزار علماء اور لاکھوں سے زائد عوام اہل سنت شریک ہوۓ ۔ یہ اجلاس قیام پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ نے اس اجلاس میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
1960 ء میں حکومت ہند نے ایک وقف ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے تدارک کے لیے 1961 ء میں دہلی میں آل انڈیاسنی اوقاف کانفرنس کا انعقاد مولانا مصطفی رضا خاں نے کیا ۔ اور حکومت پر ایسا دباؤ بنایا کہ بالآخر حکومت یہ بل واپس لینے پر مجبور ہوگئی ۔ اس طرح مذہبی ادارے اپنا اسلامی شخص بر قرار رکھ سکے۔
1920ء میں امام احمد رضا محدث بریلوی نے ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کی بنیاد ڈالی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحر یک بھی حوادث روز گار کا شکارہ ہوتی گئی۔ 1963ء میں جبل پور میں ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کا مرکزی انتخاب عمل میں آیا ۔ اس طرح مولا نا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں جماعت رضاۓ مصطفی نے مسلمانان ہند کی مذہبی قومی اور اسلامی ضرورت کو پورا کر دیا۔
1963ء میں کان پور میں مولانا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانفرنس کا انعقادعمل میں آیا ۔ اس اجلاس میں تقریبا 4/لاکھ افراد نے شرکت کی اور یہ اعلان کیا گیا کہ آل انڈیاسنی جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی معتمد اور نمائندہ جماعت ہے ۔اور پر زور الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانان ہند کی دینی، تعلیمی، اقتصادی ، لسانی اور اوقاف کے تحفظ کی خاطر حکومت کوئی اقدام جلد از جلد اٹھاۓ۔
1977 ء میں ملک میں ایمرجینسی نافذ تھی اس دوران مسلمانان ہند کے لیے ایک بھیانک طوفان کا دور تھا ۔ حکومت کے حامی مفتیان نے نسبندی کے جواز کا حکم نافذ کر دیا ۔ ایسے پر آشوب ماحول میں مولا نامصطفی رضاخاں اپنے علمی وروحانی وقار سے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کھڑے ہوۓ ۔آپ نے بے با کی اور حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نسبندی کے عدم جواز کا حکم دیا۔ اس طرح مولا نامصطفی رضا خاں کی پوری زندگی ایک تحریک آمیز زندگی تھی ۔ آپ نے قدم قدم پر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی فرماتے ہوۓ اسلام کے پر چم کو بلند رکھا۔(علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں۔}
jamilasif265@gmail.com
6306397662
Leave a Reply