1۔ جس طرح گھروں میں مہمانوں کی آمد سے قبل صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک جو اللہ تعالی کا خاص الخاص مہمان مہینہ ہے، اس کی آمد سے پہلے اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا کرلیں ۔دوسرے مسلمانوں کی کدورت، بغض، کینہ اور حسد سے اپنے دل کو صاف کرلیں۔اللہ تعالی سے عفو وبخشش حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے قصور معاف کر دیں ،ان کی خطاؤں کو بخش دیں ۔اپنے دل کو اجلا، صاف ستھرا کرلیں ،تاکہ اس میں رمضان کا نور داخل ہو سکے۔ 2۔رمضان المبارک کی چیک لسٹ بنالیں ۔روزانہ کی بنیادوں پر اس کو چیک کرتے رہیں، کہ آج نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی ،؟تلاوت قرآن کا مقررہ ہدف پورا کیا،؟درود پاک مقرر کردہ پڑھا ؟اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کیا۔؟ مسنون دعائیں مانگیں؟ اپنی زبان نظر اور دیگر اعضاء کی حفاظت کی؟ وغیرہ وغیرہ۔اپنی شخصیت کا ناقدانہ جائزہ لینے سے آپ کے اعمال اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوگا۔3۔ رمضان المبارک کی ہر گھڑی ہر ساعت ہی رحمت برکت سے مالا مال ہے مگر دو اوقات کی خصوصی طور پر حفاظت کریں۔ سحری اور افطاری ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات ہوتے ہیں ۔رحمتوں کی برکھا مسلسل برس رہی ہوتی ہے ،ان اوقات کو ٹی وی یا موبائل فون کی سکرینوں کے سامنے ضائع نہ کریں۔بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت ڈیوائسز اور موبائل فون پر بابرکت اور مقدس گھڑیاں ضائع کر دیتی ہیں ۔ان اوقات میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں مناجات، دعائیں مانگ کر دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کریں ۔درود شریف کی کثرت کریں۔استغفار ،تسبحیات زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔4. بوقت سحر و افطار آسمانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے وقت افطار مزدور کو اجرت ملنے کا وقت ہوتا ہے دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیوں کو ہم کھانے پینے میں گزار دیتے ہیں، نہ دعاؤں کا ہوش نہ اللہ سے مانگنے کی طلب سارا سال کھاتے پیتے رہتے ہیں کوشش کریں جی بھر کے دعائیں مانگیں۔گھروں میں خواتین اسلام بھی اس وقت صفائی ستھرائی،برتنوں کی دھلائی کو مؤخر کر کے دعاؤں اور مناجات میں مصروف ہو جائیں ۔یہ بابرکت اوقات گزار کر بعد میں اپنے امور خانہ داری سرانجام دے لیں۔5. اپنی دعاؤں کی لسٹ بنا لیں . اپنے لیے اپنے والدین کے لیے ،بیوی بچوں کے لئے، دوست احباب عزیر و اقارب دنیا اور آخرت کے لئے جی بھر کے دعائیں مانگیں آپ کو جو ضرورت تمنا اور حاجت ہے اپنے رب سے کیا شرم؟ جو جو مسئلہ ہے جی بھر کے مانگیں اللہ کی بارگاہ میں آنسو بہائیں ،اپنے مالک و مولیٰ سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت اور بڑے سے بڑا سوال کریں ۔کوئی شے نا ممکن ھے تو ھمارے لحاظ سے ہے اللہ تعالی کے لیے کوئی شے ناممکن نہیں۔اور نہ ہی معاذ اللہ اس پر کوئی اور خدا مسلط ہے جو اس کو دینے سے روک دے گا ۔اللہ تبارک و تعالی ایسا کریم ہے، جس سے نہ مانگو تو ناراض ہو جاتا ہے۔6۔مسلمانوں کے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے کھابے اور چٹ پٹی، مرغن غذاؤں کا مہینہ بنا کے رکھتی ہے ۔روزہ رکھتے ہیں تو فورا افطاری کو یاد کرکے اس کے کھانے ،لذیذ ڈشوں کی دھن ذہن پر سوار ہوتی ہے، اور افطاری کے بعد سحری کا پروگرام ذہن میں سمایا ہوتا ہے ،کوشش کریں کہ رمضان المبارک میں سادہ غذا کھائیں۔