بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:
“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “
بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:
“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”
مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔
بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)
دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)
معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔
میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :
“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”
میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:
مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے
نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے ۔
تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔
نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔
تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو
اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔
تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔
تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔
تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔
تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔
مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم
لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔
ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :
محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:
صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل
امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ
تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔
پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔
حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔
Leave a Reply