تاکہ نفس کی کی امارگی کا زور ٹوٹے ۔ کھانے کا معیار اور مقدار کم کریں۔ ۔اپنی عبادت کا معیار اور اس کی مقدار کو بڑھائیں ۔7. صوفیہ صافیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بندہ زیادہ نفل اور دیگر اورادووظائف نہیں پڑھ سکتا ،تو اس کو چاہیے کہ رمضان المبارک میں زیادہ صدقہ و خیرات کرے ۔اپنے آپ کو مشقت اور جبر میں ڈال کر اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرے۔ زیادہ سخاوت کرنے کی کوشش کرے اس سے اس کی روح کو تزکیہ و طہارت کی وہ منازل نصیب ہوں گی جو بڑی بڑی عبادات کا ثمر ہوتی ہیں ۔ 8. جس طرح کمرے کا اے سی چلا ہوا ہو، ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک اسی وقت محسوس ہوتی ہے ،جب تمام کھڑکیاں ،دروازے بند ہو ں، اگر آپ روزے کی لذت اور عبادت کا سرور اپنی روح میں محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اپنی زبان ، نظر ، اور کانوں کی حفاظت کریں ۔سوشل میڈیا کو بالکل محدود یا استعمال ہی مت کریں۔غیر ضروری اور گناہ والے گروپوں سے ریموو ہو جائیں ۔ایسے پیج ان لائک کر دیں جس سے بندہ گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ غیر محرم عورتوں کو دیکھنا عبادت الٰہی کے چراغ کو بجھا دیتا ہے۔اپنے آپ کو جتنا پابند کریں گے انشاء اللہ تعالی عبادت کی اتنی ہی لذت اور برکت محسوس کریں گے۔9. ہمارے گھروں میں ایک بہت برا روا ج ہے کہ ،مہمان کے جانے کے بعد اس کی غیبت اور بدخوئی کرتے ہیں۔اس کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر تبصرے۔ ہم مہمان نوازی اور افطار پارٹی بھی کرتے ہیں، لیکن غیبت اور بدگوئی کر کے اپنی نیکی ضائع بھی کر دیتے ہیں ۔کوشش کریں کہ کسی مسلمان کی بھی غیبت نہ ہو اور بالخصوص مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ان پر تبصرہ نہ نہ کیا جائے اگر ان کا ذکر کرنا ہے تو ان کی خوبیاں بیان کی جائیں ،ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی جائے، شاید اللہ تبارک و تعالی میدان محشر میں ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دے۔9. سحری اور افطاری میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں ان کو مسنون دعائیں سکھائیں ،دعائیں مانگنا سکھائیں، نماز کیلئے مسجد میں لے جائیں ،کھانے کے دسترخوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں ،حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات قرآنی واقعات سنائیں ۔انشاء اللہ تعالی یہ عمل بڑا بابرکت ثابت ہوگا۔10۔مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے، تسبیحات پڑھنے اور قرآن کریم کے زیادہ سے زیادہ ختم پڑھنے میں مشغول ہوتی ہے۔قرآن کریم زیادہ پڑھیں لیکن حسن تلفظ، ترتیل اور تفکر و تدبر کی رعایت کے ساتھ ،نوافل اور ذکر و اذکار بھی دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ کریں۔اللہ تبارک و تعالی کو ہماری گنتی کی حاجت نہیں ۔اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں اخلاص و للہیت، نیت کی پاکیزگی اور ذوق شوق اور طلب حق دیکھی جاتی ہے۔11.قرآن پاک کو دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے ایک طریقہ بطور ذکر کے ۔جس میں قرآن کریم کو اللہ تعالی کا ذکر شمار کرتے ہوئے پڑھتے جائیں ۔اس تصور سے پڑھنا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو میرے آقا مصطفی کریم علیہ الصلاۃ و السلام کی زبان اقدس سے ادا ہوئے ہیں۔یہ تصور روح کو لطف دے گا ۔دوسرا طریقہ قرآن کریم کو غور و فکر اور تدبر سے پڑھنا یہ چیز بھی ایمان میں حلاوت و اضافے کا سبب بنتی ہے۔کوشش کریں دونوں طریقوں سے تلاوت قرآن مجید ہو۔اگر جاب یا نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ زیادہ تلاوت ممکن نہیں تو کوشش کریں تلاوت قرآن مجید سن لیں اپنی نوکری جاب پر جاتے ہوئے ہینڈ فری لگا کر قرآن مجید کے ترجمے کو سنتے جائیں اور اس کی برکتوں سے اپنا دامن سمیٹتے جائیں۔12. برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک عجب روش ہے حج اور عمرہ پر جانے کا بڑا ذوق و شوق اور جوش و جذبہ ہوتا ہے بھرپور تیاری کرتے ہیں جب مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو ایک عمرہ کے بعد وہاں پر سیروتفریح اور کھانے کھابے ،یاروں دوستوں کے محافل شروع ہو جاتی ہیں سارا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یہی حال رمضان شریف کا ہوتا ہے لوگ شروع میں بڑی تیاری کرتے ہیں لیکن پہلے دو تین روزے کے رکھنے بعد سارا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے، اور سابقہ روٹین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ رمضان المبارک پاک عادات و کردار میں انقلابی تبدیلی لانے کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالی کرے کہ ہماری بد عادتیں، نیک خصلتوں میں تبدیل ہو جائیں، اور ہمیں رمضان المبارک کی حقیقی قدر اور برکت نصیب ہو جائے۔13. رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خصوصی انعام و اکرام اور جہنم سے ازادی کا عشرہ ہے یہ عشرہ بھی بازاروں کی شاپنگ کی نذر ہو جاتا ہے ۔کوشش فرمایا کریں کہ رمضان سے پہلے ہی شاپنگ کرلی جائے ،رمضان المبارک میں بازار کم سے کم جایا جائے تاکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹی جا سکیں ۔14۔رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کے پورے سال پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس کا رمضان نیکی ،تقو ی اور باطنی طہارت میں گزرتا ہے، اس کے سال کے باقی گیارہ ماہ بھی خیر اور نیکی کے کاموں میں گزرتے ہیں ۔اور جو بدنصیب اس ماہ مکرم کوگناہوں اور غفلت میں گزارتا ہے سال کے باقی ایام میں بھی عبادت الہی سے محروم رہتا ہے ۔15. غریب دکاندار سے مہنگا سودا خرید لینا،اپنے ماتحت ملازم کو اس کی تنخواہ ذیادہ دے دینا ۔سفید پوش مسلمان کو عید کے لئے جوتے کپڑے لینا ،کسی کا قرض ادا کر دینا کسی کی دلجوئی کر دینا بلاشبہ اعلی درجہ کا صدقہ ہے ۔اپنے ملازمین سے حسن سلوک کرنا اور ان کے کام میں تخفیف کر دینا۔مغفرت دلانے کے اسباب میں سے ہے۔اللہ تعالی ہم کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک مہمان نہیں مہمان ہم ہیں کیونکہ رمضان المبارک نے قیامت تک آتے رہنا ہے مگر ہم کو نہیں پتا کہ اگلے سال ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ بے شمار ایسے لوگ تھے جو پچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ تھے، اس سال ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لئے اس رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی انتہائی حد تک کوشش کریں ۔ اللہ تبارک وتعالی ان باتوں پر مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ ایک حقیر سی کوشش کی گئی ہے رمضان المبارک کو مؤثر اور زیادہ نفع بخش بنانے کی ۔اللہ تعالی میری اس تحریر کو میری آخرت کی نجات کا سبب بنائے ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات۔02-04-2022۔ہفتہ 00923444650892واٹس اپ نمبر
Leave a Reply